ادبی رسائل کی اہمیت و افادیت | مقالہ روبینہ ساقی

ادبی رسائل کی اہمیت و افادیت

انسان کی تخلیقی سرگرمیوں کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے تجربات، اپنی سوچ و فکر اوراپنے خیالات محفوظ کر لینے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں انسان رنگی ہوئی مٹی سے دیواروں کی زیبائش کرتا ،اپنے غاروں اور چٹانوں پر تصویریں بناتا جن کے ذریعے وہ اپنی سوچ ،اپنے خیالات اور اپنی فکر کو محفوظ کرتا۔ رفتہ رفتہ مہروں پر تصویریں کندہ کرنا شروع کیں ۔

پھر جب تحریر کا فن ایجاد ہوا تو انسان نے حروف کی شکل میں اپنے جذبات و احساسات کو مدون کرنا شروع کیا۔ صدیوں بعد چھاپے خانے ایجاد ہوئے اور طباعت کے فن نے ترقی کی جس سے انسان کی تخلیقی کاوشوں کو دوسروں تک پہنچانے میں آسانی ہوئی۔رفتہ رفتہ جرائد و رسائل کا دور آیا جس نے انسانی سوچ و فکر کا دائرہ وسیع کیا اور لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہونا شروع ہوا ۔تقسیم ہند سے قبل ادبی جرائد کی ابتدا گلدستوں کی شکل میں ہوئی تھی۔

جن میں مختلف شعرا کے کلام کو یکجا کر کے شائع کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں ایسے رسائل و جرائد کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا جن میں شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات کو شائع کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی، سماجی اور سیاسی موضوعات کو بھی جگہ دی جاتی تھی۔شاہد احمد دہلوی( مدیر ساقی) ادبی رسائل کی تعریف یوں کرتے ہیں :’’ادبی رسالے وہ رسالے ہوتے ہیں جو ایک مقررہ وقفے سے جدید ادب دوستوں کے لیے مہیا کرتے رہتے ہیں ۔‘‘(۱)

کسی بھی قوم کی پہچان اس کا ادبی ورثہ ہوتا ہے جو اس کا نہایت قیمتی آثاثہ ہوتا ہے۔

قوموں کی شناخت اس کے ادب سے بھی ہوتی ہے ۔یہی ادب "سماجی عمل” کہلاتا ہے کیونکہ ادیب یا شاعر اپنے آس پاس کے حالات کا مشاہدہ کرتا ہے اس کا اثر قبول کرتا ہے اور پھر اس اثر کو الفاظ کا روپ دے کر نہایت خوبصورتی سے اپنی تحریروں میں پیش کر دیتا ہے یعنی جو کچھ زندگی میں ہے وہ بڑی خوبصورتی اور نزاکت کے ساتھ ادب میں عیاں ہوجاتا ہے ۔

ادب ہماری اصل زندگی کو ہمارے سامنے لاتا ہے اور ہمیں خود سے آگاہ کر دیتا ہے ۔ادب کی افادیت کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے تو بلکل درست ہوگا کہ ادب کی اشاعت اور افراد تک رسائی کا مرحلہ جب آتاہے تو پھر لازمی طور پر رسائل کی اہمیت اور افادیت اجاگر ہوتی ہے۔جناب افتخار عارف لکھتے ہیں:

’’ ادبی رسائل اپنے عہد کے تخلیقی سفر کے اہم ترین دستاویزات شمار ہوتے ہیں “(۲)

کسی ملک یا قوم کی ادبی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے اس علاقے کے ادبی رسائل کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ ادبی رسائل ادب تہذیب اور اقدار کو جنم بھی دیتے ہیں اور انہیں محفوظ بھی رکھتے ہیں۔شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں:

’’ رسالوں کا کام ذہنی و فکری رہنمائی کرنا ہے اگر اخبار ہمارے لیے ناگزیر ہیں تو رسالے ان سے بھی زیادہ ناگزیر ہیں کیونکہ کوئی قوم ذہنی ترقی محض اطلاعات کے بل بوتے پر نہیں کر سکتی۔‘‘(۳)

ادبی رسائل کی افادیت اور اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ رسائل اپنے عہد کے مصنفین کی تحریروں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ دراصل یہ اپنے عہد کی آواز ہوتے ہے۔ڈاکٹر انور سدید کے بقول:

’’ ادبی رسالہ عوام کی ذہنی تربیت میں ایک موثر اور فعال قوت کےطور پر کام کرتا ہے۔‘‘(۴)

ادبی رسائل نئے لکھنے والوں میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں ۔انہیں بطور ادیب یا شاعر عوام سے واقف کراتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں ۔انہیں رسائل کے ذریعے ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں عوام تک پہنچتی ہیں ۔ پروفیسر اظہر قادری لکھتے ہیں:’’ کسی قوم کی تاریخی ،تہذیبی ،سیاسی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کو ادب جس طرح پیش کرتا ہے ۔‘‘(۵)

بقول پروفیسر حسن اکبر کمال:

’’ کسی قوم کی تہذیب و ثقافت ،اس کی ترقی کا زینہ اور اعلیٰ انسانی اقدار کا خزینہ ہوتی ہے ۔ادب تہذیب و تزئین حیات کرتا ہے ،انسانی کردار پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور شخصیت کی تشکیل ترتیب و توازن کے عمل میں مددگار اور رہنما ثابت ہوتا ہے۔ ادب لکھے ہوئے لفظوں کی صورت میں کتابوں اور ادبی رسائل کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے خواندہ افراد تک پہنچتا ہے۔‘‘(۶)

اس طرح عام شہری بھی ادیب اور شاعر کے نام اور کام سے واقف ہو جاتا ہے۔شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں:

’’ رسالے تحریر کی دنیا میں ایک متعین مقام رکھتے ہیں جن میں اخبار یا تصنیف ان کی جگہ نہیں لے سکتیں ۔رسالے دراصل روزانہ اخبارات اور مستقل تصانیف کے درمیان کڑیاں ہیں۔ جو اخبارات کی سرسری اور ہنگامی واقع اور تصانیف کے انتظار طلب اور صبر آزما کےدرمیان واقع ہیں ان کا کام غور و فکر سے تخلیق یا مرتب کی ہوئی تحریرات کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد قارئین تک پہنچاتے رہنا ہے۔‘‘(۷)

ادبی رسائل انسان کے ذہن میں وسعت پیدا کرتے ہیں ۔ان کی سوچ و فکر گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ادبی رسائل قوموں کے ازہان کو جمود اور قدامت پسندی سے نجات دلاتے ہیں ۔اور معاشرے کی اصلاح کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کی رائے ہے:

’’ ادبی و علمی رسالے ملک کی بعض اہم ذہنی و مجلسی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور معاشرت اور قوم کی اصلاح اور فکری تربیت کے سلسلے میں ان کی قدر و قیمت واضح اور مسلم ہے۔‘‘(۸)

ادبی رسائل کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

’’ علم النسان ظاہر کرتا ہے کہ انسان نے جب شعور کی آنکھ کھولی اور اس کے گرد و پیش کی اشیاء اور مظاہر کے بارے میں تجسس پیدا ہوا تو اس نے اپنے ہم جنسوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں بھی دلچسپی لی ۔انسانی شعور کے فروغ و ارتقاء کے ساتھ تلاش و جستجو کے جذبے کو بھی مہمنیر لگتی چلی گئی اور نتیجہ اخذ کیا گیا کہ انسان جب سے پیدا ہوا ہے تو تلاش اس کی فطرت ثانیہ بنی ہوئی ہے ۔‘‘(۹)

ادبی رسائل قارئین کی ذہنی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں اور مستقبل کی طرف ان کی رہنمائی میں مدد دیتے ہیں ادبی رسائل زبان و ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اگرچہ تعلیمی اداروں میں تو نصابی کتب کی تدریس ہوتی ہے اور مختلف علوم مختلف کتابوں سے پڑھائےجاتے ہیں۔ رسائل کا فائدہ یہ ہے کہ ایک ہی رسالے میں ہمیں مختلف علوم سے متعلق معلومات مل جاتی ہیں۔

موجودہ دور میں بہت سی معلومات جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے حاصل ہو جاتی ہے پھر بھی رسائل کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔الیکٹرونک کتابیں اور رسالے بہت تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اس کی بڑی وجہ ان کی آسانی سے دستیابی ہے لیکن کتابی صورت میں رسائل و جرائد کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ قدیم رسائل و جرائد تلاش کرتے ہیں ، انہیں خریدتے ہیں اور شوق سے پڑھتے ہیں۔

رسائل و جرائد کی اہمیت کے پیش نظر آج بھی اردو زبان و ادب کے درجنوں رسائل و جرائد پابندی سے شائع ہو رہے ہیں۔ رسائل و جرائد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں نے رسائل و جرائد سے بہت کچھ سیکھا ہے اور مسلسل سیکھ بھی رہے ہیں ۔گھر بیٹھے مختلف موضوعات سے متعلق مضامین ،تنقید ،افسانے اور شاعری کے اچھے نمونے ہمیں رسالوں ہی سے ملتے ہیں۔

رسالوں کے بغیر علم و ادب کی دنیا نامکمل ہے۔ کتابوں سے زیادہ ہمیں رسائل و جرائد معلومات فراہم کرتے ہیں ۔رسائل و جرائدنے ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔اردو زبان و ادب کے فروغ و ترقی میں رسائل کی ترویج و اشاعت کا کلیدی رول رہا ہے ۔اخبارات نے بھی اردو زبان و ادب کو فروغ عطا کیا ۔ان کے علاوہ اردو زبان و ادب کا فروغ تخلیقی اعتبار سے بھی ہو امختلف ادیبوں اور شعراء نے اس میں لکھ کر ادب کو ترقی عطا کی ہے ۔زبان و ادب کی تحریکات اور انجمنوں نے بھی اردو کی آبیاری کی ہے۔روشن آراراؤ لکھتی ہیں:

’’معاشرتی سطح پر نت نئی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ان تبدیلیوں سے انسانی ذہن براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔یہی سے سوچ و فکر اور نظریات کے سانچے بدلتے ہیں نئی فکر جنم لیتی ہےگویا نئے حالات انسانی سوچ اور فکر کے دھارے بدلنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔زندہ ادب بھرپور معاشرتی زندگی کا عکاس اور ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی کا رہنما بھی ہوتا ہے۔‘‘(۱۰)

روشن آراراؤ رسائل و جرائد کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتی ہیں :

’’اگر حالات کے ردوبدل سے آشنا زندگی کی لہریں ادب میں موجود نہ ہوں تو ادب وقت کی تیز رفتاری سے پیچھے رہ کر معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوپاتا اور اس کی حیثیت ماضی کے ایک دور سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی۔ زندہ ادب زندگی کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے ۔نئے نظریات کو اپنے اندر منتقل کر کے نئے افکار کے فروغ و جلا کا باعث بنتا ہے ۔علم کی مختلف شاخوں میں بھی اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ پرانے علم کی بنیاد پر نیا علم فروغ پاتا ہے ،علمی و ادبی مجلات علم و ادب کا دائرہ وسیع کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘(۱۱)

رسائل و جرائد کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں "مسعود بن محمود” اپنی کتاب "جدید اردو صحافت” میں لکھتے ہیں:’’ اردو صحافت کا بنیادی مقصد جہاں حالات و واقعات سے آگاہی تھا وہاں فکرانگیز مضامین اور جدید علوم کو ترتیب دینا بھی مقصود تھا چنانچہ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رسائل و جرائد نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

‘‘(۱۲)مسعود بن محمود مزید لکھتے ہیں: ’’کسی قوم کی تہذیبی اقدار اور قدیم روایات علمی و ادبی، ثقافتی اور تاریخی حیثیت کو پہنچنے کے لیے وہاں کے رسائل و جرائد ایک واضح علامت مانےجاتے ہیں ۔‘‘(۱۳)

رسائل اور جرائد کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج کل کی مصروف زندگی میں بھی لوگ رسائل و جرائد پڑھنے کے لئے وقت نکال لیتے ہیں ۔

ماخذ: مقالہ سید محمد اصغر کاظمی کی شخصیت اور رسائل و جرائد میں مطبوعہ مضامین کا موضوعاتی جائزہ

احمد ندیم قاسمی کا مختصر اور جامع تعارف

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں