افسانہ زندگی کا انمول سفر از ماہم اسلم

افسانہ زندگی کا انمول سفر

پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اس درخت کو دیکھنے گیا تھا۔

اس نے کہا۔ابا جان وہ درخت بہت بدصورت،جھکا ہوا اور ٹیڑا سا تھا۔دوسرے بیٹے نے کہا۔اے والدِ محترم وہ درخت تو ہرا بھرا تھا۔ہرے بھرے پتوں سے بھرا ہوا تھا۔تیسرے بیٹے نے ان دونوں بھائیوں سے اختلاف کیا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔

اور یہ کہ اس سے حسین منظر پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے سب بھائیوں سے اتفاق ظاہر کیا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھل سے لدا ہوا تھا اور ان پھل کے بوجھ کی وجہ سے وہ درخت زمین پر لگا ہوا تھا اور زندگی سے بھرپور نظر آ رہا تھا۔
اس سب کے بعد اس آدمی نے مسکرا کر اپنے چاروں بیٹوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔


بیٹے باپ کا جواب سن کر بہت حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹوں تم کسی بھی درخت یا آدمی کو صرف ایک موسم یا ایک حالت میں دیکھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔


کسی فرد کو جانچنے کے لئے تھوڑا وقت ضروری ہوتا ہے۔انسان کبھی کس کیفیت میں ہوتا ہے تو کبھی کس کیفیت میں۔اگر درخت کو تم نے جاڑے کے موسم میں بے رونق دیکھا ہے کہ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔اسی طرح اگر کسی آدمی کو تم فقیری کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آدمی برا ہی ہو گا۔

میرے بیٹوں کبھی بھی جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرو۔کسی کو اس وقت سمجھایا پرکھا جا سکتا ہے جب یہ تمام موسم اس کے اوپر گزر جائیں۔اگر تم سردی کے موسم میں ہی اندازہ لگا کر نتیجہ اخذ کر لو گے تو گرمی کی ہریالی۔بہار کی خوبصورتی اور بھرپور زندگی سے لطف اندوز ہونے سے رہ جاؤ گے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں