اردو میں نعتیہ شاعری کی تاریخ کا مختصر جائزہ
اردو کی اسلامی شاعری میں صنفِ حمد گوٸی کی طرح صنفِ نعت بھی ایک قدیم صنف ہے۔مسلمانوں نے ہمیشہ عقیدہ رسالت پر کامل یقین رکھتےہوۓ سیرتِ مبارکہ کو مشعلِ راہ بنایا۔
اردو میں نعتیہ شاعری کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے قبل نعت کی تعریف دیکھنا اہم ہوگا۔
بقول ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق:
” نعت کے معنی یوں تو وصف کےہیں لیکن ہمارے ادب میں اس کا استعمال مجازاً صرف حضرت رسولِ کریم، سیدالمرسلینﷺ کےوصف ِ محمودو ثنا کے لیے ہوا ہے جس کا تعلق دینی احساس اور عقیدت مندی سے ہے لہٰذا اسے خالص دینی اور اسلامی ادب میں شمار کیا جاۓ گا“
ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق، اردو میں نعتیہ شاعری، اردو اکیڈمی، سندھ کراچی۔١٩٧٦، ص ١٧
اگر اردو کی مذہبی شاعری میں صنفِ نعت کی روایت کا مطالعہ کیا جاۓتو صنفِ نعت بھی غزل اور فارسی کے زیرِ اثر اردو میں آٸی۔ عربی اور فارسی کی نعتیہ شاعری کے زیرِ اثر اردو شاعری میں بھی نعتیہ مضامین کی روایت کافی پرانی ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری رقم طراز ہیں:
” دکن ، دلی ، لکھنٶ، رام پور، بھوپال، حیدرآباد اور لاہور میں جہاں جہاں اردو شاعری کے مرکز قاٸم ہوۓ، ہر جگہ بزمِ شعرا میں نعت کا موضوع مقبولِ خاص و عام رہا۔ہر دور میں بعض بہت اچھی نعتیں لکھی گٸیں“
اردو غزل ، نعت اور مثنوی از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، الوقار پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، ٢٠٠٤، ص ٢٩١
اردو شاعری کے عمیق تاریخی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شعرا اپنے دواوین کو باعثِ ثواب سمجھتے ہوۓ ابتدا میں حمد کے ساتھ ساتھ نعتیہ اشعارسے بھی مزین کرتے تھے۔
طاہر سلطانی اپنےمضمون” نعت نگاری، ایک عظیم سچاٸی“ میں اردو میں نعتیہ شاعری کی ابتدا کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
”فخرالدین نظامی کی مثنوی”کدم راٶ پدم راٶ“ کا آغاز حمدونعت سے ہوتا ہے۔یاد رہے کہ مثنوی”کدم راٶ پدم راٶ“ اردو کی پہلی مثنوی ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو نعت نگاری کا آغاز فخرالدین نظامی کی مثنوی سے ہوا۔یہ مثنوی ٨٨٥ ہجری بمطابق ١٣٩٦ عیسوی لکھی گٸ،لیکن باقاعدہ پہلی نعت حضرت بندہ نواز گیسو دراز نے لکھی۔مذکورہ نعت کو حمایت علی شاعر نے” عقیدت کا سفر“ اور ادیب راۓ پوری نے” مدارج النعت“ میں اردو کی پہلی نعت قرار دیا ہے۔اردو کی پہلی نعت کا مطلع یہ ہے
اے محمدﷺ جملو جم جم جلوہ تیرا
ذات کی تجلی ہوۓ پس سپورن سہرا“
اردو نعمت تعارف اور ارتقاء
طاہر سلطانی، مضمون: نعت نگاری۔ایک عظیم سچاٸی، مشمولہ روزنامہ جنگ کراچی۔مڈ ویک میگزین، ٢١ مارچ ٢٠٠٧۔ص ١٤
دکنی دور میں جتنی بھی مثنویاں لکھی گٸیں تقریباً سب کے آغاز میں حمدیہ اشعار کے بعد نعتیہ اشعار کا سراغ ملتا ہے اس طرح نعتیہ شاعری کی روایت دکن میں مستحکم ہوچکی تھی۔مثنویات میں نعتیہ شاعری کی یہ روایت بہمنی سلطنت سے شروع ہوکر عادل شاہی، قطب شاہی اور مغلیہ عہد کی مثنویوں تک برقرار رہی۔
مثنویات کےعلاوہ دکنی عہد کے دیگر شعرا مثلاً ولی دکنی، محمد قلی قطب شاہ، علی عادل شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کے کلام میں بھی نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ کے ہاں کثیر تعداد میں نعتیہ اشعار موجود ہیں۔
دیا بندے کوں حق نبی کا خطاب
حکم دے دیا نور جوں ماہتاب
چاند سورج روشنی پایاتمارے نور تھے
آب کوثر کوں شرف تھڈی کے پانی بور تھے
محمد قلی قطب شاہ،کلیات(مرتبہ) ڈاکٹر سیدہ جعفر،ص ٣٠١
نعتیہ اشعار کے حوالے سے قلی قطب کا نام اس لیےبھی برتری رکھتا ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری سے نعت کو ایک موضوعاتی صنفِ سخن کے طور پر شناخت ملی۔ڈا کٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:
”نعت کے موضوع کی صنفی حیثیت متعین کرنے میں پہلا اہم حوالہ قلی قطب شاہ کا ہی ملتا ہے۔اردوۓ قدیم کی نعت گوٸی میں قلی قطب شاہ کی اہمیت اس سبب سے بھی ہے کہ انہوں نے فارسی کی پیوندکاری سے اردو زبان کے داٸرے کو وسعت دی اور نعت کو فارسی عروض و بحورسے آشنا کیا“
ڈاکٹر ریاض مجید، اردو میں نعت گوٸی،اقبال اکیڈمی، لاہور۔١٩٩٠۔ص ١٩٠
دکنی دور میں جتنی بھی مثنویاں لکھی گٸیں تقریباً سب کے آغاز میں حمدیہ اشعار کے بعد نعتیہ اشعار کا سراغ ملتا ہے اس طرح نعتیہ شاعری کی روایت دکن میں مستحکم ہوچکی تھی۔مثنویات میں نعتیہ شاعری کی یہ روایت بہمنی سلطنت سے شروع ہوکر عادل شاہی، قطب شاہی اور مغلیہ عہد کی مثنویوں تک برقرار رہی۔
مثنویات کےعلاوہ دکنی عہد کے دیگر شعرا مثلاً ولی دکنی، محمد قلی قطب شاہ، علی عادل شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کے کلام میں بھی نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ کے ہاں کثیر تعداد میں نعتیہ اشعار موجود ہیں۔
دیا بندے کوں حق نبی کا خطاب
حکم دے دیا نور جوں ماہتاب
چاند سورج روشنی پایاتمارے نور تھے
آب کوثر کوں شرف تھڈی کے پانی بور تھے
محمد قلی قطب شاہ،کلیات(مرتبہ) ڈاکٹر سیدہ جعفر،ص ٣٠١
نعتیہ اشعار کے حوالے سے قلی قطب کا نام اس لیےبھی برتری رکھتا ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری سے نعت کو ایک موضوعاتی صنفِ سخن کے طور پر شناخت ملی۔ڈا کٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:
”نعت کے موضوع کی صنفی حیثیت متعین کرنے میں پہلا اہم حوالہ قلی قطب شاہ کا ہی ملتا ہے۔اردوۓ قدیم کی نعت گوٸی میں قلی قطب شاہ کی اہمیت اس سبب سے بھی ہے کہ انہوں نے فارسی کی پیوندکاری سے اردو زبان کے داٸرے کو وسعت دی اور نعت کو فارسی عروض و بحورسے آشنا کیا“
ڈاکٹر ریاض مجید، اردو میں نعت گوٸی،اقبال اکیڈمی، لاہور۔١٩٩٠۔ص ١٩٠
قلی قطب شاہ کے بعد نعتیہ شاعری میں ولی دکنی کا نام قابلِ ذکر ہے۔سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں بھی نعتیہ رنگ میں اشعار ملتے ہیں لیکن ولی دکنی کا نعتیہ لب و لہجہ اور لفظیات کو برتنے کا سلیقہ نعتیہ شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔
یا محمد دو جہاں کی عید ہے تجھ ذات سوں
خلق کو لازم ہے جیوں کوں تجھ پہ قربانی کرے
ولی دکنی، کلیات( مرتبہ) نور الحسن ہاشمی
شمالی ہند میں اردو شاعری کے آغاز کے ساتھ ہی ایہام گوٸی کا رواج پڑا، جو کہ اردو شاعری کاپہلا باقاعدہ دور بھی ہے۔ایہام گو شعرا میں آبرو، مضمون، ناجی اورفغاں کے ہاں نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کے ہاں بھی اللہ کی حمد و ثنا کے ساتھ ساتھ نعتیہ اشعار پاۓ جاتے ہیں:
تم شہِ دنیا و دیں ہو، یا محمد مصطفٰی
سر گروہِ مسلمیں ہع، یا محمد مصطفٰی
قعبہٕ اہلِ یقیں ہو، یا محمد مصطفٰی
رحمةاللعالمین ہو، یا محمد مصطفٰی
نظیر اکبر آبادی، کلیات ۔ص ٢٩٩
شمالی ہند میں مرزا رفیع سودا کے قصاٸد میں باقاعدہ نعتیہ اسلوب دیکھنے میں آتا ہے۔سودا کے ایک قصیدےکا مطلع یہ ہے۔
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاۓ مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنارِ تسبیحِ سلیمانی
سودا، کلیات( مرتبہ) عبد الباری آسی۔نول کشور، لکھنٶ۔١٩٣٦۔ص ٢٢٢
اس قصیدے کو ڈاکٹر طلحہ رضوی برق نے شمالی ہند میں اردو کی باضابطہ نعتیہ شاعری کا ابتداٸی نمونہ قرار دیا ہے۔
” اردو کی نعتیہ شاعری کے اس سفر میں سودا کے بعد بتدریج خواجہ میر درد، میر تقی میر، مرزا غالب، ذوق دہلوی، مومن خاں مومن،مصحفی اور میر حسن کے نام نظر آتے ہیں“
ڈاکٹر طلحہ رضوی برق، اردو میں نعتیہ شاعری۔لیبل لیتھو پریس، پٹنہ، بہار درد، میر ، غالب،مومن ،ذوق اور بہادر شاہ ظفر کےہاں غزل کی ہیٸت میں نعتیہ اشعار موجود ہیں۔
انیسویں صدی کےوہ دو شعرا جنہوں نے اپنے نعتیہ مضامین سے اردو نعت گوٸی کے٣ قدو قامت کو بڑھایا، کرامت علی خاں شہیدی اور غلام امام شہیدی ہیں۔ کرامت علی خاں شہیدی کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی یہ راۓ
بہت اہمیت رکھتی ہے:
”کرامت علی خاں شہیدی۔۔۔۔حقیقی معنوں میں عاشقِ رسولﷺ تھے ان کا ایک نعتیہ قصیدہ رنگِ قدیم کی شاعری کا قابلِ ذکر نمونہ ہے۔یہ قصیدہ اتنا مقبول ہوا کہ بعد کے متعدد شعرا نے اس کی تقلید میں قصیدے لکھے اور نظمیں لکھیں۔اس قصیدے میں انہوں نے کہا تھا:
تمنا ہے درختوں پہ ترے روضے کے جا بیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طاٸرِ روحِ مقید کا
ان کی یہ دعا قبول ہوگٸ۔شہیدی ١٢٥٥ ہجری میں حجِ بیت اللہ کو گٸے ، بیمار پڑے اور وہیں ابدی نیند سو گٸے“
ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اردو کی نعتیہ شاعری، آٸینہ ادب، لاہور۔١٩٧٤، ص٥٠
اسی عہد میں شاہ نیاز بریلوی اور بیدم شاہ وارثی کا نعتیہ کلام بھی اہم مقام رکھتا ہےانیسویں صدی میں ہی اردو نعت گوٸی کے حوالے سے دو نمایاں ترین نام امیر میناٸی اور محسن کاکوروی کے ہیں۔بلاشبہ محسن اور امیر کی نعتیہ شاعری کا عہد اردو نعت نگاری کا زریں دور کہلاتا ہے۔ نعتیہ نمونہ کلام امیر میناٸی:
تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول
بر آٸیں میرے دل کے بھی ارمان یارسول
کیوں دل پہ میں فدا نہ کروں جان یارسول
رہتے ہیں اس میں آپ کے ارمان یارسول
امیر میناٸی، محامد خاتم النبیین، امیر المطابع، حیدرآباد، دکن۔١٨٧٦، ص ٧٦
انیسویں صدی میں امیر میناٸی کے بعد دوسرےاہم نعت گو شاعر محسن کاکوروی ہیں۔ اس زمانے کے دوسرے شعرا کی طرح محسن کاکوروی کے ہاں نعتیہ مضامین روایتی اور جزوی انداز میں نہیں ملتے بلکہ انہوں نے نعت گوٸی کے معیار کو اتنا بلند کردیا کہ اس میں مزید اضافہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر ریاض مجید کا یہ کہنا ہے:
” تقلیدی روش اور تشکیلی مراحل کے بعد محسن کے ہاں پہلی بار اردو نعت فن کا ایک مثالی معیار اور ایک جداگانہ صنفِ سخن کا اعلیٰ درجہ حاصل کرتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ محسن کا شغفِ نعت ہے“
اردو میں نعت گوٸی ،ڈاکٹر ریاض مجید۔ص ٨٥
محسن کا قصیدہ لامیہ اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک لازوال اور انمٹ نقش کی حیثیت رکھتا ہے۔
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برف کے کاندھے پہ لاٸی ہے صبا گنگا جل
اوجِ رخصت کا قمر، نخلِ دوعالم کا ثمر
بحرِ وحدت کا گیر، چشمہ کثرت کا کنول
محمد محسن،مولوی، کلیاتِ نعت، ( مرتبہ) مولوی محمد نورالحسن۔الناظر پریس لکھنٶ۔١٩٩٥، ص ٩٥
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
”اردو میں نعت گوٸی کا مقبول ترین اورکامیاب ترین دور حقیقتاً محسن کاکوروی اور امیر میناٸی سے شروع ہوتا ہے۔دونوں قال اللہ قال الرسول کے پابنداور حبِ رسلﷺ سے سرشار تھے۔دونوں نے نعتیہ شاعری میں ایک بڑا ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے“
ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اردو غزل، نعت اور مثنوی، ص ٣٠٠
انیسویں صدی کاوسط مسلمانوں کے لیے پر آشوب عہد تھا
مسلمان تعلیمی، اخلاقی، مذہبی ہر حوالے سے زوال کا شکار تھے۔ایسے نامساعد حالات میں تحریکِ سرسید اور سرسیدکے رفقإ نے ذہنی طور پر غلام اور غافل قوم کو سہارا دے کر عمل پر آمادہ کیا۔جلد ہی مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔اس دور میں سر سید اور رفقاۓ سرسید کے قلم سے ایسے ادب پارے تخلیق ہوۓ جس کا مقصد صرف تفننِ طبع ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی اخلاقی،تعلیمی اور فکری اصلاح کا عظیم مقصد پیشِ نظر تھا۔
اردو نعت کےسفر میں بھی تحریکِ سرسید کا نمایاں حصہ ہے۔شمس العلمإ الطاف حسین حالی نے نعتیہ شاعری کے موضوعات میں تنوع پیدا کرتے ہوۓ ایک نٸے موڑ پر لا کھڑا کیا کیونکہ اس سے پہلے زیادہ تر نعتیہ اشعار میں سراپا نگاری اور حسنِ عقیدت کا اظہار ملتا ہے مگر حالی نے شفعِ محشرﷺ کے ان گوشوں پر بھی روشنی ڈالی جو سیرت کے آفاقی اخلاقی پہلوٶں کا شاندار مرقع ہیں۔
حالی کی معرکتہ الآرا تصنیف” مسدس مدو جزر اسلام“ کا نعتیہ حصہ لاثانی اور لافانی ہے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پراۓ کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
الطاف حسین حالی،کلیاتِ نظم( جلد دوم)ص ٦٦
حالی کی نعتیہ غزلیں سادہ مگر پرتاثیر ہیں۔
مولانا سید سلیمان ندوی نے، مسدس مدوجزر اسلام، کے دیباچے میں حالی کی زبان کی سادگی اور بیان کی تاثیر پر کچھ یوں اظہارِ خیال کیا ہے:
”معلوم ہوتا ہے کہ کوٸی صاف شفاف نہر کسی ہموار تراٸی میں آہستگی سے بہتی چلی جارہی ہے۔نہ کہیں رکاوٹ ہے، نہ لفظ میں گرانی ہے، نہ قافیہ کی تنگی ہے، زبان میں گھلاوٹ، بیان میں حلاوت ،لفظوں میں فصاحت اور ترکیبوں میں لطافت ہے۔ہماری زبان میں سہلِ ممتنع کی یہ بہترین مثال ہے“
سید سلیمان ندوی،مولانا، مقدمہ مسدس حالی،صدی ایڈیشن، حالی پبلشنگ ہاٶس، دہلی، ١٩٣٥، ص٤٦
اس حوالے سے ڈاکٹر ابول الخیر کشفی لکھتے ہیں کہ:
” ١٨٥٧ کی جنگِ آزادی
کے بعد کی نعتیہ شاعری اس عہد کے مساٸل اور حالات کی عکاس ہے۔حالی کے استغاثہ سے یہ رنگ ابھر کر جدید ادب کا حصہ بن گیا۔
اے خاصہِٕ خاصانِ رُسُل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
بیسویں صدی کے مجاہدینِ آزادی میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی کے نام بہت نمایاں ہیں۔تحریکِ حریت میں محمد عربی کی یاد ، ان کا ذکر،ان سے تخاطب، ان مجاہدوں کا سب سے مٶثر حربہ رہا ہے“
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی۔مضمون، نعت گوٸی اور سیرت و نعت کی محافل کا مطالعہ اعلیٰ تعلیم میں، مشمولہ نعت رنگ، کراچی۔شمارہ ١٢٠، اکتوبر ٢٠٠١۔ص ١٣
حالی کے معاصرین میں علامہ شبلی نعمانی،اکبر الٰہ آبادی، غلام مصطفیٰ عشقی،مولانا محمد علی جوہر اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کے نام نعت گوٸی کے حوالے سے نمایاں ہیں۔مولانا احمد رضا خان بریلوی کا تحریر کردہ نعتیہ سلام اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتا ہے۔
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
احمد رضا خان،مولانا، حداٸق بخشش،(مرتبہ) شمس بریلوی، مدینہ پبلشنگ ہاٶس ،کراچی،١٩٧٦، ص١٥
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے نعتیہ اشعار قرآن و حدیث سے استفادہ کے باعث منفرد شان اور اثر رکھتے ہیں۔ان کا نعتیہ مجموعہ ”حداٸقِ بخشش“ کافی معروف ہے۔
ملّتِ اسلامیہ کے غم گساروں میں ایک اہم نام شاعرِمشرق علامہ محمد اقبال کا ہے۔جن کی روح پرور نعتیہ شاعری نے مسلمانوں کو اپنے اسلامی تشخص سے آشناٸی کراٸی۔علامہ نے باقاعدہ ”نعت“ کے عنوان سے نعتیہ کلام نہیں لکھا لیکن ان کی بہت سی نظموں اور غزلوں میں نعتیہ رنگ موجود ہے بالعموم ان کی نظمیں اختتام کے قریب پہنچ کر نعتیہ شکل اختیارکرلیتی ہیں۔اس طرح انہوں نے نعت کا داٸرہ وسیع کردیا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے
شیخ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال۔ص ٢٠٧
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
ایضاً ص ٢٠٨
وہ داناۓ سبل، ختم الرسل، مولاۓ کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں،وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طٰہٰ
ایضاً ص ٣١٧
بیسویں صدی میں مولانا ظفر علی خان کا نام بھی نعت نگاری کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔حالی کےرنگ کا تسلسل کہا جاسکتا ہے۔
وہ شمع اجالا جس نےکیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
شفیق بریلوی( مرتب) ارمغانِ نعت، (چودہ سو سالہ نعتوں کا انتخاب، نقش ثانی بہ ترتیبِ نو) مرکز علوم اسلامیہ، کراچی، ١٩٧٦، ص ٢٠٢
چہرہ کشا کرم ترا قاف سے بہ قیرواں
لطف ترا کرشمہ سنج کعبے سے تابہ سومنات
ازسرِ نو کیاگیا دودہِ آدم ارجمند
اٹھ گٸ قیدِ رنگ و خوں، مٹ گیا فرقِ نسل و ذات
شایاں ہے تجھ کو سرورِ کونین کا لقب
نازاں ہے تجھ پہ رحمتِ دارین کا خطاب
پیدا ہوٸی نہ تیری مواخات کی نظیر
لایا نہ کوٸی تیری مساوات کا جواب
مختصر تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک و ہند ،اردو ادب( آغاز تا بیسویں صدی) مدیر عمومی: خواجہ محمد زکریا۔ پنجاب یونیورسٹی، لاہور
مولانا ظفر علی خاں کی نعتیں فنِ شعر کے تمام تقاضوں پر پورا اترتی ہیں۔ انہوں نے مختلف ہیٸتوں میں نعتیں لکھ کر ہر ہیٸت کے فنی لوازمات کا بھرپور خیال رکھا۔
اسی عہدمیں حفیظ جالندھری کا نعتیہ کلام منفرد نقوش کے ساتھ سامنے آتا ہے۔خاص طور پر ”شاہنامہ اسلام“ اردو کی اسلامی شاعری میں لازوال حیثیت رکھتا ہے۔
شاہنامہ اسلام میں ”محبوبِ سبحانی“ کے عنوان سے نعتیہ سلام لازوال شہرت کا حامل ہے:
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات، فخرِ نوعِ انسانی
سلام اے ظلِ رحمانی،سلام اے نورِ یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی
ترے آنے سے رونق آگٸ گلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربانی
ایضاً ص١٠١٣
اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے معاصرین میں سیماب اکبر آبادی،عزیز لکھنوی،ضیا القادری، امین حزیں،عبداللہ نیاز،بہزاد لکھنوی، اثر صہباٸی اوراسد ملتانی کے نام نمایاں ہیں۔
ان میں بہزاد لکھنوی نعت گوٸی کےحوالے سے ممتاز مقام اور خصوصی حوالہ رکھتےہیں۔
عشقِ احمد ہوگیا ہے جب سے دل میں ضو فگن
مجھ کو اپنی زیست کا منشا نظر آنے لگا
ان کی رحمت دیکھ کر ان کی غلامی کے طفیل
اب تو مجھ کو غیر بھی اپنا نظرآنے لگا
ایضاً ص ١٠١١
بیسویں صدی میں بہت سے غزل گوشعرا نے بھی نعتیں لکھیں جن میں حسرت موہانی،اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی نعتیہ حوالے سے اہم نام ہیں۔مختصراً ان شعرا کے نعتیہ اشعار کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
حسرت موہانی:
والسلام اے شہِ بشیر و نذیر
داعی و شاہد و سراجِ منیر
مظہرِ شانِ کبریا صلِ علیٰ محمد
آٸنہِ خدا نما صلِ علیٰ محمد
ایضاً ص ١٠١٢
قیامِ پاکستان کے بعد لکھنے والے شعرا میں نمایاں نام ماہر القادری، اقبال عظیم،۔یوسف ظفر،حافظ مظہر الدین،احسان دانش، قیوم نظر،طفیل ہوشیارپوری، نعیم صدیقی، احمد ندیم قاسمی، حافظ لدھیانوی، اعظم چشتی، محشر بدایونی،طفیل دارا، عبد المتین، منیر نیازی، ساحر صدیقی، عبد العزیز خالد، انجم رومانی،حفیظ تاٸب، مظفر وارثی، حفیظ صدیقی،صوفی محمد افضل فقیر،خالد احمد، محسن نقوی، اور جعفر بلوچ کے ہیں۔منتخب شعراکا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
ماہر القادری:
وہ آۓ اور آۓ بھی قرآں لیے ہوۓ
تنظیمِ کاٸنات کا ساماں لیے ہوۓ
ان کے حضور ان کی نوازش کی سن کے دھوم
آٸی سحر بھی چاکِ گریباں لیے ہوۓ
کلیاتِ ماہر(ماہر القادری) مرتبہ: عبد الغنی فاروق۔القمر انٹر پراٸزر،١٩٩٤۔ص ١٣٥
اقبال عظیم:
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
قاب قوسین از اقبال عظیم۔فیٸر فین پبلشرز لاہور،١٩٩٢ص ٧٤
اقبال عظیم کی نعتیں سوز و گداز اور فنِ شعر سے بھرپور ہیں۔
حافظ لدھیانوی:
متعدد اصناف میں نعت گوٸی کرنے والے حافظ لدھیانوی کے ہاں نعتیہ موضوعات بھی بکثرت ملتے ہیں۔
محمد مصطفےٰ ، جانِ دوعالم
محمد سب سے افضل، سب سے اکرم
محمد واقفِ سرِ معانی
محمد شارحِ آیاتِ محکم
محمد آشناۓ کیفِ ہستی
محمد راز ہاۓ دل کامحرم
ثناۓ خواجہﷺ از حافظ لدھیانوی۔الحمرا آرٹ پرنٹرزلاہور۔ ١٩٧٦۔بارِدوم۔ص ٣٦
عارف عبد المتین:
عارف عبد المتین کےہاں نبی اکرمﷺ کی سیرت وتعلیمات پر زیادہ تر نعتیہ کلام ملتا ہے۔
زمانہ تیرے لیے ہے، ازل ابد تیرے
ان آٸینوں میں جھلکتے ہیں خال وخد تیرے
میں کس طرح ترے اوصاف کا شمار کروں
خدا کے بعد محاسن ہیں بے عدد تیرے
مختصرتاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک و ہند۔اردو ادب ( آغاز تا بیسویں صدی) مدیر عمومی۔خواجہ زکریا، پنجاب یونیورسٹی لاہور۔ص ١٠١٩
عبد العزیز خالد:
عبد العزیز خالد نعت نگاری میں ایک انفرادی اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔مختلف اصنافِ شاعری میں بکثرت مجموعوں میں ان کے چھ نعتیہ مجموعے شامل ہیں:
مزمل،مدثر ہیں القاب تیرے
تو یٰسین و طآحا میں طلعت نما ہے
ثنا تیری کرتے ہیں کروبیاں بھی
توسلطانِ ذیشانِ ہر دوسرا ہے
فارقلیط از عبدالعزیز خالد۔ ایوان پبلشرز ۔کراچی، ١٩٦٤۔ص٤٩
حفیظ تاٸب:
قیامِ پاکستان کے بعد نعت کےاسلوب ساز اور عہد ساز شعرا میں حفیظ سرِ فہرست نظر آتے ہیں۔ نعت پر تنقیدی و تحقیقی کام کرنے باعث بھی آپ اپنے ہم عصر شعرا میں الگ پہچانے جاتے ہیں۔
خوش خصال و خوش خیال ،و خوش خبر ،خیر البشر
خوش نژاد و خوش نہاد و خوش نظر، خیر البشر
اعتدالِ دین و دنیا، اتصالِ جسم و جاں
اندمالِ زخمِ ہر قلب و جگر، خیر البشر
صلو علیہ وآلہ از حفیظ تاٸب۔ نقوش پریس ، لاہور۔ ١٩٧٨۔ص ٣٢