خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی

خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی کی خصوصیات

آتش کا نظریہ شعر

بندش الفاظ جڑانے سے نگو کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

یہ ہے آتش کا نظریہ شعر مطلب یہ کہ آتش کی رائے میں شاعر کا رنگین ، دلکش خیال تصویر بن کر شعر کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور اس خیال کی پیشکش میں شاعر لفظوں کو ایسے سلیقے سے ترتیب دیتا ہے جیسے کوئی جوہری نگینوں کو جڑتا ہے۔ خود آتش کا کلام اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔

خواجہ حیدر علی آتش کی غزل میں رجائیت

فکر میں رنگینی، خیال میں رعنائی اور انداز بیان میں یہ شان کہ جیسے کسی نے موتی پر و دیے ہوں اسی وقت ممکن ہے جب فن کار کے دل میں خوشیوں کا سمندر موجیں مار رہا ہو۔ اردو شاعری پر بالعموم حزن و یاس کی فضا چھائی رہی ۔

جب اردو شاعری کا مرکز دہلی سے لکھنئو منتقل ہوا تو صورت حال بدلی لکھنوا میں امن و امان کا دور دورہ تھا۔ ہر طرف خوش حالی تھی عیش و عشرت کے اسباب مہیا تھے۔ نتیجہ یہ کہ شاعر کے سر سے بھی رنج وغم کے بادل ہٹ گئے۔ شاعری میں نشاطیہ عنصر داخل ہوا۔

اردو شاعری کو لکھنو کے دبستانِ شاعری کا یہ سب سے بیش قیمت تحفہ ہے کیونکہ بقول مجنوں گورکھپوری اعلا درجے کی شاعری وہ ہے جس میں حزن و ملال کا نہیں بلکہ امید و مسرت کا پلہ بھاری ہو۔ امانت علی سحر کا ایک شعر ہے۔

خدا آباد رکھے لکھنو کے خوش مزاجوں کو

ہر اک گھر خانہ شادی ہے ، ہر اک کو چہ ہے عشرت کا

اس شعر سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنو کے ماحول میں کیسی بے فکری اور کیسی خوشی موجود تھی۔ اس کا اظہار لکھنو کی شاعری میں بھی ہوا۔ بے شک اس بے فکری اور عیش پسندی نے اردو شاعری میں کچھ عیب بھی داخل کر دیے لیکن آتش کا کلام ان عیبوں سے پاک ہے۔

آتش کے کلام میں اداسی، پسپائی اور شکست خوردگی نہیں بلکہ رجائیت بلند حوصلگی اورجوا مردی نظر آتی ہے۔ وہ نا موافق حالات سے خوف زدہ نہیں ہوتے ہتھیار نہیں ڈالتے بلکہ ان سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اس کا سبب صرف لکھنو کا پر آسایش ماحول ہی نہیں بلکہ خود ان کا قلندرانہ مزاج بھی ہے۔

سید عبداللہ کی یہ رائے درست ہے کہ آتش کے خاندان میں طریقت کی پیروی موجود تھی مگر مولانا محمد حسین آزاد کا بیان ہے کہ وہ خود طریقت کے سلسلے سے منسلک نہیں ہوئے۔

البتہ قلندرانہ وضع اور آزاد زندگی رکھتے تھے بے نیازی اور قناعت ان کی طبیعت کے اوصاف خاص تھے۔ شاید بھنگ کا شغل بھی کرتے تھے۔ ہر وقت اپنے دل کی دنیا میں گم اور سرمست رہتے تھے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: حکیم مومن خان مومن اور خواجہ حیدر علی آتش کے کلام کی خصوصیات pdf

آتش کی غزل میں تنک مزاجی

آتش کی بے نیازی اکثر بددماغی اور تنگ مزاجی کی سرحدوں میں داخل ہو جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد میں بورے پر بیٹھے رہتے تھے۔ بڑے بڑے رئیس اور نواب تلامذہ میں شامل تھے۔

ان میں سے اکثر وہاں حاضر ہوتے ۔ استاد سر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے۔ کوئی شاگرد بورے پر بیٹھ گیا تو خفا ہوتے تھے کہ اچھا اب بیٹھنے کے لیے اجازت کی ضرورت بھی نہ رہی۔

کوئی چپ چاپ کھڑا رہا تو ذرا دیر بعد سر اٹھا کر دیکھتے اور طنزیہ لہجے میں فرماتے ۔ ہاں میاں رئیس زادے ہو، بورے پر بیٹھنا کسر شان خیال کرتے ہو۔ غرض کہ عجب تیکھا مزاج پایا تھا۔

اس لیے دنیا کے غم و آلام کو سچ مچ خیال کرتے تھے۔

آتش کے ہاں بے باکی اور بے خوفی

بے باکی اور بے خوفی مزاج میں داخل تھی۔ و ہی شاعری میں بھی نظر آتی ہے ۔ زندگی کے سلسلے میں پر امید رویہ ان کی شاعری کا وصف خاص ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

ہوائے درد مے خوش گوار راہ میں ہے

خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے

مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے

خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے

ان کے مزاج کا یہ تھیکھا پن انہیں محبوب کے آگے رونے اور گڑ گڑانے سے روکتا ہے ۔ ان کی بے باکی کا حال تو یہ ہے کہ :

وہ نہیں ہوں کہ دکھائی سے میں ٹل جاؤں گا

آج جاتا تھا تو ضد سے تری کل جاؤں گا

آتش وصال کا شاعر

آتش ہجر کے نہیں وصال کے شاعر ہیں۔ دیکھیے:

ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید

ہوتے ہیں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کر

آتش کی غزل گوئی میں خوداری

آتش ایک خودار شاعر ہے۔ان کی قناعت و خود داری کا یہ عالم ہے۔

مقسوم کا جو ہے سو وہ پہنچے گا آپ سے

پھیلائے نہ ہاتھ نہ دامن پساریے

خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی میں تہداری

آتش نے اپنے شعر کی بندش الفاظ کو نگینے جڑنے سے تشبیہ دی تو بعض ناقدوں نے یہ نتیجہ نکال لیا کران کے نزدیک مینا کاری ہی شعر میں سب کچھ ہے۔

بے شک وہ مرصع سازی کو شعر کی بہت بڑی خوبی خیال کرتے ہیں لیکن انھیں اپنے اشعار کے روشن اور تہ دارہ معانی پر بھی ہمیشہ فخر رہا۔ فرماتے ہیں۔

اپنے ہر شعر میں ہے معنی تی دار آتش

وہ سجھتے ہیں جو کچھ فہم و ذکا رکھتے ہیں

مکیں ہر معنی روشن ، مکان ہر بیت موزوں ہے

غزل کہتے نہیں ہم چند گھر آباد کرتے ہیں

دیوان آتش کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو تجربات ان کے اشعار میں پیش ہوئے ہیں وہ نہایت اہم اور با وقعت ہیں۔ یہ رند مشرب اور قلندر وضع شاعر زندگی کی حقیقتوں پر گہری نظر رکھتا تھا اور نوع انسان کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کرتا تھا۔

اس لیے دیوان آتش زریں اور بیش قیمت تجربات سے معمور ہے۔ مثال کے طور پر چند شعر یہاں پیش کیے جاتے ہیں

نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں

لگا کے آگ مجھے کا رواں روانہ ہوا

نازک دلوں کو شرط ہے آتش خیال یار

شیشہ خدا جو دے تو پری کو اتاریے

ان مثالوں سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آتش کی توجہ صرف معانی پر نہیں رہتی بلکہ اندازہ بیان کو بھی وہ زیادہ سے زیادہ دلکش و پراثر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی میں پیکر تراشی

مصوری یا پیکر تراشی ان فنی تدابیر میں سے ایک ہے جن سے شعر کے حسن میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ آتش کا ایک شعر ہے۔

یہ شاعر ہیں الہی یا مصور پیشہ ہیں

کوئی نئے نقشے ، نرالی صورتیں ایجاد کرتے ہیں

پیکر تراشی میں شاعر استعارہ و تشبیہ سے بطور خاص کام لیتا ہے۔ ایک شعر اوپر گزر چکا ہے جس میں شاعر نے اپنے دل کو شیشے سے زیادہ نازک اور مزارج محبوب کو اپنے دل سے بھی زیادہ نازک کہہ کر تشہیر در تشہیر کی ایک چھوٹیمثال پیش کی ہے. دیکھیے استعارہ و تشبیہ کی چند مثالیں:

یہ آرزو تھی تھے گل کے روبرو کرتے

ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے

ترتیب میں آتش بہت احتیاط اور توجہ سے کام لیتے ہیں۔

لمبی لمبی ردیفوں کا استعمال

لکھنو کے رواج کے مطابق انھوں نے لمبی لمبی ردیفیں بھی اختیار کیں مگر ایسی سلیقہ مندی سے کہ داد دینی پڑتی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے –

عشق کے سودے سے پہلے درد سر کوئی نہ تھا

نکلتی کسی طرح ہے جان مظتر دیکھتے جاؤ

ان کے علاوہ : نہ ہوا تھا سو ہوا ، جو آگے تھی سواب بھی ہے، ہے کہ جو تھا”۔ ان غزلوں کے مقامی سے پتا چلتا ہے کہ لمبی سے لمبی ردیفوں کو سلیقے سے نبھا دینے کا ہنر آتش کو خوب آتا ہے۔

خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی کا مجموعی جائزہ

آتش ایک بلند پایہ شاعرتھے۔ ان کی فکر بھی اعلا درجے کی ہے اور فن کے تقاضے بھی ان کی نظر میں رہتے ہیں ۔ اس لیے ان کا کلام ہمیشہ قدر و منزلت کی نظرسے دیکھا گیا اور ہمیشہ دیکھا جائے گا۔ ان کا کلام اور بھی بلند رتبہ ہوتا اگر وہ اس عہد کے تقاضوں اور لکھنو کے ماحول سے مجبور نہ ہوتے ۔

ان کا مقابلہ ناسخ سے تھا جن کے نزدیک شاعری ایک مقدس فن کا نہیں بلکہ پنتیرے بازی کا نام تھا۔ ناسخ کے کلام میں تصنع کا رنگ غالب ہے۔ یہ معمولی ردیف اور لفظوں کے الٹ پھیر سے وہ قاری کو مرعوب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔آتش اور ناسخ دونو کا شمار دبستان لکھنو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔اس دبستان کی خوبیاں تلاش کرنی ہوں تو آتش کا دیوان کھول لیجیے اور اگر خامیاں تلاش کرنے ہوں تو دیوان ناسخ کی ورق گردانی کیجیے ۔

معاون کتب: اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ، ڈاکٹر سنبل نگار

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں