اردو ڈراما فن اور روایت

اردو ڈراما فن اور روایت

ڈرامے کا فن

ڈرامے کے لغوی معنی

لفظ ڈراما اس یونانی لفظ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کر کے دکھائی ہوئی چیز ۔

ڈرامے کی تعریف

کسی واقعے یا قصے کو کرداروں کے ذریعے تماشائیوں کے رو برو عملاً پیش کرنے کو ڈراما کہتے ہیں۔

ڈرامے کے اجزائے ترکیبی

ڈرامے کے اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں:

(1) پلاٹ

(2) مرکزی خیال

(3) آغاز

(4) شخصیت و کردار نگاری

(5) مکالمہ

(6) تسلسل اور کش مکش

(7) تصادم

(8) نقطۂ عروج

(9) انجام

ارسطو کے مطابق ڈرامے کے اجزائے ترکیبی چھ ہیں:

(1) پلاٹ

(2) کردار

(3) مرکزی خیال

(4) مکالمه

(5) موسیقی

(6) آرائش۔

ارسطو نے ڈرامے کے فن میں پلاٹ کو اہمیت دی ہے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: ناول اور ڈرامہ | ناول اور ڈرامہ میں فرق

ڈرامے کی اقسام

ڈراما کی دو قسمیں ہیں:

(1) ٹریجڈی یا حزنیہ

(2)کو میڈی یا طربیہ۔

ڈرامے کی وحدتیں

ڈرامے کی تین وحدتیں بیان کی گئی ہیں ۔

(1) وحدت عمل (2)

وحدت زمان (3)

وحدت مکان انہیں ڈرامے کی وحدت ثلاثہ کہا جاتا ہے۔ بھرت منی مندرجہ ذیل چیزوں کو ڈرامے کے لازمی اجزا بتاتے ہیں:

(1) لباس

(2) آواز

(3)جسمانی اعضا کی حرکت

(4) رقص

(5) موسیقی۔

ارسطو نے ڈرامے کو عمل کی نقل کہا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: جدید اردو ڈرامہ نظریات اور امکانات مقالہ pdf

ڈرامے کا آغاز و ارتقاء

نواب واجد علی شاہ کو اردو کا پہلا ڈراما نگار کہا جاتا ہے اور ان کے رہس "رادھا کنہیا کا قصہ” (1841-42) کو نقش اول تسلیم کیا جاتا ہے.

پروفیسر مسعود حسن رضوی نے لکھا ہے کہ واجد علی شاہ کے راہس رادھا کنہیا کا قصہ گو اردو کا پہلا ڈراما کہا جاتا ہے۔

"کرشن” اور "راس لیلا” سے متعلق کھیل راہس کہلاتا ہے۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ گوپیوں کی بے قراری، کرشن کی قربت و محبت پھر اس کے بعد کرشن کا غائب ہو جانا،

جمنا کے کنارے ان کا ظاہر ہونا، گوپیوں کا گھیرا بنا کر گھر لینا اور اس طرح تمام رات گوپیوں کے ساتھ ںسر کرنا راہس کہلاتاہے۔

آغا حسن امانت کو اردو کا پہلا باقاعدہ ڈراما نگار تسلیم کیاجاتاہے ان کی تصنیف "اندر سبھا” کو با قاعدہ پہلا ڈراما مانا جاتا ہے۔

پروفیسر مسعود حسن کے مطابق اردو کا پہلا عوامی ڈرامہ اندر سبھا ہے جسے عوامی اسٹیج پر پیش کیا گیا ہے۔ اردو میں منظوم ڈراموں کی ابتدا آغا حسن امانت نے کی تھی ۔

پارسی اسٹیج پر پہلی بار ڈاکٹر بھا دو جیلا کا لکھا ہوا ڈراما "را جا گوپی چند اور جالندھر” 6 نومبر 1853 کو پیش کیا گیا تھا۔

پارسی اسٹیج کا پہلا دستیاب ڈراما بھائی سہراب جی پٹیل کا "خورشید” 1881 ہے جو گجراتی ڈراموں کا اردو ترجمہ ہے۔

خورشید 1881 کا پہلا ڈراما ہے جس میں اردو نثر کا باقاعدہ استعمال کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس ڈرامے میں پہلی بار ساز و سامان، لباس، پردے وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے۔

یادر ہے کہ ڈرامے کے ارتقا میں پارسی تھیٹروں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

ڈرامے کا ابتدائی دور

واجد علی شاہ، آغا حسن امانت . ڈاکٹر بھا دواجی لاڈ ، سہراب جی پٹیل، حسینی میاں ظریف، حافظ محمد عبد الله، مرز انظیر بیگ۔

آغا حشر کاشمیری اور ان کے معاصرین

طالب بناری ( گوپی چند، نازاں ، وکرم دلاس، نگاہ غفلت اور لیل و نہار )

مہدی حسن احسن ( دستاویز محبت، چند را اولی، خون ناحق ، شہید وفا اور گلنار فیروز )

نرائن پر شاد بیتاب ( قتل نظیر ( پہلا ڈراما)، مہا بھارت ، کرشن سدا ما ، فریب ، حسن فرنگ علی بابا، تو به شکن، مدر انڈیا ، سیتا اور شکنتلا )

عباس علی عباس ( تاثیر خواب اور قسمت کا خواب )

محمد علی مراد لکھنوی ( دھوپ چھاؤں، کالا چراغ اور لعل و گہر )

آغا حشر کاشمیری ( آفتاب محبت ( پہلا ڈراما)، یہودی کی لڑکی ، آنکھ کا نشہ ، خواب ہستی، اسیر حرص، رستم و سهراب ، سفید خون ، صید ہوس اور شہید ناز)

ادبی ڈراموں کی روایت

مرز امحمد ہادی رسوا ( لیلی مجنوں ( منظوم ڈراما) طلسم اسرار (نثر میں )

عبد الحلیم شرر ( شهید وفا، میوه تلخ )

عبد الماجد دریا بادی (زود پشیماں)

پریم چند کر بلا ( تاریخی ڈراما )

امتیاز علی تاج : انار کلی ( تاریخی ڈراما)

برج نرائن چکبست ( کملا ) عابد حسین عابد ( پردہ غفلت)

محمد مجیب ( خانہ جنگی )

خواجه احمد عباس (زبیده، ایٹم بم اور انناس

کرشن چندر (سراے سے باہر کتاب کا کفن اور نیل کنٹھ)

بیدی ( سات کھیل، نقل مکانی اور خواجہ سرا)

عصمت چغتائی ( دھانی با نکپن اور سانپ )

سردار جعفری ( یہ کس کا خون )

منٹو ( اس منجدھار میں )

بیگم قدسیه زیدی

سید محمد مہدی ( غالب کون ہے ) .

اعجاز حسین۔

حبیب تنویر (آگرہ بازار)

محمد حسن ( پیسہ اور پر چھا ئیں ، ضحاک)

ابراہیم یوسف ساگر سرحدی

زاہدہ زیدی

ظہیر انور

اگلا موضوع: اردو کے اہم ڈرامہ نگار pdf

معاون کتب: ضیائے اردو

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں