موضوعات کی فہرست
اردو میں ایہام گوئی
ایہام گوئی تعارف
ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے وہم میں ڈالنا۔
ایہام گوئی کا مطلب یہ ہے کہ شاعر اپنے کلام میں ایسا ذو معنی لفظ استعمال کرئے جس سے سننے والا تھوڑی دیر کے لیے وہم میں پڑ جائے کہ آخر اس کے صحیح معنی کیا ہیں؟
عام طور سے ایسے لفظ کے دو معنی ہوتے ہیں ایک معنی قریب جو آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے لیکن وہ شاعر کی مراد نہیں ہوتا اور دوسرا معنی بعید جو تھوڑے تامل کے بعد معلوم ہوتا ہے
اور یہی معنی بعید شاعر کی مراد ہوتا ہے۔ اردو میں ایہام گوئی کا رواج سب سے زیادہ محمد شاہی عہد میں ہوا تھا۔
ایہام گوئی پس منظر
اردو میں ایہام ہندی شاعری کے اثر سے آیا ہے۔
خواجہ میر درد نے ایہام کو لفظ دوئی قرار دیا ہے۔
محمد حسین آزاد کا خیال ہے کہ اردو میں ایہام کو ہندی دوہوں کی اساس پر فروغ حاصل ہوا۔
ایسا ہی مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ اردو ایہام پر زیادہ تر ہندی شاعری کا اثر ہوا اور ہندی میں یہ چیز سنسکرت سے پہنچی ہے۔
ایہام کی تحریک کا نقطۂ آغاز ولی کو قرار دیا جاتا ہے ۔ ( اردو ادب کی تحریکیں ص 190 )
ایہام گوئی کے اہم شعراء
ایہام گوئی کے نامور شعرا میں آرزو ، آبرو، شاکر ناجی ، یک رنگ اور مضمون کا شمار ہوتا ہے۔
احسن شاہ ولی اللہ اشتیاق ، عبد الوہاب یکرو اور میر محمد سجاد بھی ایہام گو شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔
شاہ حاتم کا بھی رجحان ابتداء ایہام گوئی کی طرف تھا۔
ایہام گوئی کے خلاف ردعمل
تحریک ایہام کے خلاف روعمل کا اظہار مرزا مظہر جانِ جاناں، انعام اللہ خاں یقیں ،ظہور الدین
حاتم اور مرزا محمد رفیع سودا نے کیا تھا۔
سب سے پہلے ایہام گوئی کے خلاف مرزا مظہر جان جاناں نے آواز بلند کی تھی ۔
مغرب میں ایہام گوئی:
انگلستان میں ملکہ ایلز بتھ کے دربار میں ایہام کا بہت زور تھا۔
شیکسپیئر کے ڈراموں میں ایہام (Pun) کثرت سے استعمال ہوا ہے۔
مغرب میں مرزا مظہر جانِ جاناں کی طرح ڈاکٹر جانسن نے ایہام گوئی کے خلاف مہم چلائی تھی۔
اور اسے مبتذل کہہ کر رد کر دیا تھا۔
فرانس میں لوئی چہار دہم کے عہد میں ایہام کا رواج ہوا تھا۔
ولی کے تلامذہ میں سے شیخ نثار ، عمر ، رضی اور اشرف اور ان کے معنوی تلامذہ میں سے سراج ، دادو اور عزلت وغیرہ نے دکن میں ایہام کو اپنا شعار بنایا تھا۔ (اردو ادب کی تحریکیں از انور سدید، صفحہ 190)
مزید یہ بھی پڑھیں: ایہام گوئی ، تعریف ، ماخذ ، اسباب، شعراء اور ردعمل
ایہام سے متعلق شعرا
خان آرزو
نام شیخ سراج الدین علی خان آرزو، خطاب استعداد خاں اور تخلص آرزو تھا۔
بنیادی طور پر فارسی کے شاعر تھے۔
خان آرزو نے اردو میں تقریباً 27 اشعار کہے ہیں ۔
خان آرز و صنعت ایہام کے استاد مانے جاتے تھے۔
میر نے آرزو کو استاد و پیرو مرشد بندہ کہا ہے ۔
میر نے لکھا ہے کہ اس فن بے اعتبار کو جسے ہم نے اختیار کر لیا ہے ( آرزو نے ) معتبر بنایا۔۔۔
تمام ثقه استادان فن ریختہ بھی انہی بزرگوار کے شاگرد ہیں ۔
خان آرزو کے شاگرد
یک رنگ
آنند رام مخلص
مضمون
خان آرزو کی ایہام گوئی کی ایک مثال:
جان تجھ پر کچھ اعتماد نہیں
زندگانی کا کیا بھروسا ہے
اس شعر میں جان سے صنعت ایہام پیدا کی گئی ہے۔
آبرو
آبرو کا نام نجم الدین، عرفیت شاہ مبارک اور تخلص آبرو تھا۔
آبرو خان آرزو کے شاگرد اور رشتہ دار تھے۔
آبرو گوالیار میں پیدا ہوئے اور جوانی میں دہلی آکر سکونت اختیار کر لی تھی۔
آبرو کے ایک آنکھ میں پھولا تھا جسے طنزا مرزا مظہر جان جاناں نے گانٹھ کہا ہے۔
خوشگو نے آبرو کے بارے میں کہا ہے کہ ریختہ آبرو، آبروئے شعر ریختہ یعنی آبررو اردو شاعری کے آبرو ہیں۔
آبرو کو ایہام گویوں کا نمائندہ کہا جاتا ہے۔
آبرو کی شاعری سے ایہام کی مثالیں:
ہوئے ہیں اہلِ زرخواہان دولت خواب غفلت میں
جسے سوتا ہے یارو فرش پر مخمل کے کہہ سوجا
زر کے معنی سونا ہونا کے معنی نیند۔ خواہان دولت کا خواب غفلت سے تعلق بھی واضح ہے۔ یہاں الفاظ و معانی دونوں سے ایہام پیدا کیا گیا ہے:
معشوق سانولا ہو تو کرتا ہے دل کوں پیار
کالے کی چاہ میں ظاہر ہے من کے ساتھ
من بمعنی دل اور طبیعت، اور من وہ مہرہ جو کالے سانپ کے پیٹ میں ہوتا ہے اور جس وقت سانپ شب تاریک میں اس کو اگلتا ہے تو وہ شعلے کی طرح چپکنے لگتا ہے۔ اس شعر میں من سے صنعت ایہام پیدا کی گئی ہے۔
شاکر ناجی
محمد شاکر ناجی دہلی کے رہنے والے تھے۔
محمد شاکر ناجی پیشے کے اعتبار سے سپاہی تھے۔
محمد شا کر ناجی اپنے ایہام گوئی پر فخر کرتے تھے۔
امرد پرستی سے متعلق اشعار سب سے زیادہ ناجی کے دیوان میں ملتے ہیں ۔
میر نے ناجی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کا مزاج زیادہ تر ہنرل کی طرف مائل تھا۔
نمونہ کلام:
تجھ کو کیوں کر جدا کروں اے جان
زندگانی بہت ہی پیاری ہے
یک رنگ
یک رنگ کا نام مصطفی خان تھا اور یک رنگ تخلص۔
مصطفیٰ خان یک رنگ مضمون کے معاصر تھے اور انھیں کے طرز میں شعر کہتے تھے۔
نمونہ کلام:
عبث کو بے کسی پر اپنی کیوں ہر وقت روتا ہے
نہ کرغم اے دوا نے عشق میں ایسا بھی ہوتا ہے
نہ کہو یہ کہ یار جاتا ہے
میرا صبر و قرار جاتا ہے
مضمون
نام شیخ شرف الدین تھا اور مضمون تخلص ۔
مضمون اکبر آباد کے رہنے والے تھے۔
مضمون با با فرید گنج شکر کی اولاد میں سے تھے۔
مضمون ایہام گوئی کے بنیاد رکھنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
مضمون کو بھی ناجی کی طرح اپنی ایہام گوئی پر بڑا ناز تھا۔
مضمون کلام :
ہوا ہے جگ میں مضمون شہرہ تیرہ
طرح طرح ایہام کی جب سیں …
شیخ شرف الدین مضمون ، خان آرزو کے شاگرد تھے ۔
مضمون کے سارے دانت نزلے کے سبب گر گئے تھے اس لیے آرز دانھیں شاعر بے دانہ کہتے تھے۔
ایہام گوئی کی مثالیں مضمون کی شاعری ہے:
کرے ہے دار بھی کامل کو سرتاج
ہوا منصور سے نکتہ یہ حل آج
مضمون شکر کر کہ ترا نام من رقیب
غصے سے بھوت ہو گیا لیکن جلا تو ہے
مرزا مظہر جانِ جاناں
مرزا مظہر کا نام جان جاناں تخلص مظہر اور لقب شمس الدین حبیب اللہ تھا۔
مرزا مظہر عوام میں جان جاناں کے نام سے مشہور تھے ۔
تحریک ایہام کے خلاف سب سے پہلے ردعمل کا اظہار کرنے والے مرزا مظہر جان جاناں تھے۔
مرزا کی تصانیف
(1) دیوان فارسی
(2) خریطہ جواہر
(3) اردو کلام
نمونہ کلام:
خدا کے واسطے اس کوں نہ ٹو کو
یہی ایک شہر میں قاتل رہا ہے
یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے
کہاں اس کو دماغ و دل رہا ہے
مظہر جان جاناں کے شاگرد
یقین
جزیں
قلی خان حسرت
بیان
دردمند
قدرت اللہ قدرت
شاہ حاتم
نام شیخ ظہور الدین حاتم تھا لیکن عرف عام میں شاہ حاتم کے نام سے موسوم تھے ۔
لفظ "ظہور” شاہ حاتم کا تاریخی نام ہے جس سے سنہ ولادت 1111 ھ مطابق 1700-1699 برآمد ہوتا ہے ۔
شاہ حاتم نے ساری عمر شادی نہیں کی اور آزادانہ زندگی گزار دی۔
شاہ حاتم ابتدا میں رمزی تخلص کرتے تھے لیکن بعد میں شاہ حاتم اختیار کر لیا تھا۔
شاہ حاتم جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔
شاہ حاتم دلی میں 1700-1699 میں پیدا ہوئے تھے۔
شاہ حاتم نے اپنی طویل زندگی میں اردو شاعری کی دو تحریکوں ( ایہام گوئی اور رد عمل کی تحریک ) کا ساتھ دیا تھا۔
شاہ حاتم نے ابتدا آبرو، ناجی اور مضمون کے ساتھ ایہام گوئی کی تحریک میں شامل رہ کر 1144 ھ /1731-32 میں اپنا دیوان (قدیم) مرتب کیا تھا۔
شاہ حاتم نے بعد میں مرزا جان جاناں کی تحریک کے زیر اثر ایہام گوئی سے کنارہ کشی اختیار کیا تھا۔
شاہ حاتم نے رد عمل کی تحریک میں شامل ہو کر اپنے قدیم دیوان کو مسترد کر دیا تھا اور دیوان زاده ایہام گوئی کے خلاف رد عمل کی تحریک میں شامل ہوئے تھے۔
دیوان زادہ کے نام سے نیاد یوان 1169ھ / 56-1755 ء میں مرتب کیا تھا۔
شیخ ظہور الدین حاتم نے ولی کے دیوان سے گہرا اثر لیا ہے اور ولی کے ساتھ معنوی تلمذ کا رشتہ قائم کیا۔
نمونہ کلام:
زندگی درد سر ہوئی حاتم
کب ملے گا مجھے پیا میرا
بشکریہ ضیائے اردو نوٹس
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں