ادب اور نفسیات کا تعلق (رشتہ) | از ڈاکٹر شیبا قمر

ادب اور نفسیات کا تعلق رشتہ

ادب کا تعلق حیات کے ہر گوشے سے ہے جس میں جذبات و احساسات کے علاوہ مشاہدات و تجربات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ادب کا تعلق انسان کے شعوری اور غیر شعوری عمل سے ہے، جس میں اس کے خارجی اور داخلی خیالات کو فن کے پیکر میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے۔

ادب میں سماجی، سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی قدروں کے ساتھ انسانی شخصیت کے عمیق پہلوؤں کی بھی عقدہ کشائی کی گئی ہے۔ اس لئے ادب کا کام نہ صرف سماج میں ہونے والی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ ہر دور کی تاریخ و تہذیب کو زندہ رکھنا بھی ہے۔ لیکن جہاں تک جدید ادب کا تعلق ہے، سماج سے زیادہ فرد کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ سماجی ترقی افراد پر منحصر ہے۔

لہذا سماج کو بہتر بنانے کے لیے فرد کی حالت کو بہتر بنانا ضروری ہے۔یوں تو ہر دور کے ادب میں انسانی فطرت اور ذہنی کشمکش کی جھلکیاں ملتی ہیں، لیکن اس کا با قاعدہ طور پر استعمال علم نفسیات کی ارتقاء کے بعد ہوا، کیونکہ اس سے پہلے سائنسی اور صنعتی انقلاب نے انسان کے اندر ایک خلا پیدا کر دیا، جس نے انسان کے مادی اور روحانی وجود کو ہلا کر رکھ دیا ۔

اگر چہ ترقی پسند تحریک نے انسان کو اس خلا سے باہر نکالنے کی کوشش تو کی لیکن یہاں بھی فرد سے زیادہ سماج کو اہمیت دی گئی اور یہ نہیں سوچا گیا کہ سماجی ترقی کا باعث فرد ہے اور اگر فرد کی ذہنی حالت کو پختہ نہ کیا گیا تو سماج کی حالت خود بخود بدتر ہوتی جائے گی یہی وجہ تھی کہ ادب میں انسانی فطرت کی عقدہ کشائی کو محور بنایا گیا اور کہا گیا کہ ادب ایسا ہونا چاہیے

جو انسانی شعور کی عکاسی کرے اور مکمل حقیقت کو اپنے اندر سمیٹے۔ ولیم جیمس نے اصول نفسیات لکھ کر علم نفسیات کی بنیاد ڈالی، جس کو فرائڈ نے آگے بڑھایا اور تحلیل نفس کا نظریہ پیش کیا۔ اس کا مطلب ذہن میں چھپی ہوئی ہاتوں کا پتا لگاتا ہے۔ شروع میں تحلیل نفس ایک طریقہ علاج تھا، لیکن بعد میں اس کا استعمال جدید ادب میں بھی کیا جانے لگا۔ فرائڈ کے نزدیک انسان جبلتوں اور خواہشوں کا مجموعہ ہے، اس نے جنسی جبلت پر سب سے زیادہ زور دیا، جو انسان میں بچپن ہی سے مضمر ہے،

بس اس کی ہیئت بدلتی رہتی ہے۔ فرائڈ نے اس جنسی قوت کو لبیڈو کہا ہے اور محض مباشرت کی کشمکش کو ہی نہیں بلکہ دہنی انتشار کو بھی جنسی خواہش سے وابستہ کر دیا اور یہ بتایا کہ انسان کی جو خواہشات پوری نہیں ہو پاتیں وہ لاشعور میں چلی جاتی ہیں اور ظاہر ہونے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ کبھی کبھی ان خواہشوں کا ارتفاع سماج میں قابل قبول طریقوں سے ہوتا ہے اور ادیب ان دبی ہوئی خواہشوں کوفن کے پیکر میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔

فرائڈ کا بنیادی نظریہ تحلیل نفس ہے جس نے فن کار کے تخیلی عمل کی تشریح کی اور بتایا کہ خواب ہماری ان خواہشوں کا اظہار ہیں، جن کو ہم عملی زندگی میں پورا نہیں کر پاتے لیکن خواب میں ان خواہشات کی براک راست شکل نظر نہیں آتی اور ان کا اظہار اشاروں اور کنایوں میں ہوتا ہے۔ فرائڈ کے مطابق خواب تین قسم کے ہوتے ہیں: تمنائی خواب (Wisher Dream) ،

پریشانی کے خواب (Anxiety)‏ ‏(Dream اور تعزیری خواب (Punishment Dream) – انسان کی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل پریشانی کے خواب میں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر قسم کے خوابوں کی تعبیر کے لیے تجزیہ نفس کا سہارا لیا گیا۔ ادب میں بھی ایسے ہی خواب نظر آتے ہیں۔ فرائڈ کے مطابق شاعر بیداری کی حالت میں خواب دیکھتا ہے۔

وہ اپنے موضوع کا غلام نہیں ہوتا ، بلکہ اس پر حاوی ہوتا ہے اور اپنے خوابوں کا رشتہ حقیقت سے جوڑ دیتا ہے۔ فرائد کے ان تصورات کے زیر اثر ادب میں دو طرح کے رجحانات سامنے آئے اول فکری نوعیت کے رجحانات جن کے حوالے سے جنس اور وجود کے ابہام پرمبنی رجحانات نے فروغ پایا مثلاً طفلی حسیت، ایڈپیس کامپلکس ،

تلاش پدر، خواب اور علامات خواب کا استعمال، عہد طفلی کی طرف مراجعت۔ دوسرے تکنیکی نوعیت کے رجحانات ہیں جن کے حوالے سے آزاد تلازمہ خیال، شعور کی رو، داخلی خود کلامی، علامت نگاری، تجریدیت، سر ریلزم وغیرہ کو اہمیت حاصل ہوئی، جس نے فن کے مواد اور ہیئت پر گہرا اثر ڈالا۔فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفس سے ادب میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال شروع ہوا۔

اس کے تحت ایسی تحریریں لکھی گئیں، جن کو الفاظ کے بجائے تفسیر سے سمجھنا ضروری ہو گیا۔ اس کا آغاز انگلستان میں پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا، کیونکہ اس وقت لکھنے والوں کے سامنے حال سے بیزاری اور مستقبل سے مایوسی کا شدید احساس موجود تھا۔

انسان کے اندر تنہائی کا احساس، ذاتی زندگی کا المیہ، تشدد کا جذبہ انتہائی عروج پر پہنچ چکا تھا، یہی وجہ تھی کہ شعور کے بہاؤ کی تکنیک میں کئی طرح کی تکنیکیں استعمال میں آئیں ان میں داخلی تجزیہ اور حیاتی تاثر کافی مقبول ہیں۔ داخلی تجزیہ میں کردار کے تاثرات کو کردار کی زبان سے ادا کرایا جاتا ہے اس میں مصنف مداخلت نہیں کرتا ۔ بعض اوقات یہ خیال اتنے بجھی ہوتے ہیں،

کہ اس کی جڑیں لاشعور سے مل جاتی ہیں، جس کے لیے مصنف کو اشاروں کنایوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ حسیاتی تاثر میں ادیب صرف تاثرات پیش کرتا ہے اس میں شعور کے اس حصہ کو بیان کیا جاتا ہے، جس پر دھیان نہ دیا گیا ہو، اس حالت میں ذہن پر تیزی سے گزرے ہوئے واقعات کا اثر ہوتا ہے۔

حسیاتی تاثر داخلی مونو لاگ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ ایک طرح کی خاموش خود کلامی ہے، جس میں کردار شعور میں بہتا چلا جاتا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ۔

وہ بغیر رکاوٹ اور تشریح کے اپنے تصورات کو پیش کرتا ہے۔ جس کے ذریعہ کردار کی پوری شخصیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ ولیم جیمس نے شعور کی رو کو جوئے رواں سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں ذہن کی ہرلمحہ بدلتی ہوئی کیفیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ وقت کی قید و بند سے آزاد ہے۔ اس میں مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے، جس میں ماضی، حال ومستقبل کے واقعات کو شعوری سطح پر لا کر پیش کیا جاتا ہے اور حال کے واقعات کا سلسلہ ماضی کے واقعات سے جڑ جاتا ہے۔

اس میں خیالات کا شعور سے رشتہ نفسیاتی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی۔ اس لئے زندگی کے پیچیدہ مسائل کو پیش کرنے کے لئے اس تکنیک کا سہارا لیا گیا، جس کی وجہ سے کہانی سے پلاٹ کا خاتمہ ہو گیا ۔ کیونکہ جدید ادیبوں نے محسوس کیا کہ انسان صرف خیر و شر کا مجسمہ نہیں بلکہ نفسیاتی گرہوں کا مجموعہ بھی ہے۔ انسان بیک وقت بزدل ، بہادر ، خوش اخلاق،

بدمعاش وغیرہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے مصنف نے اس تکنیک کے ذریعہ ایک سے زیادہ کرداروں کی پہنی اور نفسیاتی کیفیت کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تکنیک اجتماعی لاشعور کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔

اس میں اختصار کا وصف بھی موجود ہے اور کم سے کم وقت میں فرد کی خارجی و داخلی زندگی اس کے شعور، تحت الشعور اور لاشعور کی مکمل تصویر قاری کی نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔شعور کے اس بہاؤ کو قابو میں رکھنے کے لیے آزاد تلازمہ خیال کے اصول کو عمل میں لایا گیا، جس کا مقصد اس بہاؤ میں منطقی تسلسل پیدا کرنا تھا۔

شعور کی رو کا با قاعدہ طور پر استعمال انگریزی میں جیموائس نے اپنے ناول یولیس (Ulysses) میں کیا۔ فرانسیسی ناول نگاروں میں مارسل پر اوست، ور جینا وولف نے اسے مقبول بنایا۔ اردو میں سجاد ظہیر، قراۃ العین حیدر کے یہاں اس تکنیک کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔فرائڈ کے بعد جس ماہر نفسیات نے ادب پر گہرا اثر ڈالا وہ یونگ ہے، جو ابتدا میں فرائڈ کا نظریہ تحلیل نفس سے متاثر رہا۔ بعد میں اپنا الگ نظریہ پیش کیا، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے،

لیکن جہاں تک فن کار کا تعلق ہے یونگ نے فن کار کو دوہری شخصیت ( نفسیاتی اور تخیلی ) کا مالک بتایا ہے اور اجتماعی لاشعور کو تخیلی عمل کا سر چشمہ قرار دیا یعنی جب کوئی انسان شعور کو وقت کی رفتار کے مطابق نہیں ڈھال پاتا تو اجتماعی لاشعور حرکت میں آتا ہے اور فن کار اس کے ذریعہ نوع انسان کی ان شدید خواہشوں کا اظہار کرتا ہے،

جو اس عہد کی خامیوں کو رد کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ اس کے علاوہ ایڈلر کے مطابق ادب اور فن احساس کمتری کی تلافی کا ذریعہ ہیں جس کا استعمال ادیب اپنی ذہنی و جسمانی احساس کمتری کو دور کرنے کے لیے کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فرائڈ نے ادیب کو نیوراتی کہا۔فرائڈ نے تحلیل نفس سے یہ ثابت کیا کہ پن کار نیوراتی ہوتا ہے اور تخلیقی عمل نیوراتی عمل ہے جسے فن کار تخلیق کے وقت استعمال کرتا ہے، لیکن بعد میں وہ حقیقی دنیا سے اپنا رشتہ جوڑ لیتا ہے۔ دراصل تخیلی عمل کا سر چشمہ لاشعور ہے اور ان کا اپنی لاشعوری خواہشات کو فن کے پیرائے میں بیان کرتا ہے، جس سے وہ نا آسودگی کا شکار نہیں ہوتا ۔

ادیب اور فن کار لا شعور بیک وقت تحت العقل اور فوق العقل ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ شراب نوشی کے بعد جب شعور کام نہیں کرتا، تو تحت الشعور حرکت میں آ کر تخلیقی قوت کو بڑھاوا دیتا ہے اور فن کا ظہور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ادیب مادیت پرست (Sadist) بھی ہوتے ہیں۔

جنھیں تکلیف میں مزا آتا ہے وہ مستقل طور پر سماج سے بغاوت کرتے ہیں اور نیورسس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ نیوراتی وہ ہے، جو بغیر جانے ہوئے اپنے دفاعی عمل کا استعمال کرے۔ ادیب کی دوسری نیوراتی علامتوں میں بھی یہی دفاعی عمل کار فرما ہیں۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں فرائیڈین نفسیات کے زیر اثر مغرب میں دادا ازم اور سرریلیزم کی تحریکیں شروع ہوئیں۔

دادا ازم دراصل وکٹورین عہد کے معیارات اور ضابطوں کے خلاف نوجوان نسل کی بغاوت تھی ، جس کو فرائیڈین نظریات نے مقبول بنایا۔ دادا ازم کے بانیوں نے ادب، فن، فلسفہ اخلاقیات، مذہب، اقدار، روایات غرض ہر شے کی افادیت اور معنویت سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے لاشعوری کیفیات کی بے ترتیبی کو معیار بنایا اور ادب اور فن میں اظہار کی کوشش کی۔ اس تحریک کے پیش روؤں میں ہیوگو بال ،

ٹرسٹن زارا، الٹائین اور آندرے بریتون کے نام نمایاں ہیں۔ ان میں آندرے بر تیون نے بعد میں اپنا راستہ الگ کر لیا اور سر ریزم تحریک کی بنیاد رکھی ۔

سر ریلزم تحریک دادا ازم کی بے معنویت کے برعکس انتشار اور لاشعوری وسعتوں میں ایک نئی دنیا کی تلاش تھی۔ اس کا محور محض حقیقت کے خلاف بغاوت نہیں تھا بلکہ حقیقت سے ماورا ایک اور حقیقت کی تلاش تھی۔ سر ریلزم تحریک کی بنیاد بھی تحلیل نفس اور لاشعوری نظریات پر رکھی گئی اس میں فن کار لاشعور کی گہرائیوں سے اپنا مواد اخذ کرتا ہے اور حقیقت کو اس کے اصل روپ میں پیش کرتا ہے۔

سرریلیزم میں ذہن کے غیر عقلی ، شعوری اور لاشعوری عناصر کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ بظاہر جو جذبات و احساسات ہے ربط اور منتشر نظر آتے ہیں ان

میں ایک خاص ربط تو ہوتا ہے پر اس کا تعلق شعور سے نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر سماجی و اخلاقی رسوم کی پابندی عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک اردو افسانے کا تعلق ہے، اس میں اہم نام کرشن چندر کا ہے، جس نے اپنے مجموعہ پرانے خدا میں پہلی بار ماورائے حقیقت پسندی سے روشناس کرایا۔

اس کے علاوہ عزیز احمد کا جھوٹا خواب ،احمد علی کا ” موت سے پہلے اور قید خانہ قراۃ العین حیدر کا یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے، انور سجاد کے مجموعے چوراہا استعارے اور سریندر پرکاش کا مجموعہ

دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم میں سر ریلزم کی کیفیت جابجا نظر آتی ہے۔جدید نفسیات سے متعلق ایک اور تحریک اظہاریت (Expressionism) ہے، جو سر ریزم سے ملتی جلتی ہے۔ لفظ اظہاریت پینٹنگ (Painting) سے لیا گیا ہے، جس کا مقصد فطرت کے مناظر کی ہو بہو نقل نہیں تھا، بلکہ فن کو ایک ذریعہ بنا کرفن کار کی اپنی روحانی زندگی کے رد عمل کا اظہار کرنا تھا، جو اطالوی مفکر کروچے کی بدولت سامنے آئی۔

کروچے کسی تاثر کی خوبصورت تشکیل کو تو مانتا ہے، لیکن اس کے بیرونی اظہار کو ضروری نہیں سمجھتا۔ اس کے خیال میں فن صرف داخلی و انفرادی عمل ہے، جس کی تکمیل ذہن میں ہو جاتی ہے،

اس کا بیرونی اظہار ضروری نہیں، اس لئے اس نے فن کے اظہار کو منافی قرار دیا۔ یہاں بھی بنیادی زور ذہنی تصورات، خیال، تاثر یا احساس پر دیا گیا ، جو انسان کو خارجی دنیا کے حقائق سے دور لے جاتے ہیں۔ یعنی جب کوئی تاثر یا احساس ذہن پر پوری شدت کے ساتھ حاوی ہو جائے تو یہی اظہاریت ہے۔جدید ادب میں داخلی مسائل کا اظہار بھی نفسیات کا مرہین منت ہے، کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں جب ہندو مسلم کشمکش کا عروج ،

انگریزوں کے خلاف مزاحمت، سماجی ومذہبی پریشانیوں اور دیگر مسائل نے انسان کو شدید تذبذب کا شکار بنادیا، تو علم نفسیات نے فرد کو اس خلا سے باہر نکالنے کی پرزور کوشش کی ، جس کا اثر ادب پر بھی پڑا اردو افسانہ بھی انہی حالات کا پروردہ ہے۔

جدید نفسیات کی طرف اردو افسانے کا جھکاؤ نئے عہد کی ضروریات کے پیش نظر تھا کیونکہ اس عہد میں سب سے اہم مسئلہ جو ابھر کر سامنے آیا وہ جنس کا تھا۔ اردو ادب میں جنس کا رجحان بھی فرائیڈ کے نظریات کی دین ہے۔ کیونکہ جنس ایک ایسا حیاتیاتی عنصر ہے، جو معاشرے، قوم اور علاقے میں یکساں اہمیت کا حامل رہا ہے۔

البتہ معاشرے میں اسے دیکھنے کے زاویے ضرور بدلتے رہے ہیں اور اس کو ہمیشہ مفید رکھنے کی کوشش بھی کی گئی جس کی وجہ سے اس کا استعمال غلط طریقے سے کیا جانے لگا بقول عزیز احمد ہندوستان میں پردے، عورتوں سے دوری ، اور دبی ہوئی جنسی خواہشات کی وجہ سے کسی نہ کسی پیرایہ میں ، نقطہ نظر رجعت پسندانہ ہو یا ترقی پسندانہ جنس ہمیشہ دل و دماغ پر حاوی رہتی ہے ۔1(عزیز احمد، ترقی پسند ادب، چمن بک ڈپو، اردو بازار دیلی پس ۲۶)

فرائڈ نے باضابطہ طور پر نفسیات کو ایک علم کی شکل میں پیش کیا اور فرد کی داخلی کیفیت کو سمجھنے کا راستہ دکھایا لیکن جہاں تک افسانے کا تعلق ہے 19ویں صدی کے اردو افسانوں میں مارکس اور فرائڈ کے اثرات ایک ساتھ داخل ہوئے، جس کی وجہ سے طبقاتی کشمکش اور جنسی جبر کو افسانہ نگاروں نے اپنی تحریروں کا موضوع بنایا اور خارجی و داخلی مسائل کی ترجمانی ایک ساتھ کی، جس کی بہترین مثال انگارے ہے۔

انگارے کے افسانوں میں بورژوائی استحصال اور جنسی جبر دونوں ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ فرائڈ نے بھی جنسی جذبہ کو ایک فطری عمل قرار دیا اور بتایا کہ اگر فطری راستے مقید کر دیے جائیں تو اس کا اظہار غیر فطری اور مریضانہ طور پر ہوگا ۔ ‘انگارے” کے مصنفین نے بھی اپنے افسانوں میں فرد کی غیر فطری اور مریضانہ کیفیت کا اظہار کیا ہے۔ ان افسانہ نگاروں نے نہ صرف فرائڈ کے نظریہ جنس سے استفادہ کیا، بلکہ کرداروں کی وضاحت کے لیے تحلیل نفس کی بھی مدد لی ۔ انھوں نے پہلی بار افسانوں میں آزاد تلازمہ خیال، شعور کی رو اور داخلی خود کلامی کا تجزیہ کیا ،

جس نے مروجہ ہیئت کو توڑ دیا اور فکر کا نیا معیار قائم کیا۔ یہ تبدیلی سماجی انقلاب اور معاشرے کے خلاف بغاوت کی تیز لہر تھی ، بقول خلیل الرحمن اعظمی: انگارے کے مصنفین کے یہاں جو بے لگام حقیقت نگاری ہے وہ قدیم معاشرے اور اخلاق و قوانین کے خلاف ایک وحشیانہ بغاوت ہے۔

ان افسانہ نگاروں پر کچھ تو مغربی افسانہ نگاروں کے مطالعے کا اثر ہے خاص طور پر ڈی ایچ لارنس اور جیمس جو اُس وغیرہ کا اور کچھ اردو کے رومانی ادیبوں کی ان تحریروں کا جن میں فرسودہ اخلاقی نظام کے خلاف

ایک انقلابی رومانیت اور شوخ و بے باکانہ انداز نگارش ملتا ہے۔ قاضی عبد الغفار کے لیلیٰ کے خطوط اور نیاز فتحپوری کے جنت کی حقیقت میں انگارے کے نوجوان افسانہ نگاروں کی وہ دبی ہوئی چنگاریاں ہیں جو موقع پانے پر شعلہ بن گئیں ۔ (خلیل الرحمن اعظمی ، اردو میں ترقی پسنداد بی تحریک ہیں ۱۷۹)

فرائڈ کے نظریات نے ایڈا اور لبیڈو کی صورت میں ادب کا رخ تلخ حقیقت کی طرف موڑ دیا، جس نے معاشرے میں خارجی ہلچل پیدا کر دی اور لوگوں نے اس صداقت کو فحش اور عریانیت سے تعبیر کیا، لیکن یہ سچ نہیں تھا، بلکہ افسانہ نگار زندگی کی ایک نئی تصویر پیش کرنا چاہتے تھے

اس لیے انھوں نے سماجی گندگی، جنسی زدگی ، مریضانہ داخلیت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ انگریزی ادبیات میں جنس نگاری کو فحاشی و عریانی کے لئے لفظ Pornography استعمال ہوا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں، ایک عورت و مرد کے مجامعت کا بیان دوسرا جنسی انحرافات، جس میں ہم جنسیت ، ایذا طلبی، ایڈا کوشی، سادیت پسندی، بچوں اور جانوروں کے ساتھ بد فعلی و زیادتی وغیرہ شامل ہیں۔ غرض کہ افسانوں میں نہ صرف جنس کا بیان ہے بلکہ اس میں معنویت بھی ہے۔

مثلاً عصمت چغتائی کا لحاف اور حسن عسکری کا پھسلن ۔ ان افسانوں میں جنسیت کے دونوں پہلو ہیں۔ ”لحافی“ میں عورت کا عورت سے جنسی تعلق یعنی Lesbianism اور پھسلن میں مرد کا مرد سے جنسی تعلق یعنی ‏Homo Sexual کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ منٹو کے افسانے ” پھاہا، بو، بلاؤز، پڑھیے کلمہ اور میرا نام رادھا ہے۔ ممتاز مفتی کے افسانے کالے سلیپر اور بد معاش وغیرہ میں جنسی سادیت ومساکیت کی بہترین مثالیں ہیں۔

یہ افسانے سماجی حقیقت کے غماز ہیں۔ ان افسانہ نگاروں کا مقصد فحش یا عریانیت نہیں تھا، بلکہ چند پرانے ناسور کو اجاگر کر کے انہیں بے نقاب کرنا تھا، تا کہ فرد کو جنسی گھٹن سے باہر لایا جا سکے جس طرح ڈاکٹر اپنے مریض کا زخم صاف کر کے اس کا علاج کرتا ہے۔ 19ویں صدی میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جس نے اپنے افسانوں کی بنیاد خارجی پہلوؤں پر رکھی۔

ان لوگوں نے فرد کے داخلی مسائل سے زیادہ سماج کو اہمیت دی اور معاشرے کی مصوری خارجی سطح پر کی۔ اس گروہ کے لکھنے والوں نے اپنے نظریات کی بنیاد مارکسی نظریات پر رکھی۔ اس میں پہلا نام پریم چند کا ہے۔ جس نے فرد کی زندگی کا مطالعہ سماجی، معاشرتی اور سیاسی نقطہ نظر سے کیا اور حقیقت نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔

ابتدائی تیس سالوں میں اردو افسانہ جن جن مراحل سے گزرا اس کی آئینہ داری پریم چند کے افسانوں سے ہوتی ہے۔ مغرب میں حقیقت پسند افسانہ نگاروں میں ترکنیف ، موپاساں، چیخوف، طالسائی، بالزاک وغیرہ ہیں جن کا اثر اردو افسانے پر پڑا۔ اردو میں ترقی پسند افسانہ نگاروں میں پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، اوپندر ناتھ اشک،

احمد ندیم قاسمی، اختر اور بنوی وغیرہ ہیں، جس کا غالب رجحان سماجی حقائق کی مصوری کی طرف تھا۔ اردو کے ابتدائی دور میں اس رجحان کے تحت لکھے گئے افسانوں میں بیدی کا لاجونتی احمد کا مہاوٹوں کی ایک رات سجاد ظہیر کا نیند نہیں آتی منٹو کا ہتک شیر محمد اختر کا ماں، قدرت اللہ شہاب کا دور نگا ممتاز مفتی کا خواب عصمت کا چوتھی کا جوڑا حسن عسکری کا حرام جادی وغیرہ اہم ہیں۔

ان افسانوں میں خارجی عمل کے ساتھ داخلی مرقع بھی پیش کیا گیا، جن پر فرائڈ کی تحلیل نفس اور جنسی رجحانات کا اثر غالب ہے اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ فرد کے ہر خارجی عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی داخلی محرک ضرور ہوتا ہے۔

ان محرکات کو پوشیدہ رکھنے کے لیے افسانہ نگاروں نے علامتوں کا سہارا لیا۔ علامت کے معنی نشان ، کھوج ، سراغ ، اشارہ اور کنایہ کے ہیں۔ اس تحریک کا آغاز فرانسیسی شاعر بود لیر کے شعری مجموعہ بدی کے پھول کی اشاعت کے بعد ہوا۔ علامت در اصل اظہار کا ایک وسیلہ ہے، جس کی تشکیل و تحلیل کسی قوم، علاقے یا فرو تک محدود نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق کسی خاص زمانے سے ہوتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کا ایک فطری ، رواں اور مسلسل عمل ہے۔

اسے ہر عہد کے لوگ اپنی ضرورتوں کے حساب سے علامتیں تشکیل کرکے ان کے معانی متعین کرتے ہیں۔ تخلیقی لحاظ سے علامت کسی شے کی نقل نہیں ہوتی، بلکہ یہ کسی دوسرے شے پر دلالت کرتی ہے ۔ علامتی تحریک کی جہت متعین کرنے والوں میں مارے، درلین، رینمبو اور والیری کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس تحریک سے پہلے بھی ادب میں علامتیں موجود تھی لیکن تحریک کے بعد ہر زبان میں اس کا استعمال کثرت سے کیا جانے لگا، کیونکہ علامت انسان کے لاشعوری خیالات کو واضح کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ اس کے متعلق یونگ کا خیال ہے:”

سمبل لاشعوری تخیل کا پروردہ ہوتا ہے۔ سمبل لاشعور کو شعور سے وابستہ کرتا ہے۔ سمبل شعور کے سفر کا کار خواب ہے۔ جس کی تشکیل عیاں کرنے کے لئے نہیں پوشیدہ رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ اگر چہ سمبل کا استدلالی عصر قابل فہم بنایا جا سکتا ہے لیکن سمبلو کے غیر استدلالی عصر کو پوری طرح کبھی بھی مترشح نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو صرف احساس کے ذریعہ ہی گرفت میں لایا جا سکتا ہے۔

سمبلو میں اظہاری اور تاثراتی ، لاشعوری اور شعوری عناصر اپنے تمام تضاد کے ساتھ یکجا ہوتے ہیں۔ دیویند را تمر ، ادب اور نفسیات ، مکتبہ شاہراہ ، دہلی ، ۱۹۶۳، ص ۸۴) لیکن جہاں تک اردو افسانے کا تعلق ہے اس میں علامت نگاری ایک تحریک کی شکل میں نہیں ملتی ، بلکہ یہ ایک رجحان کی صورت میں نظر آتی ہے، جو ترقی پسند تحریک کے بعد داخل ہوئی۔ افسانے کے ابتدائی دور میں یلدرم، احمد علی، منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی،

قراۃ العین حید ر وغیرہ نے جگہ جگہ علامتوں کا استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد کہانی میں ایک نیا موڑ آیا اور علامت کے ساتھ ساتھ تجریدی افسانے بھی لکھے گئے ، جس کے اثر سے کہانی قدیم راہ سے ہٹ گئی اور پلاٹ غائب ہو گیا۔

ان کہانیوں میں واقعات و حالات کو حقیقی شکل میں پیش کرنے کے بجائے وہ صورت پیش کی جاتی ہے، جو فن کار کے لاشعور سے ابھرتی ہے۔ علامتی و تجریدی افسانہ لکھنے والوں میں انتظار حسین، بلراج مین را کمار پاشی ، سریندر پرکاش، بلراج کومل وغیرہ اہم ہیں۔

جہاں تک ادب اور نفسیات کا تعلق ہے تو نفسیات زیادہ تر تجزیاتی نوعیت کا علم ہے۔ اس علم نے ادب اور فن کے تخلیقی عمل کو زیادہ وضاحت اور نئے ذخیرہ اصطلاحات کے ساتھ بیان کیا ہے، جس کے اثر سے تخیلی کردار کا تجزیہ آسان ہو گیا اور بہت سی چھپی ہوئی صداقتیں کردار کے داخل سے برآمد کر لی گئی اس لیے اب فن شخصیت کا پردہ نہیں رہا بلکہ یہ ادیب کی شخصیت کو عریاں کر ڈالتا ہے۔

ان نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے میں نفسیاتی تنقید اہم رول ادا کرتی ہے۔ اردو میں نفسیاتی تنقید کی بنیاد انھیں نظریات کے تحت وجود میں آئی جس نے ہماری توجہ ادبی حسن کاری اور فن کے تصور سے ہٹا کر ادیب کی زندگی اور شخصیت پر مرکوز کر دی تاکہ الفاظ کے ظاہری معنوں کے پیچھے آباد ایک وسیع دنیا کا مطالعہ کیا جاسکے۔

نفسیاتی تنقید کا اہم کام بھی یہی ہے کہ وہ کسی تخلیق کے وجود میں آنے کے داخلی اسباب و محرکات کی تلاش کرے اور فن کار نے جو علامتیں، استعارے اور تشبیہات استعمال کی ہیں، ان کا نفسیاتی تجزیہ کر کے لاشعوری محرکات کا پتا لگائے۔ انگریزی میں نفسیاتی تنقید کے اچھے نمونے آئی ۔ اے۔ رچرڈسن کے یہاں ملتے ہیں۔

اردو میں نفسیاتی تنقید لکھنے والوں میں میراں جی، وحید الدین سلیم ، حسن عسکری، ریاض احمد، سید شبیہ الحسن، وزیر آغا، سلیم احمد، دیویندرانر، شکیل الرحمن وغیرہ ہیں۔ نفسیاتی تنقید نگاروں نے اُس ادب کو نفسیاتی کہا ، جس میں تحلیل نفس ، لاشعور، اجتماعی لاشعور، احساس کمتری ، شعور کی رو، داخلیت، علامات خواب ، جنسی نفسیات ، نرگسیت ، سر ریلزم وغیرہ کے نقوش پائے جائیں اور کرداروں کے داخل میں جا کر اس کی ذہنی الجھنوں اور پیچیدگیوں کا مطالعہ کیا جائے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: ادب اور نفسیات pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں