انتظار حسین کے سوانحی حالات
موضوعات کی فہرست
انتظار حسین کی پیدائش
اکثر مشہور و معروف شخصیات کی تاریخ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ مسئلہ ادیبوں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سفرِِزندگی کی حقیقت بھی ہے کہ دنیا سے جانے والے کو اپنے انتقال کی تاریخ معلوم نہیں ہوتی لیکن یہ تاریخ دنیا والوں کو اچھی طرح یاد رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ وفات میں کم ہی اختلاف پایا جاتا ہے جب کہ تاریخ پیدائش اکثر ادیبوں کے مشکوک رہتی ہے۔ اس طرح اکثر یہ صورت حال پیش آتی ہے کہ مصنف یا ادیب کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے کئی اقوال مشہور ہوجاتے ہیں۔ بعد میں اس مسلےکو حل کرنے کے لیے دو صورتوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱: یا تو اُسی تاریخ کو مستند مانا جاتا ہے جس کے حق میں مصنف خود ہو۔
۲:یا پھر سرکاری دستاویزات پر درج تاریخ کو مستند ٹھہرایا جاتا ہے۔
یہ مسئلہ انتظار حسین کی تاریخ پیدائش میں بھی ہے نہ صرف انتظار حسین کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے بل کہ سال پیدائش میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد اعظم اس حوالے سے لکھتے ہیں:
” انتظار حسین کے پاسپورٹ پر ۳۱ دسمبر ۱۹۲۵ کی تاریخ درج ہے۔ “(۱)
” وکی پیڈیا کے مطابق انتظار حسین کی تاریخ پیدائش ۲۱ دسمبر ۱۹۲۵ء ہے۔ ”(۲)
” ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے مطابق انتظار حسین کی پیدائش ۱۲ دسمبر ۱۹۲۲ ہے۔ جو مرزا صاحب کی کتاب” اردو افسانے کی روایت ۱۹۹۰ سے "۱۹۰۳ میں درج ہے۔ “(۳)
” ڈاکٹر ابرار نے انتظار حسین کی تاریخ پیدائش کو ۱۹۲۰ لکھا ہے۔ “(۴)
یوں انتظار حسین کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے تین اقوال ہیں۔
اگر پہلی صورت پر غور کیا جائے تو انتطار حسین نے اپنی تاریخ پیدائش کے حوالے سے واضح طور پر کچھ نہیں بتایا مثلاً :
” جستجو کیا ہے؟” انتظار حسین کی خودنوشت سوانح حیات ہے اس میں ان کی زندگی کے اکثر حالات درج ہیں لیکن اس میں انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش کا ذکر نہیں کیا۔
اس کے علاوہ ان کی کتاب” چراغوں کا دھواں (یادوں کے پچاس برس)” میں ان کی زندگی کے بہت سے احوال ملتے ہیں۔ یہاں بھی انھوں نے اپنی تاریخ پیدائش کت حوالے سے کوئی بحث نہیں کی۔
انتظار حسین کا ایک مختصر مضمون جو انھوں نے "میری کہانی” کے عنوان سے لکھا ہےان کی زندگی کے واقعات پر مشتمل ہے لیکن اس میں بھی انھوں نےاپنی تاریخ پیدائش کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔
یہی صورتحال ” جس محلے میں تھا ہمارا گھر” کا بھی ہےیہ مضموان ” جستجو کیا ہے؟”میں شامل ہے اس میں انھوں نے اپنے بچپن کی بہت سے یادوں کو جمع کیا ہے البتہ پیدائش کا ذکر اس میں بھی نہیں ملتا ہے۔
اس لیے ہمیں دوسری صورت یعنی سرکاری دستاویزات پر اکتفا کرنا ہوگا۔ انتظار حسین کی پیدائش ۲۱ دسمبر ۱۹۲۵ کو علی گڑھ کے ضلع بلند شہر بمقام ڈبھائی ہوئی یہ تاریخ ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر درج ہے اور اس لیے بیشتر مقامات پر یہی تاریخ مذکور ہے۔ "ڈبھائی "متحدہ ہندوستان میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ جو موجودہ انڈیا میں آج بھی اسی نام سے موجود ہے ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق وہاں کی کل آبادی ۳۹۰۰۰ تھی۔
ڈبھا ئی جواس وقت ایک بستی تھی اب تحصیل بن گیا ہے اس کے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر گنگا بہتی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ڈبھائی میں سُنی مسلمان، شیعہ مسلمان اور ہندو تینوں آباد تھے اور بھائی چارے سے رہتے تھے۔ اس کا ذکر انتظار حسین کی آپ بیتی” جستجو کیا ہے؟” میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ ڈبھائی کے حوالے سے انتظار حسین کچھ یو رقم طرازہیں:
” ہمارا گھر بھی خوب تھا لیکن دائیں بائیں آگے پیچھے سب گھر ہندووں کے تھے۔ اصل میں یہ اس محلہ کے بالکل آخر میں تھا جو شیخان محلہ کہلاتا تھا۔ آگے بازار شروع ہوجاتا تھا اور ساتھ میں ہندووں کے گھر۔ تو اس گھر کا آب ہوا اسلامی تھی مگر ارد گرد کی فضا ہندوانی تھی۔ کیا خوب گھر تھا۔ چار قدم آگے چلو تو مندر کھڑا نظر آتا ہے۔
چھ قدم پیچھے جاو تو اپنی مسجد میں پہنچ جاتے تھےتو میں مندر اور مسجد کے بیج اپنی چھت پر اس آزادی سے کٹی ہوئی پتنگوں کے پیچھے دوڑتا تھا کہ برابر میں پھیلی ہندو چھتوں کو بھی اپنی ہی چھت میں شمار کر لیتا تھا۔ ۔ ۔ گھر کے اس محل وقوع سے ایک فائدہ مجھے یہ پہنچا کی ہولی اور دیوالی کے تہوار اپنے تہوار لگتے تھے۔ “(۵)
ڈبھائی میں اپنی پیدائش اور بچپن کے حوالے سے انتظار حسین مزیدلکھتے ہیں:
” یہ تھا ہمارے گھر کا کمال۔ بایر نکلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ صدر دروازہ سڑک پہ کھلتا تھا۔ دائیں بائیں پتھر کی بنی دو چوکیاں۔ کبھی دہلیز میں کھڑے ہو کر کبھی چوکی پر بیٹھ کر میں نے کتنے تماشے دیکھے۔ آخر یہ بازار کا نکڑتھا۔ ہر طرح کا تماشا ہوتا تھا۔ ہر رنگ کا بھڑ بھڑ کا۔ کبھی رام لیلا کے جلوس کا۔ کبھی کانگریس کے گلوس کا۔ کبھی ہولی کے ہولیاروں کا“۔ (۶)
ڈبھائی انتظار حسین کی جائے پیدائش تھی اور اس سے انتظار حسین کو نہایت انس و محبت تھی اس بستی میں ان کی پیدائش ہوئی اور پوری زندگی انتظار حسین اس کو بھول نہ سکے۔ وہ اپنی غیر افسانوی نثر میں اپنی بستی کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں ایک تو حب ا لوطنی فطری چیز ہے۔
انسان جس جگہ پر پیدا ہوتا ہے تو اس جگہ سے ایک قلبی انس بھی جنم لیتی ہے۔ دوسری طرف تقسیم ہند کے بعد انتظار حسین کو یہ بستی ہمیشہ کے لیے چھوڑنی پڑی اور نفسیاتی طور پر انسان جس چیز کو کھو تا ہے تو اس کے ذہن میں اس چیز کی قدر اور بڑھ جاتی ہے، اور انتظار حسین جیسے حساس انسان اور عظیم فنکار کو تو اپنی آدھی زندگی کی یادوں کو چھوڑنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ انتظار حسین ڈبھائی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ ایک جگہ اس محبت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:
” تو ہم رم جم بارش میں چل پڑے۔ کیسی دتستاویزی فلم ،کہاں کی ڈاکومنٹری۔ میں تو اپنی بستی کے درشن کے شوق میں بوندوں میں بھیگتا دوڑا چلا جا رہا ہوں۔ “(۷)
انتظار حسین کے خاندانی پس منظر اور رشتہ دار
انتظار حسین ،ان کے خاندان اور حالات زندگی کے متعلق ان کی آپ بیتی” جستجو کیا ہے؟ "ایک اہم ،معتبر اور تفصیلی دستاویز ہے لیکن اپنی اس تصنیف میں انھوں نے اپنے خاندان کی تفصیلات زیادہ وضاحت کے ساتھ درج نہیں کی اور وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اس آپ بیتی میں حقائق پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فکری پہلوؤں کو بھی پیش کرتے ہیں۔
یہ کتاب ضخیم بھی نہیں اس لیے اس میں فکری و نظری باتوں کی وجہ سے حقائق کا تناسب کم ہو گیا ہے، اور ایک بات یہ بھی ہے کہ انتظار حسین کے احوال گھر والوں کے معاملات اور خاندانی پس منظر پر لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی حلاں کہ انتظار حسین اپنی افسانوی نثر کے حوالے سے جتنے مشہور و معروف ہیں۔ ان کی شہرت کا یہ تقاضا تھا کہ ان کی حیات پر توجہ دی جائے۔
بستی ناول پر انھیں مین بکر انٹرنیشنل پرائز سے نوازا گیا۔ ان کے خاندانی پس منظر اور حالات زندگی پر زیادہ توجہ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود انتظار حسین ذاتی باتوں سے کتراتےہیں۔ آ پ بیتی کا اصل مقصد اپنی حیات کے بارے میں حقائق سامنے لانے ہوتے ہیں۔ انتظار حسین کی منفرد طبیعت اور قلم کاری نے یہاں بھی حقائق کے بجائے فکری پلڑا بھاری کر دیا ہے۔ جس کے تحت حقائق کا تناسب کم ہوگیا ہے اپنی اس آپ بیتی میں انھوں نے اپنے ذاتی حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی بلاواسطہ طریقے سے کسی دوسری چیز کے پس منظر کے طور پر لکھے ہیں۔
انتظار حسین کی اپنی کتابوں کے علاو ہ ان پر شائع ہونے والی کتابوں اور دوستوں کے اقوال کی چھان بین سے جو کچھ ہمارے ہاتھ آتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے والد کا نام” منظر علی "تھا۔ جو ایک مذہبی آدمی تھے۔ انتظار حسین کے دادا "امجد علی ” تھے۔ ان کے والدہ کا نام "صغریٰ بیگم” تھا۔ ناناکانام "وصیت علی” تھا۔ اور نانا کی ایک بہن جو ان کو قصے سناتی تھی ، انتظار حسین نے اپنی آپ بیتی میں ” ایاّاماں "کے نام سے یاد کیاہیں۔
انتظار حسین کا خاندان بہت بڑا نہیں تھا ان کے پیدائش چار بیٹیوں کے بعد ہوئی اور والدین بیٹے کا انتظار کر رہے تھے اس لیے ان کا نام” انتظار” رکھا گیا اس حوالے سے انتظار حسین لکھتے ہیں:
’’ خاندان کی شجرہ نسب کی تکمیل کے سلسلے میں انھیں میرے مرحوم والد منظر علی کے خاندان کی تفصیلات مطلوب ہیں۔ میں نے بتایا کہ پانچ بہن اور ایک بھائی۔ یہ خاندان ہے۔ چار بہنیں مجھ سے بڑی تھیں۔ جو اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اور ایک بہن مجھ سے چھوٹی ہے اور وہ ابھی تک بقید حیات ہے۔ “(۸)
ان کے دادا ان کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ ان کے دادا کے دو بھائی تھے۔ صادق علی اور دلشاد علی دونوں کافی اثر رسوخ رکھتے تھے۔ یاد رہے کہ انتظار حسین کی ننیال اور دادیال کی طرف سے رشتہ دار دونوں بہت قریب تھے تعلقات کے اعتبار سے بھی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی۔
دونوں معاشی طور پر خودمختار تھے اور انتظار حسین کا پورا خاندان ابتدا میں ان کے نانا وصیت علی کے مکان میں رہتا تھا اس حوالے سے انتظار حسین لکھتے ہیں:
”اصل ہمارے نانا نے کسی بھلے وقت میں یہ مکان بنوایا تھا۔ ان کےبعدان کے اولاد کو یہی اس گھر میں شاد آباد ہونا تھا۔ اولاد کونسی لمبی چوڑی تھی ایک بیٹا یعنی ہمارا ماموں زمرد حسین ایک خالہ ایک ہماری والدہ۔ ۔ “(۹)
ان کے والد کا انتقال پاکستان ہجرت کے بعد ہوا۔ جس طرح پہلے بتایا گیا ہے کہ انتظار حسین اپنی پانچ بہنوں کے ایک بھائی تھے۔ وہ باپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔
بڑی بہن کا نام—حسین فاطمہ۔
دوسری کا نام—سیدہ فاطمہ
تیسری کا نام —زہرا۔
چوتھی بہن کا نام—کنیز فاطمہ تھا۔
اور چھوٹی بہن کا نام —سائرہ خاتون تھا۔
انتظار حسین کی بیوی عالیہ کی وفات ان کی موت سے کچھ عرصہ پہلی ہوئی۔ انتظار حسین کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے ملازم "ہارون "آخری سانس تک ان کی خدمت کرتے رہے۔
انتظار حسین کی تعلیم
انتظار حسین کے گھر کاماحول مذہبی تھا اور والد عملی طور پر مذہبی کاموں میں سرگرم تھے۔ وہ عصری تعلیم سے بیزار تھے اور انتظار حسین کو مولوی بنانا چاہتے تھے۔ اپنے والد کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں:
”میرے والد اپنے اسلامی مطالعہ کے زور پر مولویوں سے بڑھ کر مولوی تو بند ہی چکے تھے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ کسی بھلے وقت میں وہ شیعہ کانفرنس کی شروع کی ہوئی ایک تحریک میں بھی سرگرم رہے تھے۔ “(۱۰)
انتظار حسین آگے لکھتے ہیں:
” وہی سے وہ شاید یہ جذبہ ساتھ لے کر آئے تھے کہ اپنے فرزند کو ابتدائی عربی پڑھا سکھا کر مدرسہ الواعظمین میں داخل کرایا جائے کہ وہ وہاں سے عالم فاضل بن کر نکلے اور مجتہد بن جائے۔ “(۱۱)
یہی وجہ ہے کہ انتظار حسین کو ابتدا میں کسی سکول میں داخل نہیں کیا گیا۔ تاہم تعلیم کا سلسلہ گھر پر عربی سے شروع ہوا مگر ان کی دلچسپی مولوی بننے میں نہیں تھی۔ اس لیے گھر پر موجود اردو کتابوں کا پڑھنا انھوں نے شروع کیا۔ جو اکثر ان کی ماموں زاد بہن جو ان کے گھر رہتی تھی جس کو انتظار حسین نے اپنی آپ بیتی میں "چھوٹی بی بی ایاّ” کے نام سے یاد کیا ہے۔
اس کے لیے آتی تھیں۔ کچھ سال بعد گھر میں لوگوں نے کہا کہ بچے کو سکول میں داخل کرا دو لیکن ان کے والد نے اس سے انکار کر دیا البتہ گھر والوں کی بات کا یہ اثر ہوا کہ گھر پر انگریزی پڑھانی شروع کر دی۔ آخر کار ان کی بڑی بہن حسنین فاطمہ نے انتظار حسین کو سکول بھیجنے کی ٹھان لی اور گھر میں اعلان کیا کہ: ’’گھر میں ایک مولی بہت ہے۔ ہمیں دوسرے مولوی کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ (۱۲)
والد صاحب بھی ان کو عزیز سمجھتے تھے۔ اس لیےبات سن لی اور انتظار حسین کو کمرشل اینڈ انڈسٹ ریل ہائی سکول میں آٹھویں کلاس میں داخل کرایا گیا۔ اسکول میں انتظار حسین ایک لائق طالب علم تھے۔ بہت جلد وہ دوستوں اور اساتذہ سے مانوس ہوگئے۔
اپنے اسکول کا ذکر کرتے ہوئے انتظار حسین اپنے اردو کے استاد کا ذکر اکثر کرتے تھے۔ انتظار حسین سکول میں ایک لائق شاگرد تھے۔ انتظار حسین کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اردو کے استاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”بہت سیدھے سچے آدمی تھے۔ مگر شاید انھیں اپنے اردو پر زیادہ اعتبار نہیں تھا۔ کلاس میں وہ اس باب میں ہر پھر کر مجھ ہی پر اعتبار کرتے تھے۔ کم ازکم مرثیے کے سلسلہ میں تو میں نے ہی انھیں بہت سی تلمیحات سمجھائی "(۱۳)
اس اسکول میں انھوں نے تین سال گزارے۔ اورفرسٹ ڈویژن سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۴۲ء میں آرٹس کے ساتھ انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے بی۔ اے کے لیے ہاپوڑ سے نکل کر میرٹھ کالج میں داخلہ لیا۔ ۱۹۴۴ءمیں انھوں نے بی۔ اے مکمل کیا۔ ۱۹۴۶ء میں ایم۔ اے (اردو) میرٹھ کالج سے کیا۔
ہجرت:
۱۴ اگست ۱۹۴۷ءکو جب تقسیم ہند کا اعلان ہوا۔ تو کچھ لوگوں نے خود کو ہندوستان میں غیر محفوظ سمجھ کر ہجرت کر لی۔ بعض لوگوں نے پاکستان کو اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کا گہوارہ سمجھ کر ہجرت کی تو بعض لوگوں نے ملازمت اور سیاست کی وجہ سے ہجرت کی۔
انتظار حسین کے حوالے سے قوی طور پر یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ملازمت کی غرض سے ہجرت کی تھی۔ کیوں کہ عسکری صاحب جو انتظار حسین کےقریبی دوست تھےاور تقسیم سے پہلے وہ باقاعدہ طور پر اخباروں اور رسالوں میں لکھا کرتے تھے ،انتظار حسین بھی ان کے ساتھ” الامین "رسالے میں لکھتے تھے۔ تقسیم ہند کے دوران دونوں نے ملازمت سے ہاتھ دھو لیا۔
عسکری صاحب جس پبلشر کے ساتھ کام کررہا تھا وہ لاہور آگئے۔ عسکری صاحب نے ہجرت کر کے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔ بعد میں انھوں نے اپنے گھر والوں کے لیے ایک خط بھیجا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ میں یہاں رہوں گا تم لوگ بھی آ جاؤ اور مزید یہ پیغام بھی دیا کہ انتظار حسین سے کہو کہ تمہارے ساتھ وہ بھی آجائے۔ اس ضمن میں انتظار لکھتے ہیں:
”ادھر پاکستان جانے کا سان نہ گمان مگر اصغر صاحب کا پیغام۔ جیسے کسی نے خاموش حوض میں اینٹ پھینک دی “۔ (۱۴)
انتظار حسین ایک بکس کے ساتھ خاندان والوں سے تنہا پاکستان آئے اور پاکستان پہنچتے ہی انھیں”امروز” میں ملازمت ملی اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں :
”فکر روزگار نے بھی مطلق نہیں ستا یا۔ یہ فکر میری ہونی چاہیے تھی مگر اس کو عسکری صاحب نے یہ اپنے سر لی تھی۔ انھوں نے میرے وہاں پہنچنے سے پہلے آفتاب صاحب کو نوٹس دے دیا تھا کہ انتظار کے روزگار کا بندوبست کرنا ہے“۔ (۱۵)
۱۷ اگست ۱۹۴۷ وہ پہلا دن تھا،جس دن انتظار حسین پاکستان آئے۔ انھوں نے خوا کسی بھی غرض سے ہجرت کی ہولیکن یہ واقعہ ان کے تخلیقی سفر کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ اس لیے ایک دو کے علاوہ تمام تخلیقات انھوں نے ہجرت کے بعد تخلیق کی ہیں۔ ہجرت کےحوالے سے آصف فرخی کچھ یوں لکھتے ہیں:
” انتظار حسین کی سوانح اور ادبی زندگی میں ایک اہم مرحلہ پاکستان کی نو آزاد مملکت میں ان کی ہجرت ہے۔ میرٹھ سے لاہور آنے کے لیے پوری محرک محمد حسن عسکری ثابت ہوئے۔ جنھوں نے لاہور آکر کر ریڈ یو پاکستان کے اعلانات کے ذریعے پیغام بھیجا اور یہاں آنے کی دعوت دی۔
اس مشورہ کو قبول کرکے انتظار حسین ایک نئے وطن کی طرف روانہ ہوگے۔ یہ عمل چاہے کتنا اضطراری رہا ہو اس کے نتائج دوررس نکلے اور انھوں نے انتظار حسین کے آئندہ کام کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا”(۱۶)
شادی :
انتظار حسین کی شادی لاہور میں عالیہ بیگم سے ۱۹۹۶ء میں ہوئی۔ عالیہ بیگم کا تعلق بنارس کے خاندان سے تھا جس کا سلسلہ نسب اودھ کے نوابین سے ملتا ہے۔ ان کی اولاد نہیں تھی۔ عالیہ بیگم گھریلو عورت تھی۔ وہ ۲۰۰۵ء میں انتقال کر گئیں اور ان کی تجہیز و تکفین لاہور میں ہوئی۔
ملازمت :
انتظار حسین زیادہ عرصہ اخبارات اور رسالوں سے رہے۔ میرٹھ میں انھوں نے ملازمت کا آغاز راشنگ کے محکمے سے کیا جو تقسیم ہند کے دوران قائم ہوچکا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے” الامین "رسالے میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے ملازمت کے لیے پہلا انٹرویو فیض احمد فیؔض کودیا جو امروز کے چیف ایڈیٹر تھےلیکن اس میں انھیں ملازمت نہ ملی۔
ہجرت کے بعد انھوں نے پہلی ملازمت ہفت روزہ اخبار” نظام ” میں بحیثیت مدیر کی۔ اس کے بعد وہ ماہنامہ”خیال ” میں بطور ایڈیٹر رہے۔ روزنامہ "آفاق” روزنامہ” مشرق” میں بھی انھوں نے وقت گزارا۔ ۱۹۵۳ میں انھوں نے رسالہ "خیال” نکالا۔ اردو کے علاوہ انگریزی اخبارات میں بھی کثرت سے لکھا جس میں ایکسپرس اور ڈان وغیرہ شامل ہیں۔
انتظار حسین کا تخلیقی سفر
انتظار حسین شاعر بننا چاہتے تھے۔ وہ علامہ اقبال سے کافی متاثر تھے۔ ابتدا میں انھوں نے چند نظمیں بھی لکھیں۔ حالاں کہ ان کی شاعری کے نمونے محفوظ نہ رہ سکے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے اس ابتدائی شاعری کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ:”شاعری شاید ہمارے مسلمانوں کی گھٹی میں پڑی ہے۔ “(۱۷)
انتظار حسین شاعری میں کامیاب نہ ہوئے۔ انتظار حسین کی خواہش ایک نقاد بننے کی بھی تھی۔ جس کا اندازہ ان کی اس عبارت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے ایک افسانوی مجموعہ "چاند کے تار "پڑھنے کے بعد اپنے تاثرات کے اظہار میں لکھی ہے:
”میں تنقید لکھنے کے لیے ویسی ہی پر تول رہا تھا سوچا کہ اسی کتاب سے بسم اللہ کی جائے اور مضمون فورا ًچپ گیا ممبئ کے ہفتہ وار پرچہ "نظام” میں“(۱۸)
یہ انتظار حسین کی پہلی ادبی تحریر تھی لیکن جب انھوں نے پہلا افسانہ لکھا تو خود کو افسانے میں بہتر پایا اور اپنے لیے اس میدان کا انتخاب کیا اس ضمن میں انتظار حسین خود لکھتے ہیں:
” اردگرد یہ فضا دیکھ کر میں نے ایک روز قلم سنبھالا اور لکھنے بیٹھ گیا۔ جب لکھ چکا تو میں نے روک روک کر اپنی تحریر کو پڑھا۔ ارے یہ تو میں نے افسانہ لکھا ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں ادب میں کہا کہ منہ مار رہا ہوں۔ میں اگر کچھ لکھ سکتا ہوں تو وہ افسانہ ہے۔ “(۱۹)
زیادہ تر ناقدین "قیوما کی دکان” کو ان کا پہلا افسانہ مانتے ہیں۔ جو ۱۹۴۸ میں منظر عام پر آیا اور ادب لطیف لاہور کے دستمبر ۱۹۴۸ء کے شمارے میں شامل ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے بہت سارے افسانے،ناول ،آپ بیتیاں، کالم اور تنقید کی کتابیں لکھیں۔
افسانوی نثر کے حوالے سے ان کی تخلیقات میں پانچ ناول اور افسانوں کے نومجموعوں کے ساتھ چند ڈرامے وغیرہ شامل ہیں۔ اور یوں ایک شاعر اور نقاد بننے والے مصنف نےفکشن کی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا۔
انتظار حسین کے ادبی خدمات :
۱۔ انتظار حسین کے افسانوی مجموعے:
۱۔ گلی کوچے،شاہین پبلیشر، لاہور۱۹۵۲ء
(۱۱ ۱فسانے:قیوما کی دکان،خریدو حلوہ بیسن کا،چوک،فجا کی آپ بیتی،اجودھیا،رہ گیا شوق منزل مقصود،عقیلا خالہ،پھر آئے گی،روپ نگر کی سواریاں،ایک بن لکھی رزمیہ،اُستاد)
۲۔ کنکری،مکتبہ جدید ،لاہور۱۹۵۳ء
(۱۴ افسانے:مجمع،اصلاح،محل والے،آگے درد ہے،آخری موم بتی،دیوار،کیلا،ساتواں در،پٹ بیچنا،پسماندگان،ٹھنڈی آگ،جنگل،بابا،کنکری)
۳۔ آخری آدمی، کتابیات،لاہور۱۹۶۷ء
(۱۱ افسانے:آخری آدمی،زرد کُتا،پرچھائیاں، ہڈیوں کا ڈھانچہ، ہمسفر، کایاکلپ، ٹانگیں، سیکنڈراونڈ، سوئیاں، شہادت، سوت کے تار)
۴:۔ کچھوے،مطبوعات لاہور(پاکستان)۱۹۷۱ ء
(۱۷ افسانے:قدامت پسند لڑکی، بادل،۳۱ مارچ، فراموش، اسیر، ہندوستان، نیند، کچھوئے، پتے، واپس، رات، دیوار، خواب اور تقدیر ، شور،صبح کے خوش نصیب،بے سبب،کشتی)
۵۔ شہر افسوس،مکتبہ کارواں،لاہور۱۹۷۲ء
(۱۷ افسانے:وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے،وہ جو کھوئے گیے،کٹا ہوا ڈبہ،دہلیز،سیڑیاں،مردہ راکھ،مشکوک لوگ،شرم الحرم،کانا دجال،بگڑی نسل،دوسرا کنارہ،دوسرا راستہ،اپنی آگ کی طرف،لمبا قصّہ،وہ اور میں،آندھی گلی،شہر افسوس)
۶۔ خیمے سے دور،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۱۹۷۲ ء
(۱۷ افسانے:خیمےسےدور،سفرمنزل شب،حصر،نرناری،پوراگیان،دھوپ،برہ کی کہانی،اجنبی پرندے، برہمن بکرا، وقت، انتظار، پلیٹ فارم،چیلیں،پرانی کہانی،دسواں قدم،خالی گھر،خواب میں دھوپ)
۷:۔ خالی پنجرہ، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۱۹۹۳ ء
(۱۶ افسانے:پچھتاوا،نرالا جانور، خالی پنجرہ،اختر بھائی ، مشکند ، گونڈوں کا جنگل،بندر کہانی،بخت مارے،داغ اور درد، تزکرۃدستخیزہ بے جا المعروف بہ فسانہ فطرت، احسان منزل،مجیدا،بیریم کا بونیٹ،سمجھوتہ،آخری خندق،طوطا مینا کی کہانی)
۸۔ شہرزادکے نام، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۲۰۰۲ء
(۱۵ افسانے:مورنامہ، شہراد کی موت ،ریزروسیٹ، وارد ہونا شہزادہ تورج کا شہر کاغذ آباد میں اور عاشق ہونا ملکہ قرطاس جادوگر پر، ہم نوالہ ،مانوس اجنبی ،اللہ میاں کی شہزادی ،حبالہ کا پوت، کلیلہ نے دمنہ سے کیا کہا؟، دمنہ کیوں ہنسا، کلیلہ کیوں رویا ،کلیلہ دمنہ، ہٹ لسٹ پر کلیلہ چپ ہوگیا ،چوہیانے کیا کھویا کیا پایا ؟ ،مہابن کے بندرو کا قصہ)
جنم کہانیاں(کلیات جلد اول)سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۱۹۸۷ء
قصہ کہانیاں(کلیات جلد دوم) سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۱۹۹۰ء
انتظار حسین کے ناول
۱۔ چاند گرہن، مکتبہ کارواں،لاہور(۱۹۵۳ء)
۲۔ دن اور داستان ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی(۱۹۵۹ء)
۳۔ بستی، ادارہ ادبیات، لاہور(۱۹۷۰ء)
۴: تذکرہ،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،نئی دہلی(۱۹۸۷ء)
۵: آگے سمندر ہےسنگ میل پبلی کیشنز،لاہور(۱۹۹۵ء)
۳: انتظار حسین کی آپ بیتیاں :
۱:چراغوں کا دھواں،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور (۱۹۹۹ء)
۲: جستجو کیاہے؟،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور (۲۰۱۱ء)
۳:دہلی تھا جس کا نام، (۱۹۱۹ء)
۴: انتظار حسین کی تنقید کتب :
۱:علامتوں کا زوال ۲:نظریے سے آگے
۵: انتظار حسین کے ڈرامے:
۱:خوابوں کے مسافر، اسٹیج ڈراما، شب خون الہ آباد میں شائع ہوا (۱۹۶۸ء)
۲:درد کی دوا کیا ہے؟
۳: نفرت کے پردے میں ،مطبوعہ دویرا کراچی(۱۹۷۰ء)
۴:پانی کے قیدی ،سویرا کراچی،(۱۹۷۳ء)
۶: انتظار حسین کے سفرنامے :
۱: زمین اور فلک اور ، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، (۱۹۸۷ء)
۲:نئے شہر پرانی بستی، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،(۱۹۹۹ء)
۷: انتظار کے تراجم :
۱:نئی پود،مکتبہ اردو لاہور،(۱۹۵۲ء)
۲:سرخ تمغہ،یونائیٹیڈ بک ڈپو لاہور،لاہور (۱۹۶۰ء)
۳:گھاس کے میدان میں، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ،(۱۹۹۰ء)
۴: ماؤزے تنگ،نگارشات لاہور،(۱۹۵۸ء)
۵:سعید کی پراسرار زندگی
۶:شکستہ ستون پر دھوپ(۱۹۹۸ء)
۷:سارا کی بہادری ، شیخ غلام علی اینڈ سنز(۱۹۶۳ء)
۸:ہماری بستی،اردو اکیڈمی سندھ کراچی،(۱۹۶۷ء)
۹: انتظار حسین کی مرتب کردہ کتابیں :
۱:لطیفے اور چٹکلے ۲: الف لیلا
۳:کچھ تو کہیے ۴:سوالات خیالات
۵:سخن اور اہل سخن ۶:سن ستاون میری نظر میں
۷:پاکستانی کہانیاں ۸:سخن اور اہل سخن
۹:سوالات و خیالات ۱۰:سنگھاسن بتیسی
۱۱:عظمت گہوارے میں ۱۲:انشاء اللہ خان انشا کی دو کہانیاں
۹:اعزازات :
۱:ستارہ امتیاز، حکومت پاکستان ۲۰۰۷ء
۲:کمالِ فن ،ادبیات پاکستان
۳:پرایڈ آ ف پرفامنس، حکومت پاکستان
۴:دوحہ قطر ایوارڈ،۱۹۸۸ء
۵:مین بکر انٹرنیشنل پرائزی،۲۰۱۳ء
انتظار حسین کی وفات :
انتظار حسین ساری زندگی ادب سے جڑے رہے۔ وہ اردو ادب کے لیے ایک اہم حوالہ ہے وہ ساری عمر لکھتے رہےانھوں نے افسانوی ادب میں اپنی ایک الگ پہچان بنالی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر جاوید اپنے مضمون "انتظار حسین بے مثل قلم کار”میں لکھتے ہیں:
” بابائے اردو کے بعد انتظار حسین کی شخصیت اردو زبان و ادب کے لیے ایسے قلم کار کی حیثیت رکھتی ہے جس کے قلم نے لگاتار لکھا اور یہی نہیں بل کہ آنے والی نسلوں کے لیے اپنی تحریر سے نئی راہیں متعین کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ “(۲۰)
معاشی طور پر انتظار حسین ایک اوسط زندگی گزارتے رہے لیکن اردو ادب کی خدمت کرتے رہے اور کبھی قلم کا سودا نہ کیا۔ انتظار حسین بنیادی طور پر ہنس مکھ اور جلوت پسند شخص تھے۔ وہ ادبی تقریبات میں بلا جھجک جایا کرتے تھے۔ انتظار حسین ایک سادہ اور پراسرار شخصیت کے مالک تھے ان کی شخصیت کے حوالے سے مسعود اشعر لکھتےہیں:
” انتظار حسین نیا آدمی بھی ہے اور پرانا بھی۔ پاک ٹی ہاوس کے ادیبوں میں وہ پہلا شخص ہے جس نے سب سے پہلے موٹر کار خریدی یہ اور بات ہے کہ آخری عمر تک وہ کار ایسے چلا رہا تھاجیسے وہ خود نہیں بل کہ کار اُسے چلا رہی ہے۔ جب موبائل فون آئے تو اس نے اسے خریدنے سے انکار کر دیا مگر کب تک ؟ آخر کار ایرج مبارک نے موبائل خرید کردے دیا۔ “(۲۱)
انتظار حسین ۹۱ سال کی عمر تک بہت دیر تک کھڑے ہو کر تقریر کرتے تھے۔ وہ وئنٹلیٹر کے خلاف تھے۔ کہتے تھے کہ مجھے مصنوعی سانس پر زندہ نہ رکھا جائے۔ آخری ایام میں انتظا ر حسین کو بخار ہوگیا۔ انھیں ڈیفنس کے میڈیکل سینٹر لے جایا گیا۔ کچھ دن بے ہوشی کے عالم میں رہے۔ آخر میں نمونیا کے ساتھ گردوں نے کام چھوڑ دیا اور ۲فروری ۲۰۱۶ء کو انتظار حسین اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کا انتقال دن کے پونے تین بجےنیشنل ہسپتال لاہور میں ہوا۔ ۳ فروری کو انھیں فردوسیہ قبرستان فیروزپور میں سپرد خاک کیا گیا۔
؎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا(۲۲)
؎ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا(۲۳)
بقول شمیم حنفی:
"(انتظار حسین اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار تھے) اس میں کوئی شک نہیں”(۲۴)
پروفیسر انیس الرحمان نے ان کی موت لکھا :
"انتظار حسین کا گزرجانا ادب کے لیے سب سے بڑا سانحہ ہے”(۲۵)
پروفیسر فرحت احساس انتظار حسین کی موت پر لکھتے ہیں :
"انتظار حسین کا گزر جانا اردو ادب اور برصغیر کی تہذیب کے لیے صدمہ انگیز واقعہ ہے”(۲۶)
اردو ادب میں انتظار حسین ایک ایسی شخصیت ہے جس نے اردو افسانے کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ ان کے افسانے دنیائے ادب میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ محمد اعظم ایوبی، انتظار حسین کا فکشن،موضوع،اسلوب اور تکنیک(مقالہ برائے پی۔ ایچ۔ ڈی)،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی،۲۰۲۱ء،ص۶
۲۔ https://www.Wekipedia.com
۳۔ بحولہ محمد اعظم ایوبی، انتظار حسین کا فکشن،موضوع،اسلوب اور تکنیک(مقالہ برائے پی۔ ایچ۔ ڈی)،جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی،۲۰۲۱ء،ص۶
۴۔ ابرار ڈاکٹر، انتظار حسین کی افسانہ نگاری،ایجوکیشنل پبلی کیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۲۰ء، ص۱۰
۵۔ انتظار حسین،جستجو کیا ہے؟،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۱ء،ص۳۱
۲۔ ایضاًً، ص ۳۱
۷۔ ایضاًً،ص۹
۸۔ ایضاًً،ص۲۱
۹۔ ایضاًً،ص۲۷
۱۰۔ ایضاًً،ص۵۸
۱۱۔ ایضاًً،ص۵۹
۱۲۔ ایضاًً،ص۵۹
۱۳۔ ایضاًً،ص۶۰
۱۴۔ ایضاًً،ص۸۸
۱۵۔ ایضاًً،،ص۹۲
۱۶ – آصف فرخی،چراغ شبِ افسانہ،انتظار حسین کا جہان فن، سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۱۶،ص ۲۴
۱۷۔ https://youtube.be/Dj9kDJOGjiw
۱۸۔ انتظار حسین،جستجو کیا ہے؟،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۱ء،ص ۸۰
۱۹۔ ایضاً، ص ۸۷
۲۰۔ جاوید منظر ڈاکٹر ، انتظار حسین بے مثل قلم کار ،مشمولہ،ادبیات پاکستان،جائے اشاعت اسلام آباد،سن اشاعت ۲۰۱۷ء ، ص ۲۲
۲۱۔ مسعود اشعر، ہزاروں سال پرانا آدمی نئی جون میں، مشمولہ،ادبیات جائے اشاعت اسلام آباد، سن اشاعت ۲۰۱۷ء ص ۱۰۶
۲۲۔ کلیات اقبال،اکادمی پاکستان،لاہور،۱۹۹۰ء،ص ۲۹۹
۲۳۔ rekhta
۲۴۔ https://youtube.be/9-tzgmWSM
۲۵۔ https://youtube.be/9-tzgmWSM
۲۶۔ https://youtube.be/9-tzgmWSM
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں