افسانہ آخری چیخ ” | از ایم ایس سیف

یہ گرمیوں کی ایک بوجھل شام تھی۔ بستی کے تمام لوگ سردار کے ڈیرے پر بیٹھے اپنے اپنے مسائل کا رونا رو رہے تھے۔ کسی کو گھرکی کوئی پریشانی تو کوئی فصلوں کو لیکر افسردہ۔ کوئی روزگار کے لئے پریشان تو کوئی بیماریوں سے بیزار۔ غرض ہر فرد اپنی رام کہانی سناتا جارہا تھا۔ اتنے میں سبز علی ہانپتا ہواڈیرے پر آن پہنچا۔ اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ سب کی نظریں بے اختیار اس کی طرف راغب ہوئیں۔

* سبز علی نے نیلے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ قد درمیانہ اوراچھے ڈیل ڈول ولا آ دمی تھا۔ پسینے میں شرابور اور سانسیں اکھڑی ہوئی تھیں۔ ایسے لگتا تھا جیسے میلوں بھاگ گر آیا ہو۔ سردار نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نوکر سے کہا کہ اسے پانی دے۔ سبز علی جب پانی پی چکا تو سردار نے اس سے حال پوچھا۔ تو اس نے سارا قصہ ایک ہی سانس میں سردار کو بیان دیا ۔

وہاں موجود سب لوگوں کے چہروں پر حیرت و سنجیدگی کے ملے جلے آثار واضح طور پر نمایاں گئے۔* سبز علی کے پیچھے پولیس لگی ہوئی تھی۔ وہ مختلف مقدمات میں اسے مطلوب تھا۔ چوری، ڈکیتی، موبائل سنیچنگ اور راہزنی جیسے متعدد مقدمات اس کے سر تھے۔ مگر وہ روپوش ہونے کے باعث ابھی تک پولیس کے ہتھے نہیں چڑھا تھا۔

آج پورے دو سال کے بعد گھر آیا تو کسی چاہنے والے نے پولیس کو اطلاع کردی۔پولیس تو جیسے اس کی ہی منتظر تھی فورا” نکل پڑی ، سبز علی کو بھی خبر ہوگئی اس لیئے گھرسے بھاگنا پڑا ۔ چونکہ شام ہو چکی تھی تو اس نے سوچا کہ ساتھ والی بستی میں کافی عزیز رشتہ دار موجود ہیں کسی کے ہاں رات گزار لے گا، ایک ہی رات کی تو بات تھی۔*

سردار کے گھر میں سبز علی کی پھوپھی بیاہی ہوئی تھی۔ مگر سردار کہ بیٹیاں جواں ہونے کے باعث اس نے سبز علی کو گھر لے جانےسے معذرت کرلی۔ اگرچہ اس کا بیٹا جلال خان اپنے والد کے رویے پر کافی ناراض ہوا۔ وہ سبز علی کو گھر لے جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس کے سگے ماموں کی اولاد تھا مگر اپنے باپ کے آگے اس کی ایک بھی نہ چلی۔

ہیبت خان سردار کا بھتیجا اور جلال خان کا چچا ذاد بھائی تھا۔وہ یہ سب منظر خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور اپنے چچا کے رویے پر کافی نادم تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر سبز علی کو اپنے گھر چلنے کی دعوت دی۔ وہ محض جلال خان کی عزت رکھنے کی خاطر اس کے ماموں کے بیٹے کو گھر لے جانے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ اس طرح وہ اسے اپنے ساتھ گھرلے گیا۔

*ہیبت خان اور جلال خان کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی۔ رشتے میں وہ چچا زاد بھائی تھے مگر ان کی دوستی کے آگے رشتے کی اہمیت ماند پڑ جاتی تھے۔ علاقےبالخصوص بستی کے لوگ ان کی دوستی پر رشک کرتے تھے۔ اس لئے ہیبت خان نے جلال خان کو مجبور دیکھ کر اس کے ماموں زاد کو اپنے گھر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سردار اور سبز علی کے والد کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ چھتیس کا آنکڑہ تھا دونو ں کا۔ اس لئے سردار ان سب کو نا پسند کرتا تھا۔ اور نہیں چاہتا تھا کہ ان کے ساتھ آنا جانا ہو۔*

سبز علی جونہی گھر میں داخل ہوا اس نے ہیبت خان کے گھر کا جائزہ لینے کی غرض سے نگاہ گھمائی تو صحن میں ایک طرف چار پائی پر ایک بوڑھی عورت لیٹی ہوئی تھی۔ جو ہیبت خان کی ماں تھی۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون ہانڈی پکا نے میں مصروف تھی جو ہیبت خان کی بیوی تھی۔پھر اچانک اس کی نظر بکریوں کو چارا ڈالتی ہوئی ماہ رخ پر پڑی۔ بس پھر تو جیسے اس پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔

شاید اس نے اس جیسی حسین لڑکی زندگی میں نہیں دیکھی تھی۔ وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا کہ اچانک ماہ رخ کی نگاہ بھی اس پر پڑی تو وہ بھاگ کے اس کچے کمرے کے اندر غائب ہو گئی جس میں اس کی بھابھی رہتی تھی۔سبز علی کو بیٹھنے کے لئے چارپائی مہیا کی گئی اور ہیبت خان اس کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لئے سامان لینے چلا گیا۔

* ماہ رخ، ہیبت خان کی سب سے چھوٹی بہن تھی اور ابھی تک کنواری تھی۔ نام کی طرح وہ سچ مچ بہت خوبصورت تھی۔ درمیانہ قد، گلابی رنگت، باریک ہونٹ اور گالوں کی سرخی بھی عیاں تھی ۔ آنکھیں موٹی اور سیاہ۔ اور لال رنگ کے لباس میں تو وہ جیسے دلہن ہی دکھائی دے رہی تھی۔*

سبز علی نے جب سے اسے دیکھا تھا اسی کے خیالوں میں گم ہو گیا تھا۔ ہیبت خان کب سامان لیکر لوٹا، کب کھانا تیار ہوا اور کب سبز علی نے کھایا ، اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ رات کو سبز علی کے لئے چائے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

جب چائے دینے کا وقت آیا تو ہیبت خان کو باہر سے کسی نے آواز دی تو وہ چلا گیا۔ اس کی بیوی نے ماہ رخ کو چائے پیش کرنے کے لئے بھیجا تو سبز علی نے اس ماہ رخ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ تواس نے جلدی سے چھڑایا اور بھاگ نکلی۔ مگر دل ہی دل میں وہ بہت خوفزدہ ہوئی کہ اگر بھابھی یا بھائی میں سے کوئی دیکھ لیتا تو اس کا کیا بنتا۔

مگر ساتھ ساتھ وہ اس بات سے پریشان بھی ہورہی تھی کہ سبز علی نے یہ حرکت کیوں کی؟*رات کو جب سب لوگ سوگئے تو سبز علی نے صحن میں پڑی چار پائیوں کا اچھی طرح جائزہ لیا اور ماہ رخ کی چار پائی کا تعین کرنے کے بعد اطمینان سے سرہانے پر سر رکھ کر گہری سوچ میں گم ہوگیا۔

جبکہ ماہ رخ اس سب سے بالکل بے خبر اپنی چارپائی پر سکون کی نیند سو رہی تھی۔ رات تقریبا” ایک بجے کے لگ بھگ ماہ رخ کو نیند میں اچانک جھٹکا لگا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں مگر اس خوف کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ سبز علی اس کے سرہانے کھڑا اسے تک رہا تھا اور اسے چھونے کے بالکل قریب تھا۔

وہ یہ سب دیکھ کر ہڑبڑا گئی اور اس پر خوف سے لرزہ طاری ہو گیا۔ کہ اگر ان دونوں کو اس طرح اتنے قریب کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔ پھر وہی ہو جس کا ڈر تھا۔

سبز علی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ *وہ چیخ ماہ رخ کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوئی۔ کیوں کہ اس کی چیخ سن کر اسکے بھائی ہیبت خان سمیت گھر کے سب لوگ جاگ اٹھے اور سب نے سبز علی کو بد نصیب ماہ رخ کا ہاتھ پکڑے ہوئے دیکھ لیاتھا۔ہیبت خان کے سر پر جیسے بجلیاں گرگئی تھیں ۔

اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ جس سبز علی پر وہ احسان کر کے اپنے گھر لے آیا تھا در حقیقت اس کا مقصد اس کے گھر کی عزت پامال کرنا تھا۔

بس پھر کیا تھا اس کے دماغ میں لاوہ ابلنے لگا اور غیرت نے جوش مارا تووہ اٹھا اور سبز علی کے ساتھ گتھم گتھا ہو گیا ۔ سبز علی جان چھڑا کر وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا کہ اسی دوران اچانک جلال خان نمودار ہوا جو ان کے شور کے باعث اپنے گھر سے بھاگتا ہوا اس طرف آیا تھا۔

جب اس نے ہیبت خان اور سبز علی کو لڑتے دیکھا تو اس نے فورا” سبز علی کو کس کر پکڑا اور نیچے پٹخ دیا۔ اتنے میں ہیبت خان کی ہاتھ ایک لاٹھی آگئی تو اس نی سبز علی پر اندھا دھند کئی لاٹھیاں ایک ساتھ برسا دیں۔ جلال خان نے بھی اپنے یار کا ساتھ دیتے ہوئے سبز علی کی خوب دھلائی کی۔

بھلے وہ اس کا ماموں زاد تھا مگر اسے اپنے میزبان کے ساتھ اس کے گھر میں ہی لڑتا دیکھ کر جلال خان کو بھی اس پر غصہ آیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ہیبت خان بلاوجہ ایسا اقدام نہیں اٹھا سکتا ضرور سبز علی نے کوئی حرکت کی ہوگی۔ اتنے میں بستی کے لوگ بھی شور سن کر ان کے گھر کے آس پاس جمع ہو گئے اور چند منٹوں میں سب کو معلوم ہو گیا کہ جھگڑا کیوں ہو رہاہے اور کیا معاملہ ہے۔*

جلال خان کے پوچھنے پر ہیبت خان نے اسے آنکھوں دیکھا سارا واقعہ بیان کر دیا تو جلال خان کو بھی سبز علی کے کئے پر شرمندگی ہوئی مگر اس سے زیادہ اسے غصہ چڑھا ھوا تھاکیوں کہ ماہ رخ اس کے چھوٹے بھائی کی منگ تھی اور دو ماہ بعد ان کی شادی ہونے والے تھی۔

اس لحاظ سے سبز علی نے ان کی بھی عزت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ دونوں نے ملکر سبز علی کو ایک رسی سی باندھ کر زمین پھینک دیا۔تب جلال خان نے ہیبت سے سوال کیا کہ اب کیا کرنا ہے تو ہیبت خان نے جواب دیا "وہی جو ہمارا رواج ہے” کالے اور کالی کو مارنا ہے۔۔۔۔* یہ سن کر ماہ رخ تو دھڑام سے گری اور بے ہوش ہو گئی۔

اس کی بوڑھی ماں جو کافی زیادہ ضعیف تھی کانپتی اور لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھی اور بیٹے کو تھپڑ رسید کیا جس کی آواز پورے گھر میں گونج اٹھی ساتھ ہی چلائی کہ "میری بیٹی بے گناہ ہے ۔۔۔میری بیٹی بے گناہ ہے۔۔۔اس کا کوئی قصور نہیں۔۔۔اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔۔۔۔تمہیں اللہ کا واسطہ میری بیٹی کو چھوڑ دو۔۔۔میری بیٹی کو چھوڑ دو۔۔۔۔”

روتے روتے اس پر لرزہ طاری ہو گیا۔۔۔۔جلال خان نے ہیبت سے کہا کہ اس بوڑھی کی باتوں میں آکر اپنی غیرت کو داو پر مت لگا دینا اور جو بھی کرنا ہے جلدی کرو کہیں تمہارا ارادہ نہ بدل جائے۔

ہیبت خان جو اپنی بہن اور ماں کی حالت دیکھ کر کسی گہری سوچ میں گم تھا اچانک غصے سے لال ہوتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔بس پھر کیا تھا۔۔۔اس نے آو دیکھا نہ تاو ۔۔۔۔۔کلہاڑی اٹھائی اور ایک طرف بندھے ہوئے سبز علی پر پے درپے کلہاڑیوں کے اتنے وار کئے کہ اس کا سر تن سے جدا کر ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔

۔اس کے بعد وہ رکا نہیں بلکہ سیدھا ماہ رخ کے سر پر پہنچا اور بغیر سوچے سمجھے کلہاڑیوں کے وار سے اس کے سر کو دھڑ سے جدا کر دیا۔۔۔یہاں تک کے اس بد نصیب کو چیخنے تک کا موقع نہ ملا اور وہی چیخ جو سبز علی کے ہاتھ پکڑنے کے وقت اس کے منہ سے نکلی تھی اس کی” آخری چیخ”ثابت ہوئی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں