اردو میں اصلاح زبان کی تحریک (پوسٹ 02)

اردو میں اصلاح زبان کی تحریک

اصلاح زبان کی تحریک کا تعارف اور پس منظر

ایہام گوئی کی تحریک کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی تھی اسے اصلاح زبان کی تحریک کہتے ہیں۔

اصلاح زبان کی تحریک میں اولیت مرزا مظہر جان جاناں کو حاصل ہے۔

مرزا مظہر جان جاناں نے فارسی اور اردو زبان کو ایک ہی تار سے بنے کی کوشش کی تھی ۔

مرزا مظہر جان جاناں نے اصلاح زبان کو مذہبی اور سیاسی فریضہ سمجھ کر انجام دیا تھا ۔

مرزا مظہر جان جاناں نے اپنے شاگردوں کو نئی زبان میں شعر کہنے پر آمادہ کیا تھا۔

شاہ حاتم نے اصلاح زبان سے متعلق قواعد و ضوابط مرتب کیے تھے ۔

ملک بھر میں ایک مرکزی ریختہ رائج کرنے اور زبان کو غیر مانوس الفاظ سے پاک وصاف کرنے کی سعی شاہ حاتم نے کی تھی۔

ریختہ میں فارسی فعل و حروف مثلا در م، بر، از غیرہ کے استعمال کو نا جائز شاہ حاتم نے قرار دیا تھا۔

عربی و فارسی الفاظ کو صحت الملا کے ساتھ لکھنے کی تاکید شاہ حاتم نے کی تھی۔

ہندی بھاشا مثلاً نین، جگت ، نت ، موا، سجن، امن اور موہن وغیرہ کا استعمال شاعری میں شاہ حاتم نے عیب قرار دیا تھا۔

متروک الفاظ اور ان کے متبادل مانوس الفاظ کی فہرست شاہ حاتم نے مرتب کی تھی۔

اصلاح زبان کی تحریک کو تصوف کے آئینے میں درد نے دیکھا تھا۔

متروک الفاظ اور ان کے متبادل مانوس الفاظ کی فہرست شاہ حاتم نے مرتب کی تھی۔

اصلاح زبان کی تحریک کو تصوف کے آئینے میں درد نے دیکھا تھا۔

اصلاح زبان کی تحریک میں اردو زبان کا نیا وجو د سودا کا مرہون منت ہے۔

(اردو ادب کی تحریکیں: انور سدید ، صفحہ 206)

میر نے ریختہ میں فارسی حروف اور افعال، غیر مانوس تراکیب اور نامناسب بندشوں کے استعمال کو قبیح قرار دیا ہے۔

میر نے فارسی کی ایسی تراکیب جو زبان ریختہ سے مناسبت رکھتی ہوں کہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

میر نے میر، جراحت، جان، مسلح اور خلش و غیرہ کو مذکر اور خواب، گلزار، حشر، مزار وغیرہ کو مؤنث باندھا ہے۔

روزمرہ کے مجلسی لہجے کو زبان کے ادبی لہجے سے ہم آہنگ میر حسن نے کیا تھا۔

روزمره اصلاح زبان کے حوالے سے سب سے بڑا کام ناسخ نے کیا ہے۔

اصلاح زبان کی تحریک اور ناسخ

ناسخ کا نام شیخ امام بخش تھا اور ناسخ تخلص۔

ناسخ 1772ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے۔

ناسخ کا انتقال 1838 ء میں لکھنو میں ہوا تھا۔

ناسخ کے والد کا نام شیخ خدا بخش تھا جو تاجر پیشہ اور لاہور کے رہنے والے تھے۔

ناسخ کسی کے شاگرد نہیں تھے۔

ناسخ نے خود اپنی کوشش سے فن شاعری اور متعلقہ علوم پر ایسی قدرت حاصل کی تھی کہ استاد وقت بن گئے تھے ۔

ناسخ کا رنگ کالا اور جسم بھدا تھا ۔

ناسخ ورزش کے بے حد شوقین تھے ۔

ناسخ دن رات میں صرف ایک بار کھاتے تھے مگر اس کا وزن پانچ سیر کے قریب ہوتا تھا۔

ناسخ کی غزل پر اصلاح دینے سے میر نے انکار کر دیا تھا۔

غازی الدین حیدر نے ناسخ کو اپنے دربار سے متعلق کر کے ملک الشعرا کے خطاب کی پیش کش کی تھی جسے ناسخ نے قبول نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ اتنے چھوٹے سے بادشاہ کا خطاب مجھے قبول نہیں ۔

ناسخ کو تنقید نگاروں نے ادبی ڈکٹیٹر کہا ہے کیونکہ انھوں نے جو اصلاحیں تجویز کیں ان پر خود بھی سختی سے عمل کیا ہے اور شاگردوں سے بھی اس پر عمل کرایا ہے ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: اردو میں اصلاح زبان کی روایت کا تحقیقی جائزہ pdf مقالہ

اصلاح زبان کی تحریک حوالے سے ناسخ کے کارنامے

سب سے پہلے ناسخ نے زبان کا نام اردو مستند قرار دیا اس کے علاوہ اردو کے جتنے نام رہ چکے تھے اور جو چلے آرہے تھے مثلاً ہندوی، ہندوستانی زبان ہندوستان دهلوی یا لاہوری، ریخته، اردوے معلی اور دکنی ان سب کی جگہ ناسخ نے یہ اصول طے کر دیا کہ آئندہ محض ایک نام اردو ہو گا۔

ہر دوسرا نام متروک سمجھا جائے گا۔

حروف میں اصلاح

ناسخ نے حروف ربط کو اردو غزل کی زمینوں میں استعمال کیا اور ردیف کی بنیاد حروف رابط یعنی کا، کی، کے کو، سے، نے، پر اور تک وغیرہ پر رکھی ۔

حروف اثبات و نفی کا استعمال

ہے اور نہیں کو بھی شاعری میں استعمال کیا جانے لگا۔ نئی زمینوں کے بارے میں یہ شعر ملاحظہ ہو اور نہیں کا استعمال بھی:

سب زمینیں ہیں نئی بہتیں نہیں اے یار نئی

روز یہاں ریختہ کی اٹھتی ہے دیوار نئی

مصادر میں تبدیلی

جو مصادر تھے ناسخ نے صرف انھیں کے استعمال کی اجازت روا رکھی ہے وہ مصادر جو اصولاً غلط تھے جنھیں بعض شعرا نے اپنی آسانی کے سبب گھڑ لیا تھا، انھیں متروک قرار دیا گیا۔

مثال کے طور پر مجبور کا شعر ہے

باتیں دیکھ زمانے کی جی باتوں میں بہلاتا ہے

خاطر سے سب یاروں کی مجبور غزل کہلاتا ہے۔

افعال میں ترمیم

بہت سے مروجہ افعال جو از روئے اصول غلط تھے ان کا بدل ناسخ نے قائم کیا مثلاً :

مروجہ فعل (بدل)

بدلہ کرنا(بدلہ لینا)

جھکے ہے(جھکتا ہے)

لگے ہے(لگتا ہے)

لاگا(لگا)

کوہ چیرا(کو پھاڑا)

کہے ہیں(کہتے ہیں)

آئے ہے(آتا ہے)

جائے ہے (جاتا ہے)

سمجھا جائے ہے(سمجھاتا ہے)

مجھے بہت برا لگا

ہندی اور بھاشا کے الفاظ کا ترک: ناسخ نے ہندی اور بھاشا کے الفاظ کو ترک کر کے ان کی جگہ فارسی الفاظ اور عربی الفاظ و اصطلاحات کو زیادہ استعمال کیا مثلاً تک اور تنک کی جگہ ذرا بن کی جگہ بغیر دوانہ کے بجائے دیوانہ یوں کے بجائے سواماٹی ک جگہ مٹی کو معیاری قرار دیا ہے ۔

ضمائر میں تبدل

فارسی عربی اور ہندی زبان کے جو ضمائر اردو میں مستعمل تھے ان میں بعض کو بالکل ترک کرنے کا حکم دیا گیا اور بعض میں تبدیلی کر کے ان کا استعمال روا رکھا گیا مثلاً اس نے سے ان نے ترے یا تجھ کو سے تجھ جس نے سے جن نے تو سے ہیں ۔

تذکیر و تانیث

ناسخ کے زمانے تک تذکیر و تانیث کا کوئی بندھا ٹکا اصول نہیں تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اس کے بھی قاعدے مقرر کیے مثلاً زخمیں( مؤنث ) ، زخم ( مذکر ) چیز جدی ہے کہنے کے بجائے وہ چیز جدا ہے وغیرہ کہنے پر زور دیا ہے ۔

واحد کے صیغے

جمع بنانے کا دکنی قاعدہ ان کے بجائے "میں” بنایا گیا ۔ پہلے عورت کی جمع عورتاں بات کی جمع باتاں مستعمل تھا۔ ناسخ نے عورتیں اور باتیں کو مستند قرار دیا۔

محاورات کی اصلاح

مروجہ محاوروں میں بھی اصلاح کی گئی۔ قدرے تبدیلی کر کے ان کی صحیح شکل
اختیار کی گئی مثلاً :

مروجہ

درک رکنا(مونھ رکھنا)

خیال لینا(خیال باندھنا)

انتہالانا (انتہا کو پہنچنا)

زنجیر رہنا (قیدی رہنا)

پلک مارنا (پلک جھپکنا)

ناسخ نے معشوق اور محبوب کے لیے ہندی لفظ بجن کی جگہ فارسی صنم کو درست قرار دیا ہے۔

قد ما بول چال کی زبان کو کلام میں باندھتے تھے اس کے لیے ناسخ نے ایسے الفاظ زبان سے
بالکل چھانٹ دیئے ۔

ناسخ نے جذبہ و احساس کو خارج کر کے معنی بندی اور مضمون آفرینی پر اپنی شاعری کی بنیاد رکھی تھی اور ساتھ ہی ایسے الفاظ استعمال کیے تھے جو شاعری کے لیے کھردرے اور بے ڈول سمجھے جاتے تھے۔

ناسخ نے ہندی الاصل الفاظ کو طرز جدید سے خارج کر کے اس کی جگہ فارسی و عربی کے الفاظ استعمال کیے تھے۔

ناسخ نے حشو و زوائد کے استعمال پر کڑی پابندی لگائی تھی ، غرابت اور تعقید سے بچنے کی تلقین کی تھی اور بندش کے طرز فارسی کو فروغ دیا تھا۔

فحش الفاظ کو غزل میں ناسخ نے ممنوع قرار دیا تھا۔

ریختہ کو اردو زبان کا نام ناسخ نے دیا تھا۔ (شعر الہند از عبد السلام ندوق میں 159 )

محاورہ دہلی کے مقابلے میں محاورہ لکھنو ناسخ نے وضع کیا تھا۔

صنف غزل کے لیے ریختہ کو متروک ناسخ نے قرار دیا تھا ۔

معلوم ہو کہ پہلے غزل کو بھی ریختہ کہا جاتا تھا۔

غزل کو عاشقانہ جذبات کے علاوہ دیگر مضامین کی ادائیگی کے قابل ناسخ نے بنایا تھا۔

ناسخ نے اپنی غزلوں میں مثالیہ کو کثرت سے برتا ہے۔ مثالیہ میں شاعر ایک مصرح میں ایک بات کہتا ہے جسے آپ دعوئی کہہ سکتے ہیں اور پھر اس بات ( دعوی ) کو قابل قبول ، پراثر اور مدلل بنانے کے لیے ایک دلیل لاتا ہے۔

ناسخ کے شاگرد

ڈاکٹر انصار اللہ نظر نے ناسخ کے شاگردوں کی تعداد کم سے کم 103 بتائی ہے۔

علی اوسط رشک کا نام شاگردان ناسخ میں اہمیت کا حامل ہے۔

آغا حسن امانت

سید محمد مرزا انس

امداد علی بحر

محمد رضا برق

محمد عظیم اللہ رغمی ابن امین اللہ طوفان

فقیر محمد خان گویا

منیر شکر آبادی

حاتم علی بیگ مہر

خواجہ محمد وزیر

کلب حسین نادر

ناسخ کے کارنامے

ناسخ کے کل چار دیوان ہیں: تین اردو میں اور ایک فارسی میں ۔

دیوان اول کا تاریخی نام دیوان ناسخ ہے جسے ناسخ کے شاگرد میاں غنی نے تجویز کیا تھا۔

دیوان دوم کا تاریخی نام دفتر پریشان ہے۔

دیوان سوم کا تاریخی نام دو دفتر شعر ہے اسے ناسخ کے شاگرد میر علی اوسط رشک نے تجویز کیا تھا۔

ناسخ اور اصلاح زبان کی تحریک کے متعلق مختلف آرا و خیالات

اس (ناسخ) نے اصلاح زبان کے لیے متشدد رویہ اختیار کیا تھا اور قدیم پیغمبران سخن کی شریعتیں منسوخ کردیں ( عبد السلام ندوی شعر الہند )

ولی نے جس اجتہاد کی ابتدا کی تھی اس کا نقطہ انجام ناسخ ہے ۔ ( انور سدید )

غالب نے تاریخ کے رنگ سخن کو طرز جدید کا نام دیا ہے اور ناسخ کو طزنو جدید کا موجد ٹھہرایا ہے۔

کلب حسین خان نادر نے ناسخ کو واضح طرز جدید قرار دیا ہے ۔

مرزا محمد رضا برق نے ناسخ کے متعلق لکھا ہے کہ سادہ گوئی کے ناسخ اور طر زنو ( تازہ گوئی ) کے ایجاد کرنے والے ہیں۔

وہ (ناسخ) پرانی ناہموار روشوں کے ناسخ ہے(غالب)

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں