ج: دقیق روشِ تحقیق
دقیق روشِ تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی مصنف کے تحقیقی کام کے سلسلے میں جو رائے دی جائے وہ اصل حقائق کو پیش نظر رکھ کر نیز تعصبات وذاتی تعلقات کے دائروں سے بالاتر ہو کر دی جائے۔ زیربحث کتاب میں بعض مقامات پر یہ خامی نظر آتی ہے۔مثلا فگار دہلوی کے منتخب شائع شدہ کلام کی اغلاط کی تصحیح کے سلسلے میں فاضل مصنف نے لکھا ہے:
محمد اکرام چغتائی نے ایک قلمی بیاض سے، جو کتب خانۂ پنجاب کے ذخیرۂ کیفی میں موجود ہے، فگار کا انتخاب کلام دریافت کر کے شائع کردیا۔۔۔ اور اپنے مقدمے میں ان اغلاط کی نشاندہی کی ہے جو مختلف تذکرہ نگاروں۔۔۔۔ اسی کام کو گوہر نوشاہی نے بھی انجام دیا۔۔۔ غالباً ان دونوں محققین کو ایک دوسرے کے کاموں کی خبر نہ رہی۔ دونوں نے قریب قریب ایک ہی وقت میں یہ کام کیا۔ (۱۰)
اس ضمن میں حقیقت یہ ہے کہ فگار کا انتخاب کلام کتب خانۂ پنجاب میں سے اولاً ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے دریافت کیا تھا۔ اسی زمانے میں یہ کلام اکرام چغتائی کی نظر سے بھی گزرا۔ انھوں نے فوراً اسے نقل کر کے مرتب/تدوین کرنا شروع کیا۔گوہر نوشاہی صاحب نےاسے روک دیا۔ چغتائی صاحب نے اسے راتوں رات مکمل کر کے سید وقار عظیم سے مقدمہ بھی لکھوادیا۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی اور دیگر محققین نے جب اسے دیکھا تو تقریباً اس میں ۳۰۰ کے قریب غلطیاں تھیں۔ فگار کا کلام مخطوطے کی شکل میں تھا چنانچہ اکرام چغتائی اسے درست نہ پڑھ سکے۔ مدیرِ “صحیفہ” کے اصرار پر ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے ۱۰ غزلیں تصحیح کر کے شائع کروادیں اور اکرام چغتائی کا بھرم رکھنے کی خاطر کہا کہ ان کے نام کے ساتھ شائع نہ کریں۔ لھذا ڈاکٹر معین الدین عقیل کا یہ کہنا کہ دونوں محققین ایک دوسرے کے کام سے واقف نہ تھے، درست نہیں۔ علاوہ ازیں چغتائی صاحب فگار کا کلام پورا شائع بھی نہ کرواسکے۔ وہ فگار کے کلام کو درست پڑھ ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ کہنا کہ ہم دونوں نے ایک ہی موضوع پہ کام کیا اور ایک دوسرے کے کام سے واقف نہ تھے،ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے دقیق تحقیق سے بے نیازی کی غمازی کرتا ہے۔ (۱۱)
پاکستان میں اردو قواعد پر تحقیق کے سلسلے میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی کتاب “قواعدِ اردو” کا ذکر نہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔
( پروموشن: فیض احمد فیض کی شاعری کی خصوصیات | ڈاکٹر ثمرین کنول )
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں