اردو شاعری کا اہم کردار قاصد کون ہے؟

اردو شاعری کا اہم کردار قاصد کون ہے؟

پیغام لانے اور لے جانے والے کو قاصد کہتے ہیں اب یہ پیغام منہ زبانی بھیجا جارہا ہو یا کسی خط پتر کے ذریعے، پہلے زمانے میں کاغذ بھی دستیاب نہیں تھا۔

مشینی کاغذ تیار نہیں ہوتا تھا ہاتھ سے کاغذ بناتے تھے اس میں دیر بھی زیادہ لگتی تھی اور محنت بھی زیادہ ہوتی تھی۔ نتیجہ یہ کہ کاغذ کم یاب بھی تھا اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی تھی اس لیے جب کوئی آنے جانے والا ملتا تھا تو منہ زبانی پیغام بھیجا جاتا تھا۔ خیر و عافیت کہلوائی جاتی تھی۔

سناونی بھیجی جاتی تھی کچھ لوگ اس مقصد کے لیے قاصد کا انتظام کرتے تھے اور اس کے ہاتھ خط بھیجتے تھے۔

کوئی شے روانہ کرتے تھے یا ضروری پیغام کہلواتے تھے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ خط میں جو باتیں لکھی جاتی تھیں ان کے علاوہ کچھ باتیں منہ زبانی بھی کہیں جاتی تھیں۔

غالب کا شعر ہے اور اسی صورت حال کی ترجمانی کرتا ہے۔دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ برکچھ تو پیغام زبانی اور ہوکبھی کبھی کچھ خاص نشانیاں دے کر بھی بھیجا جاتا تھا

جس سے قاصد کی پہچان ممکن ہو جائے بہر حال قاصد معتبر آدمی ہوتا تھا اگر کبھی کبھی قاصد بے اعتبارا نکل جاتا تھا تو بات بگڑ جاتی تھی اور راز فاش ہو جاتا تھا۔ شاعروں کے یہاں عام طور پر قاصد کے ذریعے پیغام محبت ہی بھیجا جا سکتا تھا۔

اس لیے ہمارے فارسی اور اردو کے شعرا جو قاصد سے متعلق خیالات کا اظہار کیا ہے وہ عشق و محبت ہی کی کہانی اور پر لطف داستاں ہی کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ غالب نے اس سلسلے میں طرح طرح کے مضمون پیدا کیے ہیں ان کا ایک شعر ہے۔

کیسا جواب حضرت دل دیکھیے ذرا پیغام بر کے ہاتھ میں ٹکڑے زباں کے ہیںیہ باتیں کلاسیکی شاعری میں زیادہ رائج ہیں اب تو ان کا کہیں کہیں ذکر آتا ہے لیکن قاصد نہ صرف یہ کہ آدمی ہوتا ہے بلکہ سنکسرت اور ہندوی میں شاعری کی روایت میں بادل بھی ہوتا ہے

میگھ دوت اس کی بہت نمایاں اور خوب صورت مثال ہے جس کا مصنف نہا کوی کالی داس ہے اور جس کے ترجمے اردو میں بہت ہو چکے ہیں ایک ہندوی سے قریب اردو ترجمہ راقم الحروف کا بھی ہے۔اردو فارسی میں بہت شعر ہیں جن میں ہوا ،

بادل، کبوتر ، مینا اور دوسری خوب صورت اور خوش آواز چڑیوں کو قاصد بنایا گیا ہے۔ حضرت سلیمان کا قاصد کہا جاتا ہے کہ ہر ہر تھا۔

جوایک چھوٹا سا خوب صورت پرندہ ہوتا ہے اور جس کا ذکر مقدس کتابوں میں بھی آتا ہے اب بھی اس طرح کا ایک تصویر نامہ وقتاً فوقتاً نظر سے گزرتا ہے جس میں کوئی پرندہ اپنی چونچ میں خط لیے اڑ رہا ہے۔

خط کے بجائے قدیم روایت میں ایک ہری شاخ بھی پرندے کی چونچ میں ہوتی ہے یہ امن و صلح کی ایک علامت کے طور پر سامنے آنے والا ایک روایتی طریقہ اظہار ہوتا ہے۔

ماخذ : کلاسک اردو شاعری pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں