اردو میں مکتوب نگاری
اردو میں مکتوب نگاری اردو ادب میں غالب ہی وہ پہلے شخص یا شاعر ہیں جن کے خطوط خود ان کی زندگی میں محفوظ کئے گئے اور جن کے دو مجموعے شائع کئے گئے۔
(1) اردوئے معلی اور
(2) عود ہندی ۔
غالب میں خود شناسی اور خود اعتمادی بہت تھی ۔ وہ اپنی شاعری اور اپنے خطوط دونوں کی اہمیت کا صحیح اندازہ رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی شاعری بھی زندہ رہے گی اور ان کے خطوط بھی ۔ اس معاملے میں ان کے اہل نظر احباب بھی ان سے متفق تھے۔
چنانچہ انہوں نے اپنی شاعری کی طرح اپنے خطوط کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں کامیاب رہے۔ غالب کے خطوط کی حفاظت کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ان کے خطوط کے کئی مجموعے سامنے آچکے ہیں ۔غالب ب سے پہلے اردو شاعری میں جو بڑی شخصیتیں گزریں مثلاً ولی، میر تقی میر میر ، درد، مرزا رفیع، میر حسن وغیرہ ان کے خطوط کبھی محفوظ نہ ہو سکے ۔
لیکن غالب کے زمانے سے لے کر آج تک یہ کوشش جاری ہے کہ ممتاز ادیبوں اور شاعروں کے خطوط محفوظ کئے جائیں ۔ چنانچہ غالب کے زمانے کی دوسری نہایت اہم شخصیت سید احمد خان اور ان کے رفقائے کار مولانا حالی، شبلی نعمانی، نذیر احمد اور محمد حسین آزاد کے خطوط کے چپے ہوئے مجموعے موجود ہیں ۔
اردو کے جو صاحب طرز نثر نگار گزرے ہیں انہوں نے اپنے ذاتی خطوط میں بھی اپنی نثر کی خوبیوں کو برقرار رکھنے کا کوشش کی ہے یا اس بات کو یوں سمجھنا چاہیے کہ ان کے ذاتی خطوط میں ان کی نثر کی خوبیاں موجود ہیں۔ مثلاً شبلی نعمانی کے ایک دوست اور پرستار مہدی افادی تھے جو اردو کے مشہور انشا پردازوں میں سے تھے۔
ان کے خطوط کے دو مجموعے ان کی بیگم نے شائع کئے ۔ ان مجموعوں کا ہر منہ مہدی افادی کے مخصوص اسلوب کی نمائندگی کرتا ہے۔یوں تو اگر کسی ادیب یا شاعر کے خطوط میں اسلوب کی خوبیاں نہ ہوں پھر بھی ان کی اہمیت کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ کسی ممتاز ادیب یا شاعر کے خطوط ہیں۔
لیکن بعض اہل قلم کے خطوط اپنے موضوعات اور اسلوبدونوں کے اعتبار سے مستقل تصانیف کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔مثلاً نیاز فتح پوری کے خطوط کے تین مجموعے جو مکتوبات نیاز کے عنوان سے تین جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ یا مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ خطوط جو غبار خاطر کے نام سے شائع ہوئے۔ نیاز اور آزاد کے خطوط ادب عالیہ کی نہایت عمدہ مثالیں ہیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی جو چند سال پہلے انتقال کر گئے اردو کے نہایت بلند پایہ انشا پردازوں میں سے تھے۔ اس وقت تک ان کے خطوط کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔
ان خطوط کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ بھی اردو کے بہترین مکتوب نگاروں میں سے تھے۔ اردو کے بہترین مکتوب نگاروں کا ذکر کرتے وقت صفیہ اختر کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ اردو کے مشہور شاعر اسرار الحق مجاز کی بیہن اردو کے مشہور شاعر جان نثار اختر کی بیوی تھیں۔
انہوں نےاپنی زندگی میں کچھ ادبی مضامین ضرور لکھے لیکن وہ ایک ادیبیہ کی حیثیت سے روشناس نہ ہو سکیں ۔ البتہ انہوں نے جو خطوط اپنے شوہر کے نام لکھے جو ان کی وفات کے بعد "زیر لب” کے نام سے شائع ہوئے وہ بلا اختلاف رائے اردو کے بہترین خطوط میں شمار کئے گئے۔ ” زیر لب کے بعد ان کے خطوط کا ایک اور مجموعہ ” حرف آشنا بھی شائع ہو چکا ہے جو انہی خوبیوں کا حامل ہے جو زیر لب میں پائی جاتی ہیں۔ ابن انشا جو اردو کے نہایت مقبول مزاح نگار اور شاعر تھے خطوط بھی بہت عمدہ لکھتے تھے ۔
اب تک ان کے جو خطوط رسالوں میں شائع ہوئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب کبھی ان کے خطوط کا کوئی مجموعہ شائع ہو گا وہ اردو کے مکتوباتی ادب میں ایک بلند مقام حاصل کر کے رہے گا۔ اردو خطوط کے اس مختصر جائزے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ادیبوں اور شاعروں کے خطوط دو اعتبار سے اہم ہوتے ہیں ایک تو صرف اس اعتبار سے کہ وہ ممتاز ادیبوں اور شاعروں کے خطوط ہیں۔
جن سے کچھ واقعات یا مسائل پر اہم روشنی پڑتی ہے۔ خواہ ان خطوط میں ادب کی چاشنی ہویا نہ ہو۔ مثلاً سید احمد خان مولانا حالی، نذیر احمد، اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال جیسی شخصیتوں کے خطوط کی اصل اہمیت صرف اس بات میں ہے کہ وہ اتنی ممتاز اور بزرگ شخصیتوں کے خطوط ہیں جن سے ان کے خیالات اور نظریات کا پتا چلتا ہے ۔
بعض ممتاز ادیبوں اور شاعروں کے خطوط اس لئے بھی اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ ممتاز ادیبوں اور شاعری کے خطوط ہونے کے علاوہ علی گہرائی اور ادبی رعنائی کے حامل ہوتے ہیں۔ ان خطوط کی اپنی ایک دلکشی ہوتی ہے جو ہمیں بارہ بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے ۔ اس طرح کے خطوط میں غالب، شبلی نعمانی ، نیاز فتح پوری، ابوالکلام آزاد، مہدی افادی، رشید احمد صدیقی، صفیہ اختر اور ابن انشا جیسے اہل قلم کے خطوط شما ر کئے جاسکتے ہیں ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں