ڈرامہ انارکلی کا تنقیدی جائزہ

پس منظر

انار کلی اردو کا لافانی شاہکار ہے جس نے ڈرامے کے معیار کو انتہائی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے ڈاکٹر حنیف فوق اس بے مثال تخلیق کے بارے میں لکھتے ہیں:

اُردو ڈرامہ کی تاریخ میں انار کلی ایک منفرد قوت ہے ابھی تک ڈرامہ نگاری کے ریگستان میں امتیازعلی تاج کا شاہکار ہرے بھرے نخلستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں تو انار کلی سے پہلے بھی مختلف تھیٹریکل کمپنیوں کے زیر اہتمام بے شمار ناٹک لکھے گئے اس کے بعد بھی متعدد اثرات کے تحت بہت سے ڈرامے معرض وجود میں آئے لیکن انار کلی کی صورت میں اردو ڈرامے نے جو منزل دریافت کی ہے۔

اسے آج بھی راہ روؤں کی کم کوشی کی شکایت ہے۔ یہ بات نہیں کہ اس زبردست ٹریجیڈی نے اردو ڈرامے پر کوئی اپنا اثرنہیں چھوڑا ہے لیکن ہمارے یہاں اسٹیج کی کم یابی کے باعث اس کی پڑتی ہوئی چھاؤں کا محض ذہنی اندازک وہی لگایا جاسکتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ انارکلی کی اشاعت نے اپنی ہم عصر ادبی فضا میں ایک برقی رو دوڑا دی تھی لیکن اسے ہم کسی مستقل روشنی یا مینارہ نور سے تعبیر نہیں کر سکتے ۔ جس نے خطر ناک چھپی ہوئی چٹانوں کے درمیان جذبات کے عمیق سمندر میں سفر کرنے والے جہازوں کو راستہ دکھایا ہو۔

بات یہ ہے کہ ڈرامہ خصوصیت سے ایک سماجی یا صحیح لفظوں میں ایک اجتماعی فن ہے۔ جس میں ڈرامہ نگار کا رول حد درجہ اہم ہونے کے باوجود تنہا نہیں لیکن بد قسمتی سے اردو ادب کے سماج میں ڈرامائی روایات ، چند اہم خطوط اور مٹی مٹی لکیروں کے سوا نہیں پائی جاتیں۔

اس لحاظ سے اسٹیج جس کے بغیر ڈرامہ صحیح معنوں میں وجود میں آتا ہے ہمارے یہاں فلموں کے رواج سے پہلے تھوڑی بہت اہمیت رکھتا بھی تھا۔ تو اب حقیقی طور پر معدوم ہے اور ابھی قومی تھیٹر قائم ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔

ان حالات میں یہ بات تعجب خیز نہیں کہ انارکلی نے ادبی حلقوں میں تو مقبولیت حاصل کر لی تھی لیکن اسے ابھی تک اسٹیج کی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ ان حالات میں کیا توقع کی جاسکتی تھی کہ اردو کے ڈرامہ نگار انارکلی کی قائم کردہ روایت کو برقرار رکھ سکیں گے اور اس کی تخلیقی لو سے نئی مشعلیں جلائیں گے۔

لیکن حوصلہ فرسا حالات اسٹیج کی نایابی اور ہمارے ڈرامہ نگاروں کی کم تو جہی کے علاوہ کچھ اندرونی اسباب بھی تھے جن کی بنا پر یہ ڈرامہ اب تک اردو ادب کی تاریخ میں ایک منفرد کارنامے کی حیثیت رکھتا ہے۔

انارکلی کا موضوع

انارکلی کا موضوع ایک کنیز اور شہزادے کی محبت ہے۔ اس ڈرامے کا موضوع وہ پر سوز کشمکش ہے، جس میں جاگیردارانہ طبقے کے ایک اعلی ترین فرد اپنے پاؤں میں پڑی ہوئی جہاں بانی و جہانگیری کی بیڑیوں کو کاٹ کر اپنے سماج کے ایک کم ترین فرد کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔

لیکن یہ کش مکش محبت اور جہاں بانی کے درمیان نہیں سلیم کے ماحول اور انار کلی کی سماجی حیثیت کے درمیان ہے۔

امتیاز علی تاج کی بڑی جیت یہی ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماج اور ماحول سے منقطع کر کے پیش نہیں کیا۔

اس طور پر انارکلی حقیقت نگاری کا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے جو اب تک اردو ڈراموں میں نہیں ملتا تھا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں