اردو شاعری میں قرآنی قصے

اردو شاعری میں قرآنی قصے

"قرآن پاک میں بطور حوالہ آنے والے کچھ قدیم قصے اور روایتیں“

اساطیر اسطور ہی کی جمع ہے اور اس سے مراد ایسی کہانیاں ہیں جو قدیم روایتوں کے سانچوں میں ڈھل گئی ہوں اور غالباً یونانی قصوں اور ان کے نام یعنی Stroy سے یہ لفظ عربی میں آیا بھی ہے

خود عربی زبان میں بھی قصے کہانیاں کی بہتات رہی ہے اور خاص طور پر حضور اکرم کے زمانہ مقدس کے بعد حکایات آغانی اور الف لیلائی قصے اس کے ثبوت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔

حضرت یوسف کے قصے کو قرآن پاک نے "احسن القصص کہہ کر پیش کیا ہے روایت اور حکایت ترسیل کے عمل میں ایک نہایت اہم اور موثر کردار ادا کرتی ہے۔

قرآن پاک میں بھی تھے اور کہانیوں کے حوالے اسی اثر و تاثر کے تحت آتے ہیں کہ وہ معلومہ حقائق ہیں“ حج کے ذکر کے موقع پر خود قرآن پاک کے الفاظ میں کہا گیا ہے۔”الحج اشہر معلومات”

کہ حج کے بارے میں تو تم سبھی جانتے ہو۔ ادبیات ہوں تاریخ ہو یا حکمیا نہ نکتہ آفرینی حوالوں کی اہمیت اپنی جگہ رہتی ہے اور ان کے وسیلے سے (تاریخی حقائق اور تہذیبی سچائیوں کے رموز و نکات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حقائق پر گفتگو کرتے وقت ذہن میں یہ بات رہے کہ وہ کون سی واقعاتی یا نیم واقعاتی سچائیاں ہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ وہ تاریخی حقائق بھی ہیں اور معاشرتی رویے بھی جو تاریخ کا ایک عکس اور ایک اہم پہلو ہوتے ہیں

لیکن وہ تاریخ نہیں ہوتے اور حقائق کا وہ بیان نہیں ہوتا جس کو ہر سطح اور ہر اعتبارسے معروضی بیان مان لیا جائے۔قرآن کی اصطلاحوں کو مشرق وسطی کی تہذیبی اور نسلی روایتوں کے پس منظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔

حضور اکرم کا دل ربویت منزل ہو یا دہ ذہن جو منظر صبح کی طرح روشن اور شفاف ہے اور ہر طرح کی اعلیٰ عیشوں سے جس کو پاک قرار دیا گیا ہے پھر قرآنی ہدایات کی روشنی میں برابر اس کی نئی تشکیل اور تربیت ہوتی رہی ہے ۔ مثالوں سے کام لینا،

اشاروں اور کنایوں کو گفتگو کے درمیان معنی خیز انداز سے لاتے رہنا کوئی غلط انداز رسائی نہیں ہو سکتا ہم بقول غالب:ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگوبنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیرتشبیہیں، استعارے اور علامتیں وہ روایتوں کی صورت میں ہوں یا حکایتوں کی کسی ایک لفظ میں موجود ہوں

یا الفاظ کے مرقع میں ان سے ترسیل کے عمل کو زیادہ با معنی نتیجہ خیز اور اثر آفریں بنانے میں بہر حال مدد ملتی ہے اور کہنے والا جتنی بڑی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے اور پھر سننے والا بھی اس کے مطابق اہم نتائج گفتگو کو اس درجے یا اس درجے میں رکھ سکتا ہے۔

قرآن پاک نے جہاں تک تعمیری اور تمثیلی انداز کا سوال ہے، اس میں چھوٹی سے چھوٹی علامتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور اس پر جب مخالفین رسالت نے حرف گیری کی تو یہ کہا گیا کہ وہ مچھر اور مکڑی کی مثالیں ہوں تب بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہونی چاہیے

کہ نظام قدرت میں ان سب چیزوں کی تخلیق ان کی پرورش اور ان کے باہمی رشتے داخل ہیں۔”لما بعو فتا فما فوقہا”اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس جسے Insect کہتا ہے اس میں چھوٹی سے چھوٹی مخلوق اور مادی حقیقت شامل ہے

اس سے ہم قرآن کی اساسی یا بنیادی حکمت و طریقہ رسائی کو سمجھ سکتے ہیں کو وہ تفہیم کے عمل میں اگر بہت سامنے کی چیزوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا تو ان روایتوں اور حکایتوں کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے جو تاریخ و تہذیب کے بڑے حقائق کو آئینہ حالو خیال بنانے میں معاون ہوتی ہیں۔

قرآن پاک میں زیادہ تر ان روایتوں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں جو عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں ملتی ہیں یا پھر ان کو دہرایا گیا ہے۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن اگر چہ تمام عالم انسانی کو ذہن میں رکھ کر بات کرتا ہے بلکہ اس کی حدیں اس سے بھی کچھ آگے ہیں جس کا اندازہ ہمیں اس آیت سے بھی ہوتا ہے۔

"يا معشر الجن والا انس“ یعنی اے معاشرہ جن وانس اس سے قرآن پاک کی فکری نظر داریوں اور خبر داریوں کی وسعتوں کا پتہ چلتا ہے اور اس کی پہلو داریوں پر نظر جاتی ہے۔

مدینے میں اور اس کے آس پاس یہودی آبادیاں تھیں اس وجہ سے بھی قرآن پاک کو اپنی تلقین اور تبلیغ کے کام میں ان قدیم روایتوں کی ثقافتی انداز سے توجہ فرما ہونا ضروری تو تھا جو عرب معاشرے میں بنی اسرائیل اور اس کے مختلف قبائل کی وجہ سے رائج ہوئی تھیں۔

حضور اکرم کی ہجرت فرمائی کے بعد تو مدینے کے یہودیوں سے اور بھی زیادہ قریبی تعلق ہو گیا اور وہ قرآن پاک کے حوالوں میں آنے لگے جب قرآن نے یہ کہہ دیا اسے محمد ہم اس کو صاحب ایمان و یقین سمجھتے ہیں

جو اس پر بھی ایمان لاتا ہے جو تم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اس خدا کی کتاب میں تخیل و تمثیل کی وہ اظہاری خوبیاں بھی ملیں گی جن کا تعلق قدیم اور حضور اکرم کے عہد تک جدید معاشرتی سچائیوں سے تھا۔

ان References یا حوالوں کو قرآن میں ایک جگہ جمع نہیں کیا گیا یہ ایک طویل۔۔۔۔۔۔

ماخذ: کلاسک اردو شاعری pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں