الطاف حسین حالی کی نظم نگاری کی خصوصیات | Altaf Hussain Hali ki Nazm Nigari ki Khusosiyat
موضوعات کی فہرست
الطاف حسین حالی کی نظم نگاری کی خصوصیات
حالی کا تعارف
الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ ء کو پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزو بخش تھا۔ حالی نے پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں ہی حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے دہلی چلے گئے ۔
وہ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے بچو کے اتالیق بھی رہے۔ انھوں نے محمد حسین آزاد سے مل کر جدید مشاعروں کی بنیاد ڈالی ۔
وہ به یک وقت عمده و نثر نگار، اعلیٰ شاعر باعتبار سوانح نگار اور بہت بڑے نقاد تھے۔
حالی کی شاعری کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حالی کی حیات اور تصانیف
قوم کی بیداری
حالی نے نظم گوئی قوم کی بیداری کے لیے شروع کی تھی کیونکہ انہیں اس بات کامل یقین تھا کہ نثر کے مقابلے میں نظم کم کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور یہ کہ قوم کی وترقی میں شاعری کا نہایت اہم حصہ ہے۔ حالی کی نظم نگاری کا خاص مقصد تباہ حال مسلمان وم کی بجالایا تھی۔
ان کی شاعری اردو ادب میں ایک تحریک اور ایک رجحان کی حیثیت رکھتی ہے۔
بزرگوں کی تو تیر کھوئی ہے ہم نے
عرب کی شرافت ڈبوئی ہے نے
واقعہ نگاری، پاکیزگی اور افادیت
حالی کے زمانے میں مغربی تعلیم و تہذیب کے اثر سے نئے نئے مسائل پیدا ہوئے ۔ ان کا دور انقلاب اور کشمکش کا دور تھا۔
انہوں نے تمام مسائل کی اہمیت کو محسوس کیا اور اپنی شاعری میں انہیں بیان کرنا ضروری سمجھا۔
حالی سچائی، واقعہ نگاری اور حقیقت پسندی کے شاعر ہیں۔
ان کی زبان پاکیزہ ہے۔ وہ معمولی درجے کے الفاظ استعمال نہیں کرتا۔
نے نہ کہا تھا کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
جدید غزل گو اور نظم گو:
حالی نے غزل کو حسن و عشق کے پرانے راستے سے بنا کر مقصدیت کے راستے پر گامزن کیا۔
اس طرح غزل میں ایک معاشرتی مسائل پر خوبصورت نظمیں لکھیں۔ اس اعتبار سے حالہ کو جدید نظم کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
یہ بھی پڑھیں: مولانا حالی کی شاعری pdf
سماجی برائیوں کی اصلاح کا خیال
حالی نے معاشرے کی اصلاح کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اورمعاشرے کی اصلاح کرنے کا کام اپنے سر لیا۔ انہوں نے اپنی نظموں کے ذریعے لوگوں کو حق وصداقت کے لیے تکالیف برداشت کرنے پر مائل کیا۔
انہوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ کامیابی ایسے لوگوں کوملتی ہے جو صداقت سے کام لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حالی بطور نظم نگار | pdf
عورتوں کی بھلائی
حالی نے صدیوں سے ظلم کی چکی میں پسی ہوئی عورت کے درد کو محسوس کر کے اس کے حق میں آواز اٹھائی۔
انہوں نے پہلی بار اپنی نظموں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ عورت ماں ، بیٹی، بہن اور بیوی جیسے مقدس رشتوں کی امین ہے۔
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے انہوں نے چپ کی داد اور مناجات بیواہ جیسی نظمیں لکھے ڈالی ۔
اے ماؤں بہنوں بیٹیوں دنیا عزت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمھی، قوموں کی عزت تم سے ہے
تم گھر کی ہو شہزادیاں، شہروں کی ہو آبادیاں
غم گیں دلوں کی شادیاں ، ڈکھ سکھ میں راحت تم سے ہے
اصلاح قوم کا جذبہ
حالی کی نظمیں سبق آموز حکایات سے بھری پڑی ہیں۔ ان نظموں کے ذریعے اپنے ملک اور قوم کے خیالات کو پاکیزہ اور صالح کرانا چاہتے تھے۔
اس کی سب سے بڑی مثال مسدس "مدوجزر اسلام” ہے۔ حالی نے مسلمان قوم میں موجود خودستائی وخود پسندی, خوشامد ، غیبت اور بے اعتدالی جیسی مذموم عادتوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔
- اے خاصہ خاصان رسل
- امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی
خود آج وہ مہمان سرائے فقرا ہے
وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے
عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے
یاں راگ ہے دن رات وداں رنگِ شب وروز
یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور
زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے
بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے
وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام
یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے
چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اے چشمہ رحمت بابی انت و امی
دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے
وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے
ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام
ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے
جو خاک تیرے در پہ ہے جاروب سے اڑتی
وہ خاک ہمارے لئے داروے شفا ہے
جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف
اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے
جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت
کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا
اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے
گر دین کو جوکھوں نہیں عزت سے ہماری
امت تری ہر حال میں راضی بہ رضا ہے
ہاں حالیء گستاغ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
خلوص و سادگی
حالی کی کامیابی او اثر آفرینی کی ایک بڑی وجہ ان کا خلوص تھا۔
ان کی شاعری میں بھی وہی خالص سونا دمکتا ہے۔ جس سے ان کی فطرت کا خمیر تیار ہوا تھا۔
ان میں تصنع اور تکلف کا شائبہ تک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر لفظ جو دل سے لگتا ہے بجلی بن کر دل پر گرتا ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں