اردو نثر کا آغاز و ارتقاء مکمل تفصیل کے ساتھ
اُردو شاعری کی طرح اُردو نثر کے قدیم نمونے بھی دکن ہی میں ملتے ہیں جن میں سے بعض خاصے مشہور ہوئے ۔ یہ عموماً مذہب اور تصوف کے موضوعات پر مشتمل ہیں۔
فورٹ ولیم کالج اور اردو نثر کا آغاز و ارتقاء
البتہ نثر کا باقاعدہ آغاز فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا ادارہ تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے انگریز ملازمین کو برصغیر کی مختلف زبانوں اور یہاں کے مخصوص تہذیبی و معاشرتی حالات سے آگاہ کرنے کے لیے کلکتے میں ( جو کمپنی کا مرکز تھا ) قائم کیا تھا۔ اس کالج میں ایک شعبہ اردو اور ہندی کے لیے مخصوص تھا۔
نثر کی کتابیں فراہم نہ ہونے کی بنا پر اس کالج کو ایک دارالترجمہ اور شعبہ تصنیف و تالیف قائم کرنا پڑا جس کے نگران ڈاکٹر جان گل کرسٹ تھے ۔ اس شعبے سے متعدد ایسے ادیب مسلک رہے ہیں جو اردو نثر کی تاریخ میں زندہ جاوید ہو گئے ۔ مثلاً میر امن اور حیدر بخش حیدری۔
میر امن کی داستان باغ و بہار اردو نثر کا سب سے قیمتی سرمایہ تسلیم کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ داستان اپنے قصے کے اعتبار سے نئی نہ تھی۔ اس قصے کو پہلے بھی عطا حسین خان تحسین نے "نوطرز مرضع ” کے نام سے تصنیف کیا تھا، مگر میر امن نے اسے نئے سرے سے ترتیب دیا
اور پھر دہلی کی خاص ٹکسالی زبان میں یوں بیان کیا کہ تقریبآ دو سو سال گزار جانے کے باوجود آج بھی یہ اپنی دلچپسی قائم رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح حیدر بخش حیدری نے حاتم طائی کے قصے کو "آرائش محفل” کے نام سے مرتب کیا اور اپنے طرز بیان سے ہر دلعزیز بنایا۔ میر امن کی باغ و بہار 1802ء میں لکھی گئی۔
1803ء میں سید انشا نے جو لکھنو میں تھے اور مشہور و معروف شاعر تھے، فورٹ ولیم کالج کی تحریک سے بے خبر ہونے کے باوجود "رانی کیتکی ” اور ” کور اودے بھان” کے نام سے ایک قصہ تصنیف کیا جس کا کمال یہ ہے کہ اس میں جتنے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ خالص اردو کے ہیں۔
کسی اور زبان سے کوئی لفظ نہیں لیا گیا۔میر امن کی باغ و بہار اردو نثر میں ایک تحریک کا کام کر گئی جس کے بعد داستانوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان میں سب سے نمایاں ”فسانہ عجائب“ ہے جو 1825ء میں لکھی گئی۔ اس کے مصنف لکھنو کے ایک صاحب طرز ادیب مرزا رجب علی بیگ سرور ہیں۔
اس کتاب کا باغ و بہار سے مقابلہ کیا جاتا ہے، ان معنوں میں کہ ان دونوں کا انداز تحریر ایک دوسرے کی ضد ہے۔ باغ و بہار اپنی سادگی کے سبب ، فسانہ عجائب اپنی آراستگی کے باعث ۔ ان داستانوں کے علاوہ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا بھی بہت مشہور ہیں۔
دہلی کالج
داستانی ادب کے ساتھ ساتھ اگر ایک طرف 1842 ء میں قائم شدہ دہلی کالج کی ورنیکولر ٹرانسلیشن سوسائی نے مختلف علوم اور مختلف موضوعات پر کتابیں شائع کرائیں تو دوسری طرف عیسائی مشنری اپنا کام کرتے رہے۔ انھوں نے بھی اپنے مذہبی لٹریچر کو اُردو میں منتقل کرنا شروع کیا۔
اس زمانے میں مولوی محمد باقر نے ایک اخبار دلی سے شائع کیا۔ اگر چہ اس سے پہلے بھی اردو زبان میں اخبار شائع ہوتے تھے مگر اس اخبار نے صحافت کے دامن کو وسیع کیا اور اس کی تحریک سے بعد میں اخبارات کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
یہی وہ زمانہ تھا جب مرزا غالب ہر تحریک سے علیحدہ رہ کر اور کسی شعوری مقصد کے بغیر اپنے دوستوں اور شاگردوں کے نام خطوط لکھ رہے تھے۔ وہ شروع شروع میں نہیں جانتے تھے کہ ان کے خطوط اُردو نثر کا بیش قیمت سرمایہ ثابت ہوں گے۔
اردو نثر کا آغاز و ارتقاء اور سرسید احمد خان
1857ء میں پاک و ہند کے مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹی تھی اور جس کرب میں یہ قوم مبتلا ہوئی تھی ، اس سے نجات دلانے کے لیے قدرت نے سرسید احمد خاں کو منتخب کیا۔ سرسید نے اپنی جد و جہد مسلمانوں میں انگریزی تعلیم پھیلانے سے شروع کی تھی مگر رفتہ رفتہ یہ تعلیمی تحریک مسلمانوں کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوئی ۔
سرسید خود صاحب طرز ادیب تھے۔ ان کی تحریر کی ابتدا روایتی قسم کی آراستہ و پیراستہ نظرسے ہوئی مگر حالات کے تقاضے نے انھیں ایسی نثر لکھنے کی طرف مائل کیا جو کم سے کم وقت میں لکھی جائے اور جسے زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ بلکہ غیر تعلیم یافتہ بھی یکساں طور پر سمجھ سکیں۔ سرسید نے مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا۔
بعض کتابیں مع تفسیر قرآن مجید، ان کی یادگار ہیں اور ان کے مضامین کی سولہ جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اُنھوں نے ایک رسالہ تہذیب الاخلاق” کے نام سے بھی جاری کیا۔ انشائیہ جسے انگریزی میں (Essay) کہا جاتا ہے سب سے پہلے اُردو میں سرسید ہی نے لکھا۔
سرسید کی تحریک اور ان کی تحریروں نے نہ صرف بر صغیر کے مسلمانوں میں بیداری اور ذمے داری کی لہر دوڑا دی بلکہ ادب میں خصوصاً نثر میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ اس کی مثال کم ملے گی۔
سرسید کی شخصیت جو ان کی تحریروں میں واضح طور سے نمایاں ہے، اس جدید نثر پر چھائی ہوئی ہے جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
اُس زمانے کے ہر لکھنے والے نے اپنے طور پر اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق سرسید کا اثر قبول کیا۔ ان میں خواجہ الطاف حسین حالی ، مولانا نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا شبلی نعمانی خصوصاً قابل ذکر ہیں اور یوں سرسید احمد خاں سمیت ان بزرگوں کو جدید اردو نثر کا پانی سمجھنا چاہیے۔
مولانا الطاف حسین حالی
مولانا حالی بنیادی طور پر شاعر تھے۔ انھوں نے پہلے کلاسیکی انداز کی غزل کہی پھر نظم کہی اور اس سے آنے والی نسلوں کو متاثر کیا۔ ساتھ ہی ساتھ نثر کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔
اردو میں تنقید اور سوانح نگاری کا آغاز مولانا حالی سے ہوتا ہے۔ مقدمہ شعر و شاعری اردو تنقید کی اولین کتاب ہے۔ دراصل یہ دیباچہ تھا جو انھوں نے اپنے دیوان کی اشاعت کے وقت لکھا تھا جسے بعد میں اس کی افادیت کے پیش نظر کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا۔
اس کتاب میں شاعری کی بنیادی ضرورتوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ باتیں اتنی اہم ہیں کہ جزوی اختلاف کے سوا بحیثیت مجموعی ان سے انکار نہیں ہو سکا۔ تنقید کی اس کتاب نے بعد کے آنے والے ادبیوں کو تنقید کی اہمیت کا احساس دلایا اور یوں رفتہ رفتہ اُردو تنقید کا ایک قابل قدر سرمایہ فراہم ہو گیا ۔
بیسویں صدی کے آغاز سے اب تک قدیم طرز فکر کے نقاد بھی موجود رہے جو عربی اور فارسی تنقید کے قدیم اصولوں کی پیروی کرتے رہے۔
مثلاً مولا نا شبلی نعمانی، وحید الدین سلیم، پنڈت دتاتریہ کیفی، امام اثر ، نیاز فتح پوری اور مولوی عبد الحق۔نذیر احمد:نذیر احمد نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ انھوں نے انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ تعزیرات ہند کے نام سے کیا مگر ان کی اہمیت ناول نگار کی حیثیت سے ہے۔
اُردو میں سب سے پہلے انھوں نے ناول لکھنا شروع کیے۔ ان کے ناول اصلاحی ہیں۔ وہ مسلمانان برصغیر کی گھریلو زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ
مسلمانوں کی ساری خرابی کا سبب یہ ہے کہ ان کی گھر یلو زندگی سے مذہب کا اثر ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے متعدد ناول لکھے جن میں سے "مرآة العروس” "بنات النعش” "توبتہ النصوح” ، اور ابن الوقت ، خصوصاً بہت مقبول ہوئے۔ نذیر احمد کی زبان اور ان کا محاورہ سند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
نذیر احمد کے ناول جدید تنقید کی روشنی میں کامیاب قرار نہ بھی دیے جائیں تو بھی اس سے انکار ممکن نہیں کہ انھوں نے لکھنے والوں کو ناول کی طرف متوجہ کیا۔
نذیر احمد نے چونکہ مقصدی ناول لکھے تھے لہذا صنف افسانہ کے لیے بھی مقصدیت کا راستہ کھل گیا یعنی یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقصدی افسانوی ادب بھی انتقادی مؤثر ہوسکتا ہے جتنا کہ تفریحی ادب ،
بشرطیکہ لکھنے والے کے قلم میں صلاحیت موجود ہو۔نذیر احمد کے بعد جن ناول نگاروں نے مختلف زمانوں میں اس فن کو آگے بڑھایا ان میں چند ایک نام یہ ہیں۔
رتن ناتھ سرشار ، عبد الحلیم شرر، خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور مرزا ہادی رسوا۔ مرزا ہادی رسوا:مرزا ہادی رسوا نے فنی لحاظ سے ناول کی صنف کو بہت چمکایا ان کا ناول امراؤ جان ادا اردو کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔
محمد حسین آزاد
محمد حسین آزاد اپنے ہم عصر لکھنے والوں میں سرسید کے سوا سب سے زیادہ مؤثر قلم رکھتے ہیں ۔ ان کی مشہورہ معروف تصنیف ” آب حیات ” ، قدیم تذکروں اور جدیدا ادبی تحقیق کے درمیان ایک اہم کڑی ہے۔ اس کتاب میں آزاد نے نثر نگاری کا وہ ہنر دکھایا ہے کہ اس کا جواب نہیں۔
تاریخ ادب ایسے موضوع پر اس قدر دلچسپ اور دل کش کتاب کا لکھا جانا دشوار کام تھا۔ اس طرح ” در بار اکبری” میں کہ خالص تاریخی موضوع سے تعلق رکھتی ہے، آزاد نے نثر نگاری کے جو ہر دکھائے ہیں، پھر "سخندان فارس” ،
جو فارسی زبان اور سنسکرت زبان کے تقابلی مطالعے پر بنتی ہے، اُردو زبان میں علم لسانیات پر اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے جس سے آزاد کا زبانوں کے مطالعے سے گہر لگاؤ ثابت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ "نیرنگ خیال” ہے جس میں شامل مضامین کو ” Essay یعنی انشائیہ کہا جا سکتا ہے۔
جاسکتا۔ آزاد کا اسلوب ان سے مخصوص ہے جس کی پیروی کرنا ہمیشہ دشوار رہا ہے تا ہم چند لکھنے والے ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے آزاد کے رنگ کو نکھارا ہے۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا صلاح الدین احمد خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
مولانا شبلی نعمانی
شبلی مورخ تھے۔ ان کی اکثر تصانیف اسی پس منظر میں ہیں۔ ان کا بیان رنگین اور ان کی زبان سادہ اور سلیس مگر موثر ہے۔ سیرة النبی، الشعر الجم ” اور ” الفاروق ” ان کی معرکے کی تصانیف ہیں۔ لوگ سیرت النبی کو ان کی ادبی زندگی کا حاصل جانتے ہیں ۔
یہ مقدس کتاب ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ ان کا انتقال ہو گیا اور ان کے جمع کیے ہوئے مواد سے ان کے لائق شاگر د مولانا سلیمان ندوی نے کام انتقام کو پہنچایا۔ شعر انجم ” فارسی شاعری کی تاریخ ہے جو اردو میں فارسی شاعری کی تاریخ پر بہترین کتاب ہے ۔ الفاروق ” حضرت عمر فاروق ” کی زندگی اور ان کے کارناموں پر مستند کتاب ہے۔
شبلی نے یہ کتاب بڑی دلسوزی اور کاوش سے لکھی ہے اور سوانح نگاری کا ایک نہایت عمدہ مضمون ہے۔ اس زمانے میں مولانا حالی نے بھی تین قابل ذکر سوانح عمریاں تحریر کیں ، ان میں ایک یادگار غالب ہے جو انھوں نے اپنے استاد مرزا غالب کے حالات زندگی اور ان کی تحریروں کے بارے میں لکھی ہے۔ دوسری ” ” حیات سعدی” ہے۔
جس میں فارسی کے مشہور شاعر اور نثر نگار شیخ سعدی کے حالات اور ان کی تحریروں سے بحث کی گئی ہے۔ تیسری حیات جاوید ہے جو سرسید کے حالات اور ان کے کارناموں پرمشتمل ہے۔
غرض یہ کہ سرسید اور ان کے زمانے کے انہوں نے اردو نثر کو ایک باوقار مقام عطا کیا اور اب لکھنے والوں کو نثر میں اظہار مطالب میں کوئی دشواری نہ رہی ۔
1936 ء تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ زندگی کے ہر موضوع پر بڑے جوش و خروشسے لکھاتا رہا اور نثر کا قافلہ آگے بڑھتا رہا۔
ترقی پسند نثر
1935 میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا جس نے ادب کی ہر صنف کو متاثر کیا۔ اس میں نظم و نثر دونوں شامل ہیں ۔ تنقید بھی تھی اور افسانوی ادب بھی۔
پریم چند
اس تحریک کے آغاز سے پہلے ہی ایک ایسا افسانہ نگار سامنے آیاتھا جس نے اپنے آپ کو منوالیا تھا اور جو نذیر احمد کی طرح تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کا ادبی مقام ہمیشہ قابک احترام رہا ہے اور اس نے میر امن کی طرح بے مثال مقبولیت حاصل کی ہے۔
یہ پریم چند ہیں جنھوں نے ناول بھی لکھے مگر مختصر افسانے کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ پریم چند کے ناول اور افسانے سماجی اور معاشی مسائل سے خصوصاً متعلق ہیں اور مقصدی افسانہ نگاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان کا انداز بیان بہت دل نشین ہے۔
انھوں نے ہندی میں بھی کہانی میں لکھی ہیں مگر ان کی شہرت کا دار ومدار اردو کتابوں پر ہے۔ پریم چند نے آنے والی نسلوں کو جس شدت کے ساتھ متاثر کیا کوئی اور نہ کر سکا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ ترقی پسند افسانوی ادب کے لیے پریم چند نے زمین ہموار کر رکھی تھی تو غلط نہ ہوگا ۔ وہ ناول نگار اور افسانہ نویس، جو اس تحریک سے خصوصاً متاثر ہوئے اور وابستہ رہے،
ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں، علی عباس حسینی ، کرشن چندر، عصمت چغتائی ، احمد ندیم قاسمی ، حیات اللہ انصاری اور راجندر سنگھ بیدی۔
حلقہ اربابِ ذوق
ترقی پسند تحریک سے جن ادیبوں کو اتفاق نہ تھا انھوں نے حلقہ ارباب ذوق کے نام سے ایک جماعت قائم کی جو بہت جلد ایک تحریک کی صورت اختیار کرگئی۔ نئے لکھنے والوں کی ایک بڑی جماعت کسی نہ کسی شکل میں اس سے وابستہ رہی ۔
جو لوگ حلقہ ارباب ذوق کی ادبی تحریک سے وابستہ تھے یا جو کسی تحریک سے تعلق نہیں رکھتے تھے، ان میں سعادت حسن منٹو ایک انفرادی مقام کے حامل تھے۔ حسن عسکری ، قرة العین حیدر، غلام عباس اور انتظار حسین کا شمار موجودہ دور کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
افسانوی ادب کے ساتھ تنقید کا کام بھی بڑے زور شور سے جاری رہا۔ وہ نقاد جنھوں نے جدید نقد ادب میں نام پیدا کیا ان میں مجنوں گورکھپوری، نیاز فتح پوری ، سید احتشام حسین، سید عابد علی عابد ، ڈاکٹر سید عبد الله محمد حسن عسکری ، اخترحسین رائے پوری، مولانا صلاح الدین احمد ، ڈاکٹر عبادت بریلوی ،
ممتاز حسین اور میرا جی شامل ہیں ۔
ڈرامہ
ڈراما نگاری کا آغاز یوں تو بہت پہلے واجد علی شاہ کے عہد میں ہوا اور اس زمانے کے ایک مشہور شاعر امانت لکھنوی کی اندر سبھا کو پہلا ڈراما قرار دیا جاتا ہے مگر دیگر اصناف کے مقابلے میں ڈرامے کے ارتقا کی رفتار بہت سست رہی ۔
سب سے جاندار ڈراما نگار جو سامنے آیا وہ آغا حشر تھے۔ آغا حشر شہر شہر اپنا تھیٹر لے کر پھرے۔ انھوں نے نثر و شعر سے اپنے ڈرامے کو آراستہ کیا اور ملک گیر شہرت حاصل کی مگر بعض وجوہ کی بنا پر سٹیج ڈراما مسلمان معاشرے میں زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔
لہذا ڈرامے صرف کتابی شکل اختیار کر سکے۔ جن ڈراما نگاروں نے اس صنف میں مقبولیت حاصل کی ان میں سید امتیاز علی تاج، محمد مجیب انور ، محمد عمر ، سید عابد علی عابد اور میرزا ادیب شامل ہیں۔
تحقیق بھی ادب کا ایک اہم شعبہ ہے۔ تنقید سے ہم کسی زمانے کے مزاج اور رویوں کو معلوم کرتے ہیں اور تحقیق سے ان نقوش کو تلاش کرتے ہیں جن پر چل کر زندگی اور ادب ارتقائی منازل طے کر لیتے ہیں ۔
اُردو ادب میں جن محققین نے نام پیدا کیا ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔ حافظ محمود شیرانی، وحید الدین سلیم، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سید عبد الله ،محی الدین قادری زور، نصیر الدین ہاشمی، قاضی عبدالورود، ڈاکٹر گیان چند جین ، ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی اور حامد حسن قادری۔
طنز و مزاح
طنز و مزاح بھی ادب کا لازمی جزو رہا ہے ۔ اب تک جن مزاح نگاروں نے مقبولیت حاصل کی ہے، ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں : عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ ، پطرس بخاری، چراغ حسن حسرت، مجید لاہوری ، حاجی لق لق ، رشید احمد صدیقی ، کنہیالال کپور ، شوکت تھانوی ، شفیق الرحمن، کرنل محمد خاں اور مشتاق یوسفی ۔
(بشکریہ سید شهرت بخاری، غلام تقلین نقوی ، آغا سہیل )
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں