اردو میں آپ بیتی کی روایت

اردو آپ بیتی پس منظر اور تعریف

مختلف اصناف کے لحاظ سے اردو ادب کا دامن بہت وسیع ہے۔ اردو کے ارتقا کے چند سال بعد بہت ساری اصناف رفتہ رفتہ اس میں داخل ہوتے گئے۔ اردو ادب کا دامن آپ بیتیوں سے بھی مالامال ہے اور آج اردو ادب میں بلند پایے کی آپ بیتیاں موجود ہیں۔

اردو ادب کے ابتدائی دور کو اگر دیکھا جائے تو مکمل آپ بیتی سے قبل اردو ادب میں مصنفین مختلف تصانیف کے دیباچوں میں اپنی زندگی کے چند احوال درج کرتے تھے۔ اس کے بعد چند جزوی آپ بیتیاں منظر عام پر آئیں جس طرح امیر خسرو نے”غزۃلکمال”میں اپنے کچھ حالات قلم بند کیے ہیں۔

اس ضمن میں میر تقی میرؔ کا”ذکر میر "بھی قابل ذکر ہے۔ بعد میں کچھ مکمل آپ بیتیاں تحریر ہونے لگیں۔ جزوی آپ بیتی سے مراد یہ ہے جو زندگی کے کسے مختصر عرصے پر محیط ہو گو آپ بیتی میں تو ساری زندگی کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا لیکن زندگی کے ایک بڑی حصے کا احاطہ کرنے والی آپ بیتی کو مکمل آپ بیتی کہا جائے گا۔

آپ بیتی کے میدان میں گاندھی جی کی”تلاش حق”(۱۹۳۵)اور نہرو کی”میری کہانی”(۱۹۳۶)کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔

اردو ادب میں آپ بیتی کا باقاعدہ آغاز ۱۸۵۷ء کے بعد ہوااس سے قبل اردو نثر تمثیل، داستان اور حکایات پر مشتمل تھی۔ اس وقت کے نثر پاروں پر مذہبی اور شخصی رنگ نمایا ں ہے اور زبان نہایت مشکل ،مقفیٰ اور مسجع تھی۔ وہ چاہے ملا وجہی کا”سب رس”ہو یامحمد عطاحسین خان کا”نوطز مرصع”۔

۱۸۵۷ء کا دور برصغیر کی تاریخ میں ایک اہم دور گزرا ہے۔ یہ غلامی کا دور تھا۔ حاکم محکوم بن گئے تھے۔ ہندوستان پر ہندوستانیوں کے بجائے انگریزوں کی حکومت قائم تھی اس دور میں لوگوں کی زندگی ایک عجیب بےمعنویت کی شکل اختیار کر گئی تھی۔

انگریز ہندوستانیوں پر بہت ظلم کرتے تھے اور ہندوستان کے لوگ اس ظلم کو برداشت کرنے پر مجبور تھے لیکن ایسے حالات میں معاشرے میں جو حساس لوگ ہوتے ہیں اور خاص کر ادیب اور شاعر وغیرہ یہ حالات ان کے سینوں پر بوجھ رہتے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو آپ بیتی(یعنی اپنے حالات کو رقم کرنا)سے لکھنے والے اور پڑھنے والے دونوں کی(تحلیل نفسی ،کھتارسس )ہو جاتی ہیں۔

اس طرح اس پُر آشوب دور نے اردو میں آپ بیتی نگاری کی راہ روشن کی البتہ اس سے پہلے بھی اردو ادب میں مختلف اصناف میں آپ بیتی کے نقوش ملتے ہیں۔

مثلاًً "توصیف نامہ”از فیروز ۹۵۷ء سے ۹۸۸ء،”محی الدین نامہ ” از فضل ۱۰۵۰ء،”غوث نامہ”از سید شاہ حسین ذوقی،”محبوب القلوب”از باقر آغا ۱۰۷ء،”ابراہیم نامہ”از عبدل۱۰۱۰ء،”قطب مشتری”از وجہی،میر حسن کی "سحرالبیان”اور دیاشنکر کی "گلزار نسیم” وغیرہ میں آپ بیتی دوسری اصناف سے ملی ہو ئی دیکھائی دیتی ہیں۔

اس کے بعد مولانا محمد جعفر تھانیسری کی خود نوشت”تواریخ عجیب” موسوم” کالا پانی” (۱۹۰۵ء۔ ۱۹۳۸ء) اردو ادب میں آپ بیتی کے ارتقاء میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو اردو کی باقاعدہ پہلی خود نوشت ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن فنی اعتبار سے یہ آپ بیتی کے فن پر پوری نہیں اترتی۔ بقول ڈاکٹر محمد عمر رضا:

’’مولوی محمد جعفر تھا نیسری کی خود نوشت سونح’”تواریخ عجیب” موسوم بہ” کالا پانی”فنی اعتبار سے اگرچہ ایک نا مکمل خود نوشت سوانح ہے لیکن یہ کیا کم ہے کہ اس سے اردو میں خودنوشت سونح کی روایت قائم ہوئی۔ ‘‘(۲۲)

مولانا جعفر تھانیسری نے کالا پانی کے سزا کی طور پر اینڈمان میں گزرے اپنے حالات کو””تواریخ عجیب” موسوم بہ” کالا پانی” کے نام سے قلم بند کیا۔ بقول ڈاکٹر صبیحہ انور:

’’۱۸۵۷ءمیں غدر کے آس پاس کے زمانے میں واجد علی شاہ کی منظوم آپ بیتی اور اس کے بعد مولانا محمد جعفر تھانیسری کی تواریخ عجیب(کالاپانی)کے سوا کوئی چیز اس قبیل کی نظر نہیں آتی۔ ‘‘(۲۳)

اس سے متاثر ہو کر اردو ادب میں دوسرے ادیب متاثر ہوکر آپ بیتی کی طرف ان کی توجہ مبزول ہوئی۔

"”داستان غدر” ظہیر الدین دہلوی ،”سوانح عمری” عبدالغفور نساخ ،”آپ بیتی "خواجہ حسن نظامی ،”تذکرہ” ابوالکلام آزاد، "اعمال نامہ "سر رضا علی، "خوں بہا” حکیم احمد شجاع ،”نقش حیات” مولانا حسین احمد مدنی،”

ناقابل فراموش” دیوان سنگھ مفتوں،” مشاہدات "ہوش بلگرامی، "شاد کی کہانی” شاد عظیم آبادی،” میری دنیا”ا عجاز حسین، "شاہراہ پاکستان "چوہدری خلیق الزماں،” یادوں کی بارات "

جوش ملیح آبادی،”زرگزشت” مشتاق احمد یوسفی،”مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں” خواجہ غلام اسیدین،” اپنی تلاش میں” کلیم الدین احمد ،”جہان ِ دانش” احسان دانش ،” آپ بیتی” عبدالماجد دریاآبادی اور ” مٹی کا دیا اور مرزا ادیب کی آپ بیتی منظر عام پر آئی جن سے اردو میں خودنوشت سوانح نگاری کی روایت کو مزید تقویت ملی۔

مولانا جعفر تھانسری کی”تواریخ عجیب” سے 2009ء تک۔

۱۔ "آپ بیتی "عبدالغفور خان نساخ۱۸۸۲ء:

یہ کتاب ایشیا ٹک سوسائٹی آف بنگال کلکتہ میں موجود ہے۔ اس سے نساخ کی تعلیم،تربیت،معاش،اس زمانے کی اہم ہستیوں کے نام اور دہلی،لکھنو اور عظیم آباد کے سفر کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خود پسندی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ اور یہ آپ بیتی فنی لحاظ سے کمزور ہے۔

۲۔ توریخ عجیب” (کالا پانی) مولانا جعفر تھا نیسری ۱۸۸۵ء:

یہ اردو ادب کی اولین آپ بیتی ہے۔ اسے اگر مکمل تسلیم نہ کیا جائے پھر بھی آپ بیتی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں مولانا کی پھانسی کی سزا سے لے کر ان کی سزا کی معافی تک ان کی زندگی کی داستان موجود ہے۔

۳: "داستان غدر”ظہیر الدین دہلوی۱۹۱۰ء:

یہ آپ بیتی بھی مکمل آپ بیتی نہیں ہے۔ لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ظہیرالدین کو آپ بیتی نگار کے قلم سے نوازا تھا۔ جس طرح کے نام سے ظاہر ہے اس میں غدر کی قیامت خیزی کا ذکر موجودہے۔ اس آپ بیتی میں اس دور کی سیاسی ،سماجی،معاشی اور معاشرتی صورتحال کو پیش کیا گیا ہے۔

۴: "قید فرنگ”مولانا حسرت مو ہا نی۱۹۱۷ء:

اس آپ بیتی کا سیاسی خودنوشتوں میں اہم مقام ہے۔ اس میں حسرت موہانی نے بڑی دلیری اور بے باکی کے ساتھ قید و بند کے حالات حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیے ہیں۔

۵: "آپ بیتی” خواجہ حسن نظامی ۱۹۱۹ء:

اپنی اس آپ بیتی کے حوالے سے خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:

’’ میں نے جب کبھی اپنی زندگی کا روزنامچہ لکھا تو محسوس ہوا کہ گویا اپنی ہستی کے عرفان کا بہی کھاتہ لکھ رہا ہوں کیوں کہ جب اس کو دیکھتا ہوں آمد و خرچ کا حساب یاد آجاتا ہے۔ پس یہ آپ بیتی یہ خودنوشت بھی مجھ کو آگے چل کر زندگی کا حساب بتائے گی۔ ناظرین کچھ بھی سمجھیں میں نے تو یہ کتاب لکھ کر عرفان نفس کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ ‘‘(۲۴)

اس آپ بیتی میں انھوں نے اپنی ذاتی زندگی پر زیادہ توجہ دی ہے۔

۶۔ "تذکرہ” ابوالکلام آزاد ۱۹۱۹ ء:

یہ آپ بیتی ابوالکلام آزاد نے احمد مرزا کے اصرار پر شروع کی تھی۔ اس کا آغاز وہ اپنی اجداد سے کیا ہے اور اپنے بارے میں صرف ایک باب قائم کیا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے بارے میں انکشاف ذات کی حامی نہ تھے۔ اس آپ بیتی میں انھوں نے اپنی ذات کو بالائےطاق رکھا ہےاور زیادہ تر توجہ خارجی واقعات پر دی ہے۔ ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:

’’ کتنی بزرگ اور عظیم الیشان زندگیاں ہمارے سامنے ہیں جن کے سوانحی حالات نہیں لکھے گئے ان کو چھوڑ کر میری زندگی کے حالات مرتب کرنا محض ایک تمسخر انگیز حرکت ہوگی۔ ‘‘(۲۵)

۷۔ ” اعمال نامہ” سر رضا علی ۱۹۴۳ء:

سر رضا علی کی یہ آپ بیتی چودہ ابواب پر مشتمل ہیں۔ جس کے ذیلی عنوانات ۳۰۰ سے زیادہ ہیں۔ اس آپ بیتی میں ان کے خاندانی حالات ، خاندانی منصوبہ بندی کی افادیت، مشاعروں کی مباحث ، اردو ہندی تنازعہ، مشہور شعرا کے دواوین ، کان پور مسجد ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احوال وغیرہ بڑے دلچسپ انداز میں مرقوم ہیں الغرض یہ آپ بیتی اپنے دور کے اہم اہم واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔

۸۔ "خوں بہا” حکیم احمد شجاع ۱۹۴۳ ء:

اس آپ بیتی میں حکیم صاحب نے عقائد و افکار اور نظم و نثر کے بارے میں اظہار خیال فرمایا ہے۔ اس میں ان کی زندگی کے حالات کے ساتھ ساتھ دوستوں،بزرگوں اور اساتذہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

۹۔ "آپ بیتی "ظفر حسن ابیک ۱۹۴۹ ء:

اس آپ بیتی میں ترکی سے لاہور واپسی کے بعد فوجی معرکوں کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ظفر حسن ابیک کی اس آپ بیتی میں ان کے بچپن کے ساتھ ساتھ اس وقت کی سیاسی حالات کا ذکر بھی موجود ہے۔

۱۰۔ "یاد ایام”نوب احمد سعید خان ۱۹۴۹ ء:

دو جلدوں پر مشتمل یہ آپ بیتی عملی صورت میں واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔ جس میں متعدد عہدوں پر فائز رہ کر مختلف امور کی انجام دہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں مصنف کے تجربات اور مشاہدات بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔

۱۱۔ "نقش حیات” مولانا حسین احمد مدنی ۱۹۵۳ ء؛

نقش حیات میں مولانا کی سوانح کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر ان کی حکومت کے خاتمے تک نمایاں واقعات موجود ہیں۔

۱۲۔ "آشفتہ بیانی میری”رشید احمد صدیقی۱۹۵۸ء:

اس آپ بیتی کا مطالعہ ہر عہد میں ہوتا رہا ہے۔ یہ آپ بیتی رشید احمد صدیقی کے اسلوب کی آئینہ دار ہے۔ اس میں اس وقت کی علاقائی تہذیب ،ثقافت اور علمی و ادبی ماحول کی عکاسی کی گی ہے۔

۱۳۔ "یادوں کی بارات”جوش ملیح آبادی ۱۹۷۰ء:

اس آپ بیتی میں جوش ملیح آبادی نے اپنی ۷۵سالہ زندگی کے واقعات و حوادث کو بڑے خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ آپ بیتی پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں بچپن جب کہ آخری حصے میں معاشقوں کا ذکر ہے۔

۱۴۔ "اپنی تلاش میں” کلیم الدین احمد ۱۹۷۵ ء:

ایک معروف نقاد اور ادیب کی یہ آپ بیتی تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ ان کی شخصیت کی تعمیر میں جن نفسیاتی عوامل نے حصہ لیا ان کو بھی مصنف نے اس آپ بیتی میں زیر بحث لایا ہے۔

۱۵۔ ” جہان دانش” احسان دانش ۱۹۷۵ء:

 یہ خود نوشت سوانح عمری ایک دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے۔  یہ مصنف کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہے اور اس میں مصنف نے اپنی زندگی کے تمام اہم واقعات کو بڑی دلچسپ انداز میں سمونے کی کوشش کی ہےاس آپ بیتی میں تجسس کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ 

۱۶۔ "زرگزشت” مشتاق حمد یوسفی ۱۹۷۷ء:

یہ ایک نہایت معروف و مقبول آپ بیتی ہے۔ اس میں مصنف کی زندگی  ۱۹۵۰ ءسے ۱۹۷۸ ءتک کے حالات و واقعات درج ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کی اس کتاب نے سب لوگوں کو متاثر کیا۔ اس آپ بیتی میں مشتاق احمد یوسفی کا وہی مزاحیہ اور طنزیہ انداز موجود ہے۔ 

۱۷۔ "شہاب نامہ”قدرت اللہ شہاب۱۹۸۷ء :

یہ ایک طویل اور مسلسل پڑھی جانی والی آپ بیتی  رہی۔ یہ آپ بیتی مصنف کاادبی شاہکار ہے۔  قدرت اللہ شہاب چوں کہ حکومت کے بڑے ایڈمنسٹریٹر رہی اس لیے ان کے تجربات اور مشاہدات بہت وسیع تھے انھوں نے ذاتی کارناموں کا ذکر کیا ہے۔  اب یہ آپ بیتی تاریخی  دستاویز بن گئی ہے۔ اس آپ بیتی پر سب سے بڑا اعتراض  یہ ہے کہ یہ آپ بیتی کم اور جگ بیتی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ 

۱۷۔ "چراغوں کا دھواں” انتظار حسین ۱۹۹۹ء:

مشہور افسانہ نگار انتظار حسین ناول،ناولٹ،افسانہ اور صحافت کے ساتھ ساتھ آپ بیتی کے میدان میں بھی پیش پیش رہے ہیں۔ ان کی یہ آپ بیتی ان کی زندگی اور ہجرت کے تلخ واقعات کے ساتھ ساتھ تقسیم کے بعد کے الم ناک صورتحال پر مشتمل ہے۔ اس میں انھوں نے مختلف عنوانات کے تحت نئی  مملکت(پاکستان) میں پیش آنے والے حالات  کو پیش کیا ہیں۔ اس آپ بیتی کا غالب عنصر یادِ ماضی ہے۔ انتساب کے طور پر حالیؔ کا یہ شعر پیش کیا گیا ہے:

  ”؎بزم کو برہم ہوئے مدت نہیں گزری بہت
اُٹھ رہا ہے شمع سے اس بزم کی اب تک دھواں“(۲۶)

اس آپ بیتی میں انتظار حسین نے پاکستان کا ابتدائی خاکہ پیش کرنے کے بعد شہر لاہور میں گزراے ہوئےپچیس سال کے عرصے کے حالات و واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ 

"جستجو کیا ہے” انتظار حسین۲۰۱۱ء:

یہ انتظار حسین کی دوسری آپ بیتی ہے۔ اس میں بھی انھوں نے تقسیم کے بعد پچاس سالہ  روداد بیان کئ ہے۔ اس کے انتساب کے لیے غالبؔ کے شعر کے مصرعہ ثانی کا انتخاب کیا گیا ہے:

ع”کریدتے ہوجو اب   راک جستجو کیا ہے“(۲۷)

اس آپ بیتی میں لاہور کے علمی و ادبی ماحول میں پوران چڑھنے والے ادیبوں کا ذکر بہت زیادہ ملتا ہے۔ ابتدا سے آخر تک اس آپ بیتی میں ہجرت کا دکھ شامل رہتا ہے۔ اس آپ بیتی میں انتظار حسین کی بچپن،ابتدائی زندگی،عمر کے آخری مشاغل کے ساتھ ساتھ ان کے مختلف ممالک کے اسفارکے حوالے سے خاصے مواد موجود ہے۔  

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں