موضوعات کی فہرست
اردو غزل کا آغاز و ارتقاء (کلاسیکی اردو غزل کی روایت)
” آب حیات” کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد نے امیر خسرو کو پہلا شاعر قرار دیا ہے جب کہ مولوی عبدالحق کے مطابق امیر خسرو سے بھی پہلے حضرت بابا فرید گنج شکر کے ابتدائی نمونے ملتے ہیں۔
اگرچہ ان بزرگوں کے ہاں اردو غزل کا رنگ غیر واضح ہے اور اسے باقاعدہ غزل کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جدید تحقیق تحقیق کے مطابق اردو غزل کی ابتدا دکن سے ہوئی۔ مشتاق دکنی اور قلب شاہ ابتدائی ابتدائی اردو غزل گو کہا جاتا ہے۔لیکن جس شاعر نے اردو غزل کو سب سے پہلے خوب صورت انداز بخشا، وہ ولی دکنی ہے۔
ولی دکنی
اردو شاعری میں ولی دکنی ایک ایسا نام ہے جسے بلا شبہ شاعری کا باوا آدم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ولی کی شاعری رنگا رنگ موضوعات سے بھری پڑی ہے۔ انھوں نے حسن و عشق کے دل کش معاملات کو سادہ اور آسان زبان میں شعر کے سانچے میں ڈھالا ۔
پر ترنم اور خوب صورت بحروں کو منتخب کیا جس کی وجہ سے غزل میں ایک منفرد قسم کی موسیقیت پیدا ہوگئی۔ ولی دکنی کی غزل میں اگر چہ ہر قسم کا موضوع پایا جاتا ہے لیکن انھوں نے جس موضوع پر سب سے زیادہ لکھا وہ "حسن” کا بیان ہے۔
تبھی تو اردو کے ایک معروف نقاد ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ان کو جمال دوست شاعر کا لقب دیا ہے۔
ہزار لاکھ خوہاں میں جن میرے چلے ہوں
کہ ستاروں میں چلے جیویں ماہتاب آہستہ آہستہ
ولی کے دور میں شمالی ہند کے شعرا ایہام گوئی سے کام لے رہے تھے لیکن دہلی میں ولی کی غزل کی پیروی میں فارسی غزل کی زمینوں میں آکثر شعرا اپنا کلام کہہ رہے تھے۔ جہاں ایک طرف ایہام گوئی کی مشقیں ہو رہی تھیں،
وہیں کچھ شعراء اُردو غزل کے خدو خال نکھارنے کی کوشش کر رہے تھے اور اصلاح زبان کی طرف خصوصی توجہ دے رہے تھے ان میں مرزا مظہر جان جاناں، شاہ حاتم ، شاکر اور ناجی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اُردو غزل کی ابتداء میں ولی دکنی کا یہ کارنامہ قابل تحسین ہے کہ انھوں نے اردو غزل کے لیے ایک راہ ہموار کر دی جس پر چل کر دیگر شعرا نے اپنی شاعری کا قبلہ درست کیا۔
میر اور سودا کا دور غزل
میر اور سودا کے دور میں غزل دو مختلف مراحل سے گزر رہی تھی۔ ایک طرف تو دہلی کے شعرا جن میں سودا، میر تقی میر اور خواجہ میر درد سر فہرست ہیں اور دوسری طرف لکھنو کے شعرا جن میں انشاء، جرات اور مصحفی شامل ہیں۔
یہ دونوں گروہ الفاظ کی بازی گری میں مصروف تھے اور غزل کو داخلی اور خارجی حسن سے آشنا کر رہے تھے۔ یہاں داخلی حسن کا تعلق دبستان دہلی کے شعرا کے حوالے سے ہے اور خارجیت کا تعلق دبستان لکھنو سے ہے۔ میرو سودا اور درد کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
” اس نا آسودہ فضا میں خواجہ میر درد، میرزا سودا، اور میر تقی میر تین ایسے شعرا پیدا ہوئے جنھوں نے روح عصر کو زبان دے دی اور اس زوال آمادہ دور کو اعلیٰ پائے کی شاعری کا سر چشمہ بنا دیا۔ "
میر تقی میر
میرتقی میر ایک ایسے شاعر ہیں جنہیں بلاشبہ مصور غم یاغم کا شاعر کہا جا سکتا ہے۔ میر صاحب خود اپنے بارے میں کہتے ہیں۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میر تقی میر کی شاعری انتہائی خوبصورت اور لاجواب تشبیہات سے بھری پڑی ہے۔ ان کی تشبیہات میں مصوری کا رنگ نظر آتا ہے۔ میر صاحب کے کلام میں ایسی تشبیہات موجود ہیں جو حقیقت کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
"میر کے کلام میں تشبیہ شعر کے وجود کا حصہ بن کر اس طور پر سامنے آتی ہے کہا کہ اس کا اثر ہمیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور تشبیہ شعر میں چھپ جاتی ہے۔”
میر صاحب اپنے ایک شعر میں بجھے ہوئے دل کو مفلس کا چراغ اور محبوب کے لبوں کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں :
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
محمد رفیع سودا
اُردو ادب کے نامور شاعر اور قصیدے کے بادشاہ مرزا محمد رفیع سوداد دہلی میں پیدا ہوئے ۔ مرزا صاحب کی پرورش اور تعلیم دہلی میں ہوئی۔
شاہ حاتم کے شاگرد تھے۔ شاہ حاتم نے اپنے دیوان کے دیباچے میں اپنے شاگردوں کی فہرست درج کی ہے اس میں مرزا محمد رفیع سودا کا نام بھی شامل ہے اور شاہ صاحب نے سودا کی استادی پر فخر کیا ہے۔ سودا اگرچہ خان آرزو کے شاگرد نہ تھے مگر اُن کی صحبت سے بہت فیض یاب ہوئے اور شعر گوئی میں ان سے بہت فائدہ اُٹھایا۔
خان آرزو کی بدولت فارسی شاعری کو ترک کیا اور ریختہ گوئی شروع کی۔ سودا کا کلام اس قدر مقبول اور ہر دلعزیز ہوا کہ گھر گھر اور کوچہ و بازار تک میں پھیل گیا۔
نمونہ کلام درج ذیل ہے:
کیفیت چشم اُس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لیتا کہ چلا میں
سودا جو تیرا حال ہے ایسا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو نے اُسے کس آن میں دیکھا
سودا ہزار حیف کہ آ کر جہاں میں ہم
کیا کر چلے اور آئے تھے کس کام کے لئے
خواجہ میر درد
خواجہ میر درد اُردو ادب کے مشہور صوفی شاعر گزرے ہیں۔ درد کی شہرت کا بڑا سبب ان کا صوفیانہ کلام ہے۔ اُردو کی صوفیانہ شاعری میں جو مقام اور مرتبہ درد کو حاصل ہے، وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔ ان سے بہتر صوفیانہ شاعری کے نمونے اُردو شاعری میں کہیں نہیں ملتے۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ درد کی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں:
"درد کے سوچنے اور کہنے کا ڈھنگ غیر صوفی شعرا سے مختلف ہے۔ یعنی معنوی اور خارجی دونوں اعتبار سے ان کی شاعری پر صوفیانہ زندگی اور ذہن کی چھاپ لگی ہوئی ہے ۔”
ایک صوفی کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ خشک مزاج ، دنیا سے بےزار اور روکھا پھیکا آدمی ہوتا ہے جس کو دنیا اور اس کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ کوئی تعلق ۔
خواجہ میر درد کے بارے میں یہ نقطہ نظر درست نہ ہوگا ۔ کیونکہ آپ صوفی ہونے کے باوجود زندگی کی قدروں سے واقف اور ان کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ خواجہ میر درد کے کلام میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
جگ میں آکر ادھر اُدھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
غلام ہمدانی مصحفی
شیخ غلام ہمدانی مصحفی کا شمار اردو کے نامور شعرا میں ہوتا ہے۔ اگر چہ مصحفی کا آبائی وطن امروہہ ہے لیکن وہ بچپن میں ہی اپنے وطن سے ہجرت کر کے دہلی آگئے تھے جہاں وہ شاعری کی طرف مائل ہوئے ۔ دلی میں ہی انہوں نے شعر گوئی میں شہرت حاصل کی ۔
مصحفی کا شمار پرگو شعرا میں ہوتا ہے۔ جب وہ شعر کہنے پر آتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کسی کتاب سے نقل کر رہے ہیں ۔ مشاعروں میں کہنے کے لیے ان کے پاس بہت سی غزلیں ہوا کرتی تھیں۔
تیرے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی ان سے بات کرنا کبھی ان سے بات کرنا
مزید یہ بھی پڑھیں: جدید اردو غزل کے فلسفیانہ پہلو pdf
ایہام گوئی کی تحریک
ایہام گوئی فارسی کے بلند پایہ شعرا کے مقابلے میں نسبتاً کم تر درجے کے شعرا کی تحریک تھی جو بلبے کی طرح اٹھی اور مختصر سے رقص حباب کے بعد ختم ہو گئی۔ اس تحریک کے خلاف اولین ردعمل مرزا مظہر جان جاناں نے ظاہر کیا اور نہ صرف اُردوئے معلی کو نئی شاعری کی زبان بنا دیا بلکہ ولی کے اثرات کو بھی کم کرنے کی کاوش کی۔
اس دور میں اردو کے اصول و قواعد مقرر کئے گئے۔ عربی اور فارسی کے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ کو جائز اور دیگر زبانوں کے نامانوس الفاظ کو متروک قرار دیا گیا۔ چند ایہام گو شعرا کا تعارف اور نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
سیراج الدین علی خان آرزو
آرزو اکبر آباد کے رہنے والے تھے محمد شاہ رنگیلا کے زمانے میں دلی آئے لیکن دہی کے خراب حالات کی وجہ سے وہاں سے لکھنو چلے گئے اور وفات بھی وہیں پائی ۔
خان آرزو کو ادبی لحاظ سے اُردو کے اکابر شعرا میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ اُنھوں نے اُردو میں صرف ستائیس (۲۷) اشعار کہے ہیں البتہ ان کے شاگرد میر تقی میر نے انھیں ایسی شخصیت قرار دیا جن سے اُن کی شاعرانہ عظمت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔
اُس تندخو صنم سے جب سے لگا ہوں ملنے
ہر کوئی مانتا ہے میری دلاوری کو
نجم الدین شاہ مبارک آبرو
شاہ مبارک آبرو، خان آرزو کے قرابت دار تھے اور شاگرد بھی۔ خان آرزو کے مشورے سے فارسی میں شعر کہنا چھوڑ دیے اور ریختہ گوئی اپنالی۔ ان کے کلام میں فارسی اصناف اور تلمیحات وغیرہ کا خوب امتزاج ملتا ہے۔
آبرو کا کمال فن یہ ہے کہ اُس دور کی روح ان کی شاعری میں سرایت کر گئی ہے۔ آبرو کے کلام میں ایہام گوئی کے اثرات کے چند نمونے درج ذیل ہیں:
قول آبرو کا تھا کہ نہ جاؤں گا اُس گلی
ہو کر کے بے قرار دیکھو آج بھی گیا
مرزا مظہر جان جاناں ادبی کم اور مذہبی رہنما زیادہ تھے لیکن ان کی ادبی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے فارسی اور اُردو کو ایک ہی تار میں بنے کی کوشش کی اور اپنے شاگردوں کو بھی یہ زبان اختیار کرنے کی تربیت دی۔
بلاشبہ وہ فارسی کے شاعر تھے لیکن نئی اردو میں بھی ان کی شاعری بڑی جاندار اور پُر لطف ہے۔ مثلا اُن کے چند اشعار جو ذیل میں دیے گئے ہیں ملاحظہ کیجیے۔
چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
جو تو نے کی سود دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا
خدا کے واسطے اُس کو نہ ٹوکو!
یہی ایک شہر میں قاتل رہا ہے
آتش اور ناسخ کا دور غزل
میر اور سودا کے دور کے بعد غزل کو جس دور میں عروج نصیب ہواوہ آتش و ناسخ کا دور تھا۔ یہ دونوں شاعر دبستان لکھنو سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے اپنے فن میں ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ آتش کی غزل میں دبستان لکھنو کے زیر اثر جہاں خارجیت پائی جاتی ہے وہاں مصحفی کے شاگرد ہونے کی وجہ سے داخلیت بھی نمایاں ہے۔
خواجہ حیدر علی آتش
خواجہ حیدر علی آتش کا شمار اردو کے ان شعرا میں ہوتا ہے جن کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا گیا اور اُن کے کلام کا جائزہ مختلف زاویوں سے لیا گیا ۔ بلکہ بعض نقادوں نے تو انہیں میر و غالب کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر قرار دیا ۔ بقول رام بابو سکسینہ :
(میر و غالب کے بعد اگر کسی کا مرتبہ ہے تو وہ آتش ہیں ۔ بڑی خوبی ان کے کلام کی یہ ہے کہ وہ جذبات کو نہایت مؤثر اور دلکش الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔)
اگر چہ آتش کے کلام میں حسن و عشق کے معاملات کو لکھنوی انداز میں بہت اچھے انداز سے بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں زبان کی سادگی بھی پائی جاتی ہے۔ آتش کا نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
اللہ رے پھڑکنا اسیران تازہ
کاصیاد خیر مانگتا ہے اپنے دام کی
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور ہلیل بے تاب گفتگو کرتے
شیخ امام بخش ناسخ
ناسخ اردو ادب کے بہت بڑے شاعر اور طرز لکھنو کے موجد مانے جاتے ہیں۔ ناسخ کے خاندانی حالات صحیح طور پر معلوم نہیں۔ اس حوالے سے مختلف روایات ہیں جن کی تفصیل مولانامحمد حسین کی کتاب ” آب حیات” کے علاوہ اردو ادب کی دیگر کتابوں میں بھی دی گئی ہے۔ شاعری میں شاگردی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کے شاگرد نہ تھے۔
البتہ ان کے اپنے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد لکھنو میں موجود تھی۔ زبان کی اصلاح میں ناسخ نے جتنا کام کیا اس کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ شاعری میں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کی ہوگی اور اپنا لوہا منوایا ہو گا مگر اس حوالے سے ان کی شاعری کا مطالعہ ہمیں خاصا مایوس کرتا ہے۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ ناسخ کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں:(ناسخ گویا ساری عمر زبان کو سنوارتے اور اپنی شاعری کو بگاڑتے رہے۔”)
ناسخ خ کا نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے کوئی
دل ہی دل میں ہم اسے یاد کیا کرتے ہیں
غالب اور مومن کا دور غزل
مرزا اسد اللہ خان غالب اُردو کے ایسے شاعر ہیں کہ اگر اُردو شاعری کے کسی ایک شاعر کو نمائندہ کی حیثیت سے منتخب کرنے کا معاملہ ہو تو نوے فیصد لوگ بلا شبہ مرزا غالب کا ہی انتخاب کریں گے کیونکہ غالب محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک سنگِ میل اور ایک نشان راہ بھی ہے۔
اسی طرح اگر غالب کے دور کے چند مشہور اور نامی گرامی شعرا کا ذکر کیا جائے تو اُن میں قابل ذکر مومن خان مومن اور شیخ ابراہیم ذوق کا نام آئے گا۔
مرزا اسد اللہ خان غالب
غالب کا شمار اردو کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اُردو شاعری میں نئے نئے مضامین اور خیالات داخل کیے۔ بقول مولانا الطاف حسین حالی :
(ان کی (غالب) کی غزل میں زیادہ تر ایسے اچھوتے مضامین پائے جاتے ہیں جن کو اور شعرا کی فکر نے بالکل مس نہیں کیا اور معمولی مضامین ایسے طریقے سے بیان ادا کیے گئے ہیں، جو سب سے نرالا ہے۔”)
غالب فرماتے ہیں:
دل ناداں مجھے ہوا کیا ہے ؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟
ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے ؟
بہادر شاہ ظفر
بہادر شاہ ظفر نے ایک بادشاہ کی حیثیت سے اُردو شاعری کی سر پرستی کی ۔ وہ اس لحاظ سے خوش نصیب بھی ہیں کہ ان کو ذوق اور غالب جیسے اُستاد میسر آئے ۔
بہادر شاہ ظفر نے اپنی زندگی کے آخری چھے سال قید میں گزارے اور اسی قید میں ہی آپ کا انتقال ہوا۔ قید کی حزنیہ شاعری اُن کی شہرت کا سبب بنی۔
بلاشبہ غزل کے اچھے شاعر گزرے ہیں۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دوگز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
مومن خان مومن
مومن خان مومن بنیادی طور پر غزل گو شاعر تھے۔ ان کی غزل اردو ادب میں کئی وجوہ کی بناپر اہم مقام رکھتی ہے۔ وہ غالب اور ذوق کے ہم عصر شاعر تھے اور غالب کی طرح ان کے کلام میں بھی کافی سارے اشعار ایسے ہیں جو انھیں اُردو ادب کی تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
ان کے کلام میں بلند خیالی کے عمدہ نمونے پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی غزل میں موجود تخیل عالم کی سچائی کادرجہ رکھتا ہے۔ مومن خان مومن کے ہی ایک شعر کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ کاش ! مومن میرا سارا دیوان لے لے اور مجھے یہ شعر دے دے۔ وہ شعر یہ ہے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومن خان مومن کا نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے
شیخ محمد ابرہیم ذوق
شیخ محمد ابراہیم ذوق بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ ان کی بنیادی وجہ شہرت تو قصیدہ نگاری ہے لیکن اُن کی غزلوں کے اشعار اور مصر سے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ذوق کا نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
نواب مرزا داغ دہلوی
نواب مرزا خان داغ دہلوی کا شمار اُردو کے بلند پایا شعرا میں ہوتا ہے۔ اُردو ادب میں رائج ایک ایسا نام ہے جس کے شاعری پر بہت سے احسانات ہیں۔
اُن کے نام سے یقیناً اُردو ادب کا ہر طالب علم آشنا ہے۔ خود داغ اردو زبان پر بہت ناز کرتے ہیں اور اس حوالے سے وہ کہتے ہیں۔
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
بقول سید ضمیر جعفری:
(جس طرح غالب کی نثر کی نقل نہیں کی جاسکتی اسی طرح داغ کی اُردو زبان پر گرفت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔”)
داغ دہلوی کا نمونہ کلام درج ذیل ہے
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنشائی وہاں ماتم بھی ہے
اردو غزل کا آغاز و ارتقاء (جدید اردو غزل کی روایت)
جدید اردو غزل کی بنیا د سب سے پہلے غالب نے رکھی۔ اُردو میں جدید غزل کار جهان ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد شروع ہوا۔ جنگ آزادی سے جو حالات ہندوستان میں پیدا ہوئے ان کی وجہ سے عوام اور خواص کے ذہنوں پر منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ۔
ہندوستان کے لوگوں میں احساس آزادی اور سیاسی شعور نے جنم لیا۔ شاعروں نے زندگی کے مذہبی، معاشی، سماجی اور سیاسی پہلوؤں پر غور کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے اُردو شاعری خصوصاً غزل میں جدت پیدا ہوئی۔ مولانا حالی اور ان کے بعد آنے والے چند مشہور غزل گو شعرا کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی
مولانا حالی کو جدید غزل کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ غزل کی اصلاح کی خاطر انھوں نے اپنے دیوان کے شروع میں مقدمہ شعر و شاعری لکھا جس میں روایتی شاعری کی خامیوں کو بیان کیا گیا اور جدید شاعری کی اصلاح کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔
حالی ادب برائے زندگی کے نظریے کے قائل تھے۔ حالی نے غزلیات میں نئے نئے مضامین اور خیالات کو پیش کر کے اُردو غزل کو جدت کی نئی راہ دکھائی ہے۔ نمونہ کے طور پر ان کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
آ لگا حالی کنارے پر جہاز
الوداع اے زندگانی الوداع
تم کو ہزار شرم سہی ، مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
علامہ محمد اقبال
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی شاعری جدت اور نئے پن میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے بعد اقبال کو بڑا شاعر ماناجاتا ہے۔ اقبال ایک ایسے جدید شاعر ہیں جن کے کلام میں جدید شاعری کے تمام عناصر موجود ہیں۔ اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور غزل نگاری کے حوالے سے بہت اہم ہے۔
یہ وہ دور تھا جب اقبال غزل کی اصلاح کے لیے داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے اور داغ کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اقبال کی ایک غزل جو داغ کے رنگ میں لکھی گئی ہے اُس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تامل تو تھا اُن کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
فیض احمد فیض
فیض احمد فیض بنیادی طور پر رومانی شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست ته سنگ ، سر وادی سینا ، شام شهریاراں ، مرے دل مرے مسافر شامل ہیں۔ فیض کا کلیات نسخہ ہائے وفا کے نام سے چھپ چکا ہے۔ فیض احمد فیض اُردو ادب کے بہت مقبول اور ممتاز شاعر تھے۔
انھوں نے اپنے اندر کی رومانی آواز کو زندہ رکھا۔ فیض احمد فیض کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
منیر نیازی
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی فن کا کمال اور انتہا حیرت پر بنی ہے اور یہ صفت منیر نیازی کی شاعری میں اپنے کمال کو پہنچتی ہے اور یہی حیرت اُن کی شاعری کی خوبی ہے۔
جو ان شاعروں اور ادیبوں کو انکی شاعری نے اس قدر حیرت زدہ کر رکھا ہے کہ شعوری یا غیر شعری طور پر اکثر ان کے زیر اثر نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے اردو شاعری کی نئی رت اصل میں ایک حد تک منیر نیازی کی رت ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل یل ہے۔
خیال جس کا تھا مجھے، خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
سیف الدین سیف
سیف الدین سیف اردو ادب کے ایک ایسے شاعر تھے جنھوں نے حقیقت کے پس پردہ نئی حقیقت دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن اس دریافت نو نے ان کے ہاں نا امیدی اور عدم اطمینانی ہی پیدا کی ۔ وہ کہتے ہیں۔
مرنے والوں پر سیف حیرت کیوں
موت آسان ہو گئی ہو گی
سيف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
شکیب جلالی
شکیب جلالی نے فطرت اور مظاہر فطرت کے لئے استعارے اور علامتیں استعمال کیں۔ انھوں نے زندگی کی وسعتوں کو اس فنی چابک دستی سے سمیٹا کہ حدود وقت سے آگے نکل جانا مشکل نہ رہا۔ شکیب کی غزل انسان اور فطرت کے درمیان نیا رابطہ قائم کرتی ہے۔ انھوں نے نئی غزل کی مزاج سازی میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ شکیب جلالی کہتے ہیں:
شکیب اپنے تعارف کے لئے یہ بات کافی ہے
ہم اُس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
قتیل شفائی
قتیل شفائی ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اُردو کی مختلف اصناف جن میں غزل، نظم اور گیت وغیرہ شامل ہیں، میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ۔ انھوں نے ان اصناف میں نہ صرف شاعری کی بلکہ ہر صنف کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہوئے اس میں کامیاب بھی رہے۔
ان کی غزلیات کا مجموعہ "گفتگو جدید” اردو شاعری میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قتیل شفائی اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں۔
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو علم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
مصطفی زیدی
مصطفیٰ زیدی اُردو غزل کا ایک اہم نام ہے۔ ان کی غزل میں دور حاضر کی سماجی ، سیاسی اور ادبی صورت حال واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مصطفیٰ زیدی کا کلام پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ موجودہ دور کے لوگوں سے اُن کی ناآسودہ تمناؤں اور خواہشوں کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔
مصطفیٰ زیدی کے چند اشعار درج ذیل ہیں جن سے ان کے اسلوب اور طرز اظہار کو پرکھنے میں مددمل سکتی ہے۔
انھی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستان
حسرت مہانی
حسرت موہانی ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے غزل کی گرتی ہوئی ساکھ کوسنبھالا۔ اس کو وہ مقام اور مرتبہ دیا جس کی غزل حقیقی معنوں میں متحمل تھی ۔ انھوں نے اپنے کمال فن سے غزل کو وہ طاقت بخشی جس سے غزل کی ایک نئی روایت قائم ہوگئی۔
حسرت موہانی نے غزل میں ہر طرح کے مضامین کو بیان کیا۔ حسرت نے اردو غزل میں حق گوئی و بے باکی کے ایسے لازوال اشعار چھوڑے ہیں جن کے اثرات آج تک بر صغیر پاک و ہند کے لوگ محسوس کرتے ہیں ۔ حسرت ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بیک وقت صحافی صوفی ، ناقد، ادیب اور ایک عظیم شاعر تھے۔
وہ ایک سیدھے، بچے اور پکے مسلمان تھے۔ یہ کہنا ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ منافقت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ حسرت موہانی کے چند ایک اشعار درج ذیل ہیں۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
فراق گورکھپوری
اُردو ادب کی تاریخ میں ایک تعداد ایسے ناموں کی ہے جنہوں نے شاعری اور تنقید میں اپنا نام پیدا کیا لیکن ان میں صرف دو نام ایسے ہیں جنہوںنے ان دونوں اصناف کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ ان میں ایک نام مولانا الطاف حسین حالی کا ہے اور دوسرا فراق گورکھپوری کا ہے۔
یہ دونوں ایسے نام ہیں جن کی دونوں حیثیتوں یعنی ( شاعر، ناقد ) پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور فی زمانہ لکھا بھی جا رہا ہے۔ فراق گورکھپوری کی شاعری ان کی وجہ شہرت ہے یا تنقید ۔
یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے۔ لیکن چونکہ ہمیں فی الحال اُن کی شاعری کی اور وہ بھی غزل کے حوالے سے بات کرنی ہے۔ فراق کا نمونہ کلام درج ہے۔
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
ناصر کاظمی
اگر چہ ناصر کاظمی نے اپنی شاعری کی شروعات نظم سے کی لیکن بعد میں انہوں نے غزل میں طبع آزمائی کی اور خوب نام کمایا۔ اتنا کہ آج ان کی شہرت ان کی غزل کی وجہ سے ہے نہ کہ نظم کی وجہ سے ۔
ناصر کاظمی نے جس دور میں غزل کہنا شروع کی اس وقت غزل ترقی کے کافی مراحل طے کر چکی تھی اور اس میں عشق و محبت کے علاوہ ہر طرح کے موضوعات سمانے کی گنجائش تھی۔
ناصر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ترقی پسند تحریک کے اُس دور میں جب شاعری پر قلم کا سکہ بیٹھا ہوا تھا غزل کہہ کر اُس کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو سہارا دیا اور غزل کو اُس کا کھویا ہوا مقام واپس دلوایا جس کی وہ مستحق تھی۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
احمد فراز
احمد فراز کے کلام میں ہر قسم اور ہر موضوع کے اشعار ملیں گے۔ ان کا تخیل بہت وسیع ہے۔ وہ نہ صرف اپنے اشعار میں روایتی عشقیہ مضامین بیان کرتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ ہر قسم کے معاشرتی مسائل کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔
ان کے کلام کو پڑھ کر اگر ان کے خلیل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی اس کی شاعری زندگی کا کوئی ایسا پہلو ہو جس پر فراز نے اپنے کلام میں بحث نہ کی ہو تخیل کی رنگارنگی کے حوالے سے احمد فراز کے چند اشعار:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
ضبط لازم ہے مگر دُکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
ظفر اقبال
ظفر اقبال اُردو کے وہ شاعر ہیں جن کی شاعری حقیقت پر مبنی ہے۔ انہوں نے انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو جس طرح بیان کیا اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ایک عام آدمی کی سی زندگی گزاری۔ ظفر اقبال کہتے ہیں:
سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا
میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جواں ہونے کی خاطر
مجھے خود بھی نہیں معلوم کب سے پھر رہا ہوں
زمیں پر مارا مارا آسماں ہونے کی خاطر
جون ایلیا
جون ایلیا بر صغیر کے وہ عظیم شاعر ہیں جو اپنے انوکھے انداز بیاں کی وجہ سے سراہے جاتے ہیں۔ انہوں نے جب ہوش کی آنکھیں کھولیں تو گھر میں صبح سے شام تک شاعری اور فلسفے ک دفتر کھلا دیکھا اور اپنے والد کو بحث و مباحثے میں پایا۔
جون لڑکپن ہی سے حساس طبیعت کے مالک تھے۔ چوں کہ گھر میں علمی ماحول تھا شاید یہی وجہ تھی کہ وہ بچپن ہی سے شاعری کی طرف مائل ہو گئے۔
حقیقت پسندی جون ایلیا کی شاعری کا بنیادی وصف تصور کی جاتی ہے۔ ان کے کلام ایسے اشعار کثرت سے ملیں گے جن میں حقیقت پسندانہ موضوعات بیان کیے گئے ہیں۔
اگر بغور ان اشعار کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھنے میں ذراسی بھی وقت پیش نہیں آتی کہ جون ایلیا نے حقیقت پسندی کے ضمن میں جو اشعار کہے ہیں اُن میں ایسے موضوعات بیان کیے گئے ہیں جو اس سے پہلے کسی شاعر نے بیان نہیں کیے۔
اس حوالے سے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہو ہم اُس سے جلتے ہیں
ان کے علاوہ بھی اور کافی سارے شعرا جیسا کہ پروین شاکر، جیلانی کامران، غلام جیلانی اصغر، ڈاکر تبسم کا شمیری، سید عابد علی عابد وغیرہ شامل ہیں۔ جنہوں نے اُردو غزل میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا اور جدید دور کی غزل کو نئے تجربات اور احساسات سے روشناس کروایا۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں