اردو افسانے کا آغازو ارتقاء

اردو افسانے کا آغازو ارتقاء

راشدی الخیری سے اردو افسانے کا اآغاز ہوتا ہے۔ اگر  فنی لحاظ سے دیکھا جائے  پریم چند کو اردو کا پہلا افسانہ نگار  مانا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانہ کے اندرمیں  تبدیلی کیا اور افسانے کو خاص مقام دے کر  حقیقت نگاری کی روایت قائم کی۔

 ڈاکٹر سنبل نگار افسانے کی روایت کے بارے میں رقمطراز ہیں:

"راشد الخیر ی اور سجاد حیدر یلدرم کو بعض اصحاب نے اردو کے اولین افسانہ نگار کہا ہے لیکن فنی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے تو پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگار قرار پاتے ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے کو مستحکم بنیاد عطا کی ۔دیہات کی زندگی اور دیہات کے مسائل کو افسانہ میں جگہ دی۔ حقیقت نگاری کی روایت قائم کی اور سیدھی سادی زبان کو وسیلۂ اظہار بنایا”۔(۱۵)

اردو  افسانے   کی روایت کو پریم چند نے  آگے بڑھایا اور انہوں نے دیگر  موضوعات ک افسانے میں جگہ دی جس سے افسانہ  حقیقت کے قریب معلوم ہونے لگا۔اس کے علاوہ دیہات کے مسائل اور دیگر موضوعات بھی پیش کیا۔ 

ان کے افسانہ نگاری کا  زمانہ وہ ہے جب انہوں نے ۱۹۰۵ء میں پہلا افسانہ  "دنیا کا سب سے انمول رتن ” کے نام سے لکھا۔  ان کا پہلا مجموعہ ”سوز وطن” انگریز  حکومت نے بغاوت کے الزام میں جلا ڈالا۔ ان کے  دیگر  افسانوی مجموعوں میں "پریم بتیسی” اور ” پریم پچیسی” اہم ہیں۔ ان میں پریم چند موضوع اور فن کے اعتبار سے آگے بڑھتے ہیں۔

ان میں اصلاح کے ساتھ ساتھ انہوں نے سماجی  مسائل کو بھی پیش کیا ہے۔اس کے بعد  ۱۹۱۹ء کے بعد  ان کے ہاں  حقیقت نگاری میں  شدت آئی۔اس کے بعد  انھوں نے تقریباً ڈھائی سو افسانے لکھے جو سب کے سب فنی لحاظ سے مضبوط اور صمتنوع ہیں۔ اس ضمن میں  مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں:

یہ بھی پڑھیں: اردو افسانے کا آغاز و ارتقاء pdf

"ابتداء سے ہی پریم چند اپنے دیگر معاصرین سے بہتر افسانہ نگار تھے۔ زبان و بیان کے حوالے سے پریم چند سب سے آگے ہیں۔ داستان سے جڑت پریم چند کے افسانوں کا خاصہ اور قصہ گوئی کا بیانیہ چودھری محمد علی اور حسن نظامی کے ہاں ملتا ہےاور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ آگے چل کر پریم چند نے اپنے بہتر وژن کے سبب دیگر قریبی معاصرین پر واضح برتری حاصل کر لی”۔(۱۶)

پریم چند نے جو بھی لکھا بہترین  لکھا ۔ اان کی  قومی زندگی میں اس روایت کو آگے بڑھانے میں  سجاد حیدر یلدرم بھی پیش پیش رہے۔ سجاد حیدر یلدرم کے ساتھ  اور بھی بہت سے  دوسرے افسانہ نگار  نظر آتے ہیں۔ سید وقار عظیم کی رائے ہے:

"افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں سجاد حیدر کے طرزِ فکر اور اندازِ تخیل کا عکس ہمیں مختلف شکلوں میں تین افسانہ نگاروں کے یہاں نظر آتا ہے۔ نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری  اور حجاب امتیاز علی۔ ان تینوں افسانہ نگاروں کے افسانوں کی دلکشی کا مرکز محبت، رومان اور عورت ہے”۔ (۱۸)

سجاد حیدر یلدرم  کے اثرات جن دوسرے افسانہ نگاروں میں نظر آتے ہیں ان میں نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری اور حجاب امتیاز علی جیسے افسانہ نگار شامل ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم ایک رومانوی افسانہ  نگار تھے۔ ان کے ہاں  جذبات اور تخیل  کا امیزش ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں مرد  اور عورت کی محبت کی تصویر کشی نہایت بہترین انداز میں کی ہے۔دوسرے افسانہ نگار بھی ان کے اثر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

پریم چند کے لکھنے والوں نے زیادہ تر  مواد  حقیقی زندگی سے ہی لیا یوں بعد میں لکھنے والے  ان سے  متاثر ہوئے۔ اس دور  کے بہت سے اور کہانیوں میں ایک  "آشیاں برباد ” جیسی کہانی  ہمارے سامنے آئی  ہیں۔ پریم چند نے سیدھے سادھے بیانیہ انداز میں افسانے  تحریر کئے۔ ان کے افسانوں میں "آخری میلہ”، "شکوہ”، "شکایت”،” نوک جھونک ” جیسے افسانےاہمیت کے حامل  ہیں۔ 

۱۹۳۶ء کے بعد  بہت سارے افسانہ  نگار  سامنے آئے۔ ان میں چند ایسے نام شامل ہیں جنھوں نے بہت جلد ادب میں اپنی جگہ بنائی ۔ مثلاً کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، اختر حسین رائے پوری، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، سعادت حسن منٹو اور احمد علی وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے کے مطابق:

"”کرشن چندر کے زیرِ اثر ہمارے افسانوں میں رومانیت ایک گہری تہہ کی طرح چھا گئی ہے۔ اس سے قبل بھی یلدرم، حجاب امتیاز علی، نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری نے اردو افسانے کو ایک ماورائی فضا میں محدود کر دیا تھا۔ ان کے کردار جذباتی ہیں۔

وہ ذرا سے واقعے پر ابل پڑتے ہیں اور فلسفیانہ تقریریں کرتے ہیں۔ وہ چلنے پھرنے اور محبت کرنے سے زیادہ سوچنے کے عادی ہیں۔رومانیت کا اثر جدید افسانے پر اسی وارثت کے ساتھ آیا ہے”۔ (۱۸)

کرشن چندر سے پہلے لکھنے والوں نے اردو افسانے  کے حوالے سے محدود سوچا  ان میں سے اکثر کے  کردار جذباتی تھے۔ وہ حسن کی آنکھ سے ہر چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کرشن چندر اور ان سے پہلے لکھنے والے جذباتی  اور رومانوی  منزلوں کو طے کر کے ترقی پسندی تک ۔ ان لکھنے والوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپنے مزاج اور شخصیت کی چھاپ اپنی تحریروں پر چھوڑ گئے۔ اندازِ فکر، طرزِ تخیل اور خیالات و احساسات کو اپنے افسانوں میں داخل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلوب اور فن کے نئے نئے تجربے بھی کئے۔

مختصر افسانے کو مزید وسعتوں اور بلندیوں سے آشنا کیا۔ ۱۹۴۷ء تک بہت سے افسانہ نگاروں   نے افسانے کے فن کو بلند کیا جن میں علی عباس حسینی، کوثر چاند پوری اور اعظم  کرلوی جیسے بزرگ بھی  شامل ہیں اور بیدی کرشن چندر ،منٹو، احمد علی،  اختر انصاری، سہیل عظیم آبادی، آغا بابر، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، رضیہ فصیح، سجاد ظہیر، غلام عباس،

انتظار حسین، شفیق الرحمٰن، احمد ندیم قاسمی اور نئے موضوعات کی تلاش میں افسانہ نگاروں کے ساتھ قدم بقدم  چلنے کی کوشش کی۔ رشید جہاں کی رفتار سست ہوئی  لیکن عصمت چغتائی ،

خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور اور رضیہ فصیح  وغیرہ نے اس رفتار کو تیز کیا۔ اس دور میں افسانے کی تکنیک کے حوالے سے جو نام  نظر  آتے ہیں ان میں ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، احمد ندیم قاسمی اور قراۃ العین حیدر شامل ہیں۔ اس ضمن میں غلام ثقلین نقوی لکھتے ہیں:

"تکنیک کے لحاظ سے جدید افسانہ بہت ترقی کر گیا ہے۔ تکنیک کے نئے تجربے ہوتے ہیں۔ پرانے لکھنے والوں نے بھی افسانے کو تکنیکی ارتقاء بخشا ہے۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، غلام عباس،

احمد ندیم قاسمی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، قراۃ العین حیدر  اور دوسرے افسانہ نگاروں کے جو تقسیم کے بعد صفحہ قرطاس پر منتقل ہوئے تکنیکی لحاظ سے ان کے پہلے افسانوں سے کئی قدم آگے ہیں۔ ان میں جذبات کا جوش کم اور داخلی آہنگ زیادہ ابھرا ہوا ہے”۔(۱۹)

کرشن چند رنے اردو افسانے کو جس روایت سے  روشناس کرایا۔ اس کی وجہ سے انہیں بہت   شہرت ملی۔ جو بہت کم افسانہ نگاروں کو حاصل  ہوتی ہے۔کرشن چندر کی افسانہ نگاری کی آبتداس زمانے میں ہوئی جب دنیا ایک اقتصادی بحران  جاری تھا۔ ہر طرف فسادات، تقسیم ملک کے مسائل، قحط یہ وغیرہ سے دنیا گزر رہی تھی۔ انھوں نے یہ سب  دیکھا اور اس سے متاثر ہو کر افسانے لکھے۔

۱۹۴۹ء میں سیاسی تبدیلیوں کی حمایت میں عورتوں نے ایک جلوس نکالا جس پر گولیاں چلائی گئیں۔ اس واقعےسے متاثر ہو کر انہوں نے  افسانہ "برہمپترا” لکھا۔ اس افسانے میں مزدوروں کے مسائل بیان کئے۔ ملوں میں ہڑتال ہوئی۔ حکومت نے مزدوروں پر گولی چلائی۔ کرشن چندر  نیے اس پر  ” پھول سُرخ ہیں” افسانہ  لکھ کر اس واقعے  کو یادگار بنادیا۔  کرشن چندر ایک حقیقت پسند  تخلیق کار   ہیں۔

ان کے دیگر افسانوں میں "کالا سورج” ، "بالکونی”، "ہم وحشی ہیں”، "مہا لکشمی کا پل”، "ان داتا”، "پھانسی کے سائے”، "تھالی کا بینگن” اور "پشاور ایسپریس” وغیرہ شامل ہیں۔مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی اس روایت کو آگے بڑھا یا۔

حالانکہ اس زمانے  میں عورتوں نے  زیادہ  پڑھا  نہیں تھا ۔ سر سید احمد کی تحریک نے عورتوں میں  تعلیم کے رجحان کو جنم دیا تو "شریف بی بی” اور ” تہذیبِ نسواں” جیسے رسائل جاری  کئے گئے۔ بیسویں صدی میں عورتوں کے اندر حصولِ علم کے  نئے انداز کو   شیخ عبد القادر، شیخ محمد اکرم اور مولانا راشد نے پیدا کی۔  دہلی سے "عصمت ” نام کا   ایک رسالہ ۱۹۰۸ء میں جاری ہوا ۔ اس رسالے میں مولانا راش الخیری نے بہت سے  ایسے مضامین اور افسانے تحریر کئے  جو خواتین کے فرضی ناموں سے شائع ہوئے۔ آہستہ آہستہ خواتین میں بھی لکھنے کا شوق پیدا ہو۔

اردو افسانے کے حوالے مکمل مواد یہاں دیکھیں

ماخذ: اشفاق احمد کی افسانہ نگاری ایک محبت سو افسانے کے تناظر میں

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں