افسانہ ” دیودار کے درخت” کا تنقیدی جائزہ | تحریر ڈاکٹر بیگم جافو

دیودار کے درخت، مجموعہ ستاروں سے آگے کا پہلا افسانہ ہے جو تیرہ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ایک رومانٹک کہانی ہے جو ٹرجیڈی میں بدل جاتی ہے۔ یعنی یہ رومانوی قصہ ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔

کہانی کے کردار میڈم لوریزز، رباب، زریں، خالدہ، جاوید، خالد، لیڈی مودی، راوی میں/مصنفہ )، امی، اجیت گھوش اور بوڑھے حفیظ کہانی میں یکے بعد دیگرے نمودار ہوتے ہیں۔ افسانے کا آغاز غضب کی منظر کشی سے ہوتا ہے ۔

اقتباس دیکھیے :

” نیلے پتھروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی جنگلی نہر کے خاموش پانی پر تیرتے ہوئے ، دیوداروں کے سائے بیتے دنوں کی یاد کے دھند لکے میں کھو کے مٹتے جا رہے ہیں ۔”

دیودار کے درخت کی کہانی یہ ہے کہ خالدہ پڑھنے کی شوقین ہے ، رباب کھانا بنانے میں ماہر، زریں رقص اور پیانو کی دلدادہ اور میں مصور – ان چاروں کی جان کا ٹکڑا کراؤن پرنس کہیں کھو جاتا ہے۔ چاروں کی اس کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ کراؤن پرنس کے ساتھ دو dashing لڑکے بھی ملتے ہیں ۔

وہ جاوید اور اجیب گھوش ہیں۔ کراؤن پرنس کی طبیعت ناساز ہو جاتی ہے اور دوسری طرف خالدہ جو مصنفہ کی خالہ زاد بہن ہے اس کو سخت زکام ہو جاتا ہے۔ دونوں کی مزاج پرسی کے واسطے نیلی آنکھوں والا جاوید ان کے گھر آتا ہے۔ خالدہ کو اس کی نیلی آنکھوں کے علاوہ یہ ادا بہت پیاری اور اچھی لگتی ہے۔ وہ جب بھی طبیعت دریافت کرنے کے غرض سے آتا ہے تو اس سے بہت ساری باتیں کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ باتیں رنگ لانے لگتی ہیں ۔

پھر ایک اندھے لڑکے نے تیر چلا کے تینوں کو زخمی کر دیا۔ یہ تیسری شخصیت اس افسانے کی راوی بے بی یعنی "میں” ہے۔ خالدہ کو اندھے لڑکے کی یہ حالت ناگوار گزرتی ہے۔ خالدہ اور بے بی میں ہلکی سی رنجش اور رقابت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بہر حال بے بی کا ایثار سب درست کر لیتا ہے۔ جاوید کہیں دور نکل جاتا ہے اور دونوں میں صلح ہو جاتی ہے۔ اس صلح میں کے ایک مزا بھی ہے کیوں کہ یہ جنگ کے بعد ہوئی ہے۔

اس افسانے کا آغاز اور اختتام دونوں فکر انگیز ہے۔ اپنے کسی عزیز دوست کی خاطر اپنی محبت کی قربانی دے دینا ادب کا سدا بہار موضوع رہا ہے۔ مصنفہ نے یہ روایتی موضوع بڑی شگفتگی سے برتا ہے اور کامیاب بھی رہی ہیں۔ کہانی میں فطرت کے حسین مظاہر اور محبت کے بڑے لطیف اشارے مثلاً

"دنیا روز بروز زیادہ خوبصورت اور خوش گوار ہوتی جا رہی ہے”۔

بڑی نفاست کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ برتاؤ میں ایک نزاکت اور زبردست ایمائیت ہے۔ واقعات کا ارتقا ایک ترتیب سے ہوتا ہے۔ بین السطور میں آدرش واد کی اہمیت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

افسانے میں تہہ داری بھی ہے اور ایک راز بھی۔ ہیرو اور ہیروئن بظاہر جاوید اور خالدہ ہیں لیکن بے بی محض ہیرو ہیروئن کے درمیان ایک واسطہ نہیں بلکہ خود ہی ہیرو کے ساتھ ایک غیر محسوس رشتہ الفت میں بندھی ہوئی ہے جس کی آگہی بھی پس پردہ دونوں ہی کو ہے۔ پھر بھی بے بی قربانی دے کر خالدہ اور جاوید کے رومان کو کامیاب بنانے میں کوشاں رہتی ہے۔ مگر نتیجا جاوید فرار ہو جاتا ہے۔ یہ افسانہ نہایت معلوماتی بھی ہے۔

جزئیات نگاری کی بہتات ہے۔ گیت یا نغمے کا ذکر ہوتا ہے جیسے کہ(we meet in the valley of moon)موسموں کا ذکر ہوتا ہے۔ جیسے کہ بارش، طوفان اور آندھی دیودار اور چنار کے درخت، پھلوں کی قسمیں مثلاً ناشپاتی ، خوبانی ، آڑو، چنار، اخروٹ اور بادام، نیلوفر کا پھول، جذبی کی نظم کا ذکر ، او دے شنکر اور رام کو پال کے سرتال ، موسیقی اور رقص، پیاند ، کتاب Just Flesh فورڈ (Ford) گاڑی، مانک پوری ناچ، Sports Sound جیسے کہ اسکیٹنگ ، آئس ہاکی ، مختلف علالت مثلا زکام، بران کائٹس، بخار،

سائیکالوجیکل علاج اور ملیریا پر ریسرچ وغیرہ۔ کتا پالنے کا شوق اور مصوری جیسے مشاغل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سیدھی سادی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ چست اور معنی خیز محاورات و مکالمات مستعمل کیے گئے ہیں۔ شعور کی رو کی تکنیک نے ماضی اور حال کے واقعات کو اس طرح پیوست کر دیا کہ سانے میں تجس کا عصر پیدا ہو گیا۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ خود کلامی کا جادو ہر جگہ چھایا ہوا ہے۔

مصنفہ نے یہ بھی دکھایا کہ لڑکیاں لڑکوں سے کم شرارتی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر جاوید کا نام رکھا گیا ہے۔ Mosquito Bite Producer‏دیودار کے درخت میں انگریزی الفاظ کی بہتات ہے۔ مثلا ولا (Villa)، ٹین (Tin)،‏ مناخ ، )Stylish( اسٹائلش ، )Mood( موڈ ، )Flu( فلو ، ) Cover ( کور ، )Tune( نیون ‏)Type( ٹاپ ڈیئر (Dear) ، لان (Lawn) ، امپیرن (Apron) ، ا رف Scarf) ، آرٹسٹ (Artist)، ڈیڈی ‏)Hand bag( ہینڈ بیگ ،)Post) (office( پوست آئس )Urgent( ارجنٹ ،)Daddy(‏ وغیرہحد تو یہ ہے کہ کچھ الفاظ فقرے اور جملے انگریزی رسم الخط میں ہی لکھے گئے ہیں۔

جیسے An‏ ‏Are we trespassing’ ‘Dog’s biscuits’ ‘Housewife absolute trash‏فرانستیں الفاظ شاطئ یعنی گل اور – Perfect heart throbs” اور "Dashing‏ نگہبان اتالیقہ کے استعمال سے قرة العین کے فرانسیسی ادراک کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

حالاں کہ انھوں نے انگریزی زبان سے خوب استفادہ کیا ۔ البتہ انھوں نے بجلی کے چولھے، قہوہ اور دار العمل جیسے الفاظ کا استعمال کر کے اس بات کا بھی ثبوت دیا کہ ان کا اردو زبان سے بے حد لگاؤ ہے۔اس افسانے کو اس مجموعے کا بہترین افسانہ کہا جاسکتا ہے۔ اگر اس کا آغاز معنی خیز ہے تو انجام فکر انگیز – آغاز و انجام کے درمیان ایک رومان جنم لیتا ہے۔

اور ایک المیے پر ختم ہوتا ہے۔ دیودار کے سائے میں جنم لینے والا ایک چھوٹا سا افسانہ نامکمل رہ جاتا ہے۔ تا ہم قرۃ العین حیدر کی اس کہانی کو شاہکار بنا دیتا ہے۔

اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء ( پہلا دور دوسرا دور تیسرا دور)

قرة العین حیدر کی افسانہ نگاری : ایک تنقیدی مطالعہ مقالہ برائے پی ایچ ڈی جامعہ ملیہ اسلامیہ، مقاله نگار نازیہ بیگم جافو

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں