موضوعات کی فہرست
اقبال کا تصور ہمدردی یا درد دل
ہمدردی / درد دل
ہمدردی دو لفظوں سے مرکب ہے “ہم” اور “درد”اس کے معنی ہیں دو یا زائد لوگوں کا دکھ درد میں شریک ہونا یعنی اگر کوئی شخص کسی مصیبت یا بلا میں مبتلا ہے تو دوسروں کا اس بلا میں ہاتھ بٹانا۔ اگر یہ بات صحیح ہے کہ سارے انسان ایک ہی ماں باپ کے بیٹے ہیں تو ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی مدد کرنا لازمی ہے۔
ہمدردی انسان تو انسان سے ہی جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔بچوں کی ایک مدت تک پرورش کرنا۔ ان کے لیے غزا بہم پہنچانا اپنی قوت سے پھر ان کو دشمنوں سے بچانا۔ کیا یہ صفت جانوروں میں نہیں پائی جاتی ہے؟ تو کیا یہ ہمدردی نہیں ہے؟
یہ بھی پڑھیں: اقبال کا تصور تعلیم pdf
سب سے اعلی کام حلال روزی اور خودداری کا ہے۔ اس کے بغیر دنیا کا کوئی کام نہیں چل سکتا۔ پس اگر انسان نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ بدنظمی کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جائے گا۔ مذہب میں بھی ہمیں تاکید کے ساتھ ہمدردی کا حکم دیا گیا ہے۔ مذہبی کتابوں میں ہمدردی کے بارے میں بہت کچھ بتایا گیا ہے۔
یوں تو ہمدردی ہر انسان کے دل میں موجود ہو مگر امیر اور دولت مند لوگوں کے دلوں میں اس جذبے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ صحت عامہ، غریبوں کی امداد، بیواؤں کی پینشن، معذور لوگوں کا وظیفہ، تباہ حال لوگوں کی بحالی غرض ان لوگوں کی ہمدردیاں ملک اور قوم کی ترقی اور بہبودی میں بڑا زبردست دخل رکھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اقبال تصور علم مذہبی تجربہ تجزیاتی مطالعہ | pdf
ہمدردی انسانیت کے اقدار میں سے ایک اہم قدر ہے جو کہ انسان کو فرشتوں سے بھی ممتاز کرتی ہے اس ضمن میں خواجہ میر درد کا ایک شعر ملاحضہ کیجئے_
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اقبال کا تصور ہمدردی یا درد دل
حضرت اقبال کی تصور ہمدردی اقبال نے ایک شعر میں بیان فرمائی ہے :
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
اس شعر میں اقبال ہمدردی جیسے عنصر جو کہ انسان میں پایا جانا ضروری ہے اس کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس بندے کو خدا کا عاشق گردانتے ہیں جس کے دل میں ہمدردی درد دل ہوں اور خود کو اس بندے کا جس کے دل میں ہمدردی ہوں درد دل ہوں اسکا غلام مانتے ہیں _
بانگ درا میں نظم ہمدردی میں بھی درد دل کا پیغام دیتے ہیں اس نظم میں شاعر فطری مناظر کے ذریعے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے انسان کی دل میں چھپی ہوئی روحانی پاکیزگی اور ہمدردی کو بیدار کرنا چاہتا ہے۔
اقبال نے ایک سادہ سی تصویر پیش کی ہے جس میں صرف ایک بلبل اور ایک جگنو موجود ہیں۔ بلبل گھر کا راستہ بھول گیا ہے جب کہ جگنو اپنی روشنی کی مدد سے اسے گھر کا راستہ دکھاتا ہے۔
معنوی سطح پر اگر دیکھا جائے تو بلبل اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے زندگی کا مطلب کھو دیا ہے۔ شاعر نے زندگی کی بے مقصدیت کو اندھیرے سے تشبیہ دی ہے۔ اندھیرے کے ظلم میں بلبل اپنی سمت کا احساس کھو دیتا ہے جس میں پرندہ شک اور خود تنقیدی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اچانک ایک جگنو بلبل کے قریب آتا ہے۔ اگرچہ یہ بلبل سے چھوٹا ہے لیکن اس کا دل بڑا ہے۔ جگنو بلبل کو تسلی دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ”میں تمہیں راستہ دکھاتا ہوں“ ۔ ہم جانتے ہیں کہ جگنو کی زندگی مختصر ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بلبل کی مدد کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے۔ بے لوث جگنو کی مثال سے لوگوں کو عاجزی کی اہمیت کو سیکھنا چاہیے۔
اس نظم میں اقبال ایک مذہبی پیغام بھی دینا چاہتے ہیں اور وہ پیغام کیا ہے ؟
میرے نزدیک جگنو نبی پاکﷺ کا استعارہ ہے۔ اسلامی تہذیب کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے نبی محمد ﷺکے سوا کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جس نے اندھیرے میں بھٹکتے ہوئے لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ اس نظم کا حتمی مقصد قارئین کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ ہمارے نبی محمد ﷺ کی بے لوث ہمدردی سے سبق سیکھیں جنہوں نے اللہ پاک کی تعلیمات پر عمل کیا اور اپنی زندگی دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کردی۔
مزید یہ بھی پڑھیں: اقبال کا تصورِ مرد مومن pdf
محسن خان مالاکنڈ ایجنسی
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں