موضوعات کی فہرست
افسانہ آخری آدمی کا خلاصہ اور فکری جائزہ
افسانہ آخری آدمی انسانوں کے بندر بن جانے کی کہانی ہے جو ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑتے تھے اور اپنی حرص و ہوس کے جذبے کی تسکین کرتے تھے۔ لالچ، مکر، خوف اور غصے کے منفی جذبات کے باعث وہ اعلیٰ انسانی سطح سے حیوانی سطح پر اتر آئے ۔ اس خوف اور غصے کے منفی جذبات کے اعلی سے آئے کہ اس افسانے میں عہد نامہ عتقیق کی فضا پیش کی گئی ہے۔ اس کا مرکزی کردار "الیاسف” آخری آدمی ہے جو سب میں دانا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے ساتھیوں کی طرح آدمیت کے درجے سے گر نہ جائے ۔ اپنی اس پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے اسے جو جدو جہد کرنی پڑتی ہے جس اذیت سے اسے گزرنا پڑتا ہے اور اس کی اس حوالے سے کشمش کو انتظار حسین نے تمثیلی پیرائے میں اور موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ انہوں نے تمثیلی انداز میں اس دلچسپ حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ انسان منفی خصائل لالچ مکر خوف غصہ اور جنس سے بچنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کرے اپنی سرشت سے بچ نہیں سکتا۔ وہ مزید انکشاف کرتے ہیں کہ انسان صرف ان منفی خصائل تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہر قسم کی اشتہا پیدا ہو جاتی ہے جو اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہے ۔ اخلاق کے منفی اور مثبت پہلو انسان میں جبلی طور پر ودیعت کیے گئے ہیں۔ جبلی دباؤ اور جبر کے تحت اس سے موقعہ بہ موقعہ ان خصائل کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ گوپی چند تا رنگ ان جبلی تقاضوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"یہ جبلی دباؤ انسانی سرشت میں گندھے ہوئے ہیں اس کہانی سے بحث کرنے والوں نے جس پہلو کو نظر انداز کیا وہ الیاسف اور بنت الاخضر کا معاملہ ہے۔”
بنت الاخضر در اصل الیاسف کی محبوبہ ہے۔ بستی کے دوسرے لوگ حرص لالچ اور نافرمانی کی وجہ سے بندر بنے مگر وہ منجملہ دوسری برائیوں کے جن میں اس کے قریہ کے لوگ مبتلا تھے، وہ انسانوں خصوصاً اپنی محبوبہ سے کنارہ کشی کی وجہ سے انسان سے بندر بنا۔ملاحظہ ہو اس حوالے سے آخری آدمی کا ایک اقتباس:
"اور اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون۔۔۔۔(مزید افسانے میں پڑھیں)….جی بھر آیا اور وہ بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔”
الیاسف ، بنت الاخضیر کو یاد کر کے روتا ہے مگر اچا نک الیعذر کی جورو کی یاد آتی ہے ۔ جس کے خوبصورت نقش بگڑتے چلے گئے تھے اور اس کی جون بدل گئی تھی ۔ الیاسف اپنے تئیں کہتا ہے ۔ اے الیاسف تو ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے۔ چنانچہ الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے انتظار حسین دکھاتے ہیں کہ ” ہرن کے بچوں ، گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کا تصور الیاسف کے دامن دل کو کھینچتا لیکن اپنے ہم جنسوں کو ناجنس جان کر ان سے ہے تعلق ہوجانا شاید ان کے لیے ممکن نہیں۔ گوپی چند نارنگ کے نزدیک :
"گویا یا اس کہانی میں مسئلہ صرف لالچ، مکرم خوف یا غصے کا نہیں بلکہ ان تمام بنیادی اشتہاؤں کا ہے جن کے ایک سرے پر بھوک ہے اور دوسرے سرے پر جنس۔۔۔۔”
خوف اور غصے سے انسانوں میں کیسے کایا کلپ ہوتی ہے اور الفاظ اپنا مطلب اور مفہوم کھو کر کس طرح وحشیانہ چیخیں بن جاتے ہیں ذیل کے اقتباس سے واضح ہے :
"تب الیاسف مزید ڈرا اور چلا کر۔۔۔۔(افسانے میں پڑھیں)….وحشیانہ چیخیں بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔”
چونکہ انسانی جذ بات کا تعلق انسانی خواہشات کی تسکین اور عدم تسکین سے ہے لہذا غصے سے دانت کچکچانا، منہ کا غصے سے لال ہو جانا خوف سے لرزہ طاری ہو جانا ابن زبلون کا غصے میں آپے سے باہر ہو جانا، پھر ان کی آوازیں بگڑ کر الفاظ با ہم مدغم ہو کر غیر ملفوظ آوازوں میں بدل گئے اور الفاظ خالی برتن کے مثال رہ گئے اور لفظ مر گئے ۔ پھر الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گزیں ہونے پر مجور ہو گیا لیکن اس لا تعلقی، خلوت نشینی اور کناره گیری میں بھی اسے عافیت نصیب نہ ہوئی ۔ وہ پریشان ہو کر سوچتا ہے کہ شاید اس کے اندر کوئی تبدیلی ہو رہی ہے اسے گمان گزرتا ہے کہ اس کے اعضاء سکڑ رہے ہیں، اس کی جلد بد رنگ اور اس کی ٹانگیں اور باز مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے چنانچہ وہ بڑے دکھ سے کہتا ہے:
” اے میرے معبود ! میرے باہر بھی دوزخ ہے میرے۔۔۔(مزید افسانے میں پڑھیں)…کہ میں تجھ بن ادھورا ہوں ۔”
کہانی کے آخر میں جہاں الیاسف کے سمندر سے فاصلے پر گڑھا کھودنے اور نالی کے ذریعے اسے سمندر سے ملانے اور ہفتے کے دن سطح آب پر آنے والی مچھلیوں کو چالاکی سے گڑھے میں گرا کر پکڑنے کا ذکر ہے وہاں ہرن کے بچوں ، گندم کی ڈھیری اور صندل کو چالاکی ، بچوں کے کی کا کے گول پیالے کی یاد کے ستانے کا ذکر بھی موجود ہے ۔ وہ دہائی دیتا ہے سرپٹ دوڑتی ہوئی دودھیا گھوڑیوں کی اور بلندیوں میں پرواز کرنے والی کبوتریوں اور رات کے اندھیرے کی، جب وہ بھیگ جائے، کہ بنت الاخضر اس سے آن ملے مگر بنت الاخضر کیسے آتی، وہ تو اس سے آئی ،وہ اس سے بھی پہلے حیوانی سطح پر اتر کر بندریا بن چکی تھی۔ چنانچہ الیاسف میں بھی بتدریج تبدیلی رونما ہونے لگی۔ اس کی ہتھیلیاں چپٹی اور دیر کی ہڈی دوہری ہونے لگی ہے بالآخر وہ جھک کر ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیتا ہے اور بنت الاخضر کو سونگھتا ہوا چاروں ہاتھ پیروں کے بل تیری طرح جنگل کی طرف نکل جاتا ہے۔ الیاسف بھی بند کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں