اردو زبان پر 1857ء کے جنگ آزادی کے اثرات

اردو زبان پر 1857ء کے جنگ آزادی کے اثرات

جنگ آزادی کا اثر زبان پر1857ء کی جنگ آزادی اپنے اثرات اور عواقب کے اعتبار سے بہت دور رس ثابت ہوئی۔ اگرچہ اس سے پہلے 1856ء میں سلطنت اودھ کی ضبطی نے بہت سے ارباب بصیرت کے لیے سامان عبرت بہم پہنچایا تھا لیکن پھر بھی دلی کے لال قلعے میں جھلملاتی ہوئی شمع سے بہت سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔

بہادر شاہ ظفر برائے نام بادشاہ تھے اور قلعہ معلیٰ کی چار دیواری میں بھی وہ اپنے قول و فعل میں آزاد نہ تھے لیکن بہادر شاہ ظفر اس کے باوجود سلطنت کی عظمت کی نشانی اور تحریک آزادی کے محور کی حیثیت سے تھے اور ان کی ذمہ داریاں بہت تھیں۔ ریاست کی بساط پر سے اٹھ جانا صرف ایک کمزور مغل بادشاہ کا خاتمہ نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک تہذیب ایک معاشرت

اور ایک تمدن کا تصور وابستہ تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی نے اس تہذیب معاشرت اور تمدن کی بنیادوں پر ایک کاری ضرب لگائی اور اس کے بعد انتظامی کاروائیوں نے لوگوں کے حوصلے پست کر دیئے ۔

ہمارے وہ علماء جو علم وفن کے علم بردار اور ہماری تہذیب کے مظہر تھے۔ جہاد کے نتوں پر دستخط کرنے کے الزام میں پھانسی پر لٹکائے گئے اور شرفاء کا وہ طبقہ جو ہماری روایات کا وارث اور محافظ تھا قیام امن کے نام پر باغیوں کی مدد کرنے کے الزام میں ہٹا دیا گیا ۔ غرض اس قیام امن میں جو کچھ گزری وہ شاید ہولناک جنگوں میں بھی نہ گزری ہوگی۔ یہاں سے ہماری سیاست، تعلیم ، تہذیب و معاشرت غرض زندگی کے پودے میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

ان نئے اثرات جن کا تعلق براہ راست ہماری زبان سے ہے۔ اس وقت صرف انہیں کا ذکر ہوگا۔مغربی قوموں اور ان زبانوں کے اردو پر اثرات کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب پرتگالیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں نے تجارت کی حیثیت سے اس سرزمین پر قدم رکھا اور قدرتی طور پر ان کے ساتھ آئی ہوئی بعض اشیاء اپنے نام بھی اپنے ساتھ لائیں۔ پرتگالیوں اور فرانسیسیوں کا غلبہ وسعت اور مدت کے اعتبار سے بہت کم تھا۔

اس لیے ان کے آثار بھی ہماری زبان میں کم ہیں لیکن انگریزوں نے تجارت اور سیاست میں اس طرح قدم جمائے کہ کم و بیش دوسو سال تک انہوں نے ملکی معاملات میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زبان اور بعد ازاں ان کے شعر و ادب نے اردو پر خاصا اثر ڈالا۔ اس اثر کا باقاعدہ سلسلہ انیسویں صدی کے آغاز سے ہوتا ہے۔ جب کلکتہ میں کمپنی کے نووارد ملازمین کو اس ملک کی تہذیب و معاشرت، رسم و رواج عقائد و تصورات اور یہاں کے عوام کی گفتگو سے واقفیت کی ضرورت محسوس ہوئی اور فورٹ ولیم کالج اس ضرورت کی تکمیل کے لیے قائم ہوا۔

فورٹ ولیم کالج کے ہندوستانی مصنفین مثلاً میر امن وغیرہ انگریزی زبان وادب سے واقف نہ تھے لیکن وہ گل کرائسٹ کی ہدایت اور مشورے کے مطابق کام کرتے تھے اور انہیں کے مشورہ سے میر امن نے باغ و بہار ٹھیٹھ ہندوستانی زبان میں لکھی یہ پہلا موقع تھا کہ روز مرہ کی گفتگو کی عام زبان کو ایک اہم ادبی تحریر کے لیے اختیار کیا گیا اور اس طرح اردو میں پہلی سلیس اور آسان اردو نثر کی کتاب معرض وجود میں آئی۔

میر امن کے علاوہ بھی بعض مصنفین نے اعلیٰ درجے کی کتابیں لکھیں لیکن جو قبول عام اور شہرت دوام باغ و بہار کو نصیب ہوئی وہ کسی اور کتاب کے حصے میں نہیں آئی اس زمانے میں بعض انگریزوں نے اردو کی لغات صرف نحو کی کتابیں اردو لسانیات اور اردو زبان کی تاریخ پر بعض کتابیں لکھ کر اردو کے عمومی مطالعے کا آغاز کیا لیکن فورٹ ولیم کالج کا حلقہ اثر محدود اور اس ادارہ کے مصنفین کا مقصد مخصوص تھا۔ اس لیے ان نئے رحجانات نے اس وقت کسی تحریک کی صورت اختیار نہ کی۔

البتہ 1857 ء سے کوئی پچس تیس سال پہلے خود دلی میں ایک ایسا کالج قائم ہوا جہاں پہلی مرتبہ جدید علم وفنون کی تعلیم مشرقی زبانوں میں دینے کا تجربہ کیا گیا اور اس کے لیے انگریزی سے بعض درسی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔

ترجمہ کرنے کے لیے ایک باقاعدہ دارالترجمہ تھا۔ جس نے نہایت واضح اصول اور ضوابط مرتب کئے۔ مختلف علوم وفنون کی کتابوں کا ایک اہم حصہ آہستہ آہستہ اردو میں منتقل ہونے لگا تھا جس کے ساتھ زبان میں نئے الفاظ اور اصطلاحات کا بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن 1857ء کا ہنگامہ کالج اور اس کے دارالترجمہ کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔

1857ء کی فتح نے انگریزوں کے حوصلے بلند کر دیئے اور انہوں نے نہایت بے دردی سے ملکی روایات اور قومی امنگوں کو کچل ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ زبان کے سلسلے میں ان کا پہلا وار یہ تھا کہ فارسی کی تہذیبی حیثیت کو ختم کر دیا گیا، دفتروں، عدالتوں، تجارتی اور صنعتی اداروں میں فارسی کی جگہ انگریزی نے لے لی، جو دفتری اور عدالتی کارروائی عوام کے انگریزی سے نابلد ہونے کی وجہ سے مجبوراً اردو میں کی جاتی تھی ،

اس میں بھی آہستہ آہستہ انگریزی الفاظ داخل ہونے شروع ہوئے۔ پھر انگریزی اب حکمران طبقے کی زبان تھی۔ اس لیے انگریزی الفاظ کا استعمال مہذب ہونے کی نشانی سمجھا جانے لگا۔ اس طرح انگریزی کے جو الفاظ اردو میں آئے وہ تین طرح کے تھے پہلے وہ الفاظ جو دفتر یا عدالتی زبان سے تعلق رکھتے تھے اور جن کا استعمال خواص اور عوام دونوں کرتے تھے ۔ بظاہر یہ ایسے الفاظ تھے جو آہستہ آہستہ اردو میں گھل مل کر اردو بن گئے ۔

مثلاً بج، کلکٹر ماسٹر، بیرسٹر، کورٹ، فین، آسام، ٹکٹ، سمن، ڈگری، جیل، ریٹ، پولیس، کورٹ صاحب (کورٹ انسپکٹر ) ہائی کورٹ اپیل ارنگروٹ اردلی وغیرہ سینکڑوں الفاظ آج ایسے ہیں جن کے ترجمے کی ضرورت نہیں

اور جن کی اجنبیت آج ختم ہو چکی ہے۔دوسرے قسم کے الفاظ وہ ہیں جو ہماری عام تہذیبی اور سماجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں اکثر ان چیزوں کے نام ہیں جو انگریزوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچے۔ مثلاً پھلوں میںسنتره (CINTRA) مالٹا (MALTA) موسمی (MOSAM BIQUE) ٹماٹر وغیرہ سبزیوں میں، بسکٹ، توس اراوٹ ڈبل یا پاؤ روٹی وغیرہ ۔

لباس میں کوٹ کالر پتلون’ ٹائی، بٹن وغیرہ غرض اس ضمن میں بے شمار الفاظ ہیں جو خاص و عام کی زبان پر رواں ہو گئے ۔ ان میں سے اکثر و بیشتر استعمال 1857ء کے بعد کی تصانیف میں ہی ملتا ہے۔ الفاظ کا تیسرا اور نہایت اہم ذخیرہ ادبی، علمی اور فنی الفاظ کا ہے جن کا سلسلہ تو دلی کالج شروع ہوتا ہے لیکن جن میں 1857ء کے بعد ہی خصوصیت کے ساتھ اضافہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے سرسید احمد خاں کی تحریک کا ذکر کرنا چاہیے ۔

1857ء کے ہنگامہ کے بعد یہ سب سے پہلی تعمیری تحریک تھی جو اس بر عظیم میں شروع ہوئی۔ بعض لوگ سرسید کو انگریزوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ سرسید کے پیش نظر مسلمانوں کی بالخصوص اور اہل ہند کی بالعموم اصلاح پیش نظر تھی اور ان کا یہ خلوص ان تمام تحریروں میں جھلکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ انگریز اور انگریزی کے ساتھ تعاون کے علم بردار ہیں۔ لیکن 1857 ء کے فوراً بعد سوائے اس کے کوئی چارہ کار بھی نہ تھا۔

انگریزوں اور مسلمانوں میں جو رخنہ پڑ گیا تھا اور جس کی وجہ سے مسلمان خصوصیت کے ساتھ 1857ء کے ہنگامہ کے بعد انتقامی کارروائیوں کا شکار ہو رہے تھے اس کے روکنے کی صرف ایک یہی صورت تھی۔

دونوں کو قریب تر لانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ انگریزوں اور انگریزی کے خیالات و تصورات کو اردو میں منتقل کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک اخبار اور ایک رسالہ نکالا۔ یہ اخباران کی قائم کردہ سائینٹفک سوسائٹی کا ترجمان تھا اور لوہے کے چھاپے میں چھپتا تھا۔

اس کا ایک حصہ انگریزی میں اور دوسرا اردو میں ہوتا تھا۔ معلوماتی مضامین علمی تجربات سیر و سیاحت کے حالات غیر ملکوں کی خبریں ایجادات اور انکشافات کی اطلاعات عام طور پر اس اخبار میں شائع ہوتی تھیں لیکن اخبار سے زیادہ مشہور اور اہم ان کا رسالہ تہذیب الاخلاق تھا جو انگریزی جرائد ایکٹیٹر اور ٹیلر کے انداز پر نکالا گیا تھا۔ اس میں اڈلین اور اسٹیل کے لکھے ہوئے مضامین کا ترجمہ ہوتا تھا۔

سرسید اور ان کے دوسرے مضمون نگار بھی اس قسم کے مضامین لکھا کرتے تھے اور ان لوگوں کی زبان پر قدرتی طور پر بہت سے انگریزی الفاظ آجاتے تھے۔ مثلاً سرسید کے صرف 19 منتخب مضامین میں یہ الفاظ موجود ہیں۔یونیورسٹی ڈگری بی ائے، ایم اے، ماسٹر م، سوسائٹی، کالج، لیکچر، سوشل، سرولیم، میکورتھ نیگ، مسٹر کرول پروفیسر، سائنس، ٹیکنیکل ایجوکیشن، گورنمنٹ، ڈاکٹر،

ڈاکٹری، انجینئر، آرٹیکل پارلیمنٹ، آنریبل ، ممبر ، ہاؤس آف کامنز اشترا ڈلین، نیچر رومن کھیلک، پروٹسٹنٹ، نیشنل لا پلوٹارک، بنگل، تھر ما میٹر سوزرلیشن، ٹیسٹ (TASTE) ایچ ٹی ، بکل، گورنر جنرل کونسل، ووٹ، ولیم ڈارگن آئر لینڈ لال، پر یا نزم سولائزڈ ان سولائزڈ، سلف آنر، اگر سرسید کے دوسرے مضامین اور مقالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ فہرست اور طویل کی جاسکتی ہے۔

سرسید کے بعد حالی کو لیجئے ۔ سرسید نے تو انگلستان کی سیر کی تھی وہاں کی یونیورسٹیوں کا بغور مطالعہ کیا تھا اور خود اس قسم کی یونیورسٹی یہاں قائم کرنا چاہتے تھے۔ سرکاری ملازمت کی مدت میں بھی انہیں انگریزوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا۔ حالی بے چارے کو انگریزی سے براہ راست واقف ہونے کا موقع نہ ملا تھا۔

لیکن زبان کا رحجان دیکھیے کہ سرسید کے معاصرین میں سب سے زیادہ انگریزی الفاظ حالی کے یہاں ملتے ہیں۔ مثلاً مضامین کے ایک مختصر مجموعے میں کم از کم اتنے الفاظ موجود ہیں۔گاس (GOS) ، اوکسیجن، ہائیڈ روجن، افلاہون، لائیکرس،، ہومر، غورث،اوسرس، اس شاہ کمیں، اتھو پیا، لوشین، روسن الال ڈی’ کارسپانڈنٹ، آرٹیکل، پلین، تیل، پریز ٹینک، لٹریچر ،سوپر نیچرل، نیچرل فنامنا

(IMPOSSIBLE IS NOTHING) نیچرل ان نیچرل، ڈکشنری، فورس، شیکسپیئر، پالیسی، ریفارمر، کرستان، کمیٹی، وکلف وارڈ، بیکن، لوتھر، پوپ، لیو، ہائی ایجوکیشن، سولیزیشن اور ڈاکٹر پولیٹکل، لیمپ، میز، پریکٹیکل، سیلف، گریجوایٹ، ہلپ، سولائز، ہاف، سولائزڈ ایجوکیشن، لارڈ انفنسٹن، بورڈنگ ہاؤس، جنیوا، پولٹیکل ایجنٹ، ریویو، ریویونگار ، پبلک جیوگرفی، رومن لا فلوزلی، میونسپل کمیٹی، سوسائٹی، کیمبرج ، فزیکل سائنس ، سلف،

ہلپ ، کانشنس، پر بجنگ، سوشل، لائکئی، لائف ایسے ایجو کیڈ، لاء آف نیچر، جنرل انفارمیشن، بیوگریف’ ریمارک اور جنرل صرف پچھتر الفاظ 250 صفحات میں استعمال ہوئے ہیں۔ حالی کے دیگر معاصرین میں اس کی اتنی کثرت نہیں۔ مثلاً حالی کے بعد مولانا شبلی کا نمبر ہے لیکن وہ انگریزی استعمال کرتے وقت ان کے مترادف بھی دیتے ہیں اس کے بعد آزاد اور پھر مولوی نذیر احمد آتے ہیں۔یونیورسٹی ۔

ڈگری ۔ بی اے۔ ایم اے ماسٹر سوسائٹی، کالج، لیکچر سوشل سرولیم میور تھینگ مستر کر دلی پروفیسر سائنس، ٹیکنیکل گورنمنٹ ایجوکیشن ڈاکٹر ڈاکٹری، غرض ان لوگوں کی بدولت انگریزی کے بے شمار الفاظ عالمی اور ادبی اردو زبان میں داخل اور رواں ہو گئے۔لیکن یہ تمام الفاظ صرف اجنبی لغات کی حیثیت سے اردو میں شامل نہیں ہوئے بلکہ اپنے ساتھ نئے تصورات، نظریات اور نئی تشریحات لے کر آئے ۔ ان کے پردے میں ایک نئی تہذیب ایک مختلف معاشرت ایک نئے ادب اور انشاء کی جھلک بھی موجود تھی۔

سرسید اور حالی کے یہاں ایسے الفاظ کی کثرت ہے جن کا تعلق بقول ان کے سوشل امور سے ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماج کے مغربی تصورات اور نظریات ان کی تحریروں کے خاص موضوعات تھے مغربی مصنفین، مفکرین شعراء ادیبوں ریاستی کارکنوں، صحافیوں اخبار نویسوں اور مصنفوں کے نام نئے خیالات اور تصورات کا سرچشمہ ہیں اور یہ تمام خیالات جن کا تعلق اصلاح معاشرت اصلاح زبان اور اصلاح ادب سے ہے۔ اردو میں سرسید اور ان کے رفقا کار کی بدولت ہی رائج ہوئے۔

ظاہر ہے کہ مغرب سے مضامین اور خیالات ترجمہ کرنے میں ارادی اور غیر ارادی طور پر یہ تمام مصنفین بعض نئی اصناف اور شعری و ادبی پیمانوں سے آشنا اور متاثر ہوئے۔ مثلاً ایسے اور آرٹیکل جیسے مغربی رسالوں اور اخباروں میں ہوتے تھے ان کا ایک خاص انداز تھا۔

جو اردو کے مضامین سے مختلف تھا۔ ان نئی اصناف کے لیے ظاہر ہے اردو کا کوئی موزوں لفظ اس وقت تلاش کرنا مشکل تھا۔ اگر چہ آج بھی ہم صحافت میں ایڈیٹر کالم نوٹ کارٹون اور بہت سے انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن اب بعض پرانے الفاظ بھی ان مطالب کے لیے ادا ہونے لگے ہیں۔ مثالم ‏(ESSAY) کے لیے مضمون یا مقالہ "ایڈیٹر کے لیے مدیر لیڈنگ آرٹیکل کے لیے مقالہ افتتاحیہ وغیرہ۔مغربی مصنفین کے ناموں اور ان کے کاموں کے ساتھ ساتھ اس دور میں اردو مغربی زبانوں خاص طور پر انگریزی کے طرز ادا سے بھی متاثر ہوئی۔

سرسید نے اڈین اور اسٹیل کے جن مضامین کا ترجمہ کیا ظاہر ہے کہ ان کی بدولت اڈین کے طرز کی کچھ نہ کچھ جھلک ہماری زبان میں بھی آگئی ہوگی۔ اس طرز کی سب سے نمایاں خصوصیت، مقصد نگاری سادگی اور صاف گوئی ہے۔ یہ سادگی میر امن کی باغ و بہار کی سادگی سے مختلف ہے۔

میرا من کی صاف و ساده دلی کی بامحاورہ مستند زبان سہی لیکن خود بقول ان کے عوام کی روز مرہ کی ٹھیٹ گفتگو ہے۔ اس لیے اس میں یہ صلاحیت نہیں کہ علمی انداز بن سکے۔ سرسید اور حالی کی تحریروں میں سادگی کے ساتھ متانت، سنجیدگی اور ایک علمی وقار اور وزن پایا جاتا ہے۔

اس طرز کی مقبولیت نے زبان کو رجب علی بیگ سرور اور ان کے اہم رنگ انشا پردازوں کی رنگین بیانی کا عادی کر دیا تھا۔ سادگی اور دل نشینی کے طرز سے آشنا کرایا۔ سرسید کے تہذیب الاخلاق سے سر عبد القادر کے مخزن تک اسی تحریک کی بدولت نے مضامین اور نیا طر ز سارے ملک میں پھیلا

اور یہ ممکن ہوا کہ اردو نثر جس کا سرمایہ سرسید سے پہلے چند مذہبی تصانیف یا قصے کہانیوں پر مشتمل تھا اس قابل ہو گئی کہ اس میں دنیا کے تمام علوم وفنون پر مضامین، مقالے اور کتابیں لکھی جائیں۔1857ء پوری ایک صدی بھی نہ گزر نے پائی تھی کہ انگریزوں کو اس ملک سے رخصت ہو جانا پڑا اور

پاکستان اور ہندوستان نے سیاسی آزادی حاصل کر لی برطانوی اقتدار کے اثرات ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میں آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں اور شاید آئندہ نسل تک یہ نقوش دھندلے رہ جائیں گے لیکن ہماری زبان نے جو نئے اثرات قبول کئے ہیں ان کے نتائج اور عواقب نهایت دور رس ثابت ہوں گے۔

انگریزی سے نئے الفاظ کا داخلہ تقریبآ ختم ہو جائے گا لیکن اردو کو انگریزی کی جگہ لینے کے لیے انگریزی سے بہت کچھ لینا پڑے گا۔ اصطلاحات کے ترجمے ہوں گے۔

درسی کتابوں کے ترجمے ہوں گے۔ دفتری اور عدالتی زبان میں نئی اصطلاحیں بنائی جائیں گی۔ جدید علوم وفنون کی کتابیں جو آج دنیا کے مختلف علاقوں میں لکھی جارہی ہیں،

انگریزی کے ذریعے سے ہم تک پہنچیں گی اور ان کے خیالات اور مضامین کا ترجمہ ہوگا اور اس طرح ہماری زبان اپنی ترقی کے امکانات اور حقائق میں بدل سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: اردو صحافت اور جنگ آزادی pdf

تاریخ ادب اردو ، مؤلف سہیل بھٹی ،ص 92

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں