افسانہ سواسیر گیہوں کا خلاصہ اور فنی و فکری جائزہ

افسانہ سواسیر گیہوں مجموعی تاثر

پریم چند کا یہ افسانہ ماہنامہ چاند میں 1924 ء نومبر کے شمارے میں زیور طبع سے آراستہ ہوا تھا، اس افسانے کے متعلق ایک فاضل استاد کا یہ اقتباس دیکھیں: | سوا سیر گیہوں میں کم و بیش وہی مسائل زیر بحث آئے ہیں جو بلیدان کی طرح دیگر بہت سے افسانوں کی ذیل میں آتے ہیں،

جنہیں اُن کے مشہور ناول گئودان“ کا دیباچہ کہا جاسکتا ہے، جہاں ایک سیدھا سادا کسان جسے اپنے کام سے کام ہے، جو نہ کسی کے لینے میں ہے نہ دینے میں، جو چھکا جانے نہ پنجا، چھل کپٹ کی جسے ہوا نہیں لگی ، ایک نہ ایک دن کسی پنڈت، کے ایک پر وہت، برہمن یا مہا جن کے ہتھے چڑھتا ہے تو استحصال کے شکنجے میں اس طرح جکڑا جاتا ہے کہ زندگی بھر محنت کرتا اور خون تھوکتا ہے ، لیکن سوا سیر گیہوں کا بوجھ سر ست نہیں اتار سکتا۔

وہ اپنی سادہ دلی اور نیک نیتی کے کارن یہ سوچتا ہے کہ یہ شاید اس کے پچھلے جنم کا بھوگ ہے۔ اس کے بچے دانے دانے کو ترستے ہیں اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر پرلوک سدھار جاتا ہے، لیکن سوا سیر گیہوں کے دانے کسی دیوتا کی بددعا کی طرح اُس کا پیچھا کرتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ جنم جنم اُس کے سر سے نہیں اتر تے بلکہ اُس کی بیوی اور اُس کی اولاد اس کے کرموں کی سزا بھگتے رہتے ہیں|

افسانہ سواسیر گیہوں کا خلاصہ

ایک رات ایک جٹادھاری سادھو بن بلائے اس کا مہمان بنتا ہے۔ پریم چند نے اس سادھو کی صورت کشی میں جس طرح حقیقت نگاری کا ثبوت دیا ہے وہ قابل ستائش ہے، ملاحظہ فرمائیں۔ |

چہرے پر ملال تھا، گلے میں پتامبر، جناسر پر پیتل کا منڈل ہاتھ میں کھڑاؤں پیر میں، عینک آنکھوں پر ۔۔۔| شنکر کے گھر جو آٹا تھا، جو عام غرباء کے لئے تو جائز اور درست تھامگر مہاتماؤں کے لئے کھیل اور دیر ہضم ہوتا ہے اور پھر تلاشی میں اس نے پورے گاؤں کا چکر لگایا مگر گیہو یا اسکا آٹا کہیں سے نہ مل سکا، کیونکہ پریم چند کے الفاظ میں گاؤں میں سب آدمی ہی آدمی تھے،

دیوتا کوئی نہ تھا، پس وہاں دیوتاؤں کی خورش کیسے ملتی ۔” شنکر کی خوش بختی تھی کہ گاؤوں کے پروہت کے ہاں سے سوا سیر گیہوں اُسے ادھار مل گئے۔ شنکر کی بیوی نے عقیدت مندانہ آداب سے گیہوں پیسے اور آٹا گوندھ کر مہاتما کے لے کھانا تیار کر دیا۔ مہاتما جی کھانا کھا کر لمبی تان کر رات بھر سوئے اور صبح شنکر کو آشیر واد دے کر اگلی منزل کو سدھار گئے ۔شکراب پروہت کا مقروض بن گیا تھا۔

سات سال کے طویل عرصے میں بھی وہ سوا سیر گیہوں کا اصل نہ لوٹا سکا۔ اُس نے پروہت کو جو کچھ ادائیگی کی وہ بقول پروہت جی کے سواسیر گیہوں کا پیاج تھا، اصل زرا ب بھی قائم بلکہ بڑھتا چلاجارہا تھا۔

حساب کتاب کے بعد جب پروہت نے حساب کر کے واضح کیا کہ شکر کی طرف ساڑھے پانچ من گیہوں نکلے۔ شنکر کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی مگر مجبوری تھی کہ وہ کسی طور خود کو پروہت کے قرض سے رہائی نہ دلا سکتا تھا۔ محنت مزدوری کر کے جو کچھ ادا کرتا بھی تو وہ اصل زر نہیں ، اُس کے سود در سود کی ادائیگی کے زمرے میں آتا۔

آخر کار اس کا طریقہ یہ نکالا گیا کہ شنکر پر وہت کے ہاں مزدوری کرے گا، یہ مزدوری نہ تھی بلکہ صیح تر الفاظ میں نوکری بھی نہیں، غلام تھی، پھر بھی اس کی جان پر وہت کے پنجے میں رہتی۔۔

بیس سال تک غلامی کی زندگی گزار کرشنکر زندگی کی بازی ہار گیا اس پروہت جی کے فیصلے کے مطابق اُس کا جائز وارث یعنی بیٹا ہے قرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ٹہرا اور پریم چند کے بقول (افسانے کی تحریر تک وہ پروہت کا غلام ہے اور باپ کے ناکردہ گناہوں کی بھگتان کر رہا ہے۔ پریم چند اسے فرضی قصہ قرار نہیں دیتے، کیونکہ دنیا میں آج تک بھی اسی طرح کے پنڈت، پیر پروہت اور سادھوؤں کے علاوہ مہاجن اور برہمن موجود ہیں جو غریبوں کا خون آج بھی اسی طرح چوس رہے ہیں۔

افسانہ سواسیر گیہوں کی کردار نگاری

افسانہ سواسیر گیہوں کا مرکزی کردار شنکر نامی ایک تقدیر پرست محنتی ، راضی برضا اور صابر و شاکر کسان ہے، اُس کی قناعت اور مبر تعلیم کا یہ عالم ہے کہ اگر کھانے کو کچھ بھی نہ ملے تو چربن پر گزارا کر لیتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں صرف پانی سے پیٹ بھر کر صبر شکر کر لیتا ہے۔ اگر چہ و نادار اور انتہائی درجے کا قلاش ہے، لیکن بے حد ملنسار خلیق اور مہمان نواز ہے ۔ خود بھوکا رہ کر گھر آئے مہمان کی خدمت گزاری اور خاطر تواضع اُس کا دین دھرم ہے۔

کوئی مہمان اس کے گھر سے بھو کا چلا جائے ، یہ اس کی غیرت کو کسی طور گوارا نہیں۔ پنڈتوں، پروہتوں ، سادھوؤں سنتوں کے ساتھ اُس کی مذہبی عقیدت آخری حدوں کو چھوتی ہے۔ اُس کے خیال میں مذہب سے متعلق یہ طبقہ بھگوان کے بھگتوں کی حیثیت رکھتا ہے، ان کی خدمت نہ کرے یہ ناممکنات میں سے ہے

پریم چند کی افسانہ نگاری کے دوسرے دور سے تعلق رکھنے والا یہ افسانہ سواسیر گیہوں ، معاشرے کی معاشرتی ، معاشی اور مذہبی برائیوں کی نشان دہی اور ان کی اصلاح کی کوشش ہے۔

بقول ایک فاضل نقاد کے:| پریم چند نے اس افسانے میں بلا خوف و ہر اس اس مظلوم طبقے کی وکالت کی ہے جو ایک افلاس زدہ اور معاشی دباؤ سے پستے ہوئے بے روح طبقاتی معاشرے سے تعلق رکھتا ہے۔

اس معاشرے کے افراد اجتماعی شعور اور اخلاقی اقدار سے محروم ہیں،جس کی وجہ سے ان لوگوں کی شخصیتیں مسخ ہو گئی ہیں اور وہ انسانی ہمدردی اور انسان دوستی جیسے بنیادی انسانی رویوں سے عاری ہو گئے ہیں۔ روپیہ کے لالچ نے مہاجن کو جنم دیا۔

سرمایہ داری کا رواج دولت کی غیر مساوی تقسیم ہوئی اور ایک ہی معاشرہ کے افراد روحانی طبقوں میں تقسیم ہونے کے بجائے مادی طبقوں میں مقیم ہوگئے۔ پریم چند نے ان دنوں طبقوں کی ذہنیت کی عکاس افسانہ سواسیر گیہوں میں بڑی خوبصورتی سے کی ہے کہ سوا سیر گیہوں ، ایک ظالم مہاجن کی دولت آفرینی کی خود ساختہ ترکیب سے سات سالوں میں ساڑھے پانچ من بن گئے، مقروض زندگی بھر اس قرض کے اُتارنے کی اپنی سی کوششوں کے باوجود قرض نہ اُتار پایا۔

بیس سال کی مشقت اور ذلت آمیز غلامی کر کہ قرض اپنے اولاد کو منتقل کر گیا۔ فکر اور فی اعتبارسے افسانہ سواسیر گیہوں ایک بہترین افسانہ ہے، کردار نگٹ، وحدت تاثر اور افسانے کے پورے محاسن اپنے اندر کیے ہوئے ہیں۔ افسانہ سواسیر گیہوں کی زبان، سادہ، شستہ اور سلیس ہے۔ زبر دست تاثیر کی وجہ سے یہ افسانہ سواسیر گیہوں آج بھی اپنے قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اپنے بے پناہ تاثر کی وجہ سے پریم چند کی فن کاری پر زندہ دلیل ہے

اردو pdfs📖 کی دنیا

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں