آخری کوشش اور ڈھائی سیر آنا کا تنقیدی جائزہ

آخری کوشش اور ڈھائی سیر آنا کا تنقیدی جائزہ

"آخری کوشش” میں حیات اللہ انصاری نے متوسط اور بالائی طبقے کی زندگی کا تجزیہ کیا ہے۔ انھوں نے معاشرے کے اس طبقے کو کہانی کا موضوع بنایا ہے جو غربت اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی ماں کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ۔

اس طویل افسانے میں گھسیٹے اور چند کرداروں کی زندگی کو بیان کیا گیا ہے ۔ وحدت تاثر کے ذریعے تمام اجزائے ترکیبی آگے بڑھتے ہیں اور آخر میں تشنگی کا احساس اسے طویل افسانہ قرار دیتا ہے۔

اب ڈھائی سیر آنا میں بھی حیات اللہ انصاری نے معاشرتی نظام زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ معاشی حوالے سے ملک بد نظمی کا شکار ہے ۔

سماجی طور پر بھی ان افراد کو ذلت کی زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیات اللہ انصاری نے سماجی نظام زندگی دکھانے کے لیے ڈھائی سیر آنا کا سہارا لیا ہے ۔ معاشرے کے لوگ معاشی اور اقتصادی طور پر اس قدر غریب اور بے بس ہو چکے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اکرایا ہوا آٹا کھا کر خوشیاں مناتے ہیں ۔ ڈھائی سیر آنا ” افسانہ ہے۔

اس میں مولا مرکزی کردار ہے جو اپنے خاندان کے لیے کمائی کا واحد سہارا ہے ۔ دن بھر محنت مزدوری کے بعد بھی اسے آرام کی زندگی میسر نہیں آتی ۔

ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی ذلت سے بے خبر ہو کر اکرایا ہوا آٹا اٹھا کر گھر لے جاتا ہے جہاں وہ اور اس کے گھر والے خوش ہو کرا کرایا ہوا آٹا کھاتے ہیں اور مزید اکرائے ہوئے آٹے کے لیے دعاگو بھی ہیں ۔

اس تحریر کے افسانہ ہونے کی دلیلہے کہ معاشرتی زندگی کو موضوع بناتے ہوئے فرد واحد کی زندگی کے اہم پہلوؤں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر کا ماخذ: قدرت اللہ شہاب سوانح و ادبی خدمات مقالہ | pdf،ص 108

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں