اردو افسانہ: سماجی، سیاسی و عصری تناظر

ادب اپنے عہد اور اس سے متعلق افراد کے نظریات، خیالات اور تحریکات کا عکاس ہوتا ہے ، انسانی تاریخ اور سماج دونوں ادب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہم اردو افسانے کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کا تغیر ادب کو متاثر کرتا ہے۔

ادب اور سماج ایک ہی سکے کے دو رُخ کہے جاسکتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں بلکہ ایک دوسرے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ زندگی میں یکسانیت کا پہلو یا تصور نا پید ہے۔ آئے دن رو نما ہونے والی تبدیلیاں اور انقلابات انفرادی و جتماعی سطح پر فرد اور معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔

تخلیق کار کا تعلق بھی چونکہ سماج سے ہوتا ہے اس لیے وہ ان اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ان کو اپنے اندر سمو تا ہے. اس اعتبار سے افسانہ نگاری کی صنف اس حوالے سے ہمیشہ آگے رہی کہ اُس نے بدلتے وقت ، اس کے تقاضوں اور رجحانات کے ذریعے نہ صرف موضوعات کو وسعت بلکہ اُس کی جہات میں بھی اضافہ کیا۔ ہم اگر ادوار کے اعتبار سے اُردو افسانے کو دیکھیں تو اُس نے نہ صرف مخصوص عہد اور اس کے اثرات کو مکمل طور پر اپنے اندر جذب کیا ۔

اس کے ساتھ ساتھ بدلتے زمانے کے زیر اثر تکنیک ، ہیئت اور ساخت کی تبدیلیوں کو بھی قبول کیا اور اسلوب کے حوالے سے بھی متنوع تجربات سے گزرتا رہا۔ اردو افسانہ نگاری کا ابتدا اور نشو نما اگرچہ بیسویں صدی کے ادبی شعور اور ذہنی ارتقا میں ہوئی جبکہ افسانہ خود ایک نئے شعور کا اظہار اور نئی دریافت کا نام ہے جو اپنی تہہ در تہہ معنوی خصوصیات کی وجہ سے کہانی کی اُس پرت کا عکس معلوم ہوتا ہے جس کا ارتقا انیسویں صدی کے یورپ میں ہوا۔

افسانہ نگاری کی ابتدا مغرب میں انیسویں صدی کے آخر میں ہوئی مگر اردو میں اس کی ابتدا پریم چند سے بھی کچھ پہلے یلدرم کے افسانوں سے کہی جاسکتی ہے۔

اور پریم چند سے پہلے اور ان کے وقت میں بھی کچھ ایسے خاکے اور تحریریں پڑھنے کو ملتے ہیں جنہیں افسانے کے ابتدائی اور غیر شعوری نقوش قرار دیا جا سکتا ہے مگر ان میں افسانے کے تشکیلی عناصر اور لوازمات کو صحیح طور پر برتا نہیں گیا لیکن نصف صدی کے اندر اندر افسانے نے معاشرتی زندگی میں داخل ہو کر بنی نوع انسان کے دُکھ ، خوشی،الجھن، نظر اور دیگر سماجی مسائل کو نہ صرف پیش کیا بلکہ انھیں فنی محاسن اور افسانوی اسلوب کے دائرے میں سمو دیا۔

اردو افسانہ ابتدا ہی سے سماجی عناصر کی کار فرمائی سے متاثر رہا ہے۔

"ترقی پسند افسانے نے نہ صرف حقیقی زندگی کی بلکہ عہد نو کے تقاضوں کو بھی مد نظر رکھا اور روایت کا بھی احترام کیا ۔ "

اردو افسانے کی روایت ہی سماجی رہی ہے۔ یہ اپنے آغاز ہی سے مختلف فکری رویوں کا حامل اور لب و لہجے اور طرز احساس کے اعتبار سے دو واضح حصوں میں تقسیم ہو گیا جس میں ایک حصہ رومان اور تخیل کی رنگینیوں میں لپٹا ہوا نظر آتا ہے جہاں فرد اپنی ذہنی و جذباتی آزادی اور فطری مسرت کے لیے کوشاں دکھائی دیتا ہے۔

جبکہ دوسری طرف بے بسی، مجبوری ، نو آبادیاتی نظام سے نفرت، غربت افلاس، عدم اطمانیت کا احساس اور دیگر مسائل کو تقدیر ماننے سے گریز ، ایک نئے لب و لہجے کو پروان چڑھارہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں لکھے جانے والے افسانوں کے موضوعات آتش فشاں کی حیثیت رکھتے تھے۔

اردو افسانہ لکھنے والے کبھی بھی اپنے ماحول اور مسائل سے بے گانہ نہیں رہے، انھوں نے وقت کی آواز کو ہر دور میں سنا اور زندگی کے تقاضوں اور مسائل سے اجتناب نہیں برتا۔ بیسویں صدی کے افسانوں کے موضوعات کے بارے میں ڈاکٹر محمد حسن کہتے ہیں: زندگی کا کھو کھلا پن ، رومان اور اس کی حرماں نصیبی مثبت دور زندگی کے مسح کیے ہوئے کردار اور شخصیتیں ہنگامی اور سیاسی موضوعات ، جنس اس کی لذتیت اور اُس کی چیرہ دستیاں ، اس کی خام کاریاں سبھی کچھ ابھر کر اردو افسانے میں سامنے آئے۔

گویا اردو افسانے نے ہر دور کے سماج کو اپنے اندر سموئے رکھا۔ تقسیم کے بعد سماجی رویے تبدیل ہوئے اور عوامی منظر نامے میں بھی واضح فرق دکھائی دیا تو افسانے کے موضوعات میں مزید تنوع اور تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔

آزادی کی تحریک اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خون ریزی اور انسانیت سوز رویوں نے حساس تخلیق کاروں کو متاثر کیا جنہوں نے اس قتل عام اور زندگی کے سفاکانہ پہلو پر بہت سی کہانیاں لکھیں۔

سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر ، احمد ندیم قاسمی اور قدرت اللہ شہاب نے شاہکار افسانے تخلیق کیے۔ کرشن چندر کا افسانوی مجموعہ "ہم وحشی ہیں”، سعادت حسن منٹو کا افسانہ "کھول دو” ، "ٹو بہ ٹیک سنگھ ” اور ” نیا قانون ” قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ” پر میشر سنگھ ” اور قدرت اللہ شہاب کا ” یا خدا” کے علاوہ بھی بے شمار کہانیاں اس ہولناکی کی تاریخ رقم کرتی ہیں۔

‏تقسیم ہند اور فسادات کے بعد خصوصاً 1960ء اور 1980ء کے درمیانی عرصے میں قومی اور بین الا قوامی سطح پر سیاسی و سماجی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا، چھوٹی ریاستوں میں سیاسی شعور کی بیداری، جنوبی ایشیا اور افریقہ کی غلام اقوام میں استحصال کے خلاف نئی تنظیموں کا جنم ، ویت نام اور فلسطین کے مسائل، بنگلہ دیش اور برما سے مسلمانوں کا انخلا اور ہجرت، افغانستان میں روسی فوج کی مداخلت نے عالمی سطح پر اپنے اثرات چھوڑے۔

تو اس سیاسی و سماجی تغیر کو پاکستان میں بھی ہر سطح پر محسوس کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں جمہوریت کی ناکامی ، مارشل لا کا بار بار لگنا، سقوط ڈھا کہ ، معاشی و معاشرتی عدم مساوات ان سب کی جھلک اس عہد کے افسانے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر افضال لکھتے ہیں :

پاکستان میں رونما ہونے والے ہر واقعہ نے بالعموم ہمارے ادب اور بالخصوص اردو فکشن (افسانہ، ناول) پر اثر ڈالا، وہ فسادات کا سانحہ ہو یا ہجرت کا کرب 1958 ء کا مارشل لاء ہو یا 1977ء کا مارشل لاء، پاک بھارت جنگ ہو یا سقوط ڈھاکہ کا المیہ ، سبھی نے ہماری قومی زندگی کو متاثر کیا۔

ان واقعات سے نہ صرف ہماری تاریخ کاراستہ متعین ہوتا ہے بلکہ ہمارے تخلیقی ادب کا مزاج بھی پروان چڑھتاد کھائی دیتا ہے ۔ 3

گویا پاکستانی افسانہ نگاروں نے ہر عہد کو اس کے تمام منظروں کے ساتھ افسانے میں محفوظ کر لیا اور یوں افسانہ اپنے عہد کا ترجمان بن گیا۔

یہ الگ بات کہ ہر تخلیق کار نے سماج کے مختلف پہلوؤں کو موضوع بنایا مثلاً کچھ نے اپنی تحریروں میں سماج کے مخصوص طبقات کے حوالے سے لکھا کچھ نے دیہی زندگی کی عکاسی کی، کسی نے شہری اور جدید صنعتی زندگی سے جڑے مسائل کو موضوع بنایا تو کچھ نے سماجی زندگی کے ہر پہلو کو سمیٹنے کی کوشش کی۔

پاکستانی اردو افسانے میں احمد ندیم قاسمی کے ہاں ہمیں بیدی کی کہایوں سے ملتے جلتے منظر نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی معاشی، معاشرتی، ناہمواریاں اور انسانی رویوں کے تضادات کے موضوع نظر آتے ہیں۔

پریم چند کی طرح انھوں نے اپنی کہانیوں میں زیادہ تر گاؤ کی زندگی کو پیش کیا ہے جہاں جبر اور ظلم کی چکی میں پستا ہوا کسان، دہیی مزدور اور اس کی زندگی کو انھوں نے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔

اُن کے افسانوی مجموعے "چوپال”، "بگولے "، ” نیلا پتھر ” اور ” سناٹا اُن کے سماجی شعور کی عکاسی کرتے ہیں۔ کرشن چندر اشتراکی فکر رکھنے والے طبقے میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔

اشتراکیت چونکہ ایک سیاسی اور معاشی فلسفہ تھا جس کے نظریات کے مطابق غریبوں، مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی جاتی تھی اور استحصالی طبقات کے خلاف احتجاج۔

لہذا کرشن چندر نے بھی اپنی فکر اور فن کو ان ہی بنیادوں پر استوار کیا، طبقاتی نظام ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کسانوں، مزدوروں کی بے بسی کے ساتھ وہ تمام قوتیں بھی اُن کی نفرت کا ہدف تھیں جو ہندوستان پر سیاسی و معاشی غلامی مسلط کر رہی تھیں۔

ان کا افسانہ ” دو فرلانگ لمبی سڑک ” ایسی ہی کہانی ہے جہاں صرف ڈیڑھ فرلانگ پر وہ سبھی نا انصافیاں ، ظلم، جبر اور طبقاتی تفاوت وقوع پذیر ہوتی نظر آتی ہے اور یہ ڈیڑھ فرلانگ لمبی سڑک پورے ہندوستان کی علامت بن جاتی ہے۔

(یہ تحریر جاری ہے)

(ڈاکٹر صباحت مشتاق لیکچرر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر

سائرہ بتول اسسٹنٹ پروفیسر, بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد

پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز، یونیورسٹی آف کراچی، کراچی)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں