انتظار حسین کا افسانہ ‘آخری آدمی’ کا خلاصہ، مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ

افسانہ آخری آدمی کا فنی جائزہ

اس افسانے میں الیاسف کو دوسرے افراد سے ممیز کیا گیا ہے۔ کبھی تو افسانے کے عنوان کے ذریعے ( آخری آدم) کبھی افسانے میں الیاسف کو طنز کا نشانہ بنا کر، کبھی بیانیہ پر محیط کر کے اور کبھی اس کے بندر میں تبدیل ہونے سے خود کو بچانے کی کوششوں کی عکاسی کے ذریعے۔ پھر چونکہ الیاسف بستی کے دوسرے افراد کے بر عکس خود کو انسان کی جون میں برقرار رکھنے میں سب سے نمایاں ہو جاتا ہے۔ الیاسف ایک اور لحاظ سے بھی بستی کے دیگر افراد سے مختلف ہے کہ وہ نافرمانی کے عذاب کے تحت قلب ماہیت کے عمل کا شکار ہوئے جبکہ:

"اور اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے۔”

الیاسف عقلیت پسند ہے اور اپنی عقلی تاویلوں کو بروئے کار لا کر خود فریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سبت کے روز سمندر کی بجائے نہر سے مچھلیاں پکڑنے کا جواز گھڑ لیتا ہے۔ اس طرح وہ حیلے سے خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور مکر کرتا ہے۔

(آخری آدمی ) میں انتظار حسین کا بنیادی مسئلہ اخراج بشریت ہے ۔ اس اخراج بشریت کے اسباب و علل ہر زمانے میں انسان کے اندر اور باہر موجود رہے ہیں۔ ان اسباب و علل کی نفی کرتا اور داخلی حیوانی جبلتوں اور خارج کے منفی محرکات کے خلاف نبرد آزما رہنا ہی آدمی کے لیے اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے اور اخلاقی امتیازات کو قائم رکھنے کا سہارا ثابت ہوتا ہے

انتظار حسین نے اپنی فنکارانہ چابکدستی سے ایک روایتی حکایت کو لمحاتی واقعات سے نکال کر غیر زمانی اور غیر مکانی صداقت کا حصہ بنادیا ہے۔

انتظار حسین کا فن نہ تو آسمانی صحائف کی حکایت میں مضمر ہے اور نہ ہی حیاتیاتی نقطہ نظر سے اس کہانی کی تشریح و تفسیر میں۔ سچ تو یہ ہے کہ انتظار حسین کی غیر معمولی طور پر تخلیقی صلاحیت ، اس حکایت کی بے پناہ کشش اور اس کے تخلیقی نظام کے انضباط اور تسلسل میں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔

اس کہانی میں انتظار حسین کی علامتیں ہمارے اجتماعی لاشعور اور تہذیب و تاریخ کے بطن سے جنم لیتی ہیں ۔ الیاسف آج کے جدید دور کا جیتا جاگتا کر دار نظر آتا ہے۔ الیاسف کے گناہ کی عقلی تاویلیں پیش کرنا اپنی بقا کے لیے جدو جہد اور اس مقصد کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار ہونا اس جدید آدمی کا مربوط استعارہ بن جاتا ہے جو جذ بہ احساس اور ضمیر تک کو قربان کر کے بھی ساری زندگی اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کی جدو جہد کر سکتا ہے۔

انتظار حسین نے آخری آدمی کی زبان اسلوب بیان اور کردار کے نام اور صورت حال کے ارتقا کو آسمانی صحائف اور بالخصوص قرآن کی اس مخصوص حکایت کے قریب رکھا ہے جہاں سے اس کہانی کے لیے فیضان حاصل کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ قرآن پاک میں دو مقامات پر اس واقعہ کا ذکر ملتا ہے۔ دوسرے صحائف میں صرف اشارے ملتے ہیں۔ انتظار حسین نے فضا آفرینی اور تاثر کو برقرار رکھنے کے لیے قرآن کے لب ولہجہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ لہجہ قرآن کے اتنا قریب ہے کہ اس کہانی کے بیشتر جملے قرآن میں بکھری ہوئی مختلف آیتوں کے براہ راست ترجمے معلوم ہوتے ہیں۔ انتظار حسین کو اس عربی لب ولہجہ کو اردو میں اپنانے کے لیے کتنی ریاضت سے گزرنا پڑا ہوگا۔ یہ تو افسانہ نگار کا مسئلہ ہے مگر دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ انتظار حسین نے کہانی کی جدید تر تکنیک کو استعمال کر کے اپنی روایت کو کس طرح ہم عصر زندگی کا حصہ بنا دیا ہے۔ ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں :

"اگر انتظار حسین اس کہانی کو اردو کے عام لب ولہجہ اور مروجہ اسلوب میں لکھتے تو شاید اس میں وہ امکانات نہ پیدا ہوتے جو قرآنی لب ولہجہ اور انتظار حسین کی تخلیق کردہ جزئیات کے سبب پیدا ہوئے ۔”

کہانی کی منطق ، پلاٹ کی ماورائی فضا اور واقعات کی مافوق الفطریت، قرآن کی حکایت کے بنیادی ڈھانچے کی مناسبت سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر اس کہانی کو افسانہ کے مروجہ پیمانوں کے معیار سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو شاید اس کہانی کے ساتھ انصاف نہ ہو سکے ۔ آخری آدمی اپنے تخلیقی مزاج کے اعتبار سے ایک گٹھی ہوئی تہ دار اور علامتی نظم کی طرح اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انتظار حسین کی بیشتر کہانیوں کی طرح آخری آدمی کے انداز بیان اور تکنیک کے ساتھ ہماری کہانی پہلی بار داستانی روایت سے اپنا رشتہ جوڑتی ہے۔ اردو میں کہانی یا ناول کا منبع دراصل مغربی فکشن کی روایت نہیں ہے بلکہ ہماری داستانیں اور آسمانی صحائف اور بزرگوں کی حکایتیں ہیں۔ انجیل اور قرآن کی زبان کا بڑا حصہ صحیح معنوں میں فکشن کی زبان ہے جو اپنے اندر غیر معمولی لچک اور امکانات رکھتی ہے ۔۔۔۔ اس زبان اور اس سے وابستہ روایات میں معنی خیز علامتوں کا خزانہ چھپا ہوا ہے ۔ انتظار حسین نے اس زبان اور مخصوص حکایت کے سارے علامتی امکانات کو کھنگالنے کی کوشش کی ہے۔

انتظار حسین کی تشبیہیں اور استعارے قاری کو زبان کی چمک دمک اور فریب میں الجھا کر کہانی کے تاثر سے لا تعلق نہیں کرتے بلکہ ان کا استعاراتی بیان پیچیدہ تجربات اور زندگی کے نہاں خانوں میں چھپے ہوئے حقائق کو اپنے نور سے منور کرتا ہے۔ آخری آدمی اور اسی نوع کی چند کہانیاں انتظار حسین کا امتیاز ہیں اور اسی امتیاز نے انتظار حسین کو ہم عصر اردو افسانہ کا نمایاں ترین نام بنا دیا ہے۔ ابوالکلام قاسمی آخری آدمی کا فکری وفنی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"آخری آدمی تاثر کی بھر پور شدت اور موضوع کی اکائی کے باوجود اپنے ماقبل اور مابعد کے رشتوں سے جڑی ہوئی ایک کہانی بن جاتی ہے۔ آخری آدمی کا خام مواد زبان اسلوب بیان اور ماحول یقیناً آسمانی صحائف سے مستعار لیا گیا ہے مگر یہاں الیاسف اپنے قریہ میں سب لوگوں میں سے بڑا مجرم اور عصیاں گزیدہ ہونے کے باوجود عمل اور قوت ارادی کی بے پناہ پختگی کے سبب داخل اور خارج ، فرد اور معاشرہ طوفان اور مدافعت کی کشمکش اور رزمیہ کی ہمہ گیر اور آفاقی حقیقت کی عکاسی کرنے لگتا ہے۔ الیاسف کی ذات عام انسانی وجود سے مختلف اور بلند ہو کر ایک رزم گاہ بن جاتی ہے جو خارج اور داخل سے تصادم اور پھر اندر کی متصادم اور متضاد قوتوں کے لیے میدان جنگ سے کم نہیں۔

افسانوی نثر اور ڈرامہ: پروفیسر جمیل احمد انجم

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں