احمد ندیم قاسمی کی شاعری

احمد ندیم قاسمی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

قیام پاکستان کے وقت جن نظم نگاروں کا طوطی بول رہا تھا ان میں احمد ندیم قاسمی بھی تھے۔ اس دورمیں وہ ترقی پسند تحریک کے سرگرم حامی تھے ان کا مجموع جلال و جمال قیام پاکستان سے ایک سال قبل ۱۹۴۶ء میں شائع ہو گیا تھا

اس کے دیباچے میں اُنہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مذہب، اخلاق قانون، سماج غرض ہر شعبہ حیات ان کے نزدیک ایک شکنجے کی صورت اختیا کر گیا ہے اور اس دباؤ میں احساس بشریت سسکیاں لے رہا ہے۔ (۳۱)

تاہم ان کے ترقی پسند نظریات کو تقویت آزادی کے بعد ملی۔ خاص کر اس وقت جب حکومت نے ان کے رسالہ ” نقوش پر پابندی عائد کی اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ (۳۲)

جبکہ ترقی پسند تحریک نے انہیں با قاعدہ طور پر اس وقت قبول کیا جب ان کی نظم ” رجعت پرستی کا نعرہ” نیا ادب میں شائع ہوئی ۔ (۳۳)

اس سے قبل ان کی ابتدائی دور کی نظموں میں جمام پر جلام غالب دکھائی دیتا ہے ۔ اُن کی نظموں میں ،اختر شیرانی کی جمالیت و رومانیت پرستی غالب ہے ڈاکٹر انور سدید اُن کو اس دور کی نظموں کے بارے میںفرماتے ہیں:

(وہ خیالات کی بازگشت میں اختر شیرانی کا اور الفاظ کے انتخاب میں جوش اور اقبال کا تتبع کرتے ہیں ۔ (۳۴))

قیام پاکستان کے وقت اُردو نظم میں رومان اور احتجاج کے امتزاج کا رجحان متزاج کارجحان غالب تھا۔ تاہم رومان نے روایتی سلوک سے گریز شروع کیا۔

اور احتجاج کی لے تیز ہونے لگی اور اس طرح اردو نظم کو ایک قومی تشخص اور پہچان نصیب ہوئی اور وہ نئے تاریخی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئی ۔

ندیم کی رومانی نظمیں مختصر ہیں اور غم جانان کو غم دوراں میں منتقل کرتی دکھاتی ہیں گو یا اجتماعی – مسائل اور انقلاب پسندی کا رجحان رکھتی ہیں۔

شعلہ گل کی اشاعت ۱۹۵۳ء میں ہوئی اور اس میں ۱۹۴۶ء سے لیکر ۱۹۵۲ تک کا کلام ہے۔

اس مجموعے میں کل ۱۵۸ نظمیں ہیں اس مجموعے کی نظموں میں وہ عالمی سطح پر استحصالی حربوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں او ہر قسم کی جغرافیائی حد بندی سے ماورا ہو کر انسان کی محرومیوں کو موضوع بناتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد اہل وطن میں اہل منصب کی جاہ طلبی ،

موقع پرستوں کی وطن دشمنی اور ارباب وطن کی بےحسی نے دانشور طبقہ کو تذبذب ، عدم اطمینان اور تشکیک سے دو چار کیا تو فیض نے اسے داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سر سے تعبیر کیا تو ندیم نے اسے موہوم اجالا کہہ کر پکارا :

و ہی موہوم اُجالا ، وہی لالی ، وہی کیف

وہی اک گونج میں لپٹا ہوا سناٹا ہے

صبح کے جشن کا انجام کہیں رات نہ ہو

تم جو چاہو تو ابھی سمت متعین کرلو (سمت)

تو اس حالت میں نئے عزم اور سمت کے تعین کی راہ دکھاتے ہیں راضی بہ رضا کا راستہ اختیار نہیں کرتے ۔ اس دور کی نظموں میں وہ عوام میں جذبے کی چنگاری سلگاتے ہیں اور انقلابی رویہ اختیار کرتے ہیں۔

چنانچہ وہ حالات کی تبدیلی میں انسانی کردار کو جبر و مشیت پر غالب قرار دیتے ہیں اُن کی نظم ” انسان عظیم ہے” ان کے اس انداز فکر کی غماز ہے۔

اس نے مجھے عرش سے بلایا

انسان عظیم ہے خدایا •

تو سنگ ہے اور وہ شر ہے

تو آگ اور وہ اُجالا

انسان معظیم ہے خدایا

تو جیسا ازل میں تھا سواب ہے

وہ مسلسل ارتقا ہے

ہرشے کی پلٹ رہا ہے کا یا

انسان تنظیم ہے خدایا(۳۵)

وہ انسان کی عظمت کا اظہار مذہب سے بیزاری یاترقی پسند گروہ کے مخصوص نقطہ نظر کے تحت نہیں ←

بلکہ اُس میں مضمر عظیم صفات کے احساس سے کرتے ہیں وہ انسان کے ادھورا نامکمل اور تشنہ کام رہنے کے

مروجہ تصور سے جو نظموں میں بالعموم پایا جاتا تھا بالکل مختلف انداز میں سوچتے ہیں اور انسان کی صلاحیتوں اور احترام آدمیت کا اظہار کرتے ہیں۔

اُن کے تصور انسان پر مغرب کی ہیومنزم کی تحاریک اور مشرق کے متصوفانہ تصورات کے اثرات نمایاں ہیں لیکن ان کا رویہ سراسر تقلیدی نہیں۔ وہ مغرب کے انسان دوستی کے اس تصور کی نفی کرتے ہیں جہاں مذہب اور خدا کو غیر ضروری قرار دے کر کنارہ کش کر دیا ہے۔

اس طرح مشرق کے صوفیا کے خدا کے پردتجرید میں رکھنے کے بھی خلاف ہیں۔ اس کا اظہار ان کے اگکے ادوار کے مجموعہ "دوام” میں شامل نظم "تغیر” سے بخوبی ہوتا ہے۔ شعلہ گل کی نظموں میں ایک طرف ان کا جدلیاتی مادیت کا رویہ نمایاں ہے وہ انسان دوستی کے جذبہ سے بھی مغلوب لگتے ہیں ،

ارض وطن سے محبت بھی کرتے ہیں جبکہ ریا کا رو جفا کار ارباب سیاست سے برہمی بھی وافر ہے جبکہ موقع اور محل کے مطابق اپنے داخل میں جاگزیں اسلام کی روشنی بھی جھلک دکھانے لگتی ہے۔ نظم حجاز میں وہ محبوب خدا (انسان)

کی تیرہ بختی پر محب (خدا) سے شکوہ کرتے ہیں۔چھلکا پڑتا ہے ستاروں سے تیرا ساغر شب میری قسمت میں فقط ایک چراغ مردہکیا تجھے عرش کی خلوت کا سکوں جچتا ہےپرش پر ہو تیرا محبوب اگر آرزدہ جبکہ ان کی نظم "نیا ایشیاء” عالمی روایات حکومت کے خلاف انقلاب کا ایک پیغام ہے۔

اے میرے ہم نصیبو ، مرے ساتھیو

اے مرے دوستو اے مرے ہم صغیر و – اُٹھو

اے روایات محکومیت کے روپہلی مگر

ٹوٹے پھوٹے قفس کے امیر اٹھو

جب ادب زندگی کا ایک آئینہ ہے

تو یہ آئینہہر آدمی کو دکھاتے چلو

نیا ایشیاء (۳۷)

ندیم کے رجحانات و میلانات "دشت وفا” تک پختگی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس مجموعہ میں ۱۹۵۲ء سے 1957ء تک کا کلام بھی اسی مجموعی میں شامل ہے۔

نظم کا ارتقائی سفر کا ۱۹۵۸ء کا حصہ جو اس باب میں جانچتا مقصود ہے اس مجموعے میں شامل ہے۔

وقت وفا میں ان کا انقلاب کا تصور جدید انقلابی تصورات کی روشنی میں مزید نکھر کر سامنے آیا ہے یہاں ان کے موضوعات میں تنوع آگیا ہے امجد اسلام امجد دشت وفا کی نظموں کے بارے میں لکھتے ہیں:

(آزادی اور حریت کے جذبات اور عظمت انسان کا تصور بھی اس کتاب کے اہم مسائل ہیں لیکن اظہار میں شاعر پہلے سے بہت زیادہ منجھا ہوا نظر آتا ہے۔

ندیم اب براہ راست انداز بیان کے بجائے تشبیہ اور علامت سے زیادہ کام لیتے ہیں ان کا فکر زیادہ گہری اور کٹیلی ہوگی ہے)

ملک عزیز میں پنپے والی معاشرتی برائیوں اور سیاسی عدم استحکام کواپنی مشہور نظم درد وطن میں پیش کرتے ہیں۔

ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں

شب صحرا سے مگر صبح چمن مانگتے ہیں

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ ، بجز اذن کلام

ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

درد وطن (۳۹)

اس مجموعے کی ایک نظم سفر اور ہم سفر ۷ ۱۹۵ کی لکھی ہوئی ہے جس میں استحصالی قوتوں کے ہاتھوں لگائی ہوئی آگ کی تباہ کاریوں کا ذکر کر کے انہوں نے ہم خیال اور ہم قدم دوستوں کو انقلاب کے لیے متحد ہو کر آگے بڑھنے کا درس دیا ہے۔

ندیم کی نظم ذاتی رومانی واردات کے تذکرے سے آگے پڑھ کر انسان کے آفاقی مسائل کی نمائندگی کرنے لگی ۔

دشت وفا اور شعلہ گل میں ملکی سیاحت اور معاشرت کے نقوش بھی واضح اور زلف ایام کی مشاتگلی کے بند ہے بھی جواں ہیں ۔ ڈاکٹر محمد ملک کریم ان کی م عظمت کا اعتراف کرتے ہیں ۔

( ندیم اس اعتبار سے بھی عصر رواں کے منفرد فنگار ہیں کہ وہ علوم انسانی کی ترقیوں اور سائنسی انکشافات و ایجادات سے خوف زدہ ہو کر فکری انتشار کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ڈرتے عقیدوں ،

مٹتے یقینو اور مرتے خداؤں کے اس عہد میں ہر تازہ انکشاف کا خیر مقدم یوں کرتے ہیں کہ جیسے ان کے آدم نو کے ظہور کا وقت بہت قریب آگیا ہے۔ (۴۰))

فی اعتبار سے انہوں نے پابندہ معری اور چند آزاد نظمیں لکھی ہیں اُنہوں نے ہندی الفاظ کے استعمال کے علاوہ ہندی بحریں بھی استعمال کی ہیں لیکن میرا جی کی طرح ان کی نظم ہندی روایات کی بنیاد پر ایستادہ نہیں۔

انہوں نے متنوع بحروں کا استعمال کیا ہے۔ اس دور کی نظموں میں تمثال کاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں جس سے ان کی نظم کا سیکی شاعری سے متمیز ہوتی ہے۔ جہاں انہوں نے آزاد نظم کی ہیئت کو استعمال کیا ہے وہاں مفہوم کو قتل علامات میں بند کرنے کے بجائے ابلاغ عام کو مد نظر رکھا ہے۔

ان کی ۱۹۵۸ء کے بعد کی نظم فکری وفنی ارتقاء میں اگلے ابواب میں بحث ہوگی۔ لیکن محمد علی صدیقی کی ہمنوائی میں یہ کہا جا سکتا ہے۔

احمد ندیم قاسمی اس صدی میں اُردو شاعری کے ان محدود شعراء میں سے ہیں جن کی شاعری نے ادب اور معاشرہ کے رشتہ کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ (۳۱) )

ندیم کی نظم معاصرین کی نظم اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں فکری اعتبار سے عصری تشکیک ، بیزاری نفرت اور مایوسی کے بجائے رجائیت انسان کی عظمت اور محبت کے رنگش جذبے بھی ملتے ہیں۔ ایمائیت و انجام کے بجائے ابلاغ اور وضاحت ملتی ہے اور ایک عام قاری کی سطح تفہیم سے ماورا نہیں ۔

ان کی نظموں میں اپنی دھرتی اور تہذیب و ثقافت کے عناصر کی فروانی ہے اور وہ اس انسان دوستی کے بہانے خدا سے بےیزار نہیں ہیں ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ فرماتے ہیں۔

(ندیم خدا سے بھی محبت کرتے ہیں اور انسان سے بھی)

ماخذ: پاکستان میں جدید اردو نظم نگاری کا ارتقاء pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں