اختر الایمان کی نظم نگاری

اختر الایمان کی نظم نگاری کا تنقیدی جائزہ

اختر الایمان کی شاعری کا آغاز اس وقت ہوا جب را شد ، میراجی اور فیض جیسی معتبر اور توانا آوازیں اردو نظم کی دنیا میں گونج رہی تھیں۔ اخترالایمان نے ان تینوں کی پیروی بھی کی اور اپنی انفرادیت کا نقش بھی جمایا۔

ان کی نظموں میں ان کے عہد کے تمام مسائل مثلاً اخلاقی اور مذہبی قدروں کا زوال معاشرے کا بکھراؤ بھری انجمن میں انسان کی تنہائی اور بے بسی ، غیریقینی مستقبل کا خوف بھی کچھ نظر آتا ہے۔

اختر الایمان کی نظم نگاری میں یاد ماضی

لیکن ماضی کی یاد ایک کسک بن کر ان کی شاعری کے بڑے حلقے پر چھائی ہوئی ہے بچپن کا بھولا پن اور اس کے ساتھ خودداری ، ہوش سنبھالنے کے بعد کی ریا کاری اور مصلحت اندیشی سے آخر کار متصادم ہوتے ہیں اور ایک لازوال نظم "ایک لڑکا” میں ڈھل جاتے ہیں۔

نظم کا ہیرو دنیا اور معاملات دنیا سے آگاہ ہونے کے بعد جب گاؤں چھوڑتا ہے تو اس لڑکے کو اُس کی امیدوں اور آرزووں کا کفن دے کر وہیں دفنا آتا ہے مگر وہ مرتا نہیں ہر قدم پر موڑ پر اس کا راستہ روکتا ہے نظم کا یہ مرکزی کردار حالات کے ہاتھوں مجبور کسی کی خوشامد کرتا ہے اور کسی کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے۔ آخر ہوتا یہ ہے کہ:

مگر جب جب کسی کے سامنے دامن پسیارا ہے

یہ لڑکا پوچھتا ہے اختر الایمان تم ہی ہو؟

انسان کا المیہ یہی ہے کہ حالات اس کی کمر توڑ دیتے ہیں۔ اس کے حوصلے چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ خودداری کا خون ہو جاتا ہے۔ قدم قدم پر وہ سمجھوتے کرتا ہے ۔ اپنے منصب سے گر کر ارباب اقتدار کے سامنے گڑ گڑاتا ہے۔

اختر الایمان شعری جمالیات آرٹیکل pdf

مذہبی اقدار

مذہبی قدروں کا جیسا زوال اختر الایمان کے زمانے میں ہوا ایسا شاید تاریخ میں کبھی نہ ہوا تھا۔

یہ شکست و ریخت اختر الایمان کی نظموں میں جگہ جگہ نظر آتی ہے اور اس کی پیشکش کے لیے وہ مختلف علامتوں کی مدد لیتے ہیں۔ مثلاً مسجد کے حوالے سے مذہب کے زوال کی داستان اس طرح بیان ہوتی ہے۔

ایک ویران سی مسجد کا شکستہ ساکلس

پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے

اور ٹوٹی ہوئی دیوار پر چنڈول کوئی

مرثیہ عظمت رفتہ کا پڑھا کرتا ہے

انسان کے لرزتے ہاتھوں نے مذہب کا دیا روشن کر تو دیا مگر انسان اس کی نگہداشت سے قاصر رہا۔ اور جب اس کی حیثیت ایک لاشہ بے جان کی سی رہ گئی تو کسی کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ اس کی آخری رسوم ادا کر دے۔ نتیجتاً یہ کہ ایک بے وارث لاش کی طرح پڑا ہوا ہے :

ایک میلا سا اکیلا سا فسردہ سا دیا

روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے

تم جلاتے ہو کبھی آکے بجھاتے بھی نہیں

پھر وقت آواز دیتا ہے کہ ٹھہرو یہ خدمت میں خود انجام دوں گا :-

تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بر دوش

چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی

کل بہالوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود

اور پھر گنبد و مینا بھی پانی پانی

اختر الایمان کی نظم نگاری میں تصور وقت

یہ تیز ندی وقت کی علامت ہے جو ہر شے کو اپنی رو میں لے جاتی ہے۔ شکسپیر نے ایک سانیٹ میں کہا ہے کہ وقت ایک درانتی کے مانند ہے جو گالوں کے گلابوں اور قدوں کے بوٹوں کو کاٹ پھینکتی ہے۔

اس کی زد میں جو آئے فنا ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اقبال نے کہا ہے کہ وقت وہ کسوٹی ہے جو "مجھ کو پر کھتا ہے یہ تجھ کو پرکھتا ہے یہ” اور اس کسوٹی پر جو کھوٹا اترے موت اس کا انجام ہے۔

اختر الایمان کی نظموں میں بھی وقت کی کم و بیش یہی کیفیت نظر آتی ہے بلکہ وقت کے بارے میں انھوں نے جو کچھ کہا ہے۔

اُسے بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ فرماتے ہیں :

"میری نظموں میں وقت کا تصور اس طرح ملتا ہے جیسے یہ بھی میری ذات کا ایک حصہ ہے اور یہ طرح طرح سے میری نظموں میں میرے ساتھ رہتا ہے۔

کبھی یہ گزرے ہوئے وقت کا علامیہ بن جاتا ہے کبھی خدا بن جاتا ہے اور کبھی نظم کا ایک کردار یہ ایک ایسی زندہ و پائندہ ذات ہے جو اننت ہے۔ "

اختر الایمان وقت کی پادشاہی کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کی بہت سی نظموں میں اس کا اعتراف پایا جاتا ہے۔

وقت کے جبر کو انھوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی بہت اچھی طرح دیکھا اور اس کے ظلم سہے ۔ شاید جمود میں یہی کرب نمایاں ہے :۔

دل پہ انبار ہے خوں گشتہ تمناؤں کا

آج ٹوٹے ہوئے تاروں کا خیال آیا ہے

ایک میلہ ہے پریشان سی امیدوں کا

چند پژمردہ بہاروں کا خیال آیا ہے

پاؤں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مایوسی میں

پر محن راہ گزاروں کا خیال آیا ہے

اختر الایمان کی شاعری کا فکری مطالعہ مقالہ نگار رضی احمد pdf

قدیم اور جدید کا سنگم

اخترالایمان کا طرز اظہار قدیم اور جدید کے سنگم پر واقع ہوا ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف روایت کی پابندی نظر آتی ہے تو دوسری طرف اس سے انحراف، انھوں نے آزاد نظم کی ہیت کو گنی چنی چند نظموں ہی میں اختیار کیا ہے۔ ان کی زیادہ تر نظمیں پابند او نیم پابند ہیں۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ان کے ابتدائی زمانے کے کلام میں زیادہ تکریم اور عملی پائی جاتی ہے جس میں آئے چل کر نمایاں کمی ہوئی چلی جاتی ہے اور ڈرامائی عنصر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔

رمزیت

رمزیت، ایمائیت اور علامت سازی اخترالایمان کی نظموں کا خاصہ ہے۔ اس لیے بہت سی نظمیں ایسی ہیں جو قاری کی گرفت میں نہیں آئیں بعض نظموں کے معنی تو ایک دو بار پڑھنے کے بعد واضح ہو جاتے ہیں لیکن اسی نظموں کی تعداد بھی کم نہیں جو بار بار پڑھنے اور عمغور کرنے کے باوجود سمجھ میں نہیں ۔

شاعری کے لیے یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ آسانی سے سمجھ میں آجائے بلکہ بعض نقادوں کا تو کہنا ہے کہ شاعری ہر کس و ناکس کے آگے اپنے چہرے سے نقاب نہیں اٹھاتی .

اختر الایمان کے نقادوں کا خیال ہے کہ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں وہ فنی تدابیر سے زیادہ کام لیتے تھے اور پیکر سازی کی طرف ان کی توجہ زیادہ تھی۔ ان کی نظموں کے گہرے مطالعے سے اسکی تصدیق بھی ہو جاتی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں :-

نرم شاخوں کو تھپکتے رہے ایام کے ہاتھ

(تنہائی میں)

دب گیا نیند کی بانہوں میں کوئی حشر خرام

چاند نے بوئی تھیں جو کرنیں وہ مرجھا بھی گئیں

سوگئیں خاک پر شبنم کے طمانچے کھا کر

کلیاں جو کھلے ہی والی تھیں وہ کمھلا بھی گیں

(نیند سے پہلے)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختر الایمان کی شاعری میں پختگی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ وہ بیانیہ اور پھر ڈرامائی اظہار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وزیر آغا نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تاریک سیارہ سے اختر الایمان کے یہاں ایک تبدیلی نمودار ہوتی ہے۔

سماجی مسائل کی طرف ان کی توجہ بڑھ جاتی ہے اور اظہار میں فلسفیانہ انداز پیدا ہو جاتا ہے۔ اب وہ پرانی بچہ اسرار فضا باقی نہیں رہتی ۔ استدلالی اسلوب رمزیت و ایمائیت کی جگہ لے لیتا ہے ۔ اب ایک اکھڑی اکھڑی کی کیفیت اور کھردرا پن پیدا ہو جاتا ہے۔

دراصل وہ اپنے ارد گرد کی زندگی کو جیسا بے کیف پاتے ہیں اس کو ایسے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں اس ماحول کے خلاف ایک طرح کی نفرت اور کراہیت پیدا ہو جائے مندر جہ ذیل مثال سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے :

ساری ہے بے ربط کہانی دھندلے ہیں اوراق

کہاں ہیں وہ سب جن سے جب تھی پل بھر کی دوری بھی شاق

کہیں کوئی ناسور نہیں گو حائل ہے برسوں کا فراق

کرم فراموشی نے دیکھو چاٹ لیے کتنے میشاق

کھلی تو آخر بات اثر کی اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں (یادیں)

اظہار کی یہ تبدیلیاں اختراء الا ایمان کی شاعری کے لئے رخ کا پتا دیتی ہیں اور ظسہر ہے ابھی اس کی شعری کو ایک لمبا سفر طے کرنا ہے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں