اردو میں رومانوی تحریک

رومانوی تحریک

رومانیت ایک جذبہ اور ایک طرزفکر سے عبارت ہے جو حد سے بڑھی ہوئی منطقیت اور عقلیت پسندی کے رد عمل میں ظہور پذیر ہوئی تھی۔

اردو ادب میں رومانوی تحریک سرسید اور علی گڑھ تحریک کی منطقیت اور عقلیت پسندی کے رد عمل کے طور پر وجود میں آئی تھی۔

رومانیت کی ابتدا انیسویں صدی کے آخری حصے میں ہوئی تھی لیکن اسے فروغ پہلی جنگ عظیم کے بعد یعنی بیسویں صدی میں حاصل ہوا تھا ۔

یادر ہے کہ علی گڑھ تحریک بھی انیسویں صدی کی تحریک ہے تو اس طرح تحریکات کی ترتیب یوں ہے:

علی گڑھ تحریک،
رومانوی تحریک،
ترقی پسند تحریک
اور حلقہ ارباب ذوق

رومانیت پسند ادیب و شاعر سماج سے زیادہ فرد پر زور دیتا ہے۔

رومانیت کی ابتدا کا سہرا روسو کے سر باندھا جاتا ہے جس نے کائنات کو زنداں تصور کیا تھا اور آزادی کا مرجع دل کو بنایا تھا۔

مغربی شعر او ادہاھ میں سے ولیم بلیک ، کولرج ، ورڈ سورتھ ، شیلے اور کیٹس وغیرہ نے رومانوی تحریک کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

اردو ادب میں سرسید کی عقلیت کے خلاف عہد سرسید میں سب سے پہلے رومانوی ردعمل کا اظہار حسین آزاد، ناصر علی دہلوی اور عبد الحلیم شرر نے کیا تھا۔

اردو ادب میں رومانیت کے اولین نقوش میر ناصر علی دہلوی کی تحریروں کو قرار دیا جاتا ہے۔

میر ناصر علی دہلوی نے تہذیب الاخلاق کے مقابلے میں تیرہویں صدی ، فسانہ ایام اور صلاے
عام وغیرہ کے نام سے رومانی رسائل جاری کیے تھے ۔

مخزن جس کا اجراء 1901 میں عبد القادر کی ادارت میں ہوا تھا اس رسالے سے بھی رومانوی تحریک کو کافی فروغ حاصل ہوا تھا ۔

محمد حسین آزاد، ناصر علی دہلوی اور عبد الحلیم شر کا تعلق رومانیت کی صبح کا ذب کے ساتھ تھا۔

اقبال اور ابوالکلام نے اسے صبح صادق کا اجالا عطا کیا اور یلدرم، سجاد انصاری، مہدی افادی، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی اور نیاز فتح پوری کے عہد میں یہ تحریک نصف النہار پر پہنچ گئی۔ اردو ادب کی تحریکیں از انور سدید ، ص (431)

ادب لطیف کے شماروں کے ذریعے بھی رومانوی تحریک کو تقویت ملی تھی۔

جس میں مہدی افادی، سجاد حیدر یلدرم، سجاد انصاری، نیاز فتح پوری اور مجنوں گورکھپوری رومانی مضامین اور افسانے لکھا کرتے تھے۔

رومانی تحریک کے شعرا میں اقبال، جوش ، اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری، مجاز اور ساغر نظامی اہم ہیں۔

رومانی نقادوں میں مہدی افادی ، عبد الرحمن بجنوری، نیام فتح پوری، عبد الماجد دریا بادی اور فراق گورکھ پوری ہیں۔

رومانوی تحریک سے وابستہ ادبا، شعرا اور ناقدین

عبد الحلیم شرر

ابوالکلام آزاد

ظفر علی خان

میر ناصر علی دہلوی

اقبال

عشرت لکھنوی

مرزا ادیب

چوہدری افضل الحق

حجاب امتیاز علی

قاضی عبد الغفار

خان احمد حسین خاں

حکیم احمد شجاع

حفیظ جالندھری

عابد علی عابد

عظمت اللہ خاں

عظیم بیگ چغتائی

جوش شیح آبادی

اختر شیرانی

حامد اللہ افسر

احسان دانش

عبد الماجد دریا بادی

علی اختر حیدر آبادی

اختر انصاری

ساغر نظامی

الطاف مش

رومانیت اور منطق دونوں کے حاملین ناقدین

رشید احمد صدیقی

الاحمد سرور

خورشید اسلام

ابواللیث صدیقی

سید وقار عظیم

عبادت بریلوی

محمد اکرم

رومانوی تحریک سے وابستہ ادبا کے چند اہم اقوال

تغزل میں تصوف کو شامل کر لینا ایک غزل گو شاعر کا کمال نہیں بلکہ اس کا عجز ہے۔ ( نیاز فتح پوری )

شاعر پیدا ہوتا ہے بنتا نہیں ۔ یہ مشہور بات ہے لیکن اگر شاعر اسی نظریے پر بھروسہ کر کے شعر کہے تو وہ بگڑ بھی جاتا ہے ۔ ( نیاز فتح پوری )

شاعری انکشاف حیات ہے۔ جس طرح زندگی اپنی نمود میں محدود نہیں اسی طرح شاعری بھی اپنے اظہار میں لاتعین ہے ۔ ( عبد الرحمن بجنوری )

سرسید سے معقولات الگ کر لیجیے تو کچھ نہیں رہتا ۔ نذیر احمد بغیر مذہب کے لقمہ نہیں توڑ سکتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجیے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن آقائے اردو یعنی پروفیسر آزاد انشا پرداز ہیں جن کو کسی
سہارے کی ضرورت نہیں۔ (مہدی افادی)

فرشتے کی انتہا یہ ہے کہ شیطان ہو جائے شیطانیت ایک ہیئت ارتقائی ہے اس لیے زیادہ مستحکم ہے۔ انسان نہ حق ہے اور نہ باطل ۔ اس کا وجود محض فریب کا ئنات ہے ۔ (سجاد انصاری)

ہر زمانے میں عورت کا مقیاس الشباب دائرہ حسن کا مرکز رہا ہے۔ عورت وہی با کیف ہوگی جو لذت آشنا ہو گی۔ سینہ کا حصہ افقی بالکل کھلا اور او دی رگوں کے پیچ و خم اور اعصاب کی کھینچ تان بتا رہی ہے کہ سرکشی لباس کی ممنون نہیں۔ ( مہدی افادی )

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

مزید یہ بھی پڑھیں: رومانوی تحریک آغاز سے اختتام تک pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں