اردو اور پشتو کا تعلق

اردو اور پشتو کا تعلق

پشتو کا اردو سے تعلق : عربی ہماری مذہبی زبان ہے اور فارسی اس علاقے میں دفتری زبان کے طور پر مستعمل رہی ہے چنانچہ عربی اور فارسی کا اثر نہ صرف اردو پر پڑا بلکہ پشتو بھی اس سے مبرا نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ ان دونوں زبانوں کے ذخیرہ الفاظ کی ایک معقول تعداد یا تو مشترک ہے

یا ان میں قریبی اشتراک پایا جاتا ہے۔ پروفیسر پریشان خٹک نے اپنی کتاب "اردو اور پشتو کے مشترک الفاظ” میں 5022 ( پانچ بزار بائیسں ) الفاظ دیئے ہیں جو پشتو اور اردو میں مشترک ہیں۔

ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اپنی کتاب "بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں کا تقابلی مطالعہ” میں ہشت لیسانی گلدستہ” کے نام ے روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والے 1612 اردو الفاظ اسما اور افعال کا ایک لسانی سروے پیش کیا ہے ان کے مطابق ان 1612 الفاظ میں اردو اور پشتو کے مشترک یا قریبی الفاظ کی تعداد 863 ہے اور اس حساب سے اردو پشتو کے مشترک الفاظ کا تناسب 53 فیصد بنتا ہے۔

پشتو اور اردو کے صوتی نظام میں بھی کوئی زیادہ بعد موجود نہیں۔ ذیل میں دیئے گئے الفاظ کی طرح بے شمار الفاظ ان زبانوں میں معمولی تغیر کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں۔ مثلاً

جنگل۔ زنگل

ویران۔وران

زنجیر۔زنزیر وغیرہ۔

اسی طرح ان زبانوں میں بعض مرکب الفاظ مشترک مستعمل ہیں مثلاً خیر، خیر سراسر ،بلا ناغہ، اور گڑ بڑ وغیرہ۔ علاوہ ازیں یہ زبانیں مشترک محاوروں کہاوتوں اور ضرب الامثال کی امین بھی ہیں۔

اردو اور پشتو کے اشتراک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پشتو زبان کا انگریزی اسکالر میجر راورٹی اپنی کتاب "پشتو انگریزی لغت” کے دیاچہ میں لکھتا ہے۔

(حقیقت یہ ہے کہ پشتو زبان میں بہت سے ایسے الفاظ ملتے ہیں جو اردو میں نظر آتے ہیں جب کہ اس کا واضح طور پر سنسکرت میں سراغ نہیں ملتا۔ کم از کم اس وقت تک جب تک کسی اور زبان میں ان کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ میں انہی خالص پشتو اصطلاحیں سمجھنے کی طرف مائل جو بالکل اسی طرح ریختہ میں شامل ہو کر گھل مل گئیں جیسے شکرت عربی اور قاری وغیرہ۔)

جس طرح اردو کے بیشتر حروف تہجی عربی فارسی سے لئے گئے ہیں۔ اسی طرح پشتو کے حروف تہجی میں عربی کے تقریباً تمام حروف شامل ہیں۔ جب کہ تین حروف فارسی سے بھی لئے گئے ہیں۔ اردو کی طرح پشتو بھی دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ پشتو کا رسم الخط نسخ ہے۔ جو اردو کے نستعلیق رسم الخط سے قریبی ی مشابہت رکھتا ہے۔

اگر کسی دور دراز کے پشتون علاقے میں کسی پشتون سے اردو میں بات کی تو وہ اس کا مافی الضمیر فوراً سمجھ جائے گا۔ پشتونوں کا مذہب کے ساتھ تعلق نہایت گہرا ہے۔

اور زبان میں بھی ایسے مذہبی لٹریچر کی بات ہے۔ اس لئے پشتو بولنے والوں کیلئے عربی کے بعد اردو زبان نہایت ہی عزیز اور محترم ہے اور اسی کے ذریعے وہ مذہب اور تاریخ اسلام سے با آسانی واقفیت حاصل کرتے ہیں۔

اردو نثر کا ایک قدیم نمونہ پشتو نثر کی اولین کتاب "خیر البیان” میں بھی ملتا ہے جس بایزید انصاری المعروف بہ پیر روشن نے 980ھ کے لگ بھگ تحریر کیا تھا۔ اردو نثر کا نمونہ یہ ہے:

( اے بایزید لکھ کتاب کے آغاز کے بیان کے سارے اکھر صحیح ہسن بسم اللہ)

گرامر میں اشتراک

پشتو اور اردو کے قواعد اور گرامر میں بھی بعض جگہ اشتراک پایا جاتا ہے مثلاً اردو کے بعض اسماء کے آخر میں ”ہ” کو یائے مجہول ” ے” سے بدل کر جمع بناتے ہیں جیسے بچہ سے بچے اور بستہ سے بستے وغیرہ۔

پشتو میں بھی امالے کا یہی قاعدہ رائج ہے۔ دونوں زبانوں میں اسم فاعل ایک جیسے لاحقوں سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ مثلا گر سے زرگر اور جادوگر اور گار سے پرہیز گار اور خدمت گار و غیرہ۔

اسی طرح اردو اور پشتو میں ماضی مطلق کا قاعدہ بھی ملتا جلتا ہے۔ تاہم تذکیر و تانیث کے معاملے میں بعض جگہ اردو اور پشتو میں فرق پایا جاتا ہے۔ یعنی کچھ الفاظ جو پشتو میں مذکر ہیں۔ اردو میں مؤنث بولے جاتے ہیں۔ مثلاً پنسل یا کتاب وغیرہ پشتو میں مذکر ہیں اور اردو میں مؤنث ۔

اسی طرح پشتو بولنے والوں کی اکثریت سنسکرت کی دو چشمی "ھ ” آسانی سے ادا نہیں کر سکتی۔ جب ایک پشتون کہے کہ پٹھان کھانا کھا رہا ہے تو سننے والوں کو یہ فقرہ یوں سنائی دے گا پٹھان کا نا کا رہا ہے۔

شاعری میں اصطلاحات

پشتو کے اکثر کلاسیکی شعراء کے کلام میں نہ صرف اردو کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں بلکہ ایسی تراکیب و اصطلاحات بھی ملتی ہیں جو اردو شاعری میں مستعمل ہیں

اور اردو اور پشتو کے قدیم روابط کی آئینہ دار ہیں۔ مثلاً پشتو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ارزانی خویشکی کے کلام میں اسی طرح 17 ویں صدی عیسوی کے شاعر خوشحال خان خٹک کے کلام میں نظر آتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے معاصر شاعر رحمان بابا کے کلام کی بھی ہے جبکہ دولت لو انٹری، قاسم علی خان آفریدی، عبد الحمید مومند، معز اللہ خان مومند، کا ظلم خان شیدا کے ہاں بھی بلا جھجک اردو کے الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔ بعض شعراء نے تو باقاعدہ اردو شاعری میں طبع آزمائی کی جن میں رحمان بابا قاسم علی خان آفریدی اور معتز اللہ خان مومند بھی شامل ہیں۔

بڑے مراکز

دیلی اور لکھنو اردو کے دو بڑے مراکز رہے ہیں۔

ان دونوں کے بیچوں بیچ روہیل کھنڈ کا علاقہ تھا ۔

جو پشتو بولنے والوں اور افغانوں کا گھر کہلاتا تھا یہ وہ جگہ تھی جہاں ابتداء ہی سے شہروں اور دیہاتوں میں روانی سے اردو بولی جاتی تھی اور اس اردو میں پشتو کے سینکڑوں الفاظ مستعمل تھے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی ” تاریخ ادب اردو” میں لکھتا ہے کہ :

(پٹھانوں نے اردو زبان کو اور اردو نے پٹھانوں کو اتنا کچھ دیا ہے کہ ایک کی شخصیت دوسرے میں جھلکنے لگتی ہے۔)

اردو زبان میں نرمی میانہ روی اور رکھ رکھاؤ کا عصر پایا جاتا ہے جب کہ پشتو کا یوسفزی لہجہ بھی ان خصوصیات کا حامل ہے۔

ذریعہ تعلیم

صوبہ سرحد کے مدرسوں میں بیشتر جگہوں پر بنیادی ذریعہ تعلیم اردو ہے نیز نصاب میں بھی اردو ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل ہے جس کے باعث پشتو بولنے والے بچے بہت چھوٹی عمر میں ہی اردو سے آشنا ہو جاتے ہیں اور اردو سمجھنے اور بولنے لگ جاتے ہیں۔

لسانی گروہ

اردو اور پشتو تہذیبی اور تاریخی لحاظ سے گہری مشابہت رکھتی ہیں اور لسانی گروہ کے حوالے سے بھی دونوں آریائی زبانیں ہیں۔

نایاب پاکستانی ادب،ص 189

یہ بھی پڑھیں: اردو اور فارسی کا تعلق

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں