اردو قصیدہ آغاز و ارتقاء (اردو قصیدے کی روایت)

اردو قصیدہ آغاز و ارتقاء

اردو قصیدہ تعارف اور ابتدائی دور

۱۸۵۷ء کی ناکام بغاوت کے بعد ہندوستان سے مغل سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور ملک میں باقاعدہ طور پر انگریزی حکومت قائم ہو گئی یہی نہیں کہ صرف حکومت بدلی بلکہ ایک تہذیب مٹ گئی اور دوسری تہذیب جنم لینے لگی۔ قاعدہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں رعایا حاکم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔

ہمارے دیس میں بھی یہی ہوا۔ اور چیزوں کے علاوہ ہمارے بزرگوں نے اپنے ادب کا انگریزی ادب سے مقابلہ کر کے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارا ادب انگریزی ادب کے مقابلے میں بہت ناقص اور نا کارہ ہے۔

سرسید نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں اردو ادب کی خامیوں کی طرف بار بار اشارہکیا اور انگریزی ادب کی پیروی کرنے کی صلاح دی۔

مولانا محمد حسین آزاد نے کہا کہ ادب کےانمول خزانے انگریزی صندوقوں میں بند ہیں اور ان کی کنجیاں ہمارے انگریزی داں بھائیوںکے پاس ہیں۔ یہی رائے مولانا حالی کی تھی۔

انگریزی ادب کے مقابلے میں اردو ادب انہیں بالکل حقیر اور ناکارہ نظر آتا تھا۔ اس وقت تک ہمارے ادب میں غزل اور قصیدے کا سرمایہ زیادہ تھا اور ان دونوں اصناف کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی :

غزل اور قصائد کے ناپاک دفتر

عفونت میں سنڈاس سے جو ہیں بدتر

غزل سے مولانا اس لیے بیزا تھے کہ اس میں بقول ان کے عشق و عاشقی کے جھوٹے قصوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اردو قصیدے کو وہ اور زیادہ قابل نفرت سمجھتے تھے۔

اس صنف پر الزام تھا کہ جھوٹ اور خوشامد کا پلندہ ہے۔ مولانا حالی کی رائے سے خاص طور پر نئی نسل بہت متاثر ہوئی۔ غزال اور مغزل سے کہیں زیادہ قصیدے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔

قصیدے کے موضوعات

قصیدہ ایک اعلا درجے کی صنف ہے اور اس میں ہر طرح کے مضامین پیش کرنے کی گنجایش ہے۔ زمانہ قدیم کے عربی قصیدہ نگار اس صنف کی وسعت کا عملی ثبوت پیش کر چکے ہیں۔

ملک و قوم کی تاریخ اپنے قبیلے کا شرف اپنے گاؤں کا امتیاز، اپنی محبوبہ کا حسن و جمال ، اپنے اجداد کے کارناموں پر فخر، بزرگوں کی عظمت کا بیان اور اس طرح کے بے شمار مضامین قصیدے کی شکل میں پیش کیے گئے۔ یہ تو آغاز تھا۔

صنف قصیدہ اردو میں ترقی کیوں نہ کرسکا؟

اردو میں شاعری کا آغاز ہوا تو غزل کے علاوہ مثنوی اور مرثیے بھی کہے گئے لیکن قصیدے کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ اردو زبان کی ابھی شروعات ہی تھی۔ اس کے الفاظ کا ذخیرہ بہت محدود تھا۔ قصیدے کی فارم غزل کی فارم تھی ۔

اگر طویل قصیدہ کہنا ہو تو سیکڑوں قافیوں کی ضرورت تھی اور لفظوں کا سرمایہ ابھی محدود تھا۔ قصیدے میں پر شکوہ اور زوردار الفاظ کی ضرورت ہے۔ قدیم اردو میں ایسے الفاظ کی بہت کمی تھی۔

ایک سبب یہ بھی تھا کہ شاعر یا تو خود با دشاہ تھے یا پھر صوفی تھے۔ بادشاہ قصیدہ کہتے تو کس کی شان میں اور صوفی شاعر قناعت پسند تھے ۔

ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے کہے کہ انعام و اکرام کے طلب گار ہوں ، بزرگان دین کی شان میں قصیدے کہے جا سکتے تھے لیکن خود عربی اور فارسی میں اس روایت کو استحکام حاصل نہیں ہو سکا تھا۔

ولی دکنی کی قصیدہ نگاری

ولی خود صوفی تھے اور ایک صوفی سے بیعت بھی تھے۔ اس لیے بادشاہوں اور امیروں کی قصیدہ خوانی کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی لیکن ان کے کلیات میں چند قصیدے بھی شامل ہیں۔ ایک قصیدہ جس کا ذکر ضروری ہے حضرت شاہ وجیہ الدین کی مدح میں ہے ۔

فن قصیدہ نگاری کی کھسوٹی پریہ قصیدہ پورا نہیں ، زبان بھی قدیم دکنی استعمال ہوئی ہے جو بہت نا مانوس ہے۔ ولی کے باقی قصیدے بھی حمد یا نعت، منقبتت اور بزرگان دین کی مدح میں ہیں۔ ان میں سادگی تو ہے مگر جوش و جذبے کی کمی ہے۔

زبان پر قدامت کا نمایاں اثر ہے۔ زبان اس وقت تک نہایت ناپختہ اور محدود تھی۔ اس لیے ممکن ہی نہ تھا کہ عربی اور فارسی قصیدے کی تقلید کی جا سکتی لیکن ولی نے تشبیہ و استعارہ ، مجاز و کنایہ اور صنائع معنوی و لفظی استعمال کر کے اپنے قصیدے کو دلکش بنانے کی کوشش کی ہے۔

تشبیب میں اخلاقی تعلیم حکیمانہ خیالات ، عشق و عاشقی اور آمد بہار جیسے مضامین داخل کیے ہیں بعض جگہ زبان صاف رواں بھی نظر آتی ہے لیکن ایسے اشعار کی تعداد کم ہے ۔ ایک شعر میں اپنی قصیدہ گوئی پر فخر کیا ہے۔ فرماتے ہیں :

یقیں ہے مجھ کو اگر یہ قصیدہ رنگیں

سنیں تو وجد کریں انوری و خاقانی

دیوان ولی کے دہلی پہنچنے پر یہاں کے فارسی شعراء بھی اس زبان کی طرف متوجہ ہوئے جسے ریختہ یا ہندوی کہا جاتا تھا لیکن قصیدے کم کہے گئے۔ شیخ چاند کا کہنا ہے کہ اس زمانے کے بعض شعرا کے قصیدے ان کی نظر سے گزرے تھے مگر یہ سرمایہ زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔

حاتم کے چند قصیدے ان کے کلیات میں شامل ہیں لیکن تاریخ ادب میں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔

میر و سودا کر دور میں اردو قصیدہ

آبرو، ناجی ،م اور حاتم کے زمانے تک ہماری زبان نشو و نما کے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھی اور قصیدہ نگاری کی قوت اس میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔

لیکن زبان اور اس کے ساتھ شاعری بھی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کرتی رہی اور سودا و میر کے عہد تک اس قابل ہو گئی کہ اس میں فارسی کے ہم پلہ قصیدے لکھے جا سکیں ۔

سودا کی قصیدہ نگاری

سودا کو زبان پر بہت قدرت حاصل تھی اور مشق نے جلد ہی انہیں ایسا قادر الکلام شاعر۔ بنا دیا کہ انھوں نے انوری و خاقانی جیسے بلند پایہ شاعروں کے معرکہ آرا قصیدوں کے جواب میں قصیدے کہے اور ناقدین کو اعتراف ہے کہ بعض مقامات پر فارسی شاعروں کو پیچھے چھوڑ گئے ۔ مشکل ردیف و قافیہ میں قصیدے کہہ کر انھوں نے اپنی قادر الکامی کا ثبوت دیا۔

ان کے موضوعات میں بھی بہت وسعت ہے۔ انھوں نے تشبیب کے دائرے کو بہت وسیع کیا اور قصیدوں میں اپنے زمانے کے حالات کا ذکر بھی کیا۔ ان کے قصیدوں کی اہم خصوصیات ہیں۔ خیال کی بلندی، فن کارانه بختگی ، زبان و بیان کا گھن گرج اور معنی آفرینی ۔ انھوں نے قلندرانہ مزاج اور بے باک طبیعت پائی تھی اس لیے جس شان کے قصیدے لکھے۔

ذوق مومن اور غالب کے دور میں اردو قصیدہ

ذوق کی قصیدہ نگاری

اس کے بعد ذوق مومن اور غالب کے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے یہ اتفاق راے اردو شاعری کا سنہرا دور کہا جاتا ہے ۔ ذوق اس دور کے ممتاز قصیدہ گو ہیں کیونکہ ساری زندگی وہ بہادر شاہ سے وابستہ رہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے سارے قصیدے بہادر شاہ کی مدح میں کہے

کیونکہ بقول محمد حسین آزاد جن قصیدوں میں بحیثیت ممدوح اکبر شاہ ثانی کا نام ہے وہ بہادر شاہ کی فرمایش پر ڈالا گیا ہے۔ ذوق کے قصیدوں میں سودا کے قصیدوں کا سا زور نہیں، تصنع اور بناوٹ بہت زیادہ ہے مشکل گوئی ،

خیال آرائی معنی آفرینی، علمی اصطلاحات کا استعمال اور حکیمانہ خیالات کا اظہار ان کے یہاں بہت ہے ۔ انھوں نے ایک ایسا قصیدہ بھی لکھا تھا جس کے اٹھارہ شعر اٹھارہ مختلف زبانوں میں تھے ۔ اس پر انھیں اکبر شاہ ثانی نے "خاقانی ہند” کا خطاب اور ایک گاؤں انعام میں دیا تھا۔ ان کا قصیدہ شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت بہت مشہور ہوا۔

مومن کی قصیدہ نگاری

مومن ایک بڑے شاعر اور ایک گوشہ نشین انسان تھے۔ کسی امیر وزیر یا بادشاہ کی شان میں قصیدہ کہنا اور صلہ و ستائش کا طلب گار ہونا وہ اپنے شاعرانہ رتبے کے خلاف سمجھتے تھے۔ ان کے زیادہ تر قصیدے بزرگان دین کی مدح میں ہیں۔

اس لیے مولانا ضیا احمد بدایونی لکھتے ہیں کہ ایک جز مومن کے قصیدوں میں نمایاں ہے یعنی حسن عقیدت ، جوش مذہب جس سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔

اہل دنیا کی مدح میں انھوں نے جو قصیدے لکھے وہ انعام و اکرام کی خواہش سے بے نیاز ہو کر لکھے گئے۔ یہ دو قصیدے نواب وزیر الدولہ اور راجا اجیت سنگھ کی مدح میں ہیں۔

مومن کے علم و فضل کا سبھی نے اعتراف کیا ہے علمیت کے سبب ان کے قصیدوں میں علمی اصطلاحات کا استعمال بہت زیادہ ہوا ہے۔ فلسفہ ، طب ، نجوم ، ریاضی ، قواعد ا شاعری اور تصوف سے متعلق اصطلاحوں نے ان کے قصیدوں کو مشکل بنا دیا ہے ۔

ان کے قصیدوں میں قرآن و حدیث کے حوالے بھی ملتے ہیں۔ غرض مومن کے قصیدے ایک انفرادی شان رکھتے ہیں۔

غالب کی قصیدہ نگاری

غالب نے قصیدہ نگاری میں ایک نئے انداز کی بنیاد ڈالی جس کا خاتمہ بھی انہی پر ہو گیا۔ اردو میں ان کے کل چار قصیدے ملتے ہیں جن میں سے دو حضرت علی کی شان میں ہیں جن سے انھیں بے پناہ عقیدت تھی اور باقی دو بہادر شاہ کی مدح میں ہیں۔ یہ اس زمانے کی تصنیف ہیں جب وہ مشکل گوئی سے تقریبا کنارہ کش ہو گئے تھے۔

غالب کے قصیدوں کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان میں مدح سے زیادہ تشبیب پر زور ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی مدح کو وہ بھٹی کہتے ہیں اور انھیں فخر ہے کہ تشبیب کے معاملے میں وہ بلند پایہ فارسی شعرا کے مد مقابل ہیں۔ غالب کے قصیدوں سے ان کی علمیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور فن شعر میں ان کی مہارت کا بھی۔

قصیدہ نگاری میں انھوں نے وسائل شعری کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ سودا کا زور، بلند آہنگی اور مبالغہ آرائی ان کے قصیدوں میں ناپید ہے لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے کسی کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنا راستہ اپنے آپ نکالا ۔

دور جدید میں اردو قصدہ نگاری

محسن کاکوروی

اس سلسلے میں محسن کا کوروی کا نام قابل ذکر ہے ۔ دین داری کے جذبے سے سرشار ہوکر محسن کا کوروی نے کئی قصیدے لکھے لیکن قبول عام صرف اس قصیدے کو حاصل ہوا جس کا پہلا مصریا ہے :

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

محسن کا فن خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے لیکن اس قصیدے میں ان کی خوبیاں حاوی نظر آتی ہیں۔ ماحول سراسر ہندوستانی ہے اور الفاظ میں غضب کی مٹھاس پائی جاتی ہے۔ اردو قصیدے کی تاریخ میں یہ بالکل نیا موڑ ہے۔ یہاں ہندوستان کے مقامی عقائد اور اسلام کا دلکش امتزاج نظر آتا ہے۔

یہ سلسلہ جاری رہتا تو شاید قصیدے اور نعت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا مگر محسن خود ہی اس انداز کے موجد ہی اور خود ہی خاتم۔ یہ انداز ان کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔

عزیز لکھنوی

عزیز لکھنوی نے بھی چند قصیدے کہے اور ان میں سے چند قصیدے بہت اچھے ہیں مگر وہ سامعین کی توجہ حاصل نہ کر پائے۔

شکوہ آبادی

شکوہ آبادی بھی اس سلسلے کا ایک اہم نام ہے۔ ان کے یہاں تصنع زیادہ ہے اور علمیت کے اظہار نے قصیدوں کو مشکل بنا دیا ہے ۔

مجموعی جائزہ

دراصل غالب کے بعد اگرقصیدہ نگاری کی تاریخ میں کوئی قابلِ ذکر نام ہے تو وہ محسن کا کوردی کا ہے ۔ اس کے بعد قصیدہ نگاری کی دنیا میں سناٹا ہو گیا۔قصیدے کا زوال ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے

کہ اس صنف میں بڑے امکانات پوشیدہ ہیں خلوص دل اور ذاتی اغراض سے بلند ہو کر عالم انسانیت کے محسنوں اور دنیا کی عظیم ہستیوں کی قصیدے کے ذریعے عزت افزائی کی جائے تو کیا عجب کہ یہ شاندار صنف سخن جی اٹھے اور اپنے شان و شوکت اور بلند آہنگی سے ایک بار پھر ادب میں تہلکہ مچا دے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں