اردو افسانے کے اجزائے ترکیبی

افسانے کے اجزائے ترکیبی

موضوع کا انتخاب

افسانے کے اجزائے ترکیبی میں موضوع کو اہمیت حاصل ہے ۔ موضوع کے انتخاب کے وقت افسانہ نگار زندگی کے کسی ایک پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگار کی  توجہ زندگی کی ایک   گوشے پر  ہوتی ہے۔

وہ اسی ایک پہلو  کو  مختلف طریقوں سے بیان کر کے کہانی کو مکمل  کرتا ہےاور تمام حالات و واقعات  جمالیاتی توازن کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہونے چاہیے تا کہ افسانے میں وحدت تاثر  برقرار رہے۔

اشفاق احمد اپنے افسانے کے موضوی کا انتخاب کرتے وقت تمام حالات کو واقعات ایک خاص ترتیب کے ساتھ لڑی میں پروتے ہیں کہ افسانہ زندگی کے کسی ایک خاص رخ کو اس انداز کے ساتھ مربوط انداز میں پیش کرتا ہے کہ افسانے میں وحدت تاثر کی فضا برقرار رہتی ہے۔ 

افسانے کے اجزائے ترکیبی میں موضوع کا انتخاب کو اولین حیثیت حاصل ہے۔

تمہید

افسانے کی تمہید میں جادو کی طرح اثر کا ہونا ضروری ہے۔تا کہ قاری آخر تک افسانے کو پڑھنے کے لیے   مضطرب کی کیفیت میں رہے اس لیے  افسانے کی شرعات  کہانی کے کسی آخری یا درمیانی واقعے سے   کی جاتی ہے۔ اس سے قاری میں دلچسپی  کا جذبہ ابھرتا ہے۔کسی مؤثر کردار سے بھی کہانی کا آغاز جا سکتا ہے۔

بعض اوقات  دلچسپی  کے لیے  مکالموں  کو بھی افسانے میں تمہید بنایا جا سکتا ہے۔ اشفاق حمد کے بیشتر افسانے آغاز سے اتنے سحر خیز ہوتے ہیں کہ قاری پہلے پیراگارف سے ہی افسانے کی فضا میں کھو جاتا ہے اور اختتام تک افسانے سے جرا رہتا ہے۔

اشفاق احمد کی یہی خوبی  افسانوں  کی ابتدا میں تاثر  کا رنگ پیدا کرنا ہے جو قاری  پر گہرا ثر پڑتا ہے اور وہ افسانہ مکمل پرھنے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔اور افسانہ مکمل کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تمہید افسانے کے اجزائے ترکیبی کا ایک اور اہم جز ہے۔

پلاٹ

 افسانے کے اجزائے ترکیبی میں ایک اور اہم جز پلاٹ کے

کسی بھی کہانی کے واقعات کو اس طرح  ترتیب دینا  اور سوچ سمجھ  کر لکھنا  پلاٹ ہے۔

 پلاٹ کے   بارے میں ابو الاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں:

"پلاٹ واقعات و افعال کا ایک سلسلہ ہے جو ایک خاص مقام سے آغاز پاتا ہے اور منطقی طور پر مربوط واقعات کے تسلسل کے سہارے ایک منطقی اور فطری انجام کو پہنچتا ہے”۔(۶)

کسی بھی کہانی کے  واقعات کو  ترتیب کے ساتھ پیش کربیان کرنا پلاٹ کہلاتا ہے۔ یہ  بہت اہمیت رکھنے والا حصہ  ہے۔ اگر پلاٹ مضبوط نہ ہو تو قاری   کو افسانہ  پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہوتی۔کسی بھی کہانی کی کامیابی  کا  انحصار پلاٹ پر ہوتا ہے۔ اگر پلاٹ ٹھیک اور مربوط ہوگا تو افسانہ کامیاب ہوگا۔

کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لئے  ضروری چیز پلاٹ ہے جس  کی وجہ سے  وہ عمارت کھڑی  ہوتی ہے۔ اس طرح اافسانے کی بنیاد پلاٹ ہے۔ جس افسانے میں کہانی اور کردار حقیقی زندگی کے ہوں اور ان کرداروں کو تمام معاشرتی آسانیوں اور مشکلات سمیت سامنے لایا جائے، دوسرے لفظوں میں  کسی بھی  کہانی کی بنیا پلاٹ ہوتا ہے۔

کہانی کا پلاٹ جتنا مضبوط اور جاندار  ہوگا کہانی اتنی ہی کامیاب  ہوگی۔اشفاق احمد کی افسانہ نگاری کی ایک خوبی ان کے پلاٹ ہیں جن کو تیار کرتے وقت وہ ایک ماہر کی طرح فن کی کڑیوں  و جوڑ تے ہیں۔ اشفاق احمد کے بیشتر افسانوں میں ایک خاص ترتیب پایا جاتا  ہے۔ 

اس طرح ڈاکٹر جمیل جالبی  نے پلاٹ کی وضاحت  اس انداز میں بیان کی:

"پلاٹ کو ایک مکمل وحدت کا مظہر ہونا چاہیے۔ اس کے مختلف واقعات کی ترتیب ایسی ہونی چاہیے کہ اگر ان میں کسی ایک کو ذرا سا ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیا جائے یا خارج کر دیا جائے تو وحدت کا اثر بری طرح خراب ہوجائے کیونکہ اگر کسی چیز کی موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس مکمل چیز کا اصلی اور ضروری حصہ نہیں ہے”۔ (۷)

اشفاق احمد کے افسانوں کے پلاٹ انتہائی مربوط ہوتے ہیں۔ انھوں نے پلاٹ کی بنت میں انتہائی ریاضت سے کام لیا ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں   پلاٹ کی ترتیب   اور تسلسل قائم رہتا  ہے۔

اسی وجہ سے   ان کے اکثر افسانوں  سادہ پلاٹ اور تاثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلوں کی مدد سے وہ اپنی کہانی کو  ااختتام تک  پہنچتے ہیں۔ اشفاق احمد کے افسانوں کے پلاٹ کہیں کہیں پیچیدہ ہیں۔ جن میں واقعات ایک دوسرے سے مربوط دکھائی دیتے ہیں۔ اشفاق احمد  کےافسانوں میں  پلاٹ بہترین ترتیب سے ہیں اور نہایت عمدہ ہیں۔

اسلوب

اسلوب افسانے کے اجزائے ترکیبی کا اہم عنصر ہے۔اسلوب کے معانی انگریزی میں اصطلاح "سٹائل” کے ہیں۔ 

اسلوب کے بارے میں مختلف قسم کی مختصر  اور سادہپ تعریف بیان کی جا چکی ہے۔ اسلوب کیے معنی  کسی شاعر یا ادیب  کا  اندازِ نگارش  ہے۔ اس لئے اسلوب  کو کسی بھی شاعر یا  انشاء پرداز کی شہادت بھی کہہ سکتے  ہیں۔اس سے کسی قلم کار  کی شخصیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح اسلوب کی  پانچ عناصر اہم ہوتے ہیں جن میں مصنف، ماحول، موضوع، مقصد اور مخاطب کار فرما ہوتے ہیں۔اسلوب تحریر کی وہ خوب صورتی ہے۔

ایک جگہ سید عابد علی عابد اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں: 

” ادب میں اندازِ بیاں کی بڑی اہمیت ہے۔ یہی ادب دوسری تمام تحریرات میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ اندازِ بیاں، تکنیک، فارم، زبان و بیان کی تمام شکلوں پر حاوی ہے۔ اس کی ابتداء اس لمحے سے ہوتی ہے جب ہم کسی خاص شے سے متاثر ہوتے ہیں۔ اندازِ بیاں کا دائرہ بہت وسیع ہے”۔ (۸)

 سید عبد اللہ تحریر کرتے ہیں:

” ذوق ایک مسلم کیفیت ہے اور اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسان میں یہ اس طرح موجود ہوتا ہے جس طرح خوشبو پھول میں بسی ہوتی ہے”۔ (۹)

سید عابد علی عابد اسلوب کی تعریف   اس طرح کرتے ہیں:

” اسلوب دراصل فکر و معانی اور بت و مورت، یا مافیہ و پیکر کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے لیکن انتقادی تصانیف میں اکثر و بیشتر کلمات کے معانی متعین نہیں ہوتے اور اسلوب کو محض اندازِ نگارش ، طرزِ بیان کہہ کر کلمے کی وہ تمام دلالتین ظاہر نہیں کی جا سکتیں جن کا اظہار مطلوب ہے”۔ (۱۰)

ذوالفقار احمد تابش اسلوب کے متعلق کچھ یوں تحریر کرتے ہیں:

” فن کار وژن، تجربہ اور کرفٹ وہ اجزا ہیں جو اعلیٰ اسلوب بناتے ہیں۔ کرافٹ میں وژن کے ساتھ اگر تجربہ کا جزو بھی شامل ہو تو ایک اعلیٰ اسلوب جنم لیتا ہے۔”(۱۱)

 اسلوب کسی ایک ہی   دور کے افسانے کی میراث  ہوتی ہے اور  لکھنے والے کا زادِ راہ مانی جاتی ہے۔ 

ڈاکٹر رشید امجد اسلوب کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:

” اگر استعارے کی زبان میں بات کی جائے تو خدا ذات ہے اور کائنات اسلوب ۔یہاں میں نے اسلوب کو انکشافِ ذات اور اظہارِ ذات کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ گویا اسلوب ذات اور شخصیت کا اظہار ہے”۔ (۱۲)

اسلوب کسی بھی شخصیت کے اظہار کا دوسرا نام کہا جا سکتا ہے۔ جس  سے پوری شخصیت نمایاں ہوجاتی ہے۔ فطرت کے اعتبار سے کوئی حیرت انگیز چیز نہیں ہوتی۔ سقراط نے کہا تھا کہ انسان کلام سے پہچانا جاتا ہے۔ اسلوب شخصیت کا آئینہ اور عکس ہوتا ہے۔اشفاق احمد کے افسانوں کی خصوصیات میں سادگی کو اہمیت حاصل  ہے۔

وہ مشکل سے مشکل بات کو اپنی فنکارانہ ذہنیت  سے آسان اور سہل انداز میں  بیان کرتے تھے۔ وہ مشکل الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے۔ ان کے افسانے اسلوبیاتی سطح پر بھی انفرادیت کے حامل ہوتے ہیں۔ نہوں نے سادہ اسلوب سے کام لیاہے۔

ان کے خیالات میں کسی قسم کا اجھول دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب اور اندازِ بیاں  تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ وہ جو کچھ محسوس کرتے  تھے اور سوچتے تھے انہیں سادہ  الفاظ  میں ڈال کر پیش کرتے تھے۔

اختصار

افسانے کی خصوصیات میں ایک اور خاصیت   اختصار ہےکسی بھی کہانی کو ایک ہی نشست میں پڑھنا افسانہ قرار دیا گیا ہے۔ اشفاق احمد کے افسانوں کی دوسری اہم خصوصیت اختصار ہے۔اشفاق احمد  نے مختصر افسانے  میں اپنے نظریات کو بیان کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔ ان کے ہاں بے جا  تفصیل نہیں ہے۔ اور  نہ ہی وہ افسانے کے موضوع کی حدود سے باہر نکلے ہیں۔

ان کے افسانوں میں چھوٹے چھوٹے جملے بڑی کام کی بات سمجھا جاتے ہیں۔اشفاق احمد اپنے اختصار کے باعث بڑی سی بڑی بات کو بہت ہی باریک انداز میں مزاح کے پہلو میں ڈھال کر بیان کر دیتے ہیں۔ بظاہر  تو وہ نہ  خود ہنستے ہیں اور نہ   دانستہ کسی  کو ہنسانے کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ احساس کو اس طرح چھیڑ دیتے ہیں کہ قاری  ہنسے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ افسانے کے اجزائے ترکیبی کا نا گزیر جز اختصار ہے۔

افسانے کے متعلق جملہ مواد یہاں پڑھیں

مکالمہ نگاری

افسانے کے مکالموں میں انداز و بیان یا    لب ولہجہ سادہ، فطری  اور شگفتہ ہونا چاہیےجس سے انسان کے جذبات جن  خوشی، غم ، حیرت یا غیض وغضب کے تما   لہجے  موقع و محل کی مناسبت سے ان کا فرق واضح ہوجائے۔ 

ابو الاعجاز حفیظ صدیقی یوں رقم طراز ہیں:

دو یا دو سے زیادہ اشخاص کی گفتگو کو انہی کے الفاظ میں نقل کرنا ادبیات کی اصطلاح میں مکالمہ کہلاتا ہے”۔ (۱۳)

مکالمہ ڈرامہ کے علاوہ داستان، ناول اورافسانہ میں خاص اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ اچھا مکالمہ وہ ہوتا ہے جس میں مصنوعی پن محسوس نہ ہواور وہ جذبات کی فطری عکاسی کرے۔ اختصار، جذبات و احساسات اور اخلاقی اقدار کا آئینہ دار نہ ہو۔

کہانی میں اگر مکالمہ موقع محل اور کرداروں کی حقیقت کے مطابق ترتیب دئیے ہوئے ہوں تو کہانی انتہائی خوبصورت اور فنی اصولوں سے آراستہ و پیراستہ معلوم ہوتی ہے اور انتہائی منطقی انداز سے تکمیل کی طرف بڑھتی ہے۔ اشفاق احمد کی  ایک خوبی سماجی حقیقت نگاری کے  افسانے ہیں ۔

جن کا انہوں نے  خوب صورتی سے استعمال کیا ہے۔ اشفاق احمد نے افسانوں میں مکالمہ نگاری سے جابجا کام لیا ہے۔

ان کے  کردار بیانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اشفاق احمد ک کو جذبات نگاری پر بھی عبور حاصل ہے۔اس وجہ سے  ان کے کرداروں کےتمام  جذبات قاری پر عیا ں ہوجاتے ہیں جس سے ان کی کہانی حقیقت کے قریب  لگتی ہے۔ افسانے کے اجزائے ترکیبی میں مکالمہ نگاری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

منظر کشی

منظرکشی یعنی  الفاظ  کے زور سے ایسا ماحول پیدا کرنا جس سے تمام واقعات قاری کی آنکھوں کے سامنے آجائے۔

 پروفیسر انور جمال یوں رقم طراز ہیں:

"قلم میں الفاظ کے ذریعے تصویر بنانا کہ منظر آنکھوں کے سامنے اُتر جائے، منظر آنکھوں کے سامنے آجائے"۔(۱۴)

اشفاق احمد نے اپنے افسانوں میں مناظر کی ایسی انتہائی دلفریب انداز میں عکاسی کی ہے منظر نگاری میں چاند کی رونق ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ محبت کی اٹکلیاں اور رعنائیوں کا ذکر ہے۔

حسن کے جلوے ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ ساری فضا معطر اور خوشگوار ہے۔ بے جان جسموں میں بھی محبت کا کون گردش کر رہا ہے۔ بالوں میں ہاتھ پھیرتی اور محبت کے گیت گاتی ثروت جل پری کا منظر پیش کرتی محسوس ہوتی ہے۔اشفاق احمد منظر نگاری کو یوں بیان کرتے ہیں کہ  حالات و واقعات کی  سچی تصویر قاری کو نظر آتی ہے۔ 

کردار نگاری

ہر کہانی میں کردار کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ چونکہ کردار معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں اس لئے کہانی میں کرداروں کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ کردار بالکل جامع اور بے لچک نہیں ہونے چاہیں بلکہ ضروری ہے کہ کرداروں کی بول چال، حرکات و سکنات، عادات و اطوار زندہ لوگوں جیسی ہوں۔ معاشرے کے فعال کردار افراد محسوس ہوتے ہوں۔ ایسے کردار افسانے میں توانائی اور توازن پیدا کر دیتے ہیں جس سے افسانہ بے رنگی اور بدمزگی کا شکار نہیں ہوتا۔

افسانے کا کردار عشق و محبت، ہجر و وصال کی باتوں کے ساتھ ساتھ ان مسئلوں سے بھی دوچار ہوتا ہے جن کو حل کرنے کی جستجو میں صدیاں لمحوں میں بیت جاتی ہیں۔ انسان کی عملی، ذہنی یا نفسیاتی زندگی میں جو باہمی ربط ہے اشفاق احمد کے افسانوں میں اس کی کئی شکلیں نظر آتی ہیں۔ اشفاق احمد نے کرداروں کے ماحول اور مزاح کے رشتے کو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے بہت زیادہ محسوس کیا ہے۔

ان کے افسانوں میں خارجی ماحول اور کردار کی داخلی کیفیتوں کے مشاہدے کا جو تیکھا پن موجود ہے اس سے ایک بار پھر منشی پریم چند کے افسانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جن میں حقیقت اور تخیل کا امتزاج شاعرانہ کیفیت کو جنم  دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظرافت کی دھڑکنیں ملتی ہیں۔ افسانے کے اجزائے ترکیبی میں کردار نگاری کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

اختتام

اختتام افسانے کے اجزائے ترکیبی کا آخری جز ہے۔ اشفاق احمد کہانی کو بڑے سلیقے اور ہنر مندی سے پیش کرنے میں ماہر ہیں۔ وہ ایک ایک لفظ جوڑ کر کہانی کا ایسا تار پود تیار  کرنے کے بعد افسانے کا اختتام کرتے  وقت  فرصت کے ساتھ تاثر کی خوشبو بڑی مہارت اور بے تکلفی کے ساتھ بکھیر دیتے  ہیں کہ پڑھنے والا حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور انھیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

مندرجہ بالا تحریر میں افسانے کے اجزائے ترکیبی کو مفصل انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ افسانے کے اجزائے ترکیبی کی یہ تحریر مندرجہ ذیل مقالے سے ماخوذ ہیں۔ افسانے کے اجزائے ترکیبی کے حوالے سے مزید اس مقالے میں پڑھیں۔

ماخذ: اشفاق احمد کی افسانہ نگاری ایک محبت سو افسانے کے تناظر میں

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں