موضوعات کی فہرست
افسانہ کتبہ پس منظر
غلام عباس کا یہ افسانہ کتبہ 1940ء میں لکھا گیا اور رسالہ ادب لطیف کے اگست 1940ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس افسانے کا نا مکمل ترجمہ فارسی میں خود غلام عباس نے کیا۔ پطرس بخاری کے ایک خط سے اس افسانے کے انگریزی ترجمے کا ذکر بھی ملتا ہے۔
یہ روایت بھی ہے کہ پطرس بخاری نے خود اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لئے غلام عباس سے یہ افسانہ طلب کیا تھا، البتہ اس کا جاپانی زبان میں ترجمہ 1984ء کے رسالہ ”ہندوستانی ادب“ میں شائع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ افسانہ مشہور روسی افسانہ نویس گوگول سے ایک افسانے سے ماخوذ ہے، مگر اس کی کوئی معتبر شہادت نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں ایک محق کی یہ تحریر دیکھیں۔
افسانہ کتبہ کا فنی و فکری جائزہ
( کتبہ کے آغاز میں جو ماحول پیش کیا گیا ہے، اس سے دلی کے افسروں کی روز مرہ زندگی کی خاص کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ساری جزئیات نگاری غلام عباس کے افسانے کی جان ہے، اس لئے چاہے یہ سب تفاصیل اخذ کی گئی ہوں، پھر بھی سارے افسانے میں اپنے مقامی ماحول کو پس منظر بنا کر یہ افسانہ اعلیٰ درجے کی تخلیق بن گیا ہے ۔)
( مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دلی میں حوض قاضی سے فتح پوری ، مولانا چراغ حسن حسرت کے ساتھ تانگے میں جاتے ہوئے ایک سنگ تراش کی دکان پر ایک پتھر دکھائی دیا، جس پر نام لکھا ہوا تھا۔ بس اس کتبے کو دیکھ کر فوری خیال تھا کہ اس کتبے پر متعلقہ شخص کے بعد دوسری تفصیلات کا اضافہ کیا جائے گا۔
میرے دماغ میں افسانہ مکمل ہو گیا اور میں نے اُسی رات چند گھنٹوں میں افسانہ ” کتبہ” لکھ ڈالا۔ یہ افسانہ مجھے بہت پسند ہے۔)
ن۔ م۔ راشد کتبہ کے مرکزی خیال کے بارے میں تحریر پرداز ہیں: (اس افسانے کا مرکزی خیال، انسانی خواہشات اور خواب ہیں، وہ سوتے جاگتے ان خوابوں کی تلاش میں رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی تمام آرزوئیں اور ارمان پورے ہو جائیں، لیکن اس کے تمام خواب کبھی پورے نہیں ہوتے اور وہ اپنی تمام زندگی ان کے حصول میں صرف کر دیتا ہے۔)
اس افسانے میں مصنف نے ہمارے سماج کے بےحس معمولات اور ان زندہ خواہشات کا تذکرہ کیا ہے جو آخر کار حسرت بن جاتی ہیں۔ شریف ایک حسین دفتر میں کلرک درجہ دوم ہے، لیکن یہ کہانی صرف ایک شریف حسین کی نہیں، بلکہ نچلے متوسط طبقے کے ان شریف حسینوں کی ہے، جن کی زندگی میں خواہش کوشش اور سخت مشقت کے باوجود ان کے معاشی اور معاشرتی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔
کہانی کا شریف حسین دفتر سے واپسی پر ایک کباڑیے کی دکان سے سنگ مرمر کا ایک ٹکڑا خرید کر اُسے اپنے ارمانوں کی آماجگاہ بنا لیتا ہے۔ وقت کا جبر اور حالات کی سنگینی کے تحت سنگ مرمر کا وہ ٹکڑا اُس کے مکان پر نام کی تختی کی بجائے اس کی قبر کا کتبہ بن جاتا ہے۔
سنگ مرمر کا یہ ٹکڑا اس کے نزدیک ایک ایسی متاع بے مثال ہے جس کا وہ متلاشی تھا اور جس کو کھونا اس کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ سنگ مرمر کے اس ٹکڑے نے اس کے خیالات میں ایک ہیجان پیدا کر دیا اورمستقبل کے خوش آئند اور سہانے خیالات اس کے دماغ میں چکر کھانے لگے۔
اس نے وہ ٹکڑا خرید لیا، گویا پتھر کا یہ ٹکڑا اس کے مستقبل کی خواہشات اور آرزوؤں کی تکمیل کے لئے ایک سنگ میل ہے جو اس کی منزل کی نشان دہی کرتا ہے۔ وہ اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ، دفتر آتے جاتے مکانوں اور کوٹھیوں پر کئی ناموں کی تختیوں کو دیکھتا اور تنخواہ پاتے ہی اس پر ایک ماہر سنگ تراش سے اس پر اپنا نام کندہ کراتا ہے اور چاروں طرف خوبصورت بیلیں بنواتا ہے۔
وہ تو کرائے کے مکان میں رہتا ہے، اس سختی کی تنصیب کے لئے تو اپنے مکان کی ضرورت ہے اور مکان کی تعث تو حسرت تعمیر کے سوا کچھ نہیں اور اس کتبے کو رکھنے کے لئے اسے کوئی مناسب جگہ میسر نہیں آتی ۔ کبھی وہ اسے الماری میں رکھتا ہے اور کبھی صندوق میں۔
پتھر کا ٹکڑا اس کی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کی ایک علامت ہے جو اسے زندگی کی دوڑ میں کولہو کے بیل کی طرح جتے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ دفتر میں سارا دن فائلوں میں گم رہتا ہے، مگر اس سخت مشقت اور جانکاری کا اسے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ، البتہ ہر سال سالانہ ترقی کی صورت میں اس کی تنخواہ میں تین روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے جو اس کی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک ذریعہ تو نہیں البتہ تازیانہ ہے۔
اس کے ساتھیوں کی ترقی اس کے دل میں ہیجان پیدا کرتی ہے اور مایوسی اور نا امیدی اس کے دل میں یہ خیال پیدا کرتی ہے کہ اس کی محنت اور افسروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں تو رنگ نہیں لائیں گی۔ البتہ عطیہ غیبی سے ترقی کی کوئی صورت پیدا ہو جائے تو عجب نہیں ۔
اس اثنا میں ہیڈ کلرک کے چھٹی پر جانے سے اس کی عارضی طور پر ترقی ہوتی ہے، مگر چھٹی سے واپسی پر اس کا اپنی سیٹ پر واپس آنا اس کے دل میں پژمردگی اور احساس محرومی اور بڑھا دیتا ہے، اس میں بیزاری اور چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔
وقت کا پہیہ گردش میں رہتا ہے۔ بچے جوان ہو جاتے ہیں اور اس کے سر کے بال سفید اور کمر خمیدہ ہو جاتی ہے۔ معاشی بد حالی اسے مختلف اندیشوں میں پھنسا دیتی ہے، پریشانیاں گھیر لیتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم، ان کی شادیاں اور ان کے لئے روزگار اور وسائل مہیا کرنے کی فکریں اسے ہردم پریشان رکھتی ہیں اور انہیں پریشانیوں میں وہ پچپن سال کی عمر میں ریٹائر ہو جاتا ہے۔
اس کے دونوں بیٹے چھوٹی موٹی ملازمتوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ بڑا بیٹار بلوے مال گودام پر ملازم ہے اور چھوٹا کہیں ٹائپسٹ کلرک ہے اور سب سے چھوٹا میٹرک کا طالب علم ہے۔ پنشن اور بچوں کی تنخوا میں ملا جلا کر گزر اوقات کی بہتر صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
بڑی بیٹی کی شادی بڑی شان و شوکت سے کی جاتی ہے اور اس کی اپنی خواہش ہے کہ چند ضروری کاموں سے فارغ ہو کر حج کا فریضہ ادا کرے ، مگر ماضی میں جو پریشانیاں اور نا آسودگیاں اس کا مقدر رہی ہیں انہوں نے جلد ہی اسے بوڑھا اور کمزور کر دیا ، جن کا یہ اثر ہوا کہ وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو گیا۔
ایک دن معمولی سی سردی سے بخار آیا جو بالآخر نمونیہ کی صورت اختیار کر گیا اور یہی بیماری اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی اور وہ مر گیا۔ اس کی تجہیز و تدفین اور دیگر ماتمی رسومات سے فارغ ہو کر اس کے بڑے بیٹے نے اس کے کمرے کی صفائی کروائی تو صفائی کے دوران وہ کتبہ ملا ، بیٹا سنگ مرمر ا یہ ٹکڑا پا کر باپ کو یاد کر کے رونے لگا مگر اس نے باپ کی اس یادگار کو معمولی سے رد و بدل کے بعد باپ کی قبر پر نصب کر دیا۔
دراصل یہ کتبہ شریف حسین جو نچلے درمیانے درجے کا نمایندہ کردار ہے، کی ناکام حسرتوں اور خوابوں کی کہانی ہے۔
ن ۔ م۔ راشد نے غلام عباس کے افسانوں میں ثنویت کی نشان دہی کی ہے۔ اس افسانے میں بھی صرف ایک کردار ہے، جو خاموش ہے اور پورے افسانے میں اس کا رد عمل کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ اس کے باوجود اس کے مقابل ایک اور کردار ہے جو معاشرے کا ہے، جو نظر نہیں آتا مگر اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے رد عمل کے طور پر شریف حسین کی خواہشات اور خواب کی تکمیل نہیں ہو پاتے اور وہ حسرتوں کو دل میں لئے قبر میں اتر جاتا ہے۔
کہانی کے پلاٹ میں عموماً ابتدا وسط اور اختتام موجود ہوتا ہے اور یہ ارتقائی منزلیں کہانی کے زمان و مکان اور واقعات کی تبدیلی کے حوالے سے ہمیں نظر آتی ہیں۔ غلام عباس کے افسانے کتبہ کی ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ کہانی کا آغاز کم الفاظ کی منظر نگاری کے حوالے سے ہوتا ہے اور کہانی کے مرکزی کردار شریف حسین کا تعارف بھی مختصر مگر جامع انداز میں ہوتا ہے۔
کہانی میں کرداروں کی جزئیات نگاری سے کہانی میں حقیقت نگاری کا انداز پیدا ہوا ہے اور کردار نگاری ہی کے حوالے سے شریف حسین کی بے بسی کو کتبے کے حوالے سے بڑا مفصل بیان کیا گیا ہے۔ البتہ شریف حسین کے بڑھاپے کا ذکر اشاراتی طور پر بہت مختصر ہے، کہانی کا انتقام بہت کم الفاظ میں بے حد تیزی سے مگر موثر انداز میں ہوتا ہے۔
افسانہ کتبہ کے کردار غربت کی دلدل میں نہیں بلکہ زندگی کی دوسری مجبوریوں کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والی کسمشمکش اور منافقتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ شریف حسین پڑھا لکھا، ایک دفتر میں ملازم ہے مگر وہ اپنی تنخواہ کی کمی کی وجہ سے اپنی زندگی کے مسائل میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔
بظاہر وہ اس صورت حال کو جیسے تیسے قبول تو کر لیتا ہے، مگر ان حالات سے نکلنا اس کی سب سے بڑی خواہش ہے، لہذا وہ ان مجبوریوں اور مسائل کو قبول کر لینے ہی میں مصلحت سمجھتا ہے۔
یوں افسانے کا موضوع عام انسان کی بے بسی اور کسمپرسی ہے اور یہ بہر طور پر معاشرے کا ایک اہم موضوع ہے جس پر غلام عباس نے خامہ فرسائی کی ہے۔
غلام عباس کے نزدیک کردار نگاری، افسانہ نگاری کا ایک اہم عنصر ہے۔ انہوں نے رسالہ ” ہم قلم "1961ء میں افسانہ”میری نظر میں“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا وہ لکھتے ہیں: (جہاں تک میری افسانہ نویسی کا تعلق ہے۔ میں تمام مواد بڑی حد تک زندگی ہی سے لیتا ہوں۔ کہانی لکھنے کے لیے سب سے پہلے مجھے ایک کردار کی جستجو ہوتی ہے۔ یہ کردار سچ مچ کا یعنی گوشت اور پوست کا بنا ہونا چاہیے۔ میں اسے اپنے ذہن میں تخلیق نہیں کرتا بلکہ وہ مجھے زندگی میں ہی مل جاتا ہے۔
میرا اس پر کچھ قابو نہیں ہوتا اور نہ میں اپنے نظریات اس کی زبان سے کہلواتا ہوں۔ میں خود چپکے چپکے اس کی باتیں سنتا اور اس کے اعمال و فعال کو دیکھتا رہتا ہوں، یوں رفتہ رفتہ میں اس کے مزاج کو کچھ کچھ پہچاننے لگتا ہوں ۔ کردار سے افسانہ نگار کی اس جان پہچان کو میں اصل کردار نگاری سمجھتا ہوں ۔)
حقیقت یہ ہے کہ کتبہ کا شریف حسین سچ مچ چ گوشت پوست کا انسان ہے جو ہمارے معاشرے کے نچلے متوسط طبقے میں ہر جگہ موجود ہے ۔ غلام عباس کی کردار نگاری کے بارے میں ن۔ م۔ راشد جاڑے کی چاندنی کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔
(غلام عباس کے افسانوں کے ہیرو، اس کے لیے افسانوں کے ہیروز کے لیے اتنے اہم نہیں، جتنے وہ ضمنی کردار، جن سے اس کے افسانوں کے اندر زندگی کا پورا میلہ صورت پکڑتا ہے۔ اس میلے میں طرح طرح کے لوگ آجاتے ہیں ۔
سرکاری ملازم افسر کلرک فن کار، کالجوں کے طلبہ و طالبات ، اخباروں کے نمائندے، نرسیس ، اینگلو انڈین لڑکیاں ، مزدوری پیشہ لوگ ، بیمہ ایجنٹ، خوانچہ فروش عشق میں شعر کہنے والے، گودیوں کھلانے والے، پرانے نوکر ، مامائیں، نمازی، پرہیز گار اور کسان وغیرہ وغیرہ)
اس اقتباس کی روشنی میں اگر ہم کتبہ کے کرداروں کا جائزہ لیں تو غلام عباس کے ہیرو، شریف حسین کا کردار چند سطروں میں بیان ہوا ہے، جبکہ ضمنی کرداروں کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلام عباس انہی کرداروں میں سے اپنے بڑے کردار نکالتا ہے اور انہی کی مدد سے وہ انسانی دنیا کی چھوٹی بڑی کوتاہیوں پر ہنستا اور انہی کے اعمال سے اپنا بنیادی تصور ہمارے سامنے لاتا ہے۔
اپنے افسانے کے بارے میں غلام عباس کا یہ اعتراف بڑا معنی خیز اور مبنی بر حقیقت ہے کہ : (یہ مجھ پر ہی گزری ہوئی وارداتیں ہیں ۔ )
غلام عباس کی کردار نگاری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کی وضع قطع کی جزئیات نگاری سے اپنے کرداروں کو زندہ اور حقیقی انداز میں پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ افسانہ کتبہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
(بعض منچلے تانگے ، سائیکل اور چھاتے سے بے نیاز ، نائی ہاتھ میں ، کوٹ کندھے پر ، گریبان کھلا ہوا، جسے جسے بٹن ٹوٹ جانے پر انہوں نے سیفٹی پن سے بند کرنے کی کوشش کی تھی اور جس کے نیچے سے چھاتی کے گھنے بال پسینے میں تر بتر نظر آتے تھے۔
نئے رنگروٹ سستے سے سلے سلائے ، ڈھیلے ڈھالے بد وضع سوٹ پہنے اس گرمی کے عالم میں واسکٹ اور نکھائی، کالر تک سے لیس ، کوٹ کی بالائی جیب میں دو ، دو، تین ، تین فونٹین پن اور پنسلیں لگائے خراماں خراماں چلے آ رہے ہیں ۔)
غلام عباس کے افسانوں کا عمومی اسلوب بیان ، سیدھا سادا ہوتا ہے، کہانی بیانیہ انداز میں سبک روی کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی ہے۔ یہی کیفیت کتبہ میں بھی نمایاں اور واضح نظر آتی ہے۔ اس کی عمومی وجہ غلام عباس کے ناقدین یہ بتاتے ہیں کہ اس کے انداز تحریر اور اسلوب افسانہ نگاری پر رسالہ پھول اور تہذیب نسواں کے اثر کے ساتھ ساتھ ان غیر ملکی کہانیوں کے تراجم کے اثرات بھی ہیں۔ حرف آخر کے طور پر ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر کا یہ اقتباس دیکھیے :
( شریف حسین کا کردار اپنے طبقے کی مکمل نمایندگی کرتاہے وہ خواب دیکھتا ہے مگران کوعملی جامہ پہنانے اور تکمیل تک پہنچانے کے لئے مطلوبہ جرات ، ہمت اور عمل سے محروم ہے۔
وہ صرف حالات کے دھارے کے ساتھ بہتا جاتا ہے، وہ کولہو کے بیل کی طرح جانگسل اور جان توڑ محنت تو کر سکتا ہے مگر طرز کہن سے ہٹ کر کسی نئی راہ پر چلنے کا سوچتا بھی نہیں، وہ مکان ، جو اس کے لئے خوشحالی اور فارغ البالی کی علامت ہے، اس کا خواب تو دیکھتا ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کا خیال بھی اُسے آتا ہے، مگر مندے اور خسارے کے خوف سے ، اسے عملی جامہ پہنانے سے کتراتا ہے اُسے ترقی کی لگن اور خواہش ستاتی ضرور ہے،
مگر وہ اسے عطیفہ غیبی سمجھ کر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ کڑی محنت اور جان کھپانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا اور یوں وہ خود مقدر اور قسمت کے قدیم تصورات کا اسیر سمجھ کر اپنی تقدیر پر صابر و شاکر ہو کر بیٹھ رہنے ہی کو کافی خیال کرتا ہے۔“)
غلام عباس کا افسانہ سایہ خلاصہ فنی اور فکری جائزہ
܀܀܀
(افسانوی نثر اور ڈرامہ پروفیسر جمیل احمد انجم)
افسانہ کتبہ کب لکھا گیا؟
1940ء
افسانہ کتبہ کس رسالے میں اور کب شائع ہوا؟
ادب لطیف 1940ء
ن۔م راشد کے مطابق افسانہ کتبہ ک مرکزی خیال کیا ہے؟
انسانی خواہشات