کتاب کا نام: بنیادی اردو۔
کوڈ: 9001۔
موضوع: احمد فراز کی شاعری۔
صفحہ: 248 تا 249،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
احمد فراز کی شاعری
دیکھو تو بیاض شعر میری
اک حرف بھی سرنگوں نہیں ہے
فراز بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے، اسی لیے ان کی انقلابی شاعری میں بھی گداز پن کا احساس ملتا ہے۔ انھوں نے سیاسی اور سماجی حالات کی سخنی کو بھی محبوب کی شیریں یادوں کے ساتھ پیش کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے انقلابی خیالات زندگی کے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: احمد فراز کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | مقالہ pdf
فراز کو اگر بالغ شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ اپنے محبوب اور زمانے کے دونوں کناروں کو تھامے ہوئے تھے۔ فراز کی ایک مشہور نظم محاصرہ پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ فیض ترقی پسند تحریک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ فراز نے مارشل لاؤں کے خلاف بہت کھل کے لکھا مگر ان کی شاعری رومانوی جذبوں کی وجہ سے نعرہ نہیں بنی۔
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدہ سے سرفراز کرے
ظالم اور مظلوم کی جنگ میں احمد فراز نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا۔ ان کی شاعری میں زندگی کی ان قدروں کی پامالی کا دکھ بہت گہرا محسوس ہوتا ہے، جہاں مظلوم کی حمایت کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
یہ بھی پڑھیں: احمد فراز کی شاعری کا تنقیدی جائزہ
فراز نے اپنی شاعری میں غم جاناں اور غم دوراں کو ایک کر کے، زندگی کا گہرا شعور پیش کیا ہے۔
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلہ کن فیکوں ہے، یوں ہے
فراز کی نعت میں مسلمانوں کے عہد گذشتہ کی شان و شوکت نبی کریم ﷺ کی بدولت روشنی کا پیغام لے کر طلوع ہوتی ہے۔ انھوں نے رسول کریم کی ذات کو عہد حاضر میں منور دیکھا ، جس کی وجہ سے ان کے کلام میں نعت بھی ظالم کے خلاف استعارہ بن جاتی ہے۔ نبی کا اسوہ ان کی رہنمائی کرتا محسوس ہوتا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
مرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
تو روشنی کا پیمبر ہے اور مری تاریخ
بھری پڑی ہے شب ظلم کی مثالوں سے
فراز نے فسطائی جبر کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ انھوں نے جبر اور گھٹن میں اپنے ہم وطنوں کو بھلا نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو نظم کے جدید دور میں سب سے تو انا نظم اور غزل احمد فراز کی ہے، جو جبری فضا کی قید کو تو ڑ دینے کا پیغام دیتی ہے۔
بیچ رکھتے ہو بہت صاحبو ، دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں، بازار کے بیچ
جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ، ڈر جاؤ گے