ب: متزلزل رائے
فاضل مصنف پاکستان میں اردو تحقیق کی کیفیت و رفتار پر جب قلم فرسائی کرنے لگتے ہیں توایک صفحے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں تو دوسرے ہی صفحے پر اپنےسابقہ اظہار اطمینان کو عدم آشنا کر دیتے ہیں۔ بطور مثال ملاحظہ کیجیے۔
“پاکستان میں اردو تحقیق کا معیار اور اسکی رفتار بھارت سے کسی طرح کم نہیں ۔۔۔” (۶)
دوسرے ہی صفحے پر متذکرہ بالا رائے یا تحقیقی کاوشوں کو استثنائی مثالیں قرار دیتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
“۔۔۔جو کچھ بھی مستحسن تحقیقی کام یہاں ہوئے ہیں وہ دراصل استثنائی مثالیں ہیں اور ان سب کے بارے میں بھی یہ کہنا کہ وہ جدید اصولوں کے مطابق کیے گئے ہیں، صحیح نہ ہوگا”۔(۷)
پاکستان میں اردوتخلیق و تحقیق کی مجموعی صورت حال کو ایک جگہ ناقابلِ اطمینان قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“پاکستان میں ادبی تخلیق و تحقیق کی موجودہ صورت حال بحیثیت مجموعی قابل اطمینان نہیں کہی جاسکتی”۔(۸)
اسی کتاب میں ایک جگہ تحقیق سے متعلق اپنی گزشتہ آراء کو سرسری جائزے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے نیز اپنی رائے میں واقع ہونے والے تزلزل کا اعتراف کرتے ہوئے فاضل مصنف یوں رقم طراز ہوئے ہیں:
“۔۔۔زیر نظر جائزہ تحریر کرتے ہوئے پاکستان میں تحقیق کے معیار اور اسکی رفتار کے بارے میں جس بے اطمینانی کا اظہار اولاً کیا گیا تھا اس میں تزلزل واقع ہوتا رہا۔ مذکورہ تاثر ایک سرسری جائزے کا نتیجہ تھا۔ (۹)
سرسری مطالعات کو پیش کرنا اولاً تو خود دقیق تحقیقی روش پرسوالیہ نشان ہے۔ ثانیاً تحقیقی میدان کی طرف میلان رکھنے والے نوآموز اہل قلم کی پریشانی اور تضیعِ وقت کا سبب بنتا ہے۔ ثالثاً خود فاضل مصنف کی تحریروں اور کاوشوں کے اعتبار و استناد کو درجۂ قطع سے گرانے کا سبب بنتا ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں