اسلوب کی جذباتی صفات مکمل تفصیل

کتاب کانام ۔۔۔ اسالیب نثر اردو
کوڈ نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5609
صفحہ نمبر ۔۔۔۔۔۔۔ 17 تا 28
موضوع ۔۔۔۔۔۔۔ اسلوب کی جزباتی صفات
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔۔ عارفہ راز

اسلوب کی جذباتی صفات

زرو بیان -1

گداز -2

بذلہ سنجی -3

اسلوب کی جذباتی صفات کے بیان میں سید عابدعلی عابد امتیازات نظم ونشر واضح کرتے ہیں۔ نر اور نظم یا نثر او شعر میں فرق یہ ہے کہ جہاں محرکات ایسے جذبے ہوتے ہیں جو شدید ہوں اور جونر کی زبان میں اچھی طرح ادا نہ کئے جاسکیں ان کے لئے شعر کا قالب اختیار کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے مرزا رسوا کی مثال دی ہے کہ رسوا نے مرقع لیلی مجنوں نظم میں لکھا۔ یہ اگر چہ رسوا کی تصنیف ہونے کے اعتبار سے ہمارے لئے لائق احترام ہے مگر اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔

امراؤ جان ادا کا مصنف اگر لیلی مجنوں کی داستان کو نثر میں لکھتا ہے تو شعر منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ بات وہی ہے کہ مرقع لیلی مجنوں سے رسوا پر کوئی ایسا جذ بہ طاری نہیں تھا، جو تصنیف کو شعر کی خوبی اور دلکشی عطا کرتا۔
یہ بات لازم ہے کہ جب تک بہ اتنا شدید ہو کہ نر اس کی متحمل نہ ہو سکے وہ شعر کے قالب میں نہیں ڈھلے گا۔

اور نثر کے متعلق کہا گیا ہے کہ:
کسی فکر یا خیال یا اس کے سلسلے کو صحت نام میں ادا کرنے کے لئے نثر کا دامن تھامنا ضروری ہوتا ہے اور جہاں جذبہ خالص اعتبار سے ذاتی نہیں ہوتا وہاں نثری کام آتی ہے۔ مثلاً طنز میں یہ نشری کا کام ہے کہ وہ نشتر چھو چھو کر معاشرے کے ناسور دکھائے اور پھر ان کا مداوا بھی کرے۔ ہجو طنز سے ایک مختلف شے ہے وہ نظم کے قالب بھی ڈھل سکتی ہے کیونکہ اس میں شخصی ہو بھی شامل ہے اور شخصی واردات کی شدت کا عنصر بھی۔
نثر کی ایک اور صفت یہ متعین کی گئی ہے کہ وہ انسان کے اعمال کے متعلق فیصلے صادر کرتی ہے حکم لگاتی ہے اس کی زبان انصاف کی زبان کی طرح صحیح باوقار اور تعین ہوتی ہے۔ اسی طرح جب نظر کسی شاعر یا شا کی ترجمانی کرتی ہے تو وہ فیصلہ بھی صادر کرتی ہے لیکن اسی عمل میں تخلیق بھی ہوتی ہے۔ نثر بھی جذبات کو اکساتی ہے اور یہی اس کے تخلیقی ہونے کی کسوٹی ہے
آگڈن نے زبان کے استعمال کے دو طریقے بتائے ہیں۔

ایک تحویلی طریقہ دوسرا جذباتی طریقہ تحویلی طریقہ افکار اور اشعار کا حوالہ دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور جذباتی طریقہ اس غرض سے اختیار کیا جاتا ہے کہ ان افکار و اشیاء سے جو جذبات یا احساسات ہوتے ہیں ان کو بروئے کار لایا جائے۔ سائنس اور نثر کی زبان تحویلی ہوتی ہے اور شاعری کی زبان جذباتی نظم و نثر کی زبان کی اس بحث کو عابد علی عابد سمیٹتے ہیں۔

ان تمام باتوں کے عرض کرنے کا مقصود یہ تھا کہ آپ شعری تجربے کو نثری تجربے سے بنیادی طور پر مختلف نہ سمجھیں۔ فرق بس یہ ہے کہ نظم یا شعر میں جذبات شخصی و واردات قلبی (مختصرا جہاں جذ بہ قوی تر محرک ہوتا ہے ) میں شاعر کو مجبورا اس آهنگ قدسی کا سہارا لینا پڑتا ہے جسے شعر کہتے ہیں۔

لیکن جہاں منطق سے لے کے جمالیاتی انقاد اور ناول نویسی یا مخصر افسانہ نگاری کی تخلیقی نثر یک فن کار کو اپنے متنوع اور بعض اوقات غیر شخصی جذبات کو زبان عطا کرنا ہوتی ہے وہ وہاں نثر کا دامن تھامتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صفات جو جذ باتی اعتبار سے خاص طور پر شعر سے منسوب ہیں یعنی:

1 – زور کلام، 2 گداز، 3 مزاح، نثر و نظم دونوں میں یکساں مقدار میں پایا جاتا ہے۔ زور کلام اور گداز کا نٹر میں سے تم ہو جانا ضروری نہیں ۔ صرف یہ دیکھنا ہے کہ فن کار کس حد تک جذبے کے عوامل شدید و حرکات توی سے متاثر ہوتا ہے۔

اسلوب کی صفات تخیلی

اسلوب کی صفات تخیلی میں تقسیم خیال افروزی اور تصوریت کو شامل کیا گیا ہے۔

مشرق و مغرب کے کمتر دان اس بات پر متفق ہیں کہ تخلیق کے عمل میں جو چیز محرک کے طور پر عمل پیرا ہوتی ہے وہ تخیل ہی ہے۔ تخیل پیکر تراشا ہے، ان دیکھی اشیاء کے لئے علامتیں اور نشان ڈھونڈتا ہے، تمثال ہائے خیال پیدا کرتا ہے اور بات کرنے کا وہ ڈھنگ وجود میں لاتا ہے جس سے آواز شعر کے ارفع مقام تک پہنچتی ہے۔ تجسیم انگریزی میں Conereteness اس صفت اسلوب کو کہتے ہیں جہاں تمثال اور پیکر تراشے جائیں اور ان بار یک خیالوں کو جو ہوا کیطرح لطیف میں لطیف الفاظ کا پیکر بخشا جائے۔ اس ضمن میں استعارہ جو دراصل مجاز ہے تقسیم کہلاتا ہے۔ لفظ کے معنی کے حوالے سے دوہی صورتیں ممکن ہیں۔ (الف) حقیقت (ب) مجاز حقیقت سے مراد لغوی معانی کے ہیں یعنی لفظ کے لغت والے معنی اس کی حقیقت ہیں۔ اس میں کسی لفظ کے لغوی معانی کے بجائے غیر لغوی وصفی یا دلاتی معنی لئے جاتے ہیں تو وہ معنی اصطلاح میں مجاز کہلاتے ہیں۔ ہادی حسین اس ضمن میں لکھتے ہیں:

مجاز زیورشن ہے شعر شاہد خن ہے اور مجاز اس کا پر تکلف لباس و زیور مجاز کا حسن عام طور پر مسلم ہے۔ کلام اعظم ہو یا نشر ۔ بہت دنوں میں آئے یا میاں عید کا چاند ہو گئے۔ دونوں فقروں میں معانی بالکل ایک ہیں، لیکن حسین کلام اور زور بیان میں زمیں آسماں کا فرق ہے۔ مجاز نے دوسرے فقرے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ غور سے دیکھئے تو زبان و بیان کو خود جو یائے مجاز پائے گا۔ خاص کر تشنہ کا جہاں سیدھا سادہ صاف صاف بیان روکھا پھیکا معلوم ہوتا ہے مجاز نمک کا کام کرتا ہے جہاں حقیقت کی زبان دلنشیں نہیں ہوتی بات سمجھنی مشکل ہو جاتی ہے۔ مجاز تر جمان کا کام کرتا ہے اور عقدہ مشکل کو کھول دیتا ہے۔

استعارہ کوئی شعر کی خاص صفت ہے تخلیق نثر میں بھی بالخصوص ناول افسانے اور ڈرامے میں کئی مقام ایسے آتے ہیں، جہاں مجاز معانی اور بیان کو پیچھے ہٹا کر اپنی جگہ بناتا ہے۔

خیالی افرازی

مغربی نقادوں نے Suggestion کو اسلوب کی وہ پر اسرار صفت قرار دیا ہے جس کا مکمل طور پر دوسروں تک منتقل کرنا تقریب ناممکن ہے۔ عابد علی عابد نے اس صفت افروزی کا عنوان دیا ہے، وہ لکھتے ہیں۔

یہ اسلوب کا وہ شیوہ خاص ہے اور نگارش کی وہ شعبدہ گری ہے جس کے اسرار و رموز صرف تخلیقی فنکار کو معلوم ہوتے ہیں۔ تخلیقی عمل کا یہ مرحلہ پر اسرار ہے جہاں باریک بین نقادوں کی ژرف نگاہی ہنر اور فن کے سامنے سپر ڈال ، تی

ہے۔

Picturesqueness تصویریت

فن کار اپنی قوت بصارت سے کام لے جن اشیاء کو دوسروں تک کرنا چاہتا ہے اس سلسلہ تصاویر کی شکل میں دیکھتا ہے۔ منظر نگاری کے لئے انسانی اور اک کی تمام تو تھیں اور حواس کی تمام صلاحیتیں مرکز بصارت پر جمع ہو جاتی ہیں۔
فلم یا ٹی وی کے کھیل کے لئے منظر نامہ لکھتے ہوئے منظر نگار جذبات کو تصویروں کی صورت میں دیکھتا ہے۔ اتصوریت میں فن کار کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ تمثالوں اور لکیروں کے ذریعے یعنی تصویروں کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ فکر اور جذبے کی کیفیت جوں کی توں موجود ہوتی ہے لیکن کیفیت مطلوب کا انتقال بصری راستوں سے ہوتا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تخلیقی جو ہر پیکر تراشتا ہے۔

اسلوب کی جمالیاتی صفات

ترنم اور نغمہ:

ترنم (Melody) شیریں آوازوں کی حکمرار کا نام ہے۔ (Melody) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ شیریں خوش گوار اصوات جو در گوش پر دستک دیتی ہوں اس کے لغوی معنی گنگناتا اور گانا کے ہیں۔ شعر اور نثر میں اس صفت کا ظہور اور اس کی دریافت کوئی مشکل نہیں۔ کوئی ایک حرف علت بار بار جھولتا ہے یا کس حرف صحیح کی تکرار ہوتی ہے یہی ترنم ہے۔ عابد علی عاہد ترنم اور نغمے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

دونوں بڑی کا فر صفات ہیں اور عالم معانی کا طلسمات ہیں۔

شعر میں نفسگی اور ترنم تو ہوتاہی ہے نثر میں بھی آہنگ اور ترغم کی صورت ملتی ہے۔ اگر چہ نغمہ اس صنف ادب میں نہیں نکھرتا ۔ ملک الشعرا بہار نے سعدی شیرازی کی کتاب گلستان میں آہنگ اور نفے کا رنگ اجاگر کر کے دکھایا ہے۔ اردو میں قبلی کے ہاں غالب کے ہاں اور میر امن کے ہاں یہ صورتیں پائی جاتی ہیں لیکن جس صاحب فن نے شعوری طور پر کلمات کی جوہری تا بنا کی کو آہنگ اور نغمے کے بلند مقام تک پہنچایا ہے تو وہ مولانا محمد حسین آزاد ہیں، جن کی نظر نظم کو شرمندہ کرتی ہے۔ محمد حسین آزاد نے نفسگی اور ترنم سے بہت مدد لی ہے
گلزار نسیم یاکسی داستان کا تجزیہ کیا جائے تو داستان کے عناصر ترکیبی کا پتہ ملے گا۔ دوسری قسم کے افسانوں کی طرح داستانوں میں بھی ایک ہیرو ہوتا ہے جو واقعات کا مرکز ہوتا ہے اور ایک ہیروئن ہوتی ہے یا ایک سے زیادہ مختلف واقعات میں جو ربط ہوتا ہے وہ ہیرو کی ذات کی وجہ سے۔ یہ ہیرو عموما کوئی بادشاہ یا شہزادہ اکثر کسی بادشاہ کا سب سے چھوٹا فرزند ہوتا ہے۔ اس انتخاب کی وجہ سے داستان میں ذراشان و شوکت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عام خیال یہ تھا اور ایک حد تکصحیح بھی تھا کہ بادشاہ کی زندگی میں رنگینی اور بوقلمونی زیادہ ہوتی ہے اور بادشاہوں کو رزم و بزم ، غرض ہر قسم کے تجربات کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور ان کی زندگی میں گردش لیل و نہار کے زیادہ با اثر مرتھے ہاتھ آسکتے ہیں۔ ہاں تو یہ شاہزادہ کمر ہمت کر کر مختلف ہمیں سر کرتا ہے۔ وہ جری بہادر ہوتا ہے۔ ہمیشہ تائید ایزدی اس کے ساتھ رہتی ہے اس لئے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی کا صرف یہی ماحصل نہیں ہوتا۔ وہ ایک عدیم المثال ہستی ہوتا ہے۔ سارے انسانی محاسن اس میں کھنیچ آتے ہیں۔ حسن میں بھی کوئی اس سے ہم سری نہیں رکھتا ۔ اس کا نام بے نظیر ہو تاج الملوک یا جان عالم وہ ایک ذات کامل ہے جملہ عیوب سے مبرا ایسی ہستی جس کی مثال اس نا مکمل اور ناقص دنیا میں ممکن نہیں ۔ اس ذات کامل کو کوئی سمجھ دار شخص زندہ حقیقت تسلیم نہیں کر سکتا اور نہ اس کی انفرادی ہستی ہوتی ہے۔ وہ تکمیل کا محض ایک نشان ہے اور داستان کی بنیاد واقعیت اور حقیقت کے بدلے مثالیت پر قائم ہوتی ہے۔
جب حقیقت کا تصور محدود ہو گیا اور کائنات معلوم کی حدوں میں سمٹ سکڑ گئی تو پھر کہانی میں بھی نہ وہ دنیا رہی نہ وہ آدمی رہا ۔ نہ معلوم غائب نہ چوتھا کھونٹ نہ ساتواں در اور آدمی اپنے جیون میں چھ دروں والے مکان میں بند ۔ آٹے دال کی گھر میں بہتا جو کم ختم ، ساتواں در ندارد، چوتھا کھونٹ غائب، نتیجہ معاشرتی حقیقت نگاری، معاشی سطح تک محدود انسانی زندگی کا بیان مگر عجب ہوا کہ: جب اس تصور نے اردو میں افسانے کو رونق بخشی شروع کی تو ادھر مغرب میں اور ہی گل کھل گیا۔ جو اس پیدا ہو گیا ۔ کا نکانے کا سل لکھ ڈالا – سے لکھا لگتا ہے کہ ہم چوتھے کھونٹ میں چل رہے ہیں۔ حدیں اگر کہیں ہے تو غیر معین اور غیر واضح کوئی بات قطعی نظر نہیں آتی۔ (انتظار حسین)
اردو نثر کے تمام معنوی اکتسابات سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر ہم صرف طرز ادا اور انداز بیان ہی کے زاویے سے اردو انشاء پردازوں کا جائزہ لیں جب بھی ہماری نظر ایک بے پناہ رنگارنگی اور بے پناہ تنوع سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ الینا اردو انشاء پردازی بیان وادا اور اظہار ابلاغ کی لاکھوں نزاکتیں اور بے شمار لطافتیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اردو کا نثری ادب بلا شبہ اسالیب وصور کا ایک حیرت انگیز طلسم خانہ ہے۔ اس کے باوجود طرز واسلوب کی روایت اردو نٹر کی کوئی ت پرانی روایت نہیں ہے۔ ملا وجہی اور میر عطا حسین خان حسین سے قطع نظر طرز و اسلوب کی روایت کی عمر زیادہ سے زیادہ سو سال کی بھی چاہیئے ۔ درحالیہ خود اردو زبان کی عمر ہزار سو سال کے لگ بھگ ہے۔ بہت
وجیهی اسالیب نثر اردو کا آغاز ہے، تاہم وجہی سے قبل کے قدیم ترین نمونے بھی روضہ رضوان میں ملتے ہیں
معراج العاشقین اگر پہلی نثری تصنیف نہ بھی تسلیم کریں تو کلمتہ الحق کی اولیت کو بہر حال تسلیم کرناہی پڑتا ہے۔ یہی رکن کی دوسر زمین ہے، جہاں شاہ میران جی شمس العشاق اور ان کے صاحبزادے شاہ برہان الدین جانم سے ادبی نثر کا سراغ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ شاہ برہان الدین جانم کے صاحبزادے شاہ امین الدین اعلی نے بھی نثری ادب کے نمونے یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں ۔ لیکن اسلوب کی خاصیت جس کے امتزاج سے کوئی شبہ پارہ آفاقی اور کلاسیکی ہو جاتا ہے۔ اس کے حصول سے یہ نثر پارے قاصر ہیں۔ ان نثر پاروں میں ایک طرف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ملتی ہے تو دوسری طرف کہیں کہیں تمثیلی پیرا یہ ملتا ہے۔ جس کے سبب بعض نقاد حضرات میں مرصع اسلوب کی تلاش کرتے لیکن اصل اور کچھی بات یہ ہے کہ دنیا کی دوسری عظیم اور آفاقی زبانوں کے مانند اردو میں مرصع و منفی و مرجز اسلوب کا ظہور سب سے پہلے وجہی کی سب رس (۱۶۴۰ء۔ ۱۹۲۵ء) میں ہوا۔ وجہی کے اسی مرصع و مقفلی و مرجز اسلوب کی قوت کے آگے ساری داستان کا وجود سرنگوں ہے۔ اس لحاظ سے اسلوبیاتی ارتقاء میں دکن کو سبقت خاص ہے۔

شمالی ہندوستان میں اگر فضل علی فضلی کی کربل کتھا، شاہ عبد القادر کا ترجمہ اور تفسیر ( قرآن ) اور سودا کا دیباچہ اردو وغیرہ موجود ہے لیکن اسکے ان کارناموں میں طرز نام کی کوئی چیز باوجود ہزار دریافتوں کے نایاب ہے۔

وجہی نے ۱۹۳۵ء میں ایک طرف مرصع و منقضی و مرجز اسلوب کی بنیاد ڈال کر اسلوبیات نظر کے ارتقاء کی بسم اللہ کی تو کہیں کہیں عظیم و کلاسیکی فن کاروں کے مانند ہی قابلیت و علمیت کے زعم میں تعقید لفظ معنی کے شکار بھی ہوئے جس کو آگے چل کر شمالی ہندوستان کے فن کار میر عطا حسین تحسین کو جو ہر قابل نے کمال تک پہنچا اور [ نوطرز مرصع داستان لکھ کر تعقیدی اسلوب کا نمونہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قائم کر دیا۔ یہ اسلوب اپنی دقت پسندی کے سبب ترقی نہ کر سکا اور تحسین کی شدید انفرادیت تک ہی محدود رہا۔ بڑی تلاش و جستجو کے بعد دور حاضر کے چند فن کاروں میں تعقیدی اسلوب کے چند نکات مل سکتے ہیں ، ان میں بلراج منیر اور انوار سجاد کا نام خاص ہے۔ لیکن ان فن کاروں میں تعقیدی اسلوب پوری طرح سے جلوہ گر نہ ہو کر ماورائی یا منتشر خیالی کے شکستہ اسلوب کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔

وجہی کے مرصع و مقطعی و مرجز اسلوب سے لے کر ماورائی یا منتشر خیالی کے شکستہ اسلوب تک ارتقاء نے مختلف زینے اور مختلف منزلیں طے کی ہیں۔ خود اسی مرصع و مقتضی و مرجز اسلوب کے ذریعہ رجب علی بیگ سرور ( ۱۷۸۵ء ۱۸۶۷ء) اپنے کمال علم وفن کا اظہار کیا اور وجہی کے فن کو پس پشت کر دیا اور کلاسیکیت کی زندہ روح کو اسالیب نثر اردو کے خون میں تحلیل کر دیا۔قافیہ سے قطع نظر مرصع اسلوب کی مثال غالب ، سرشارژ شر، محمد حسین آزاد، شبلی، مہدی افادی، یلدرم، رسوا، ابوالکلام بجنوری اور قاضی عبدالستار میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں ملی و مرصع اسلوب کے تشکیل عناصر زیر بحث ہے
رجب علی بیگ سرور کے رنگمین مرصع اسلوب کی پیدائش کے بعد اسالیب نثر کے ارتقاء میں یکا یک ایک تحیر آمیز انقلاب رونما ہوتا ہے اور یک لخت میں اسلوب ارتقا کی کئی سخت و سنگلاج منزلیں ایک ہی جست میں عبور کر لیتا ہے۔ یا انقلابی چھلانگ ایک انقلاب آفریں شخصیت جسے عرف عام میں غالب کہتے ہیں، سے عالم اسالیب میں برپا ہوتی ہے۔ غالب (۱۷۹۷ – ۱۸۲۹) بیک وقت مختلف و متنوع اسالیب نثر اردو کا امام یا پیش رو ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگ سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے بیشتر اسالیب نثر غالب کے رہین منت ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے فن کاروں نے اس کے رنگ و روپ میں مزید توانائی پیدا کی۔ اس کو خوش نمائی کی لذتوں سے آراستہ کیا اور اسے کلاسیکیت کے درجہ سے نوازا ہے
عالم اسالیب کی سب سے گنجلک اور پیچیدہ ترین قسم امترابی طرز نگارش ہے جو غالب کی ذات کی

مرہون منت ہے۔ یہ غالب ہی ہے جس نے بیک وقت بیانی توضیحی، تاثراتی انا نیتی اور خطیبانہ اسالیب میں مرصع متلی اور ظرافت آمیز اسالیب کا امتزاج اسلوب کے طلسمات کا پردہ فاش کیا تھا۔ لیکن اس کی صورت دکھانے میں ناکام رہا تھا، در اصل امتزاجی اسلوب کی رونمائی غالب کے ہاتھوں سے ہوئی اور بالآخر جلوہ عام بنی۔ غالب کے بعد اس اسلوب کو محمد حسین آزاد شیلی، مهدی افادی، حسن نظامی، ابوالکلام آزاد منشو قرۃ العین حیدر کے ہاتھوں مزید فروغ حاصل ہوا۔ محمد حسین آزاد شبلی اور ابو الکلام نے غالب کے رنگ امتزاج میں اگر جلال علویت کا رنگ بھرا تو مہدی اور منٹو نے حسن پری وش کا، اور ادھر حسن نظامی نے متصوفانہ، موشگافیوں کی گیان دھیان کا۔۔ یہی نہیں بلکہ امتزاجی اسلوب کے بڑے دائرے (CANVAS) میں سرسید ، شرر، عبد الماجد دریا بادی، بجنوری، کرشن چندر اور قاضی عبد الستار کی تحریریں بھی آجاتی ہیں اور اپنی شناخت بالترتیب، خشکی، تاریخیت ، توازن پسندی ما بعد الطبعیات، طنز اور تاریخ سے عام کرتی ہیں۔ لیکن ان سب میں غالب کا مرتبہ مابعد غالب اور فاتح کا ہے۔

اس طرح یہ حقیقت روز روشن کی طرح کھل کر عیاں ہو جاتی ہے کہ اسالیب نثر اردو کے ارتقاء میں غالب کا حصہ سب سے اہم ہے اور ریاضی کے حساب کے مطابق غالب ۷۰% فیصد اسالیب کا موجد امام ہے بقیہ %۳۰ فیصدی میں تمام دوسرے مجتہد فنکار شامل ہیں، اور مزید یہ ہے کہ اردو اسالیب نثر کی تاریخ اور روایت میں غالب کو وہی مقام حاصل ہونا چاہیئے جو سقراط کو استادی میں ، ارسطو کو تقید میں، ویاس کو رزمیہ میں فردوی کو مثنوی میں اور شیکسپیر کو ڈرامے میں حاصل ہے۔ اسالیب نشر اردو کے ارتقاع میں غالب کی مجتہدانہ اور خالقانہ ذات ایک سنگ میل ہے اور حسب حال و مطابق بطور نظیر فخریہ پیش کرنےکے قابل چیز ہے۔

غالب کے بعد سرسید (۱۸۱۷ ۰ – ۱۸۹۷ء) ہیں جو ارتقائے اسلوب کی ایک منزل ہیں اور جنہوں نے سپاٹ و سادہ اور بنیادی اسالیب کا اختراعی اجتہاد کیا اور اپنی مکمل شناخت کرائی ۔ غالب کے شگفتہ قلم سے بنیادی اسلوب کے ظہور کے نشانات بھی مسلحہ ادب پر پڑے ہیں لیکن اس میں وہ خشکی نہیں جو سر سید کا امتیاز ہے۔

سرسید ادیب سے کہیں بڑھ کر مصلح ، ریفارمر، اور قدردان علم و دانش تھے۔ لیکن جا بجا اپنے پر چوں تقریروں اور مضامین کے ذریعہ تبلیغ و اصلاح کی غرض سے جو کچھ لکھا اس میں خود بخود بنیادی اور سادہ اسالیب کا ظہور ممکن ہو گیا۔ حالانکہ سر سید کا یہ مقصد قطعی نہ تھا کہ وہ کسی اسلوب نگارش کی بناڈالیں اور مجتہد فن کے منصب پر متمکن ہوں ۔ سرسید ان اسالیب کو ان کے شاگردوں اور رفقاء نے مزید حسن و جلا سے نوازا۔
اردو اسالیب نثر کے ارتقاء میں محمد حسین آزاد (۱۸۳۳ – ۱۹۱۰ء) بھی اس لحاظ سے غالب، وجیہی سرور، اور سرسید سے کم نہیں ہیں کیوں کہ انھوں نے بھی ارتقائے اسلوب میں اجتہادی قوت اور اختراعی ندرت کا ثبوت فراہم کیا ہے اوراسلوب جلیل کی تخلیق کی۔ اسلوب جلیل کو مسلم طور پر آزاد کے علاوہ شبلی (۱۸۵۷ء۔ ۱۹۱۲ ء) اور ابوالکلام (۱۸۸۸ء۔ ۱۹۵۹ء) نے برتا اور اس کی توانائی ، شوکت ، عظمت، علویت اور جلال کے مظاہروں کو ادب پاروں میں عام کیا اور بے حد کامیاب طورپر کیا شیلی اور ابواکلا کے علاوہ بجنوری اور قرۃ العین حیدر کے یہاں بھی اسلوب جلیل کی موجودگی کا شائبہ ہوتا ہے قرة العین حیدر کے فی تجربوں میں تلاش وجستجو کے بعد اسلوب جلیل کے نمونے مل سکتے ہیں لیکن بجنوری کے ملفتہ یا تاثراتی طرز نگارش کی نشاط انگیزی در اصل جلیل کی جلالت کی اتنی متحمل نہیں ہے کہ وہ اس اسلوب کا بوجھ اٹھا سکے۔ یہ دوسری بات

ہے کہ بجنوری کے پاس اپنی شناخت کے لئے ایک بھر پور طرز نگارش موجود ہے۔ عصر رواں میں بھی اسالیب نثر کا ارتقا جاری و ساری ہے اور مشہور اسلوب نثر – هیجانی ماورائی منتشر خیالی کا اسلوب

اسی دور کی دین ہے۔

یجانی، ماورائی یا نقش خیالی کا شکستہ اسلوب کے ڈانڈے اگر چہ داستان طرازی کے اور جنس تک پہنچے ہیں اور اپنا رشتہ تحسین اور میرا امن سے جوڑ لیتے ہیں۔ تاہم اس اسلوب کے موجد عصر رواں کے فنکار ہیں اور اس اسلوب خاص کی تخلیق کا سمیرا ابراج سمراء انور سجاد اور شید امجد وغیرہ کی تحریروں میں ملتا ہے۔ جب کہ عمیق مطالعہ سے قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں بھی منتشر خیالی کا شکتہ اسلوب دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اس اسلوب نگارش کی خالق قرۃ العین حیدر ہیں۔ لیکن ان کی تحریروں میں ہیجان بالکل مفقود ہے ہاں یہ دوسری بات ہے کہ ماورایت جابجار کھلائی دیتی ہے۔ ہیجانات پیدا کرنے والے کامیاب فنکار تو نیاز منٹو اور عصمت ہیں۔ جو بہیجانی اسلوب کے حقیقی مالک ہیں کیوں کہ یہ قاری کے بدن میں ارتعاش کا جادو بھی جگاتے ہیں لیکن بہیجانی اسلوب میں منٹو (۱۹۱۱ء ۱۹۵۵ء) کو سب پر سبقت حاصل ہے کیوں کہ اس کا موضوع ہی جنس ہے، اس میں ماورائیت کے مقابلے میں ارضیت موجود ہے جو اسلوب نثر کو ایک نئی راہ دکھاتا ہے۔

منٹو کے مقابلے میں نیاز اور افادی میں جذبات کی اشتعال انگیزی محض ان کی دوشیزگی پسندی کے سبب سے ان میں جنس کی وہ سیلانی نہیں ہے جو کسی صوفی وسنت کے لئے ہیجان کا سبب بنے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نیاز اور افادی میں ہیجانی اسلوب مفقود ہے ہیجانی اسلوب کی مثالیں تو عصمت کے یہاں بھی موجود ہیں۔ ایک معنی میں کرشن چندر اور رجندر سنگھ بیدی کے یہاں بھی ہیجانی اسلوب کہیں کہیں مل جاتا ہے لیکن اس اسلوب کو درجہ کمال تک منٹو نے ہے۔

اس طرح ایک طائرانہ جائزے کے مطابق اردو اسالیب نثر کے ارتقاء میں وجہی تحسین، میر امن، سرور، غالب، سرسید محمد حسینآزاد، منظو اور قرۃ العین حیدر کو سبقت و سیادت حاصل ہے۔ جنہوں نے کسی نہ کسی اسلوب کو بیان کی بنیاد ڈالی اور اردو نثر کو ایک نے قلم سے روشناس کرایا۔ نثری اسالیب کے ان موجدوں اور مجتہدوں میں غالب کا مقام امام اسلوب کا ہے جس نے نثر کے ستر فیصد اسالیب کی اختراع کی۔ اور قلم کو رنگ رنگ سے چلنے کا سلیقہ سکھلایا اور ہر رنگ سے شناخت کا رنگ دھلایا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں