افسانہ مجرم کون
نصیر ایک اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا بدقسمتی سے بوڑھا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ معزور بھی ہو چکا تھا اور کام کرنے کے قابل نہیں تھا- وہ جس گاؤں میں رہتا تھا اس کا رواج کچھ یوں تھا کہ گھر دینے پر ہمسایہ مالک کے گھر میں کام کرتے تھے لیکن نصیر کا معاملہ کچھ اور تھا..
کہ نہ تو اس کا اپنا گھر تھا اور نہ ہی معزوری کی وجہ سے وہ کام کے لائق رہا، اس کے ہاں دو بیٹیاں تھی ‘شکیلہ اور منیرہ’ شکیلہ مُنیرہ سے تین برس بڑی تھی اور زیادہ خوبصورت بھی، شکیلہ مالک کے گھر میں گھر دینے پر کام کرتی تھی، جبکہ منیرہ کچھ معاوضہ پر مالک کے ہاں جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ بناتی تھی..
شکیلہ کی منگنی اپنے چچا زاد کزن الطاف سے ہوئی تھی جو اپنی فیملی کے ساتھ شہر میں ایک کرایے کے گھر میں زندگی بسر کر رہا تھا.. دونوں بہنیں صبح کام پر جاتیں اور شام کو واپس لوٹ آتی، گرمیوں کے دنوں میں جب خان کا بیٹا سلیم (جو شہر میں پڑھتا ہے) چھٹیوں میں گھر آ گیا تھا..
اس نے جب شکیلہ کو دیکھا تو اس سے صبر نہ ہوسکا اور اپنی شہوانی جزبات ابھارنے لگے اور حوس کی نظر سے دیکھنے لگے شکیلہ گھر میں جہاں بھی جاتی سلیم کچھ نا کچھ بہانا بنا کر اس کے پاس جاتا ایک دن منیرہ نے دیکھا کہ سلیم نے شکیلہ کو ہاتھ لگایا جب شام کو دونوں بہنیں واپس گھر آ رہی تھیں تو منیرہ نے شکیلہ سے کہا کہ آپا ہم ماں اور ابا کو بتاتے ہیں..
ایسا نہ ہو سلیم کی وجہ ہماری عزت خراب ہوجائے شکیلہ سمجھدار تھی اس نے کہا کہ اگر اماں اور ابا کو بتا بھی دیا جائے وہ پھر بھی کچھ نہیں کرسکتے، ‘غربت سے لاچار شخص چیخ سکتا ہے چِلّا سکتا ہے مگر کبھی مقابلہ نہیں کر سکتا’ یہ ہماری بدقسمتی ہے، اگر خدا نے ہمیں بھی کوئی بھائی دیا ہوتا تو آج یہ ذلت کی زندگی نہیں دیکھنی پڑتی..
اماں اور ابا ویسے بھی پریشان ہیں انھیں مزید کسی اذیت میں مبتلا نہ کیا جائے تو بہتر ہو گا- اگلی صبح جب دونوں بہنیں کام پر جانے لگیں لیکن شکیلہ نے مڑ کر ماں کو کہتے ہوئے سنا کہ بیٹی تم تو سمجھدار ہو مُنیرہ کو بھی سمجھاؤ کہ کام سلیقے سے کرے کئی بار خان نے دھمکی دی ہے گھر خالی کرنے کی اسے کہو کہ شکایتوں کا بننے والے کام سے گریز کرے، مگر شکیلہ جواباً کچھ کہے بغیر گھر سے نکلی اور چلی گئی
.ایک دن شکیلہ کچن میں اکیلی تھی اور سلیم معمول کے مطابق بہانا بنا کر شکیلہ کے پاس آیا اس کے منھ سے حوس کتے کے منھ سے ٹپکتی رال کی طرح بہ رہی تھی پھر تمام چھٹیاں سلیم نے اسی طریقے سے گزار دی.. ایک دن اچانک شکیلہ کے چچا اور چاچی شادی کی بات طے کرنے کے لیے اپنے بھائی نصیر کے گھر پہنچے شکیلہ اس دن معمول کے خلاف گھر میں وقت سے پہلے آ گئ، شکیلہ نے سلام کیا اور جب چاچی نے شکیلہ کی حالت دیکھ لی تو اپنے شوہر سے فوراً چلنے کو کہا.. شکیلہ کی ماں حیران ہوئی کہ اچانک چلنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے، پھر اس نے شکیلہ سے دریافت کیا کہ کیوں بیٹا آج تو جلدی کیوں آگئی شکیلہ نے کہاں ماں طبیعت ٹھیک نہیں تھی ماں نے پیناڈول کی دو گولیاں دی شکیلہ چارپائی پر لیٹ کر سو گئ
اگلے روز شکیلہ کے چچا اکیلے آئے یہ بتانے کہ ہم یہ منگنی توڑ رہے ہیں کیونکہ اب شکیلہ کو کس منہ سے اپنے گھر میں رکھیں گے، آپ جہاں چاہے اسے بیاہ دیں ہماری طرف سے آپ اور آپ کی بیٹی آزاد ہے شکیلہ کی ماں یہ سب سنتے ہی صدمے میں چلی گئیدوسرے ہی دن سارے گاؤں میں یہ بات پھیلی کہ شکیلہ بغیر شوہر کے ماں بننے والی ہے..لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے،
نصیر جب باہر راستے میں کہیں جاتا تو لوگ طنزاً کہتے کہ یہی ہے وہ نیک انسان جو اہنی بیٹی کی کمائی پر زندگی بسر کرتا ہے، کوئی کہتا کہہ جوان بیٹی کو اس طرح آزاد کرنے سے یہ کام نہ کرتی تو کیا حج پر جاتی، کوئی کہتا کہ اسے گاؤں سے نکال دینا چاہیے اسی کی وجہ سے تو سارے گاؤں کے لوگ شرم کہ مارے کسی سے آنکھ بھی نہیں ملا سکیں گے، کوئی کہتا کہ یہ نیا کام نہیں ہے اس کی ماں بھی اسی طرح کام کرتی تھی، نیز سو طرح کی باتیں ہونے لگی..
گاؤں کے بڑے لوگوں نے مشورہ کیا کہ اب نصیر اور اسکا کنبہ اس گاؤں میں رہنے کے قابل نہیں ہے اسے یہاں سے نکالنا ہوگا فیصلہ ہو چکا اور اگلے دن سویرے ہی ایک بندہ نصیر کے دروازے پر پہنچا اور بتایا کہ چچا سب گاؤں والوں نے مشورہ کیا ہے کہ تمھیں اب ادھر سے جانا پڑے گا تمھارے پاس صرف ایک ہی دن ہے تم یہاں سے نکل جاؤنصیر گھر آیا اور اپنی بیوی سے مشورہ کیا کے ہم اب شہر میں کرایے پر مکان لے لیتے ہیں، رات کا وقت تھا دونوں بہنیں کمرے میں بیٹھی رو رہی تھیں،
مُنیرہ نے کہا آپا میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ ابا کو بتاتے ہیں اگر بتایا ہوتا تو اج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا شکیلہ بدستور آہستہ آہستہ رو رہی تھی اسکی ساری دنیا ختم ہو چکی تھی کچھ دیر بعد بولی، منیرہ اگر پہلے بتا دیا ہوتا تو ہمیں پہلے ہی گھر سے جانا پڑتاآج سلیم نے میرے ساتھ یہ ظلم کیا کل کوئی اور کرتایہ دنیا غریبوں کے لیے نہیں اس جہاں میں غریب کے لیے زلت،رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کسی نے بھی مالک سے یہ نہیں پوچھا کہ اس کے بیٹے نے کیسا کارنامہ کیا ہے؟
کسی میں اتنا جرات کہا کہ اس سے پوچھ سکے، ‘منیرہ نے کہا’ رات کے بارہ بجے اور ہر طرف خاموشی اور موت پھیلی ہوئی تھیدور سے کچھ کتوں کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی.شکیلہ نے منیری سے کہا تم جا کر سو جاؤ صبح جلدی اٹھنا ہے اور سامان باندھنا ہے.منیرہ باہر اماں اور ابا کے ساتھ لیٹ گئی اور شکیلہ کمرے میں اکیلی صبح منیرہ جلدی جاگ گئی کمرے کی طرف بڑھی کمرے میں داخل ہوتے ہی گھر میں ایک چیخ گونج گئ شکیلہ کی ماں اور ابا دوڑ کر کمرے کی طرف آئے منیرہ دروازے میں بےسدھ پڑی تھی اور شکیلہ چھت پہ لگے پنکھے سے لٹک رہی تھی-
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں
Tahir Qarar mere cxn hei imtihayi qabil awr mehnati insan he. Ap sub inko dua me yad rakna,🥰