مجموعہ اددھ کھلا دریچہ انتخاب از سانول رمضان

اددھ کھلا دریچہ انتخاب

        سانولی! تو مرے پہل میں ہے

۔۔۔۔۔
میں وہ جھوٹا ہوں
کہ اپنی شاعری میں آنسووں کا ذکر کرتا ہوں
مگر روتا نہیں ۔۔۔۔
(میں اور تو)
۔۔۔۔۔
اپنے آپ سے لڑتے لڑتے ایک زمانہ بیت گیا
اب میں اپنے جسم کے بکھرے ٹکڑوں کے انبار پہ بیٹھا
سوچ رہا ہوں ۔۔۔
میرا ان سے کیا رشتہ ہے؟
(یادوں کی زنجیریں)
۔۔۔۔۔۔
🍀🍀🍀
۔۔۔۔۔۔
دم گھٹا جاتا ہے ان شہروں کی آوازوں سے
بند کر دوں یہ دریچہ تو ہوا آئے گی

اس ہوا میں کئی چہرے بھی نظر آئیں گے
انہیں چہروں سے محبت کی ضیاء آئے گی
۔۔۔۔۔۔
آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی

وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ کھولو آنکھیں
ابھی محسوس کیے جاؤ رفاقت اس کی

وہ کہیں جان نہ لے، ریت ٹیلا ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی
۔۔۔۔۔
طلوع مہر کا مطلب سکون دل نہیں ہوتا
جو شب کے بعد آتی ہے سحر اس کو نہیں کہتے

تجسس شرط، کنجِ عافیت تو دل میں ہوتا ہے
جہاں ہم رات کو سوتے ہیں گھر اس کو نہیں کہتے

جہاں تصویر ہوتی ہے وہاں آنکھیں نہیں ہوتیں
جو سب کچھ دیکھتا ہے، دیدہ ور اس کو نہیں کہتے

کھڑا تھا دھوپ کے رستے میں جو دیوار کی صورت
وہ سایہ کھو چکا ہے اب شجر اس کو نہیں کہتے

وہ اک شے جو ہمیں تخلیق پر مجبور کرتی ہے
اسے تقدیر کہتے ہیں ہنر اس کو نہیں کہتے
۔۔۔۔۔۔
یہ دیواریں اور دروازے سب آنکھوں کا دھوکہ ہیں
کہنے کو ہر باب کھلا ہے اور کھلا کوئی بھی نہیں

چہرے جانے پہچانے تھے روحیں بدلی بدلی تھیں
سب نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور ملا کوئی بھی نہیں

ایک سے منظر دیکھ دیکھ کے آنکھیں دکھنے لگتی ہیں
اس رستے پر پیڑ بہت ہیں اور ہرا کوئی بھی نہیں
۔۔۔۔
وہ ایک گل جسے کانٹا سمجھ کے پھینک دیا
اداس ہو کے اسے چومنا تو لب کہنا

چراغ لے کے نہیں ڈھونڈتا میں سورج کو
میں اپنا فرض سمجھتا ہوں شب کو شب کہنا
۔۔۔۔۔
چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں
بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے

اجنبی شہروں میں تجھ کو ڈھونڈتا ہوں جس طرح
اک گلی ہر شہر میں تیری گلی جیسی بھی ہے

دھندلا دھندلا ہی سہی رستہ دکھائی تو دیا
اج کا دن ہے غنیمت، روشنی جیسی بھی ہے

اب کہاں لے جائیں سانسوں کی سلگتی اگ کو
زندگی ہے زندگی اچھی بری جیسی بھی ہے
۔۔۔۔
جواز کوئی اگر میری بندگی کا نہیں
میں پوچھتا ہوں، تجھے کیا ملا خدا ہو کر

شہزاد احمد کا سائنسی شعور pdf

میں جس کی آس میں تھا سب کواڑ کھولے ہوئے
گزر گیا وہی لمحہ گریز پا ہو کر

میں برگ تازہ تھا بوڑھے درخت کا دشمن
اور ایک پل نہ جیا، شاخ سے جدا ہو کر

جو آشنا تھے وہ مجھ کو بھلا چکے ہوں گے
میں کیا کروں گا تری قید سے رہا ہو کر
۔۔۔۔۔۔
بنتی رہی وہ ایک سویٹر کو مدتوں
چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے

کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے

پت جھڑ میں اک کلی بھی میسر نہ آ سکی
بس سگرٹوں کی راکھ سے گلدان اٹ گئے

پابندیاں تو صرف لگیں تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ مرے ہاتھ کٹ گئے
۔۔۔۔۔
عمر بھر جن میں زر و مال کو محفوظ کیا
اب اٹھائے نہیں جاتے وہ گھڑے لوگوں سے

سفرِ شوق کا انجام جو ہونا تھا ہوا
تم تو بے فائدہ شہزاد اڑے لوگوں سے

جاری ہے ۔۔۔۔

کتاب(شاعری) :- ادھ کھلا دریچہ
شاعر:- شہزاد احمد
انتخاب:- سانول رمضان

فیس بک اکاونٹ:-
M Sanwal Ramzan

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں