اردو زبان کا سیاسی، فکری، معاشرتی اور تہذیبی پس منظر
اگر چہ حکمرانوں کی حیثیت سے برصغیر پاک و ہند میں مسلمان 644ء میں آچکے تھے جب انہوں نے مکران فتح کیا مگر محمد بن قاسم کی فتوحات 712ء 94ھ کے بعد وہ برصغیر کے ایک وسیع حصہ پر قابض ہو گئے لیکن تاجروں کی حیثیت سے وہ اس سے بہت پہلے یہاں آچکے تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول مقبول ﷺ کی پیدائش سے قبل بھی عرب تاجر مالا بار کارومنڈول سراندیپ مالدیپ جاوا سماٹرا اور چین کے ساحل تک کشتیوں میں بیٹھ کر جاتے اور تجارت کرتے تھے۔1
جب عربوں نے اسلام قبول کر لیا تو وہ حسب سابق بغرض تجارت برصغیر کو آتے جاتے رہے اور اکثر نے یہاں بود و باش بھی اختیار کر لی اور جنوب کے بعض ساحلی مقامات پر اپنی نو آبادیاں بنالیں۔
جنوبی بر صغیر میں ہندو راج کے تحت مسلمانوں کی متعدد تجارتی بستیوں کا سراغ جو خوشحال اور با اثر تھیں، تاریخ سے مل جاتا ہے لیکن شمال میں مسلم نو آبادیوں کا وجود مسلمانوں کی حکمرانی کے دور سے پہلے نہیں ملتا۔
حضرت امیر معاویہ (متوفی 681ء) کے زمانے میں ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان تک مسلمانوں کا پرچم لہرا چکا تھا2۔ اگر چہ سندھ کی سرحد پر مکران کے مسلمانوں اور سندھ کے راجاؤں میں گاہے بگاہے چھیڑ چھاڑ ہوتی رہتی تھی لیکن ولید بن عبدالملک 705ء تا 712ء کے زمانے تک عربوں نے سندھ پر باقاعدہ چڑھائی نہیں کی۔ پہلے عبداللہ اور بدیل کی سر کردگی میں مکران سے لشکر بھیجے گئے لیکن دونوں مہمیں ناکام ہوئیں۔
تیسری مہم سترہ سالہ محمد بن قاسم کی سر کردگی میں مکران سے ہوتی ہوئی دیبل پہنچی (712ء ) اور ڈیڑھ دو سال کے اندر محمد بن قاسم نے ملتان تک کا سارا علاقہ فتح کر کے سندھ کو اسلامی مملکت میں شامل کر لیا۔ سندھ میں اس طرح جس اسلامی حکومت کی بنیاد پڑی وہ کچھ کم دو سو برس تک اموی اور عباسی خلفا کے ماتحت رہی۔
عربی مراکز سے تعلق کم ہو جانے کا ایک سبب یہ تھا کہ جس طرح مغرب کے بعض بعید صوبوں میں قرامطہ کی تبلیغ کامیاب ہوئی تھی اسی طرح ولایت سندھ میں بھی اس کا اثر پھیل گیا تھا۔ چوتھی صدی ہجری کے اواخر اور پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں (بمطابق گیارہویں صدی عیسوی ادائل ) ملتان اور سندھ کے اسمعیلی امیروں کی سلطان محمود غزنوی نے بینچ کئی کی لیکن محمود کے بعد سندھ پر غزنوی اقتدار موثر طور پر قائم نہیں رہا۔
پہلے یہاں سومرہ (یا سامره ) خاندان حکومت کرتا رہا اور پھر سمہ خاندان کے رئیسوں نے سومروں کی جگہ لی اور جام کے لقب سے مشہور ہوئے۔
مغلوں کی آمد تک سندھ میں انہی جاموں کا دور چلتا رہا۔سلطنت غزنی کا امیر سلطان سبکتگین پہلا مسلمان فاتح تھا جو برصغیر میں شمال مغرب سے داخل ہوا اور جس نے پشاور پر پہلا مسلمان حاکم مقرر کیا 990 / 380ھ اس نے 997ء میں وفات پائی اور اس کے دو سال بعد اس کا بیٹا محمود غزنوی سلطنت غزنویہ پر قابض ہو گیا۔ اس نے اپنے بتیس (32) سالہ دور حکومت میں افغانستان خراسان ایران و ترکستان کے وسیع قطعات کرمان اور پنجاب و سرحد کے علاقے فتح کیے اور ایک طرف قنوج دوسری طرف گجرات تک اکثر راجاؤں کو اپنا خراج گزار بنایا۔
چونکہ محمود نے علاقہ پنجاب کا الحاق سلطنت غزنی سے کر لیا تھا اس لیے گیارہویں صدی عیسوی کے شروع ہی سے لاہور اسلامی تمدن و ثقافت کا مرکز بننے لگا جہاں نہ صرف مسلمان علما و فضلا شعراء و ادباء بلکہ صوفیہ و مشائخ اور دینی رہنما پہنچنے لگے اور اسلام کی اشاعت ہونے لگی ۔ 3
سلطان محمود غزنوی کی وفات 1030ء کے کچھ دیر بعد غزنی کی حکومت کمزور ہونی شروع ہوئی مگر پھر بھی کوئی سوا سو سال تک غزنوی اقتدار افغانستان اور پنجاب پر قائم رہا مگر 1186ء میں امیر شہاب الدین غوری نے جو غیاث الدین غوری کا بھائی تھا آخری غزنوی سلطان ملک خسرو پر حملہ کر کے اسے گرفتار کر لیا۔ شہاب الدین غوری نے برصغیر پر سب سے پہلا حملہ 1175ء میں کیا تھا جو ملتان کے اسمعیلی حاکموں کے خلاف تھا۔
اسمعیلیوں کو شکست دے کر اس نے اچ پر بھی قبضہ کیا اور جب اسے گجرات کو فتح کرنے میں ناکامی ہوئی تو پشاور اور پھر لاہور کو فتح کر کے اس نے غزنوی خاندان کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد اس کے راجپوت راجاؤں سے مقابلے ہوئے ، آخر 1192ء میں اسے فتح حاصل ہوئی ۔
اب شہاب الدین اپنے بھائی کی وفات پر غوری سلطنت کا حاکم اعلیٰ ہو گیا اور اس نے اپنے سابقہ غلام اور اس وقت کے قابل جرنیل قطب الدین ابیک کو نو مفتوحه علاقوں کا حاکم مقرر کر دیا اور خود غزنی واپس چلا گیا۔ ایک نے علی گڑھ دہلی اور میرٹھ کے گرد و نواح کے علاقوں میں متحکم انتظام کر کے لاہور اور دہلی کو اپنا مستعقر قرار دیا۔
ایک اور شہاب الدین غوری نے قنوج بنارس گوالیار اور بدایوں کو بھی فتح کر لیا اور غوری کے ایک جرنیل محمد بن بختیار خلجی نے بہار اور بنگال کے بہت سے اضلاع بھی فتح کر لیے۔ پنجاب ملتان اور سندھ تو پہلے ہی اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے ۔ 4 محمد بن قاسم سے لے کر شہاب الدین غوری تک 712ء 1206 ، پانچ سو سال میں بر صغیر میں جتنی بھی مسلم حکومتیں قائم ہو ئیں ان سب کی حیثیت ماتحت حکومتوں کی تھی، کیونکہ ان کا مرکز یا تو دمشق تھا یا بغداد یا غزنی ۔
البتہ سلطان شہاب الدین غوری کے بعد مملوک سلاطین کی حکومت سے بر صغیر میں مسلم فرمانروائی کا نیا دور شروع ہوا۔ اب بر صغیر میں مسلم حکومت کو خود مختارانہ حیثیت حاصل ہو گئی۔ پہلے سلاطین ہند کو خاندان غلاماں کہا جاتا تھا کیونکہ اس خاندان کے تین نامور بادشاہ اوائل زندگی میں غلام رہ چکے تھے ۔ قطب الدین ابیک 1206 – 1210 ء التمش 1210-1236ء اور غیاث الدین بلبن 1266-1287 ء ان سلاطین کے دور میں سلطنت اسلامیہ شمالی ہند نے بین الاقوامی حیثیت حاصل کر لی۔
خصوصیت سے بلبن نے سارے ملک میں امن وامان قائم کر کے انتظامی مشینری کو سدھارا لیکن اس کے بعد جب حکومت کمزور ہو گئی تو امرائے سلطنت نے سامانہ کے نائب ناظم جلال الدین خلجی کو تخت پر بٹھا دیا۔ یہ 1290 ء کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد خلجی خاندان کی حکومت شروع ہوئی ۔ جلال الدین خلجی کو 1296 ء میں اپنے داماد اور بھتیجے علاء الدین خلجی کے ایما پر قتل کر دیا گیا۔ چچا کی زندگی ہی میں علاء الدین نے دکن پر 1294ء میں حملہ کر کے دیو گیری کے راجا کو مطیع کر لیا تھا۔
تخت دہلی پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے دکن میں مدورا تک اپنی فتوحات وسیع کیں، لیکن دکن پر حکومت دہلی کا براہ راست قبضہ اس لیے دشوار تھا کیونکہ چند ساحلی بندر گاہوں کے سوا وہاں مسلمانوں کی کوئی آبادی نہ تھی اور شمال کے سپاہی زیادہ عرصے تک اپنے گھروں سے اتنے فاصلے پر رہنا گوارا نہ کرتے تھے ۔ اس لیے اول اول دکن کے علاقے باج گزار ہندو راجاؤں ہی کی تحویل میں دے دیے گئے اگر چہ جگہ جگہ مسلمان افواج کو قلعوں میں قائم کر دیا گیا۔
مگر جب 1316 ء میں قطب الدین مبارک خلجی تخت دہلی پر بیٹھا اور دیوگیری کے راجا نے سارے مہاراشٹر میں بغاوت کی آگ بھڑکا دی تو بادشاہ کو پھر دکن جانا پڑا اور اس کے بعد دیو گیری کی ریاست اقطاع شاہی میں ضم کر لی گئی مہاراشٹر میں جابجا نئی مسلم چھاؤنیاں قائم ہوئیں اور دیو گیری دکن کے مسلمان صوبیدار کا مرکز قرار پایا۔ اس طرح چودھویں صدی کے شروع میں مسلمانوں کی ثقافت و تمدن مذہب و معاشرت، زبان اور طرز حکومت دکن کے اندرونی علاقوں میں بھی اشاعت پانے لگا۔
تین سال بعد مبارک علی کو اس کے نومسلم غلام خسرو خان نے قتل کر کے 1320 ء میں خود حکومت سنبھال لی لیکن اس کے ظلم و جور اور اسلام دشمن عامیانہ حرکتوں سے تنگ آ کر مسلمانوں نے دیپال پور کے صو بیدار امیر غیاث الدین تغلق سے جو اپنی فتوحات کی وجہ سے غازی ملک کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اپیل کی کہ وہ اس فتنہ کو رفع کرے۔ غازی ملک ایک آزمودہ جرنیل تھا۔ اس نے اور صوبہ داروں کو جہاد کی دعوت دی اور ایک فوج لے کر دہلی کی طرف بڑھا۔ خسرو خان کو شکست ہوئی اور سلطنت ہند تغلق خاندان کی تحویل میں آگئی۔
اس کے بیٹے سلطان محمد تغلق نے 1325ء میں دہلی کا تخت ورثے میں پایا اور 26 سال تک حکومت کی ۔ اس کا ابتدائی دور تو اچھا رہا لیکن آخر عمر میں ملک میں بغاوتیں شروع ہو گئیں اور انہی بغاوتوں کو فرد کرتے ہوئے 1351 ء میں اس کی وفات ہوئی محمد تغلق کے آخری زمانے میں بنگال اور دکن خود مختار ہو گئے تھے ۔ شمالی دکن میں مسلم سلطنت بہمنی اور جنوب وسط میں ہند و سلطنت و جیا نگر قائم ہوگئی اور بنگال میں ملک فخر الدینا اور پھر ملک الیاس شمس الدین نے خود مختار مسلم حکومت قائم کر لی ۔
دکن پر اپنا تسلط موثر طور پر قائم رکھنے کے لیے محمد تغلق نے 1327 ء میں دولت آباد کو اپنا دارالخلافہ بنانے کی کوشش کی تھی اور اہل دہلی کو حکم دیا تھا کہ وہاں جا کر رہیں۔ اس جبری ہجرت سے اہل دہلی پر جو کچھ گزری سو گزری لیکن ان کی بڑے پیمانے پر دولت آباد منتقلی کی بدولت دکن میں مسلمانوں کی ایک بڑی بستی بن گئی۔
یہ لوگ دہلی کی مرکزی حکومت سے جلد ہی آزاد ہو گئے 1348 ، مگر سطح مرتفع دکن کا وسیع علاقہ صدیوں تک انہی کے اخلاف کی میراث رہا اور دکن مسلم تہذیب و تمدن کا مرکز بنا رہا۔ محمد تغلق کے بعد فیروز تغلق نے حکومت کی جس کی وفات 1388ء پر تخت کے دعویداروں میں خانہ جنگی ہوئی اور حکومت دہلی کا اقتدار کم ہو گیا اور رہا سہا اقتدار امیر تیمور کے حملے نے مٹا دیا۔
1398 ، واپس جاتے وقت امیر تیمور ملتان کے حاکم خضر خان کو پنجاب اور دہلی میں اپنا نائب مقرر کر گیا، جو کئی سال تک مقامی امیروں سے لڑ جھگڑ کر آخر 1414 ء میں شکستہ حال دار السلطنت پر قابض ہوا اور اُس نے خاندان سادات کی بنیاد ڈالی لیکن سلطنت پہلے ہی پارہ پارہ ہو چکی تھی۔ ان سیدوں کی بادشاہی 1451ء سے آگے نہ چل سکی۔ آخری بادشاہ کو لاہور کے صوبے دار بہلول لودھی نے کئی بار جونپور اور مالوے کے مسلمان بادشاہوں سے بچایا اور آخر خود ہی حکومت دہلی کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔
اس کی وفات پر 1489ء میں سکندر لودھی تخت پر بیٹھا جس نے آگر ہ شہر کی بنیاد رکھی اوراسے اپنا دارالخلافہ بنایا۔ اس کے بعد ابراہیم لودھی تخت نشین ہوا 1517ء لیکن وہ اپنے پلان سرداروں پر پوری طرح قابو نہ پاسکا۔
اس بات سے امیر تیمور کے پڑپوتے ظہر الدین بابر نے جو کابل و قندھار کا حاکم تھا فائدہ اُٹھایا اور 1526ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی میں مغلیہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ بابر سے پہلے کے مسلمان حکمران سلاطین کہلاتے تھے ، بابرنے بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔چودھویں صدی کے وسط ہی سے مرکزی حکومت سے کٹ کر ملک کے مختلف گوشوں میں آزاد مسلم حکومتیں قائم ہو گئی تھیں جو تقریباً دو سو برس تک وہاں فائز رہیں ۔
انہوں نے خود مختار بادشاہی کے وہ سب لوازم جمع کیے جن کا پہلے صرف سلطنت دہلی کو امتیاز حاصل تھا، یعنی عالی شان محلات، درباری آرائش و تجمل کے بیش قیمت سامان، گراں بہا لباس و زیورات، بڑی بڑی فوجیں، بادشاہی کارخانے اور محکمے اور اسی طرح تزک واحتشام کے صدہا اسباب جن کی ضرورت،
اقطاع ملک میں ، مرکزی سلطنت کے استحکام کے زمانے میں نہ تھی۔ اس طرح مسلمانوں کی تہذیب، تمدن اور معاشرت ملک کے گوشے گوشے میں موثر طور پر پھیل گئی۔ جا بجا نئے شہر تعمیر ہوئے اور مسلم ثقافت اور علم وفن کے مرکز بنے۔ صدیا درس گاہیں اور خانقاہیں قائم ہو گئیں۔ غرض اس سیاسی لا مرکزیت نے ثقافتی لحاظ سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچایا۔
اگر چه سنده، کشمیر، بنگال، خاندیش، مالوہ، گجرات، گلبرگہ اور جونپور میں ہر جگہ خود مختار مسلمان حکومتیں قائم ہو گئی تھیں لیکن دکن کی بہمنی سلطنت سب میں ممتاز تھی۔ یہ 1347 ء میں قائم ہوئی اور ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ترقی کرتی رہی۔
اس کے بعد زوال پا کر پانچ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی، جو آگے چل کر صرف تین رہ گئیں، یعنی احمد نگر کی نظام شاہی سلطنت 1490 – 1633 ء ، بیجا پور کی عادل شاہی سلطنت 1490ء تا 1686ء اور گولکنڈے کی قطب شاہی سلطنت 1518ء تا 1687ء – دکن میں مسلمانوں کی پہلی بڑی نو آبادی دولت آباد تھی، لیکن بہمنی بادشاہوں نے پہلے گلبرگہ اور پھر بیدر کو پایہ تخت بنا کر اور نو آبادیاں بسائیں اور یہ سلسلہ بہمنی سلطنت کی تقسیم کے بعد بھی جاری رہا۔
بہمنی بادشاہ بڑے علم پرور اور ادب نواز تھے جس کی وجہ سے بہت سے اہل علم و فضل اور شعر اور ادبا دکن پہنچ گئے اور کئی صوفیہ اور مشائخ نے بھی وہاں پہنچ کر روحانی فیضان عام کیا۔باہر سے بر صغیر میں مسلم حکومت کا ایک نیا دور شروع ہوا جو مغلیہ دور کہلاتا ہے۔ بابر نے دہلی کی سلطنت حاصل کرنے کے بعد سوائے بنگال، گجرات اور دکن کے باقی شمالی حصوں اور کابل کا سارا علاقہ مغلیہ حکومت میں شامل کیا ۔
1530ء میں ہمایوں وارث تخت ہوا۔ اور دس سال تک مغل سلطنت کی توسیع میں کوشاں رہا۔ مگر اس کے بعد پٹھانوں کے ایک سردار شیر خان نے بہار میں خروج کیا اور بھائیوں کی مخالفت اور ان پٹھان سرداروں کی سرکشی کی بنا پر حکومت ہمایوں کے ہاتھ سے نکل گئی 1540 ، اور اس نے ایران میں پناہ لی اور وہیں سے فوجی امداد حاصل کر کے پہلے کابل فتح کیا اور یہاں دس سال حکومت کی ، پھر 1555 ء میں افغان حکمرانوں سے دہلی کی سلطنت واپس حاصل کر لی لیکن اس کے سات ماہ بعد ایک حادثہ کی وجہ سے فوت ہو گیا۔
اس کی وفات پر تیرہ سالہ اکبر تخت نشیں ہوا مگر ملک میں جابجا بغاوتیں ہو گئیں اور افغان سردار عادل شاہ سوری کے سپہ سالار ہیمو نے آگرہ دہلی پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اکبر کے اتالیق بیرم خان نے ہیمو کو شکست دی اور مغلوں کا تسلط پنجاب، دہلی اور آگرے کے نواح میں دوبارہ قائم ہوا۔
اکبر نے اپنے طویل دور حکومت میں 1556ء تا 1605 بے شمار فتوحات سے کشمیر وافغانستان سے لے کر احمد نگر تک اور گجرات سے لے کر بنگال تک کا سارا علاقہ مغلیہ سلطنت میں شامل کیا۔ اس کے بعد 1605ء جہانگیر کو دہلی کا تخت نصیب ہوا تو ورثے میں اتنی بڑی سلطنت ملی کہ اس کے عہد میں احمد نگر مغلیہ سلطنت کی باج گزار ریاست بن گئی۔
شاہ جہان 1627ء میں تخت نشین ہوا مگر اسے فورا ہی دکن کے باغی حکمرانوں کی سرکوبی کے لیے دکن جانا پڑا۔ اس نے احمد نگر کی نظام شاہی سلطنت کا خاتمہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور بیجا پور، گولکنڈے کے بادشاہوں کو باج گزار بنالیا۔
جب 1857ء میں شاہجہاں بیمار ہوا تو اس کے بڑے بیٹے داراشکوہ نے سب اختیارات سلطنت سنبھال لیے لیکن بھائیوں کی جنگ میں اور نگ زیب فتح یاب ہوا۔ اور نگ زیب نے 1658ء میں خود سلطنت سنبھال لی اور پھر بہار اور آسام کے علاقے فتح کیے، افغانوں اور راجپوتوں کی بغاوتوں کو فرد کیا پھر مرہٹوں اور دکن کے باغی حکمرانوں کی سرکوبی کے لیے 1681ء میں ایک زبر دست لشکر کے ساتھ اور نگ آباد جا کر قیام کیا۔
یہ لشکر کیا تھا شمالی باشندوں کا ایک سیلاب تھا جس نے دہلی ، آگرہ اور دو آپ کے لاکھوں افراد کو جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی بہا کر دکن پہنچا دیا۔ اور نگ زیب نے 1686 ء میں بیجا پور اور 1687ء میں گولکنڈے کو جو شاہ جہاں کے وقت سے باج گزار ریاستیں تھیں ، اس بنا پر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا کہ وہ باغی مرہٹوں کو پناہ دیتی تھیں۔
اس کے بعد مرہٹوں کی سرکوبی، یہاں تک کہ دکن میں چند میل کا قطعہ بھی ایسا نہ رہا جہان مرہٹوں کی خود مختار حکومت باقی ہو۔ اورنگ زیب نے 7170 ء میں وفات پائی اور اپنے پیچھے اتنی وسیع سلطنت چھوڑی کہ اس سے قبل برصغیر کے کسی حکمران کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔
یر صغیر ہندو پاکستان میں مسلمان تین حیثیتوں سے آئے اور اپنے ساتھ اسلامی تعلیمات، اسلامی ثقافت و تمدن اور اسلامی علوم وفنون لے کر آئے ۔
ایک تو تاجر یا کاروباری افراد کی حیثیت سے، دوسرے فاتح سپہ سالاروں اور سلاطین کے ہمراہیوں کی طرح اور تیسرے مبلغین و صوفیہ کے روپ میں ۔ یہ صوفیائے کرام ہر قسم کے دنیوی مفاد اور مادی منفعت سے بے نیاز تھے۔ مسلم حکومت کے قیام کے بعد سندھ میں جا بجا مسلمانوں کی نو آبادیاں بن گئی تھیں اور مسجدیں، مدرسے، مکتب اور سرائیں قائم ہو گئی تھیں۔
ایسی ہی ایک نو آبادی منصورہ تھی جس کی بنیاد غالباً آٹھویں صدی کے دوسرے ربیع میں محمد بن قاسم کے بیٹے عمر نے ڈالی ۔ یہ نو آبادی موجودہ شہداد پور سے سات آٹھ میل کے فاصلے پر تھی۔ محمود غزنوی کے حملے سے پہلے منصورہ قرامطہ کا مضبوط گڑھ بن گیا تھا ۔
ملتان جو عربوں کے زمانے میں مسلم حکومت کا سرحدی شہر تھا ، اسلامی ثقافت کا ایک اہم مرکز تھا اور اسی طرح دیبل بھی۔ غرض سندھ میں عربوں کی حکومت نے جگہ جگہ مسلم ثقافت کے مرکز قائم کر دیے تھے اور عرب سے سیاح اور اہل قلم بڑے ذوق و شوق سے سندھ آیا کرتے، چنانچہ موقع پاتے ہی قرامطی مبلغین بھی وہاں پہنچ گئے اور بہت سے مقامی ہندوؤں اور بودھوں کو اسمعیلی مسلمان بنا لیا۔
قرامطہ نے سندھ میں سیاسی قوت حاصل کر لی جو ایک سو سال سے زائد عرصہ تک انہیں حاصل رہی۔ بعد میں مسلمان صوفیائے کرام کے اثر سے اکثریت نے سنی مذہب اختیار کر لیا۔
سندھ پر عربوں کی حکومت کے زمانے میں جن مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا اپنی مرضی سے کیا اور سب مورخ تسلیم کرتے ہیں کہ ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔ سرٹامس آرنلڈ کے خیال میں عرب تاجروں کے اثر سے سندھ میں اسلام کی اشاعت ہوتی رہی اور صوفیہ و مشائخ نے بھی اس میں بڑی مدد کی 5۔مثلاً شیخ بہاء الدین زکریا نے 1170 – 1262 ء جو برصغیر میں سہروردیہ سلسلے کے موسس اعلیٰ تھے اپنے مرشد کی ہدایت پر ملتان میں اقامت اختیار کی ۔
اسی طرح حضرت صدر الدین 1284 ، حضرت رکن عالم 1334 ، حضرت جلال بخاری 1291 ء وغیرہ نے ملتان و سندھ میں تبلیغی سرگرمی جاری رکھی۔ ان بزرگوں کے اثر سے بہت لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ گیارہویں صدی عیسوی سے لاہور بھی مسلم ثقافت کا مرکز بن گیا تھا۔ 1005 ء ہی میں ایک بزرگ شیخ اسمعیل لاہور پہنچ چکے تھے۔6
لیکن لاہور کے تعلق سے مشہور ترین نام حضرت شیخ علیبن عثمان ہجویری کا ہے جو داتا گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں 1072ء، ایک اور بزرگ سلطان سخی سرور 1181ء تھے جو لکھ داتا کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان بزرگوں کے اثر سے لاہور اور اس کے نواحی علاقوں کے ہزاروں باشندوں نے اسلام قبول کیا۔
1324ء میں سہروردی سلسلے کے ایک بزرگ شرف الدین بلبل شاہ کشمیر پہنچے جن کے ہاتھ پر وہاں کے راجا نے اسلام قبول کیا۔ اس کا اثر اس کی رعایا پر بھی پڑا۔ 1369 ء میں امیر کبیر سید ہمدانی ایران سے چھ سوسیدوں کے ساتھ کشمیر گئے اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو مسلمان بنایا۔
اسی طرح اور بھی کئی مبلغین اسلام کی اشاعت کرتے رہے جن میں اسمعیلی بھی تھے چنانچہ ہنزہ کے لوگوں نے بیشتر اسمعیلی عقائد اختیار کر لیے۔ گجرات میں مسلمان نو آبادیاں اتنی ہی قدیم تھیں جتنی جنوبی سواحل پر اور یہ بھی تجارتی سرگرمیوں کے باعث ۔ ابتدا میں وہاں کی تبلیغی کوششیں تاجروں اور کاروباری لوگوں پر ہی منحصر تھیں۔
گیارہویں صدی میں ایک اسمعیلی مبلغ عبد اللہ وہاں پہنچا اور پھر الموت سے نور الدین مبلغ آیا جس نے نورستگر کا نام اختیار کیا۔ ان مبلغین نے ہزاروں مقامی باشندوں کو اسمعیلی مسلمان بنا لیا۔ سنی مبلغین میں امام شاہ کا نام قابل ذکر ہے جنہوں نے پندرہویں صدی کے نصف آخر میں اپنا تبلیغی کام انجام دیا۔ ان سے پیشتر بابا ریحان کو بھی کافی کامیابی ہوئی تھی۔
بابا راول شاہ نے کچھ کے علاقے میں کامیابی حاصل کی۔ اس سلسلے میں حضرت حسام الدین عثمانی کا نام بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ راجپوتا نے میں اشاعت اسلام کے سلسلے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی 1336 ء کا نام اولیت رکھتا ہے۔
انہی سے چشتیہ سلسلہ چلا جس نے تبلیغ اسلام کی بہت بڑی خدمت انجام دی۔ابن اثیر نے بتایا ہے کہ دو آب و بہار کے علاقوں میں شہاب الدین غوری کے حملوں سے پہلے بھی کچھ مسلمان آباد تھے لیکن اس علاقے میں مسلم اقتدار قائم ہو جانے کے بعد ہی اسلام کی اشاعت و تبلیغ موثر طور پر ہو سکی۔ میو قبائل مغلیہ حکومت سے پہلے مسلمان ہو چکے تھی۔ اب بہت سے راجپوت خاندانوں نے بھی اسلام قبول کیا تاہم اس علاقے میں بڑے پیمانے پر قبول اسلام کی شہادتیں نہیں ملتیں۔
یوں نظر آتا ہے کہ بتدریج اور انفرادی طور پر اسلام نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کے برخلاف بنگال میں مبلغین کو بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ پہلے صوفی بزرگ جن کا ذکر بنگال کی تاریخ میں ملتا ہے شیخ جلال الدین تبریزی ہیں جو 1244ء میں فوت ہوئے پھر شیخ سراج الدین عثمان 1357 ء علاء الحق علاء الدین 1396 ، نور قطب عالم 1410 ، شیخ جلال مجرد 1340 ، وغیرہ کے نام آتے ہیں۔
ان بزرگوں کی کوششوں سے اس تمام علاقے میں اسلام کی روشنی پھیل گئی۔ دکن کے سواحل پر تو اسلام بہت پہلے پہنچ گیا تھا لیکن اندرونی علاقوں میں اسلام کی اشاعت موثر طور پر دیر میں شروع ہوئی۔ اس کا سہرا بھی صوفیہ و مبلغین کے سر ہی ہے۔
جن میں تر چنا پلی کے سید سلطان نظهر ولی 1225ء سید ابراہیم شہید بابا فخر الدین 1294 ، سید عبد القادر ولی وسید حضرت حیات قلندر عرف بابا بڈھن میسوری اور شمالی رکن میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز – 1422ء وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ برہمنی ہندومت کے برخلاف اسلام تبلیغی مذہب ہے اور اپنے آغاز ہی سے نظری و عملی ہر دو لحاظ سے صلح جو یا نہ تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہا ہے۔ چونکہ کلام مجید میں اس کی تاکید ہے کہ تبلیغ میں جبر و اکراہ سے کام نہ لیا جائے بلکہ وعظ و نصیحت اور افہام و تفہیم ہے۔
اسی لیے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی جو اشاعت ہوئی اس میں جبر و تشدد سے شاذ ہی کام لیا گیا جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دہلی و آگرہ اگر چہ صدیوں تک مسلم حکومت کے مرکز رہے لیکن وہاں اور اس کے گرد و نواح میں مسلمان ہمیشہ اقلیت ہی میں رہے۔ اگر مسلمان حکومت کے بل پر اشاعت اسلام کرتے تو ان کے علاقوں میں غیر مسلم اکثریت کا وجود نہ ہوتا ۔بر صغیر میں اسلام کی بڑے پیمانے پر اشاعت اور تقریباً ایک چوتھائی آبادی کا مسلمانوں پر مشتمل ہو جانا کئی اسباب کا نتیجہ ہے۔
سب سے بڑا سبب تو صوفیہ و مشائخ ہی تھے۔ شہر ہو کہ قصبہ یا گاؤں یہ لوگ وہاں پہنچ کر اپنی سادہ زندگی وسیع المشربی پاک نفسی دنیوی آسائشوں سے بے نیازی ایثار و خدمت خلق اور عبادت گزاری کی وجہ سے مرجع خلائق بن جاتے تھے اور نہ صرف اپنے مریدوں اور معتقدوں کے دلوں میں بلکہ سارے عوام کے دلوں میں گھر کر لیتے تھی۔
ان کی بلند شخصیت اور اعلیٰ سیرت سے متاثر ہو کر عام لوگ ان کی تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت سے بھی اثر قبول کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ ان کی مقدس زندگیوں کے اثر سے عوام کو اسلام کی طرف کشش و رغبت محسوس ہوتی تھی اور اس طرح تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پاتا رہتا تھا۔
اسلام نہایت تیزی سے ان علاقوں میں پھیلا جہاں مسلمانوں کی آمد کے وقت بدھ مت پورے طور پر نابود نہیں ہوا تھا بلکہ برہمنی ہندومت کے غلبے کے باوجود سسکتا ہوا ابھی زندہ تھا مثلاً بر صغیر کے شمالی مغربی اور مشرقی اقطاع میں برہمنی ہندو مت نے بودھوں پر جو جبر و تشدد روا رکھا تھا اور انہیں ہر طرح ذلیل کرنے کی پالیسی
اختیار کر رکھی تھی اس گل لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ جب مسلمان ان علاقوں میں فاتحین کی حیثیت سے پہنچے تو بودھوں نے انہیں اپنا نجات دہندہ تصور کیا اور مسلمانوں کے مربیانہ اور ہمدردانہ رویے نے انہیں اسلام کی طرف بھی راغب کیا جس میں توحید کے علاوہ مساوات کی تعلیم اہمیت رکھتی تھی۔
یہ بھی درست ہے کہ معاشرہ میں عزت و وقار حاصل کرنے کے لیے یا ملازمت میں اعلیٰ عہدوں کی خواہش بعضوں کو قبول اسلام کی طرف مائل کر دیتی تھی۔ چنانچہ اسی خیال سے نہ صرف کم ذات کے ہندوؤں نے بلکہ جنگ آزما راجپوتوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
ابتدائی زمانے میں بعض وقت ایسا بھی ہوتا تھا کہ جن ہندوؤں کو مسلمانوں سے ذرا بھی ربط ضبط رکھنے پر برادری سے خارج کر دیا جاتا تھا، انہیں سوائے مسلمان بن جانے کے جینے کی اور صورت نظر
نہ آتی تھی۔ اس طرح ہندو جنگی قیدی جو مسلمانوں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے پر مجبور تھے جب رہا ہو کر اپنی برادری میں جاتے تھے تو برادری انہیں قبول نہیں کرتی تھی اور وہ مسلمان ہو جاتے تھے۔ کبھی تو پورے گاؤں کے گاؤں اس لیے ناپاک قرار دے دیے جاتے تھے کہ انہوں نے اس کنویں سے پانی لیا ہے جس سے کسی مسلمان نے لیا ہے۔
ایسی صورت میں بھی گاؤں والوں کو اسلام قبول کر لینے ہی میں سلامتی نظر آتی تھی ۔ غرض برہمنی ہندومت کی تنگ نظری اور چھوت چھات نے بھی بہت سے ہندوؤں کو اسلام کی طرف رجوع کیا۔عربوں کے سندھ پر قبضے کے زمانے ہی سے ہندو عورتوں کو مسلمان کر کے ان سے شادی کرنے کا سلسلہ مسلمانوں نے شروع کر دیا تھا کیونکہ محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ عورتیں نہیں آئی تھیں ۔
بعد میں ترکوں ایرانیوں اور پٹھانوں نے بھی جو مسلم سپہ سالاروں اور سلاطین کے ہمراہ برصغیر آ کر بستے رہے مقامی عورتوں سے شادی بیاہ کا طریقہ جاری رکھا اور اس طرح جہاں مسلمانوں کے تمدن و معاشرت میں ہند و اثرات و رسومات کا نفوذ ہونے لگا وہاں ان عورتوں کے خاندان میں اسلامی اثرات بھی آہستہ آہستہ نفوذ کرنے لگے اور ان اثرات کے نتیجے میں بھی بعض ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔ مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے چند اور بھی اسباب تھے۔ مثلاً یہ کہ تیرھویں صدی میں وسطی ایشیا میں منگولوں کی تاخت و تاراج سے خوفزدہ ہو کر بے شمار مسلمان ترک ایرانی اور افغان برصغیر کے شمال مغربی اضلاع میں پناہ لیتے رہے۔
بعد میں بھی جبکہ منگولوں نے اسلام قبول کر لیا برصغیر کے مسلم حکمران ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ ترک وطن کر کے بر صغیر آ جائیں۔ دوسرے یہ کہ برخلاف ہنود کے مسلمان کثیر الزوج تھے اور مسلمانوں کی بیوائیں بھی دوبارہ شادی کر سکتی تھیں اس طرح مسلمانوں میں اولاد کی شرح پیدائش بھی ہندوؤں سے زیادہ تھی۔
حوالہ جات
1۔ابو ظفر ندوی: تاریخ سندھ، حصہ اول، ص 41، مطبوعہ معارف اعظم گڑھ 1947۔
2۔ہاشمی فرید آبادی: تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، جلد اول، ص 72 ، لاہور 2002۔
3۔ایضا صفحہ 116۔
4۔ ڈاکٹر وحید قریشی، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، چھٹی جلد (اردو ادب ) ص 3 مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی 1971
5۔آرنلڈ ، ٹی ڈبلیو : Preaching of Islam ، ص 275 ، مطبوعہ لاہور 2003۔
6۔اکرام ، شیخ محمد : آب کوثر، ص 85، مطبوعہ ثقافت اسلامیہ لاہور 1999 ۔
اردو زبان کے آغاز سے متعلق مختلف نظریات کا تنقیدی جائزہ مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں