اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء ( پہلا دور دوسرا دور تیسرا دور)

پس منظر

اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء اردو میں مختصر افسانہ ناول کی طرح مغرب سے آیا اور اتنی تیزی سے پروان چڑھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ، نثر کی تقریبآ ساری تخلیقی اصناف پر حاوی ہو گیا۔

آج اس کی روایت اتنی روشن، جاندار اور محکم نظر آتی ہے کہ اس روایت پر صدیوں پرانی ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ حالانکہ ابھی اس کی عمر سو سال سے بھی کم ہے۔

یہ افسانے کے اس تیزی سے مقبول ہونے اور آگے بڑھنے کا سبب ہے۔ اردو میں مغربی افسانہ کا انداز تو نہ تھا لیکن داستان ، کہانی اور حکایت کے روپ میں اس کی روایت بہت پہلے سے موجود تھی ۔ اس روایت میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو مغرب سے آئے ہوئے مختصر افسانہ میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں دخیل تھیں۔

پروفیسر وقار عظیم کا تو یہاں تک خیال ہے کہ فسانہ آزاد اور باغ و بہار کے بعض اجزا کو الگ کر کے دیکھا جائے تو ان کے اندر بعض جگہ مختصر افسانہ چھپا ہوا نظر آئے گا ( نقوش، افسانہ نمبر شمارہ نمبر 1974 119 ستمبر ء)

کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ مختصر افسانہ مغرب۔ سے ضرور آیا لیکن اس کے پنپے، بڑھنے اور بار آور ہونے کے لیے ہمارے یہاں زمین پہلے سے ہموار تھی۔

چنانچہ جیسے ہی تراجم وطبع زاد تخلیقات کے ذریعے سجاد حیدر یلدرم ، سلطان حیدر جوش، نیاز فتح پوری اور پریم چند و غیرہ کے ہاتھوں اردو میں مختصر افسانے کا آغاز ہوا تو پڑھے لکھے طبقے کو اس سے مانوس ہوتے دیر نہ گئی ۔

قاری اور ادیب دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے اور چند برسوں کے اندر مختصر افسانہ اردو کی مقبول ترین صنف ادب بن گیا۔

اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء کا پہلا دور

ان میں پہلا دور زیادہ طویل ہے اور اس دور کے افسانوں میں دو خاص میلانات حاوی نظر آتے ہیں۔ ایک اصلاحی دوسرا رومانی – اصلاحی میلان کے علمبردار پریم چند تھے، وہ ہندی اردو دونوں زبانوں میں لکھتے تھے اور افسانہ نگاری میں ان کا مقصود کسی نہ کسی معاشرتی پہلو کی اصلاح ہوتا تھا۔

افسانے کی تہ میں اس طرح کا اصلاحی رنگ یلدرم، نیاز حکیم احمد شجاع ، مجنوں، سلطان حیدر جوش اور حجاب امتیاز کے ہاں بھی نظر آتا ہے لیکن یہ رنگ اتنا ہلکا اور کمیاب ہے کہ اسے پریم چند کے رنگ سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ لوگ در اصل رومانی میلان کے شیدائی اور پر چارک ہیں۔ ان کے یہاں مرکزیت اور بنیادی اہمیت حسن و محبت کو حاصل ہے اور یہ لوگ عام طور پر انہی کے خوابوں اور ماورائی تصورات سے اپنے افسانوں کا تانا بانا تیار کرتے ہیں۔ اول تو یہ موضوعات ہی اپنی جگہ بڑے دلکش تھے، دوسرے ان کے بیان میں ، رومانی افسانہ نگاروں کے قلم نے زبان کا ایسا جادو جگایا کہ ان کی کشش دو چند ہوگئی ۔

چنانچہ جس طرح اردو شاعری میں ، مولانا حالی کے ہوتے ہوئے ، بہت دنوں تک ، امیر مینائی و داغ ہی کا سکہ چلتا رہا۔ بالکل اسی طرح پریم چند کی موجودگی کے با وصف ، رومانی افسانہ ہی مقبول تر رہا۔ یہ بات الگ ہے کہ افسانے کا رومانی میلان، ادبی تاریخ کا صرف ایک یادگار موڑ بن کر رہ گیا اور پریم چند کا اصلاحی میلان اردو افسانے اور افسانہ نگاروں کے لیے راہنما بھی ثابت ہوا۔

اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء کا دوسرا دور

1930 اور 1940 کے درمیان بر صغیر میں آزادی کے مطالبے نے زور پکڑا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے عوام الناس میں سیاسی بیداری پیدا کی۔ حب الوطنی اور حریت پسندی کی بالکل نئی فضا نے جنم لیا۔

انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر، غلامی اور بیرونی سامراج کے خلاف نفرت کے جذبات رونما ہوئے۔ اور شدت کے ساتھ ۔ ادیب اور غیر اریب سبھی نے اس کا اثر قبول کیا،

نوجوانوں کا ایک حساس اور ذہین گروہ، مغربی تعلیم سے آراستہ ہو کر ادب کے میدان میں داخل ہوا۔ اس گروہ میں احمد علی ، علی عباس حسینی،قاضی عبد الغفار، سجاد ظہیر، رشید جہاں، منٹو،

عزیز احمد، ممتاز مفتی، مرزا ادیب، حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری ، ڈاکٹر احسن فاروقی ، عصمت چغتائی، غلام عباس، بیدی، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔

ان میں سے بعض ایک دوسرے سے دو چار برس سینیر ہیں اور بعض دو چار سال جونیر لیکن سب کے سب نئی سوچ، تازہ فکر اور علوم جدیدہ سے بہرور تھے۔

ان میں سے بعض کو سیاسی مسائل سے شغف تھا، بعض کو سماجی زندگی سے دلچسپی تھی ، بعض روس میں بڑھتے ہوئے اشتراکی نظام سے متاثر تھے۔

بعض کے ذہنوں پر کارل مارکس کے خیالات کا گہرا اثر تھا اور بعض پر سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات کا۔

چنانچہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق جہاں طبع زاد افسانے لکھے وہاں دوسری زبانوں کے افسانوں کے تراجم کو بھی اپنے مشاغل میں شامل کر لیا۔

یہ ساری باتیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں کہ "انگارے ” کے نام سے احمد علی سجاد ظہیر، رشید جہاں وغیرہ کے افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر آیا اور ایک انقلابی دھماکہ قرار پایا۔

چونکہ یہ مجموعہ حکومت کی نظر میں ناپسند ید ٹھہرا اس لیے چند مہینے بعد ہی ضبط کر لیا گیا۔ اس اثنا میں ” انگارے "ہی کے افسانہ نگاروں نے لندن میں ” انجمن ترقی پسند مصنفین ” کے قیام کا اعلان کیا۔

اس کا پہلا با قاعدہ اجلاس پریم چند کی صدارت میں، بمقام لکھنو 1936 میں ہوا اور اپنے ساتھ ادیبوں کے لیے ایک منشور بھی لایا۔

اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء کا تیسرا دور

افسانے کا تیسرا دوریہ دور جسے اردو افسانے کا تیسرا دور کہنا چاہیے، 1947 یعنی ہندوستان کی تقسیم یا قیام پاکستان کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دور کے افسانوں پر دوسری جنگ عظیم کی تباہیوں ، ان تباہیوں سے پیدا ہونے والے خوف کے نتیجے میں بے یقینی و بےاعتمادی کے اثرات بھی کم نہیں ہیں۔

لیکن اس سے بھی نمایاں خصوصیات، اس دور کی یہ ہیں کہ ہندوستان کی طرح افسانہ نگار بھی دو حصوں میں بٹ گئے ، زبان اور سماجی مسائل کی روشنی میں اگر چہ ان کی پوزیشن ایک سی نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہندوستان کے ساتھ ان کی جغرافیائی حدود ، ان کی قومیتیں ، ان کی حب الوطنی کی سمتیں ، ان کے سیاسی نظریے، ان کے تہذیبی عقائد اور قومی تشخص کے بارے میں ان کے ذہنی رویے بھی بدل گئے۔ یہ تبدیلیاں ایسی نہ تھیں کہ ادب اور ادیبوں پر ان کا اثر نہ پڑتا۔ اثر پڑا اور ان کی تخلیقات میں بھی رونما ہوا۔

یہ ضرور تھا کہ جو لوگ قیام پاکستان سے پہلے لکھ رہے تھے اور بحیثیت افسانہ نگار مستحکم ہو چکے تھے ان کے یہاں ہندوستان کی تقسیم کی نوعیت نئے لکھنے والوں سے مختلف تھی۔ پرانوں کی تحریریں عموما تامل و تفکر اور توازن و سنجیدگی کا مظہر تھیں جبکہ نئے لکھنے والوں کے یہاں جذبات کا اشتعال بہت نمایاں تھا۔

اس فرق میں سماجی حالات کو اتنا دخل نہ تھا جتنا کہ ذہن و قلم کی پختگی کا تھا۔ حالات تو دونوں کے سامنے ایک جیسے تھے۔ لیکن جیسے اوپر ابھی ذکر آیا، یہ حالات اپنے محرکات و موثرات کے اعتبار سے 1930 اور 1947 کے درمیان ظہور پذیر ہونے والے حالات سے بہت مختلف تھے ۔

متعلقہ سوالات و جوابات

اردو میں افسانہ کہا سے آئی؟

مغریب

اردو میں کس صنف نے تیزی سے ترقی کی؟

افسانہ

اردو افسانے کا سب سے طویل دور کونسا ہے؟

پہلا دور

افسانے کا دوسرا کب سے کب تک ہے؟

1930 سے ترقی پسندی تک

اردو افسانے کا تیسرا دور کب سے شروع ہوتا ہے ؟

تقسیم ہند سے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں