اردو زبان اور اس کے پھیلنے کے اسباب
جس طرح کائنات میں حیات کا ارتقا خود انسان کے ارتقا کی تاریخ بن جاتا ہے، اس طرح زبان کا ارتقا کسی تہذیب کی تاریخ کا زریں باب بن جاتا ہے۔ انسان اور حیوان میں یہی فرق ہے کہ انسان کے پاس بولتی ہوئی زبان ہے اور حیوان کی زبان گنگ ہے۔ یہی بولتی زبان انسانی شعور کی علامت ہے۔ اس کے دکھ درد، خوشی نمی ، خیال ، احساس، جذبہ اور فکر و تجربہ کا اظہار ہے۔
اس سے زندگی میں نئے نئے رنگ پیدا ہوتے ہیں اور زندگی کے بڑھنے، پھیلنے اور با مقصد و با معنی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اسی لیے زبان معاشرت کے پہلے درجے سے شروع ہو کر انسانی معاشرت کے ساتھ ساتھ ارتقائی منازل طے کرتی، انسانی زندگی کا پہلا اور بنیادی ادارہ بن جاتی ہے۔
انسانی شعور اسے نکھارتا ہے۔ خیالات و فکر کا نظام اسے روشنی دیتا ہے۔ زندگی کے مختلف عوامل اور تجربے اسے بناتے سنوارتے ارتے ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی ، اعلیٰ اور ادنیٰ چیز با تصور، تجربہ یا احساس، زبان کا لباس پہن کر فہم کی شکل میں سامنے آ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زبان نہ کوئی فرد ایجاد کر سکتا ہے اور نہ اسے فنا کیا جا سکتا ہے۔ مختلف تہذیبی عوامل ، رنگا رنگ قدرتی عناصر مسلسل میل جول اور رسوم معاشرت گھل مل کر رفتہ رفتہ صدیوں میں جا کر کسی زبان کے خدو خال اجاگر کرتے ہیں۔
اسی لیے دنیا کی ہر زبان میں لسانی عمل اور ادب کی تخلیق کے درمیان وقت کا ایک طویل فاصلہ ہوتا ہے۔ بولی صدیوں میں جا کر زبان بنتی ، اپنی شکل بناتی اور خدو خال اجاگر کرتی ہے۔
لسانی ارتقا کی تاریخ جب ایک ایسی منزل پر پہنچ جاتی ہے جہاں محسوس کرنے والا انسان سوچنے والا ذہن اور اپنے مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے والے افراد اس زبان میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی سہولت پاتے ہیں تو ادب کی تخلیق اپنا سر نکالتی ہے۔اردو زبان و ادب کے ساتھ بھی دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح یہی عمل ہوا۔
صدیوں یہ زبان سر جھاڑ منہ پہاڑ گلی کوچوں میں آوارہ اور بازار ہاٹ میں پریشان حال ماری ماری پھرتی رہی۔ کبھی اقتدار کی قوت نے اسے دبایا، کبھی اہل نظر نے حقیر جان کر اسے منہ نہ لگایا اور کبھی تہذیبی دھاروں نے اسے مغلوب کر دیا۔ یہ عوام کی زبان تھی ، عوام کے پاس رہی۔
مسلمان جب بر عظیم پاک و ہند میں داخل ہوئے تو عربی، فارسی اور ترکی بولتے آئے اور جب ان کا اقتدار قائم ہوا تو کاری سرکاری زبان ٹھہری۔ تاریخ شاہد ہے کہ حاکم قومیں اپنی ذاتی زبان اور اپنا کچھ ساتھ لاتی ہیں اور محکوم قومیں، جن کی تہذیبی وتخلیقی قوتیں مردہ ہو جاتی ہیں، اس زبان اور گھر سے اپنی زندگی میں نئے معنی پیدا کر کے نئے شعور اور احساس کو جنم دیتی ہیں۔
مسلمانوں کا کلچر ایک فاتح قوم کا گھر تھا جس میں زندگی کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹنے کی پوری قوت موجود تھی۔ اس کلچر نے جب ہندوستان کے کلچر کو نئے انداز سکھائے اور یہاں کی بولیوں پر اثر ڈالا تو ان بولیوں میں سے ایک نے، جو پہلے سے اپنے اندر جذب وقبول کی ہے چاہ صلاحیت رکھتی تھی اور مختلف بولیوں کے مزاج کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی، بڑھ کر اس سے مراثر ہونے لگی۔
دیکھتے ہی دیکھتے اس بولی نے اس کلچر کے ذخیرہ الفاظ کو اپنا لیا اور اس کے طرز احساس اور نظام خیال سے ایک نیا رنگ روپ حاصل کر لیا اور اس طرح وقت کے تہذیی، معاشرتی ولسانیاتی تقاضوں کے سہارے مسلمانوں اور بر عظیم کے باشندوں کے درمیان مشترک اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بن گئی زبان کا بیج جاندار تھا، زمین زرخیز تھی۔ نئے کلچر کی کھاد نے ایسا اثر کیا کہ تیزی سے کو پیٹیں پھوٹنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک تناور درخت بن گیا۔
ان اثرات کے ساتھ یہ زبان تو ترقی کرتی رہی لیکن فارسی زبان نے اسے بہت کچھدینے کے باوجود اپنے برابر کبھی جگہ نہ دی۔ دنیا کی تاریخ میں فاتح زبانوں کا ہمیشہ یہی سلوک رہا ہے۔ انگریزی زبان نارمنوں کے حملے اور فتوحات کے بعد تقریباً ڈھائی سو سال تک صرف ٹھوکی کی حیثیت میں عوام کی زبان بنی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: اردو کے آغاز و ارتقاء کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا نظریہ برج بھاشا
یہی عمل اردو زبان کے ساتھ ہوا۔ فارسی زبان کے تسلط اور رواج کے سامنے ویسے تو یہ زبان سر اٹھا کر نہ چل سکی لیکن لسانی وتہذیبی اثرات کے دھارے اس زبان کے جسم میں نئے خون کا اضافہ اسی طرح کرتے رہے جس طرح تاریخوں کی فتوحات- نارمنوں کے بعد فرانسیسی زبان کی لطافت اور اس کا مزاج انگریزی زبان کے خون میں برابر شامل ہوتا رہا
اور اس میں رفتہ رفتہ صفائی دشتکی ، روانی وقوت بیان کا صلہ بڑھتا رہا اور جب نارمنوں کا زوال شروع ہوا اور اتار کے ڈیرہ جمایا تو دیکھتے ہیں کہ بہت جلد یہ زبان فرانیسی زبان کے برابر آ کھڑی ہوئی ہیں سب اثرات کا بھر پور اظہار پہلی دفعہ ہمیں چوسر کے ہاں نظر آتا ہے جس کی زبان میں قوت اظہار بھی ہے۔ صفائی اور نکھار ہیں، جان دار لہجہ بھی ہے اور اثر آفرینی کا جادو بھی۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انگریزی زبان نے اس وقت ان ادبی نمونوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
میں موجود تھے۔ فرانسیسی زبان کا مواد اس کی ہیئت اور اصناف انگریزی زبان کا معیار قرار پائے ۔ ” کم و بیش یہی عمل اردو زبان کے ساتھ ہوا۔ مسلمانوں کے اقتدار و حکمرانی کے زمانے میں ان کے کلچر، ان کی روایت اور ان کی زبانوں کا گہرا اثر پڑا۔ فارسی، ترکی اور عربی لغات اس زبان میں داخل ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں جذب ہو گئے ۔
گری پڑی زبان میں اظہار کی قوت تیز ہو گئی۔ نئے الفاظ اور نئے خیالات نے احساس و شعور کو نیا سلیقہ دیا اور اس کے ساتھ ادبی تخلیق کا بازار گرم ہو گیا ۔ اردو شعراء کے سامنے فارسی ادب و اصناف کے نمونے تھے۔ انہوں نے ان نمونوں کو معیار بنا کر دل و جان سے قبول کر لیا۔
اس ادب کی ایک طویل تاریخ ہے جس کے نمونے بر عظیم پاک و ہند کے مختلف علاقوں میں ملتے ہیں اور ہر علاقے کے ادبی نمونے، گہری مماثلت کے باوجود ، ساخت و مزاج کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ابھی زبان اپنی تشکیل کے دورے گزر رہی تھی اور اس معیار تک نہیں پہنچی تھی جہاں زبان کا ادبی معیار علاقائی و مقامی سطح سے اٹھ کر عالمگیر ہو جاتا ہے۔
دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ جہاں جہاں یہ زبان پہنچی وہاں وہاں علاقائی اثرات کو جذب کر کے اپنی شکل بناتی رہی۔ اس کا ایک ہیولی سندھ و ملتان میں تیار ہوا، پھر یہ لسانی عمل سرحد و پنجاب میں ہوا جہاں سے تقریباً دو صدی بعد یہ دہلی پہنچا اور وہاں کی زبانوں کو جذب کر کے اور ان میں جذب ہو کر سارے بر عظیم میں پھیل گیا۔ گجرات میں یہ زبان گجری کہلائی،
دکن میں اسے دکنی کے نام سے پکارا گیا۔ کسی نے اسے زبان ہندوستان کہا کہ یہ ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ کسی نے اسے ہندی یا ہندوی کہا۔ کسی نے اسے لاہوری یا دہلوی کے نام سے موسوم کیا۔ اسی حساب سے کسی نے اس کا رشتہ نا تا برج بھاشا سے جوڑا، کسی نے اسے کھڑی بولی سے ملایا۔ کسی نے اسے زبان پنجاب کہا،
کسی نے سندھی سرائیکی کے علاقے کو اس کو مولد بتایا۔ مختلف زبانوں سے اس کا یہ تعلق اور مختلف زبانوں کے علاقوں کا اس زبان پر دعویٰ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے سب سے فیض اٹھا کر اپنے وجود کو انفرادیت بخشی ہے۔ اس لیے یہ زبان بر عظیم کی سب زبانوں کی زبان ہےاور ہمیشہ کی طرح آج بھی سارے بر عظیم کی واحد لنگو افرینکا ہے۔ یہ بات ہمارے موضوع سے خارج ہے کہ اس زبان کا کپڑا کس دھاگے سے بنا گیا تھا۔
یہ دھاگا کس علاقے کی روئی سے تیار ہوا تھا اور یہ روٹی کس کھیت میں پیدا ہوئی تھی۔ یہ بات ماہر لسانیات پر چھوڑ کر ہمارے لیے اتنا جانا کافی ہے کہ یہ سب کے منہ چڑھی زبان ، جسے آج ہم اردو کے نام سے پکارتے ہیں، جدید ہند آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور عربی، ایرانی، ہندی تینوں تہذیبوں کا سنگم اور ان کی منفرد علامت ہے۔ اس زبان میں ان تہذیبوں کی ہما گیر صفات یکجا ہو کر ایک جان ہو گئی ہیں۔
یہ زبان بر عظیم کی معاشرتی، تہذیبی و سیاسی ضروریات کے تحت پروان چڑھی۔ مسلمانوں نے ضرورت کے تحت اسے اپنایا اور انہی کے ساتھ بر عظیم کے گوشے گوشے میں اس طرح پھیل گئی کہ کوہ ہمالہ سے لے کر راس کماری تک سمجھی اور بولی جانے لگی۔گریرسن نے لکھا ہے کہ بر عظیم کی ساری جدید زبانیں آپ بھرنش ہی کے بچے ہیں ! تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آریا کسی ایک وقت میں ایک دم سے یہاں آکر آباد نہیں ہو گئے
بلکہ سینکڑوں سال تک ان کے مختلف قبائل یہاں آکر قدم جماتے رہے۔ جو آتا وہ یہیں کا ہو کر رہ جاتا اور اپنی زندگی ہی میں ، خوش گوار یادوں کے علاوہ ، اپنے وطن مالوف سے رشتہ ناتا توڑ لیتا۔ براعظیم کی مٹی بڑی چوسنی مٹی ہے۔ نئے آریا قبائل یہاں آتے تو پرانے آریا اُن پر ہنستے ۔ مدھیہ دیس ( وسطی ہند ) جس میں دو آبہ، گنگ و جمن اور اُس کے شمال و جنوب کے علاقے شامل تھے، اُنکا گڑھ تھا۔
یہاں کے آریا اپنے علاوہ سب کو غیر مہذب اور وحشی سمجھتے تھے، اسی لیے اُن آریاؤں کو، جو صدیوں بعد برعظیم میں داخل ہوئے ، مدھیہ دیس کے قدیم آریاؤں کا یہ سیلاب دیکھتے ہی دیکھتے شمال مغرب، پنجاب و کشمیر سے لے کر سندھ کے نشیبی علاقوں تک پھیل گیا اور ان آریاؤں کی زبان ان سارے علاقوں پر چھا گئی۔ مہا بھارت میں پیاچوں کا ذکر آیا ہے۔
گریرین 2 نے لکھا ہے کہ جب ایک آریائی زبان ایک غیر مہذب دیسی زبان سے ملی تو دیسی زبان ہمیشہ کے لیے پسپا ہو گئی اور وقت کے ساتھ اپنی موت آپ مرگئی۔ ابھی پساچی زبان کا زور شور قائم تھا کہ ہرات وقندھار کے درمیانی علاقے میں رہنے والی ” ابھیر نامی ایک قوم بر عظیم میں داخل ہوئی ۔ یہ بہت جنگ جو اور بہادر قوم تھی ۔
مہا بھارت میں بھی انہیں اس مقام پر دکھایا گیا ہے جہاں دریائے سرسوتی راجپوتانہ کے ریگ زاروں میں گم ہو جاتا ہے۔ مہا بھاشیا میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔ یونانی جغرافیہ داں بطلیموس نے بھی انہیں سندھ کی زیریں وادی اور سوراشٹر میں آباد بتایا ہے۔ پران میں بھی ان کے ہمہ گیر غلبے کا ذکر آتا ہے۔ سمدر گپت (320) ع – 380 ع) نے جن قبائل کو مغلوب کیا تھا ان میں ابھیر بھی شامل تھے 3-
تاثیا شاستر میں، جو سنہ عیسوی کے ابتدائی زمانے کی تصنیف ہے، ابھیروں کی زبان کو دی بھرشٹ یا دی بھاشا کا نام دیا گیا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی تک ابھیروں کی یہ بولی آپ بھرنش کے نام سے اس حد تک ترقی کر چکی تھی کہ بھا مہا اور داندن اس زبان کو پراکرت اور سنسکرت کا ہم پلہ کہتے ہیں۔ نظم و نثر دونوں اس زبان میں موجود تھیں اور خصوصیت کے ساتھ یہ شاعری کی زبان سمجھی جاتی تھی۔
ابھیروں کی تاریخ ابھی پردہ خفا میں ہے لیکن اتنا ضرور واضح ہے کہ یہ لوگ بر عظیم کے شمال مغرب کی طرف سے پنجاب میں آئے اور پھر وسطی ہند تک پھیل گئے اور وہاں سے پہلی اور چوتھی صدی عیسوی کے درمیان دکن تک پہنچ گئے ۔
ان کی سیاسی طاقت کے ساتھ ساتھ ان کی زبان بھی نکھر سنور کر سارے برعظیم میں پھیل گئی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی سے چوتھی صدی عیسوی تک اپ بھرنش عام زبان کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ ڈراموں میں بھی یہ زبان استعمال میں آ رہی تھی ۔
کالی داس نے ، جو پانچویں صدی عیسوی میں گزرا ہے، وکر امور دوسیا میں سولہ اشعار اپ بھرنش میں لکھے ہیں ۔ ردرت اپنی تصنیف ” کا دی ال ام کارا” میں جو نویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے، نہ صرف آپ بھرنش کو شاعری کی چھ زبانوں میں شمار کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ ملک ملک کے حساب سے آپ بھرنش کی کئی قسمیں ہیں۔ گجرات کا جینی عالم و قواعد دان ہم چندر (1088 ع – 1172ع) بھی پراکرت کے ساتھ ساتھ آپ بھرنش کا ذکر کرتا ہے۔
دوہا، جو آج تک بر عظیم کی کم و بیش ہر زبان کی مقبول صنف ہے، آپ بھرنش ہی کی صنف سخن ہے۔ غرض کہ اپ بھرنش پرانی کلاسیکل زبانیوں یعنی پراکرت و سنسکرت اور جدید آریائی زبانوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی ہے 4۔
تاریخ ادب اردو، مولف محمد سہیل بھٹی، ص 92
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں