افسانہ حج اکبر کا فنی و فکری تجزیہ

حج اکبر کا تجزیہ نئی انداز میں۔پریم چند کے دوسرے افسانوی دور کا یہ افسانہ "حج اکبر بھی ایک اسلامی مقصدی افسانہ ہے، جو پہلی بار کانپور سے شائع ہونے والے رسالے زمانہ میں 1917ء میں شائع ہوا تھا اور دوسری مرتبہ پریم چند کے افسانوی مجموعے "پریم بتیسی کے دوسرے حصے میں اشاعت پذیر ہوا۔

یہ افسانہ پریم چند کے افسانوں کے عام موضوعات سے ہٹ کر گھر یلو مسائل پر بنی ہے اور پریم چند کی وسعت مطالعہ اور انسانی فطرت ، خاص طور پر نسوانی فطرت کے بظاہر سادہ مگر بڑے اہم مسائل کو ہمارے سامنے لاتا ہے، جو لوگ اپنی بعض مجبوریوں کے تحت گھروں میں ملازمت پر مجبور ہو جاتے ہیں ،

اُن کو بھی انسان سمجھنا اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں کے تحت مناسب عزت و احترام کا سلوک ان کا فطری حق سمجھ کر اُن کے اس حق کی ادائیگی اگر نہ کی جاسکے تو عنداللہ ماخوذ ہونے کے ساتھ ساتھ دینوری اعتبار سے بھی غیر محمد نعل ہے، دوسری طرف انہی معمولی اعمال کی بنا پر انسان نہ صرف عظیم بلکہ خدا کی خوشنودی کا حق دار بھی اعتبارسے قرار پاتا ہے۔

عباسی نامی ایک گھریلو ملازمہ اس کہانی کا مرکزی کردار ہے، جو حوادث زمانہ اور اپنی مجبوریوں کے تحت ایک گھر میں دایہ گیری پر مجور ہو جاتی ہے، صاحب خانہ، جو کوئی صاحب ثروت اور صاحب حیثیت نہ ہونے کے باوجود، اپنی معاشرتی سطح کی بلندی کے پندار میں بیوی کے مجبور کرنے پر اپنے بچے کی دیکھ بھال کے لئے عباسی کو ملازم رکھ لیتا ہے۔

عباسی کے دل میں اس بچے کے لئے ممتا اور مادرانہ جذ بات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ بچہ اور دایہ چند لمحوں کے لئے بھی ایک دوسرے کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے۔ عباسی پچھلے تین سال سے اس گھر میں ملازم تھی اور ان تین سالوں میں منشی صابر حسین اس کی کارکردگی سے نہ صرف مطمئن تھا بلکہ خوش بھی تھا۔

بچے کے ساتھ اس کی والہانہ محبت اور دیانت داری اور فرض شناسی کے احساس نے مالک خانہ کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا مگر اس کی بیوی شاکرہ نہ جانے کن جذبات کے زیر اثر عباسی کے خلاف رشک و حسد کے جذبات پال رہی تھی جواب اس کی رقابت اور عادوت میں ڈھل رہے تھے بچے کی خبر گیری کے ساتھ ساتھ بازار سے سودا سلف لانا بھی اس کی ذمہ داری تھی اور یہی وہ پہلو تھا جو گھر کی مالکہ اور گھر کی نوکرانی کے مابین غلط فہمیوں کو جنم دے رہا تھا۔ شاکرہ کے خیال میں بچے کے ساتھ عباسی کا بڑھتا ہوا لگاؤ اس کی آنکھوں کا کانٹا تھا۔

بات بات پر پوچھ گچھ ڈانٹ ڈپٹ اور تذلیل تحقیر کے باوجود عباسی کا گھر میں ٹکے رہنا شاکرہ کے شکوک کی تقویت کا باعث بن رہا تھا۔

بازار سے واپسی پر وہ عباسی جے ایک ایک عمل اور فعل کو دیکھنا جانچنا اور رکھنا پھر سوالوں کی بھر مار اُس کے اس حاسدانہ رویے کی غمازی کرتی ہے۔ایک روز سوئے اتفاق سے دایہ کو سودا سلف خرید کر گھر واپسی میں ایک انتہائی معمولی کو تاہی کی وجہ سے تاخیر ہوگئی

تو شاکرہ کی جھلی کٹی سن کر اور ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اظہار ندامت کو شرف قبولیت نہ ملنے پر افسردگی اور ندامت کے زیر اثر جان چھڑانے کے خیال سے اس نے عافیت اسی میں جانی کہ نصیر (بچے) کو گود لے کر منظر سے ہٹ جائے، مگر شاکرہ نے سختی کے ساتھ بچے کو ہاتھ ہی لگانے سے روک دیا۔ عباسی بچے کو گود میں اٹھا چکی تھی مگر ماں نے یہ کہہ کر بچہ اس کی گود سے نوچ لیا کہ تمہارا یہ مکر کئی دنوں سے میرے مشاہدے میں ہے

یہ تماشے کسی اور کو دکھانا۔عباسی نے اس واقعے کو بھی روزمرہ کی تکرار و حجت بازی اس قدر بڑھ گئی کہ اُسے خود ہی گھر کو اور خاص طور پر بچے کو چھوڑ کر روتی ، آنسو بہاتی اور بچے کو آخری بار پیار کرنے کی حسرت لئے گھر سے چل پڑی۔ بچے نے باہر کے دروازے تک دایہ کا پیچھا کیا، بلک بلک کر اسے پکارتا رہا لیکن شاکرہ بیگم کا دل نرم نہ ہوا ۔ ماں نے بچے کو بہلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ بلکتا ، سسکتا ہو گیا ۔

کئی دنوں تک وہ عباسی کو پکارتا رہا مگر سکون نہ پاسکا۔ شاکرہ بیگم نے نئی دایہ ملازم رکھ لی مگر نصیر اُس سے مانوس نہ ہو سکا ۔ بالآخر بیمار ہو گیا، دوادارو کے باوجود نصیر کی حالت نہ سدھری اور حالت دگرگوں ہوتی گئی۔ ادھر عباس اپنے گھر چلی تو گئی مگر نصیر کا خیال بار بار اسے پریشان کر رہا تھا۔ اس کی باتیں ، اس کی مسکر اہٹیں ، اس کی تو تلی زبان اور لڑکھڑاتی چال ، اس کی آنکھوں کے سامنے آکر اس کو بے حال کر دیتی ۔

اس حال میں اس کے دو ہفتے گزر گئے، یہ حج پر جانے کا زمانہ تھا، محلے کے کچھ لوگ حج پر جانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے، اسے پرانی یادوں کو بھلا دینے کا یہ ایک بہانہ مل گیا اور وہ حج کے سفر پر جانے کی تیاریاں کرنے لگی۔ آخر روانگی کا دن آپہنچا۔ کچھ لوگ جاتے سے اپنے معاملات دوسروں کے حوالے کر رہے تھے اور ان میں سے بعض تسبیح تحلیل میں مصروف تھے۔

عباسی بھی گاڑی میں بیٹھی ان لوگوں کا جائزہ لے رہی تھی کہ اس مبارک روحانی گھڑی میں بھی دنیاوی معاملات میں اُلجھے ہوئے تھے۔ معا” اسے نصیر کا خیال آیا اور اسے احساس ہوا کہ اگر آج نصیر یہاں ہوتا تو یقینا میری گود سے کسی طرح نہ اُترتا اور مجھے بھی اسے چھوڑ کر جانا مشکل ہوتا ۔

پھر اسے صابر حسین پلیٹ فارم پر سائیکل سمیت نظر آیا، ان کا منہ سکڑا ہوا تھا اور کپڑے پسینے سے تر تھے۔ عباسی یہ دکھانے کے لئے کہ وہ بھی حج پر جارہی ہے، گاڑی کے ڈبے سے باہر نکل آئی ۔

صابر حسین پک کر آگے بڑھے اور پوچھا: کیوں عباسی تم بھی حج پر چلیں؟ عباسی نے ہاں میں جواب دیا ۔ گھر کا حال احوال پوچھا اور نصیر کے بارے میں پوچھا کہ کیسے ہیں؟ جواب میں صابر نے بتایا کہ جس دن سے تم گھر چھوڑ کر آئی ہو، وہ تمہاری یاد میں کچھ عرصہ تو بے حال رہا، پھر بیمار پڑ گیا۔ کسی طور طبیعت سنبھل نہیں پارہی ۔

خیال کیا تھا کہ تمہاری منت سماجت کر کے واپس لے جاتا ہوں ، شاید تمہیں پا کر اس کی طبیعت سنبھل جائے۔ مگر گھر آیا تو معلوم ہوا کہ تم حج پر جارہی ہو ۔ ان حالات میں اگر تم کو کار خیرے سے روکتا ہوں تو یہ خود غرضی ہوگی ۔

جاؤ خدا حافظ اللہ کومنظور ہوگا اور زندگی ہوگی تو بچ جائے گا ، ورنہ مشیت ایزدی سے کیا چارہ۔پروفیسر ڈاکٹر عبید اللہ اس افسانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یہ افسانہ، پریم چند کے دوسرے دور کا ایک اصلاحی افسانہ ہے، جس میں مصنف نے انسانی عظمت اور اسے پہچاننے کا درس دیا ہے، اور یہ بتایاہے کہ نیکی اور خلوص کا انحصار، دولت یا مرتبہ کسی خاص فرد کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ یہ جوہر ایک ایسی خوبی ہے جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے۔

اس لئے کوئی نوکر ہو یا ماتحت مفلس ہو یا نادار کسی سے نفرت نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی کسی کو خود سے کم تر خیال کرنا چاہیے، بلکہ انسانی اقدار کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھنا چاہیے۔

اس افسانے میں گھر کی آیا اور بچے کی دائیہ عباسی اس افسانے کا ایسا ہی کردار ہے جو اپنے پیار توجہ خلوص اور محبت سے معصوم نصیر کا دل موہ لیتی ہے۔ بچے کی ماں حسد و بغض اور حسد رشک وعداوت کے جذبے کے تحت عباسی کو خفگی کے عالم میں گھر سے نکال باہر کرتی ہے۔

عباسی کا دل تو اس صدمے کو برداشت کر ہی لیتا ہے۔ مگر بچہ اس کی جدائی میں نڈھال ہو جاتا ہے، بیماری کے عالم میں ہر وقت اسے پکارتا اور آنا آئی ، انا آئی کہہ کہہ کر اپنے معصوم دل و دماغ کو نسل دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔

عباسی بچے کی پیماری کا سن کرحج پر جانا ملتوی کر دیتی ہے اور روانگی کے لیے گاڑی میں بیٹھی نصیر کی حالت زار کا سن کر واپس چلی آتی ہےاور اپنے پیار محبت اور شفقت بھرے سلوک سے اُس کی جان بچالیتی ہے۔

پریم چند عباسی کی اس قربانی اور پیار کو حج اکبر” کا نام دیتے ہیں، ان کا پیغام یہ ہے کہ کسی نوکر کوکم تر حقیر یا ذلیل سجھنا واقعی انسانیت کی تو ہین ہے۔افسانے کے مرکزی کردار عباسی کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک فاضل مصنف فرماتے ہیں:عباسی کا کر دار گھر اور خاوند سے محروم عورت کا نمایندہ کردار ہے، جس کی تمام تر محبتیں خلوص اور مامتا کا اظہار چاہتی ہیں۔

وہ اپنے باطن کی کمیوں کو پورا کرنے کی خواہاں ہے۔ وہ ان سب کے اظہار کے لئے نتھے نصیر کو سہارا اپناتی ہے۔ عباسی کے کردار میں مشرق کی بے سہارا خواتین کا عکس نظر آتا ہے۔ ایسی پر خلوص خواتین ہمارے معاشرے میں بی افراط ملتی ہیں جن کی محبت خالص ہے، مگر ان کی محبت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

عباسی کے کردار میں مشرق کے ان ملازمین کا عکس بھی جھلکتا ہے، جو اپنے مالک کے لئے نہ صرف مادی سطح پر بلکہ روحانی سطح پر بھی خود کو وقف کر دیتے ہیں۔ عباسی کے کردار کا ایک پہلو انسانی سرشت کا غماز ہے۔کو بھی سامنے لاتا ہےافسانے کا پلاٹ سادہ مگر بھر پور ہے ۔ گو اس پلاٹ کے کردار مختصر ہیں مگر اپنی اپنی جگہ مکمل ہیں۔

افسانے کا انداز جذباتی ہوتے ہوئے بھی سطحی ہرگز نہیں بلکہ اس میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ بھی موجود ہے۔افسانے میں عورت کی مامتا کو عظیم روپ میں دکھایا گیا ہے کہ وہ کعبہ کی زیارت پر بچے کی محبت کو ترجیح دیتی ہے اور وہ ایک بچے کی جان بچا کر یقینا حج اکبر کے ثواب کی مستحق ٹھہرتی ہے۔

افسانہ "حج اکبر کے اُسلوب پر ڈاکٹر اور نگ زیب عالمگیر کا یہ تبصرہ ملاحظہ کیجیے:پریم چند کے اسلوب کی ایک خصوصیت ، شعوری کوشش سے زبان و بیان کو سادہ اور عام فہم رکھنا ہے، مگر کہیں کہیں کسی نہ کسی افسانے میں پریم چند ترنگ میں آکر شاعرانہ بیان اور عبارت آرائی پر اتر آتے ہیں۔

اس کی ایک مثال اس افسانے میں بھی دیکھنے کوملتی ہے، جہاں پریم چند، بوڑھی دایہ عباسی کی زندگی قاری کے سامنے پیش کر رہے ہیں، وہ شاعرانہ نثر اور عبارت آرائی کینہایت اچھی مثال ہے۔

اور پریم چند کے فن اور طبیعت کے ایک خفیہ پہلو کو ہمارے سامنے لاتی ہے، وہ لکھتے ہیں : عباسی دنیا میں اکیلی تھی کسی زمانے میں اس کا خاندان گلاب کا سرسبز و شاداب درخت تھا، مگر رفتہ رفتہ خزاں نے سب پتیاں گرادیں۔ بار حوادث نے درخت پامال کر دیا اور اب یہی ایک سوکھی ٹہنی ہرے بھرے درخت کی یادگار باقی تھی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں