اردو کا عربی زبان سے تعلق

اردو کا عربی زبان سے تعلق

دنیا کی مشہور اور اہم ادبی زبانوں میں امتیازی محاسن بھی ہیں اور عیوب بھی لیکن اُردو زبان میں یہ کمال و خوبی ہے کہ یہ اپنے اندر ایک طرف تو تمام اہم زبانوں کے محاسن رکھتی ہے اور دوسری طرف ان کے نقائص و عیوب کا ازالہ کرتی اور ان کی خامیوں کو پورا کرتی ہے۔

اس لحاظ سے اگر اسے جامع الالسنہ کہا جائے، تو مناسب ہو گا حقیقت یہ ہے کہ اگر دوسری زبانوں کے مقابلے میں اس کا جائزہ لیا جائے ،

تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا صحیح مرتبہ و مقام سارے عالم کی لنگوا فرنیکا ہوتا ہے اور عجب نہیں کہ یہ بھی اس مرتبہ و مقام کو حاصل کر لے۔ اُردو زبان کے متعلق مندرجہ بالا حقیت کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چند اہم زبانوں سے اس کا مقابلہ اور تعلق واضح کیا جائے ۔

اُردو اور عربی

عربی زبان دنیا کی تمام اہم زبانوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ جامع الصفات اور مکمل تصور کی جاتی ہے اور دراصل یہ زبان دنیا کی سب زبانوں سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

1۔ عربی زبان میں حرکات و اعراب (زبر، زیر، پیش وغیرہ ) فقط الفاظ کے تلفظ ہی میں مدد نہیں دیتے بلکہ الفاظ کے معانی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں زبر، زیرا پیش کے تغیر سے لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں ۔

مثلاً لفظ ذهبت کے حرف ت پر زبر، زیر، پیش وغیرہ بدلنے سے مندرجہ ذیل قسم کے معنوی تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ذهبت: تو ایک مرد گیا ذهَبْتُ : میں گیا

2۔ عربی میں تمام حروف با معنی ہیں بلکہ بعض حروف تو متعدد معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثالا ہمزہ، ب ، ت، س ، ف، ک ، ل ، م اور د کے کئی کئی معانی ہیں ۔ ہمزہ کوئی بارہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ب چودہ معانی میں اور ت کم از کم چھے معنوں میں ۔ اس طرح دوسرا ہر حرف کئی کئی معنوں میں ۔

3۔ عربی میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس کے سہ حرفی مادے کے الفاظ کے حروف کی ترتیب کسی صورت میں بھی بدل دی جائے، تو لفظ بے معنی نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہوتے ہیں۔

ہر سہ حرفی لفظ کے حروف چھ طرزوں میں بدلے جا سکتے ہیں۔ مثلاً لفظ حمل کے تین حرفوں کی ترتیب بدلنے سے چھ لفظ بنتے ہیں۔ حَمْلُ، حِلْمُ ، لَحْمُ ، مِلْحُ، مَلَحُ ، مُحْلُ. یہ سب با معنی الفاظ ہیں اور ان کے معانی بترتیب بوجھ ، حوصلہ، گوشت ، نمک، چشم زدن اور مقام ہیں۔

4۔ عربی لفظ بے شمار صورتیں اختیار کرتا ہے اور مختلف و متعدد معانی کے لحاظ سے ایسا پھیلتا ہے کہ جیسے کوئی قطرہ پھیل کر سمندر ہو جائے ۔ لفظ کو مختلف صورتوں میں ڈھالنے کے لیے عربی قواعد میں بیسیوں ابواب ہیں اور پھر ہر باب میں مختلف نوعیتوں کے معانی سرانجام دینے کے لیے لفظ جن اصولی اور فروعی تبدیلیوں کی راہ میں گھومتا ہے انہیں صرف صغیر اور کبیر کا نام دیا جاتا ہے۔

ایک لفظ مختلف ابواب اور صرف صغیر و کبیر کی مختلف راہیں گھوم کر کئی کئی ہزار با معنی شکلیں اختیار کرتا ہے اور پھر مختلف صلوں کے ساتھ مختلف معنوں میں استعمال ہو کر اس قدر پھیلتا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے اور عربی کی وسعت و ہمہگیری تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔

5۔ لفظ کے ان مندرجہ بالا حیرت افروز تغیرات کے علاوہ عربی زبان میں ایک اور عجیب خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ایک لفظ کی ایک ہی صورت کے کئی کئی معانی ہیں ۔ مثلاً لفظ عین کوئی تیسں سے زیادہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

6۔ عربی میں ایک چیز کے لیے کئی کئی سو اور کئی کئی ہزار الفاظ ہیں۔ مثلاً تلوار، اونٹ اور گھوڑے کے لیے کئی کئی سو لفظ موجود ہیں ۔

7۔ اس قدر وسعت اور پھیلاؤ کے باوجود عربی میں اختصار بھی کمال درجے کا ہے دوسری زبانوں میں ہم کسی مطلب کو متعدد لفظوں یا بے شمار جملوں میں ادا کرتے ہیں اور اس سے کم الفاظ میں اُن مطالب کو ادا کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔

لیکن عربی میں میں ایک حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ بے شمار الفاظ میں ادا ہونے والا مفہوم ایک مختصر سے لفظ میں ادا کر دیتی ہے۔ مثلاً: اُس شخص نے انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا ۔ اس سارے مفہوم کو عربی میں ایک لفظ ارجع سے ادا کرتے ہیں۔

وہ اونٹ اپنا سینہ زمین سے لگا کر بیٹھا۔ اس سارے مطلب کے لیے عربی میں ایک لفظ ایک لفظ برک سے ادا ہوتا ہے۔

8۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں شعریت ، جذبات اور تصورات پیش کرنے کے لیے اندازہ سامان ہے۔

9۔ ندرت تخیل کے لحاظ سے بھی یہ زبان ممتاز ہے۔

10۔ صرف و نحو کی مکملیت بھی اس زبان کی امتیازی چیز ہے۔لیکن با وجود ان حرفی، حرکاتی اور لفظی و معنوی خوبیوں کے اور باوجود اس اختصاریت، جامعیت، وسعت، ندرت مضامین اور صرفی و نحوی کاملیت کے اس میں تین بڑی کمیاں ہیں ۔

(1) عربی میں بھ، پھ، چھ، تھ ٹھ ، چ، چھ، دھ، ڈ، ڈھ ڑ ڑھ ، کھ گ گھ لکھ، تھ، تھ، کی آوازیں نہیں ہیں۔

(2)عربی میں ساکن حروف سے ابتدا نہیں ہوتی۔ جس طرح کہ انگریزی میں لفظ سکول ساکن سین سے شروع ہوتا ہے۔

(3)عربی میں قواعد کی بڑی الجھنیں ہیں۔ عبارت کے سمجھنے ، بولنے اور لکھنے میں قواعد کی احتیاط لازمی ہے۔اُردو زبان کا دامن وسیع ہے۔ اس میں عربی الفاظ سما سکتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عربی الفاظ کے تغذیہ سے یہ موجودہ صورت تک پہنچی ہے۔ اس لیے جہاں تک اس صلاحیت کا تعلق ہے کہ یہ عربی الفاظ اپنے اندر جذب کر سکتی ہے،

عربی کی تمام خصوصیات ان الفاظ کی بدولت اس زبان میں آسکتی ہیں یا کم از کم عربی کی ان تمام خصوصیات سے فائدہ اٹھانے کے مواقع اُردو میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ وہ کمیاں جو عربی سے منسوب کی گئی ہیں، اُردو میں قطعاً موجود نہیں۔

وہ آوازیں جن کا عربی میں وجود نہیں ۔ اُردو میں موجود ہیں۔ اس میں اگرچہ ساکن حروف سے ابتدا کرنے کا رواج کم رہا ہے۔

لیکن ساکن حروف سے ابتدا کرنا مشکل نہیں کیونکہ وہ زبان (انگریزی) جس میں اس چیز کا رواج ہے اس کے الفاظ بھی تو یہ اپناتی رہی ہے اور آئندہ اپنا سکتی ہے۔ اُردو کی وسیع دامنی کے پیش نظر یہ وقت نہیں ہے اگر چہ اسکول کا لفظ بھی رائج رہا ہے تاہم سکول کے لیے بھی چنداں رکاوٹ نہیں رہی ۔

اردو ادب کی تاریخ، مؤلف سہیل بھٹی،ص49

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں