اردو داستان کے اہم موضوعات
کہانی اگر چہ خیالی اور تصوراتی کیوں نہ ہو اس کا خام مواد معاشرے سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ کہانی کار چونکہ معاشرے کا ہی فرد ہوتا ہے اس لیے یہ معاشرہ بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طرح سے اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔
کہانی کار معاشرے کی ضرورتوں کے تحت ہی کوئی قصہ تخلیق کرتا ہے اس لیے قصہ کے حوالے سے لوگوں کی دلچسپی بھی اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے اور قصے کو حقیقی رنگ دینے کے لیے قصہ گو کہانی کا مواد اپنے گرد و پیش کی زندگی سے حاصل کرتا ہے۔
وہ کہانی قصہ گو اور دوسروں کے دردو غم اور راحت و مسرت کی کہانی ہوتی ہے۔ قصہ گو چونکہ اس معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اس لیے اس کے کہانی کہنے کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں، کچھ موضوعات ہوتے ہیں جن کو پر اثر بنانے کے لیے وہ کہانی کا سہارا لیتا ہے۔ ان مقاصد کے پیش نظر وہ کہانی میں واقعات کو
ترتیب دیتا ہے اور اسی مناسبت سے کردار تخلیق کرتا ہے ۔ قصہ یا کہانی میں فلسفہ حیات دو طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ ایک بلا واسطہ دوسرا بالواسطہ، پہلا طریقہ یہ ہے کہ داستان گو بذات خود کرداروں کی زبان سے اپنا نقطہ نظر پیش کر دے ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ داستان گو اپنے موضوع اور کرداروں کی حرکات کو اس انداز سے پیش کرے کہ اس کا فلسفہ حیات ظاہر ہو جائے ۔ داستان میں یہ دونوں طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
داستان میں اخلاقی مقصد:
قصہ اور داستانوں میں کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق ضرور بیان کیا جاتا ہے اور اس سبق کو قصہ کا ماحصل یا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔
داستانیں چونکہ خاص مقاصد کے لیے تحریر کی گئیں اس لیے ان کی تہہ میں پند و موعظت اور اخلاقی قدروں کا ایک درس ہر حال میں موجود ہوتا ہے۔ داستان گو وسیع انسانی تجربات کے بیان کے ذریعے قاری کو بعض چیزوں کے اچھے اور برے پہلو سمجھاتا جاتا ہے۔ ان میں پس پردہ بڑی حکمت اور دانش کی باتیں موجود ہیں جو صدیوں کے انسانی تجربات کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ اہم موضوعات:
مذہبی جذبات کی پیدائش ، جادو، قربانی ، ایثار ،محبت ، زمان و مکان کا تصور، طاقتور فطرت کے سامنے انسان کا بے بس ہونا ، یہ سب داستان گو کے پسندیدہ موضوعات ہیں ۔ بقول مجتبی حسن: "ان داستانوں میں متعدد علوم وفنون کو قصوں کے پردے میں اس آسانی سے پیش کیا گیا ہے کہ ہم یہ محسوس بھی کر پاتے کہ یہ در اصل اہم مسائل اور مباحث کی افسانوی تعبیر اور تشریح ہے۔ ” (۳۲)
بعض نتیجے بعض اسباب کا لازمی اثر ہوتے ہیں۔ سبب، نتیجے اور اثر کی ان کڑیوں کو جب بھی ملا کر دیکھیے یہی بات سامنے آتی ہے کہ بدی کا انجام برا اور نیکی کا انعام پسندیدہ ہے ۔ جب یہ بات سامنے آتی ہے تو آدمی کے دل میں خود بخود نیک خیال اور نیک ارادے جگہ پاتے ہیں۔ وہ برائی کو ترک اور اچھائی کو اختیار کرتا ہے۔ نیک خیال
اور نیک ارادے کو نیک عمل کی صورت دیتا ہے یوں معاشرتی زندگی میں اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ آفاقی موضوعات:
جن موضوعات میں آفاقی اقدار اور عام انسانی زندگی کی عکاسی ہوتی ہے وہ ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ سچ جھوٹ ، اچھائی ، برائی ، ایثار، قربانی ، اخوت، ہمدردی ، لالچ ، دھوکا، غریب جیسی آفاقی اقدار اپنی اچھائی اور برائی کے ساتھ ہر جگہ مسلم ہیں۔
اردو نثری داستانیں بھی ایسی آفاقی اقدار کو ہی اپنا موضوع بناتی ہیں۔ ہر داستان میں کم و بیش یہی موضوعاتملتے ہیں۔
داستانیں ایک اخلاقی پہلو بھی رکھتی ہیں اور وہ پہلو دل میں انسانی ہمدری کا پیدا ہوتا ہے۔ داستانوں کے ہیرو جو خیر کے نمائندے ہوتے ہیں جب شر کے نمائندوں سے معرکہ آرائی میں مصروف ہوں تو ہم خود کو ہیرو کا یہی خواہ محسوس کرنے لگتے ہیں ، اس کی کامیابی اور کامرانی کے متمنی ہوتے ہیں۔
ہیرو سے لگاؤ دراصل ہمارے اندر غیر شعوری طور پر انسانی ہمدردی کے پیدا ہونے سے ابھرتا ہے، ہمیں ہیرو کی شخصیت سے کوئی انس نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقاصد، خیالات اور افعال و اعمال سے ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے اور اس کے مخالف فریق کو ہم اس کے خیالات اور افعال و اعمال سے اختلاف کی بنا پر نا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارا برائی سے نفرت اور نیکی سے محبت کا جذ بہ قوی تر ہو جاتا ہے۔
داستانیں خلوص و ایثار کا درس بھی دیتی ہیں ، ان کے کردار بلا وجہ دوسروں کے سکھ اور خوشی کے لیے مصیبتیں مول لیتے ہیں۔ محمد احسن فاروقی اور ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی لکھتے ہیں:”ہر اعلیٰ فن اعلی اخلاق پر بنی ہوتا ہے اور دائمی قدروں کا حامی ہوتا ہے جو انسانیت کو ترقی دیتی ہیں ۔”
داستان پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ حقیقت سے فرار اور خیالی دنیا کی کہانی ہوتی ہے جس میں حقیقی دنیا کی تلخیوں اور مشکلات کو نظر انداز کر کے ایک خیالی دنیا بسالی جاتی ہے جس میں ہر چیز ممکن ہوتی ہے تو دراصل یہ عمل سے پہلو تہی کر کے سستی اور کاہلی کی مثال ہے۔
لیکن یہ داستانیں اگر ایک طرف زندگی کی بہت سی بنیادی حقیقتوں کے بیان سے منہ چراتی ہیں تو دوسری طرف اخلاق ، ترقی کی خواہش اور اس جدو جہد کی ترجمانی کرتی ہیں جو اونچا طبقہ اپنے پیش نظر رکھتا ہے۔ مذہبی قدروں کو بھی پورے طور پر مد نظر رکھتا ہے۔ اس طرح نیکی کے جذبوں کے علاوہ قناعت ، تو کل اور درگزر کے جذبات اور روحانیت کی قدروں کو بھی بہت حد تک ابھارا گیا ہے ۔
داستان گو کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے کسی پہلو سے متاثر ہو کر جو کیفیت اس پر طاری ہوئی تھی وہی قاری پر بھی طاری ہو جائے ۔ اس کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ قاری کی رائے پر قابو حاصل کر کے اسے نئی قدروں سے آشنا کرے تا کہ قاری بالکل نہیں تو کچھ نہ کچھ اس کا ہم خیال ضرور ہو جائے : ڈاکٹر سہیل بخاری کے مطابق :
"داستانوں کا مرکزی خیال ، تہذیب نفس اور شائستگی اخلاق ہے۔ ان کے ذریعے سے لوگوں میں بہتر سے بہتر اخلاق و عادات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کھلم کھلا پند و موعظت سے بھی کام نہیں لیا جاتا بلکہ دلچسپ واقعات کے پردے میں اخلاقی خوبیوں کے مفید نتائج دکھا کر قاری کو نیکی کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے۔ ” (۳۴)
حسن عشق:داستان کی بنیاد حسن و عشق پر رکھی جاتی ہے اس لیے حسن و عشق داستان کا خاص موضوع ہے۔ حسن و عشق کی داستان کے اندر ہی داستان گو تمام کہانی کو بیان کرتا ہے۔ کہانی کی دلچسپی اور طوالت کا جواز وہ حسن و عشق کے بیان سے پیدا کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ نصیحت اور پند و موعظت بھی کرتا چلا جاتا ہے۔ حسن و عشق کے بیان کو اس قدر پر تجسس اور دلچسپ بنایا جاتا ہے کہ داستان کے تمام پلاٹ کا تانا بانا اسی موضوع کے گرد بنا جاتا ہے۔ ہیرو اور ہیروئن عموماً ابتدائے داستان میں کسی پرندے، تاجر ، فقیر ، خواب میں یا پھر شکار میں کھو کر کسی نئی دنیا میں جا کر ہیروئن کے ساتھ اتفاقی ملاقات پر ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔
نادیدہ عشق کے فراق کو داستان گو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اس طرح قاری کی ہمدردی بھی حاصل کر لیتا ہے۔ داستان گو شعوری طور پر ایک خاص مدت تک کے لیے ہیرو اور ہیروئن کو ایک دوسرے سے جدا رکھتا ہے۔ ہیرو کے سفر کا آغاز ہیروئن کے حصول کے لیے ہی ہوتا ہے جس کے ذریعے داستان گو کہانی کو مہماتی زمان
و مکان Adventure Time and Space) میں لے جاتا ہے جہاں عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ عجیب الخلقت کرداروں سے ہیرو کا واسطہ پڑتا ہے۔ یہاں کے زمان کا ہیرو کی طبعی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ سالوں گزرنے کے باوجود وہ زندگی کی دوسری منزل یعنی جوانی سے بڑھاپے میں داخل نہیں ہوتا ۔
جس عمر اور حلیے کے ساتھ ہیرو اس مہماتی زمان و مکان میں داخل ہوتا ہے اختتام داستان میں اسی حلیے اور عمر کے ساتھ واپس اپنے ملک اور وطن میں لوٹتا ہے۔ حتی کہ ہیرو کے واپس آنے پر اس کے بوڑھے والدین بھی اسی عمر میں ہوتے ہیں اور شہر کی حالت بھی نہیں بدلتی ۔
ہیرو اور ہیروئن کے فراق کو بڑھا کر اس دوران اکثر وہ ضمنی کہانیاں بھی قصے میں شامل کر لیتا ہے۔ یہ ضمنی کہانیاں اگر چہ قصے سے متعلقہ تو نہیں ہوتیں لیکن نصیحت آموز ضرور ہوتی ہیں جن کے ذریعے قصہ گو اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ داستان میں عشق و محبت سے متعلق ڈاکٹر سہیل بخاری لکھتے ہیں:
"داستانوں کی دوسری ما بہ الامتیاز خصوصیت ان کا عشقیہ ماحول ہے داستان کا موضوع کچھ بھی ہو اس میں حسن و عشق کا بیان ضرور ہوتا ہے۔ اس میں مہمات، اسراریت سحر و طلسم ، ادبی شان، شاعرانه فضاء اخلاق ، عیاری ہر شے ہوتی ہے لیکن حسن و عشق کی چاشنی بھی ضرور رہتی ہے، محبت کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی شکل میں ضرور داخل ہو جاتی ہے۔ دراصل پورے ایشائی ادب کا مزاج ہی عاشقانہ ہے۔ اس لیے اردو داستان بھی اس سے مستثنی نہیں رہ سکتی تھی ۔ ” ( ۳۵ )
انسانوں کے افعال اور اقوال ، خیالات اور جذبات ، کامرانیاں اور نا کامیابیاں، دلچسپیاں اور تفریحیں، پریشانیاں اور دقتیں ، حماقتیں اور دانیائیاں، عظمت یہ سب داستان کے موضوعات ہیں۔
اردو نثری داستانیں فورٹ ولیم کالج کی ہوں، دہلی لکھنو یا پھر رامپور کی ان میں اسلوب کے حوالے سے تو اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ان کے موضوعات میں یکسانیت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ تمام داستانوں میں کم و بیش ایک جیسے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ عشق و محبت اور طویل جنگوں کا بیان بھی دراصل کسی نہ کسی طرح عملی زندگی کو آفاقی اخلاقی اقدار کے حوالے سے گزارنے کا درس ہی دیتی ہیں ۔
داستانیں کسی ایک فرد کو موضوع بحث نہیں بناتیں بلکہ وہ افراد کی اجتماعی زندگی کو ہے اپنے دائرہ کار میں لاتی ہیں۔ وہ اقدار جن کے اپنانے پر معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ ہر فرد کی زندگی کی ایک معیاد ہوتی ہے اور اس کی جگہ دوسرے افراد لے لیتے ہیں لیکن انسان نے تمدنی زندگی کے ہزاروں سال کے تجربے کے بعد جو اخلاقی اقدار اخذ کی ہیں دراصل وہی اقدار داستان کے موضوعات میں شامل ہیں ۔
مزید پڑھیں: داستان ناول اور افسانے میں نسوانی کردار pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں