آب گم کا تنقیدی جائزہ
تقریبا سات آٹھ سال پیش تر لندن کے کرومویل ہسپتال میں محبیی و مشفقی منظور الہی صاحب کی عیادت کے طفیل مشتاق احمد یوسفی صاحب سے تھوڑی دیر کے لیے ملاقات ہوئی۔ نہ جانے کس طرح کرشن چندر کی کتاب گدھے کی سرگذشت پر بات ہونے لگی ۔
تفصیلات تو مجھے اب یاد نہیں رہیں لیکن اس قدر اب بھی یاد ہے کہ موصوف اس کتاب کے نام ہی سے بہ قول ایرانیوں کے خاصے ” ناراحت نظر آتے تھے۔ میں نے سب معلوم کرنا چاہا تو فرمایا یہ عنوان ہی بہت ڈھیلا ہے۔ اس میں دو الفاظ غیر ضروری ہیں ۔
یہی بات صرف دو الفاظ میں یعنی "خر گذشت” کہہ کر بہتر اور زیادہ موثر انداز میں کہی جاسکتی تھی۔ اس وقت تک میں ان کی پچھلی کتابیں پڑھ چکا تھا اور میرے ذہن پر ان کی طباعی اور ذہانت کے نقوش بہت گہرے تھے۔ یہ جملہ سن کر تو ان کی حاضر دماغی اور فن کاری کی مہر ثبت ہوگئی ۔ ان کی تیسری کتاب زرگذشت کا عنوان بھی سمجھ میں آگیا اور ساتھ ہی ان کے ربیت ہوگی۔اورساتھ ہی ان کے فن کے سارے راز مجھ پر کھل گئے ۔ مشہور عالم کا قول soul of humour heBrevity is t کے معنی بھی پہلی بار مشتاق یوسفی کا مندرجہ بالا جملہ سن کر یہی سمجھ میں آئے۔
اب ایک بینکر کی سوانح کے لیے زرگذشت جیسا عنوان مشتاق یوسفی جیسا فن کار ہی تراش سکتا ہے کسی دوسرے تخلیق کار کے لیے چنداں آسان نہیں۔ آب کم مشتاق یوسفی کی چوتھی کتاب ہے اور اس وقت تک آخری بھی۔ چار سو چار صفحے پرمشتمل یہ کتاب مکتبہ دانیال سے نوری نستعلیق میں قیمتی کاغذ پر چھپی ہے اور ہر اعتبارسے دیدہ زیب ہے۔
پیش گفتار کو چھوڑ کر اس میں پانچ مضامین ہیں جو بہ ظاہر ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور اس طرح یہ پوری کتاب جوصوری طور پر چند مضامین کا مجموعہ ہے۔ معنوی طور پر ایک ڈھیلا ڈھالا ناول نظر آتا ہے۔ ایسا ناول کہ جس میں زندگی کو کسی تکنیکی شعبدہ بازی کے بغیر من و عن اس کے اصلی رنگ میں چند خاص کرداروں کے ذریعے پیش کر دیا گیا ہے ۔
ان خاص کرداروں کے ساتھ ساتھ چند ضمنی کردار بھی وقتاً فوقتاً آتے رہے ہیں اور یہ سارے کردار مل کر اس طویل داستان کی رنگارنگی ، اس کی بو قلمونی ، اس کا زیر و بم اس کا کیف و کم ، ، اس کا رنگ و آہنگ ، اس کا ماحول ، اس کی فضا ، اس کی رفتار اور اس کا لہجہ متعین کرتے ہیں ۔
یہ براعظم پاک و ہند کے وسیع کینوس پر ایک ایسی پینٹنگ ہے جس میں مشرق کے سر انداختہ تفکر کا رنگ بھی ہے اور مغرب کے گردن کشیدہ تعقل کا بھی ۔ اس میں خستہ و بوسیدہ اقدار کی پیلا ہٹ بھی ہے اور صدیوں کی روایت کی کہنگی بھی۔ شوخ و شنگ آرزوؤں کا شنگرف بھی یہاں نظر آتا ہے اور شکستہ خوابوں کا غبار بھی۔ اس میں نارسائی اور کم ہمتی کی حاشیہ کاری بھی ہے اور خواب نیم روز کی چمن آرائی بھی۔ ہر نقش اس عظیم پینٹنگ کا بذات خود ایک مکمل Miniature Paingint ہے اور اپنی جگہ مکمل۔
یہ ایک عظیم سمفنی ہے جس کا ہر آہنگ اپنی جگہ منفرد ہوتے ہوئے بھی مجموعی تاثر کی طرف گامزن ہے اور وہ مجموعی تاثر ایسے لو لحہ گہرے ہوتے دکھ کا ہے: کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی عرف عام میں مشتاق یوسفی ایک مزاح نگار ہیں اور سولہ آنے یہ کتاب بھی مزاح کا ایک نادر نمونہ ہی ہے لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اس مزاح
کی تخلیق میں کسی قدر خون جگر درکار ہوتا ہے۔ کسی جگہ مشتاق یوسفی نے خود بھی اس موضوع پر کہا ہے عمل مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ جل کر راکھ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں ہیرا بن جاتا ہے۔ یوں تو یہ چند جملے صاحب کتاب کی ایک رائے سے زیادہ نہیں اور ہرگز راجمع بذات بھی نہیں لیکن کتاب زیر نظر کو اگر سامنے رکھا جائے
تو ایسا لگتا ہے کہ مشتاق یوسفی نے مندرجہ بالا رائے کو عملاً سچ کر دکھایا ہے۔ اس مزاح کے سبب کہ جو آب گم میں پیش کیا گیا ہے یہ کتاب بھی ایک ایسا نایاب ہیرا بن گئی ہے جو مشتاق یوسفی جیسے فرمانروائے ادب کے تاج ہی کو زیب دیتا ہے۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ ظرافت بغیر ظرف کے ممکن نہیں اور ایک بلند نظریہ حیات کے لیے دل بھی اس کے شایان شانہی چاہیے۔ آب گم کو پڑھتے ہوئے
( خاص طور پر ان مقامات پر جہاں صاحب کتاب نے اندوہناک تصویریں بنائی ہیں ) اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ مصنف نے انتہائی اذیت ناک حالات میں بھی پلک نہیں جھپکی ۔ تا نشکند رنگ تما شارا۔ ظاہر ہے کہ اگر ڈاکٹر مریض کے درد کو برداشت نہیں کر سکتا تو وہ علاج کسی طرح کرے گا۔ اس مثال کے مصداق اگر اس تخلیق کار کا ظرف بھی بڑا نہ ہوتا تو اس کی بنائی ہوئی تصویروں میں وہ رنگ بھی نہ ہوتے۔
آب گم میں ہم انتہائی صبر آزما اور اعصاب شکن مواقع پر بھی مصنف کو کلیہ نارمل محسوس کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ حسب معمول ان کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ اپنی خاص آرائے نظر کے مم لیے الفاظ کی رنگین وسحر انگیز تصویریں بنارہے ہیں۔اس کتاب کا پیش لفظ بھی جس کو مصنف اپنی پس و پیش لفظ کہتا ہے خاصے کی چیز ہے۔ یہ عنوان جہاں کسی صاحب مطالعہ دانش ور کے ابتدائے کلام کی گومگو کا اظہار کرتا ہے وہیں اپنے متن میں صاحب تصنیف کے فنی نظریے کا اعلان بھی ۔
کوئی لکھنے والا اپنے لوگوں، ملکی ماحول و مسائل ، لوک روایت اور کلچر سے کٹ کر کبھی کوئی زندہ اور تجربے کی کٹھالی سے نکلا ہوا فن پارہ تخلیق نہیں کر سکتا۔ سو آب گم ایک ایسا ہی زندہ و تا بند فن پارہ ہے جس میں مشاہدہ مطالعہ تفکر، ملکی ماحول و مسائل ، لوک روایت، دردمندی و دل سوزی ہر چیز شامل ہے۔
اس کتاب کی تمثیل اس ریشمی دور کی ہے جس میں سرتا سر مختلف رنگ کے تار ہوں ۔ ہر تار ایک دوسرے سے پیوست ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے رواں ہے۔ کہیں حس مزاح کی سانس نہیں اکھڑتا۔ پھر پھلجھڑیاں بھی ہیں اور آنسو بھی ، گدگدیاں بھی اور آہیں بھی، پہلے نہیں ملا۔آب گم“ ادراک و اظهار و افکار و بیان کا ایک نگارخانہ ہے۔ ہر دوسرے تیسرے صفحے پر اردو نثر کے وہ نادر نمونے نظر آتے ہیں کہ جو اپنے سیاق و سباق سے باہر بھی دنیا کے ایوان ادب کے لیے باعث زینت ہیں۔ مثلاً :
(1 )لیکن ہر رنج رفتنی ہے اور ہر عیش گذشتنی ۔ جیسے اور دن گزرتے ہیں یہ دن بھی گزر گئے ۔ قدرت نے بہ قول لا روش فو کو کچھ ایسی حکمت رکھی ہے کہ انسان موت اور سورج کو زیادہ دیر مٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا ۔ رفتہ رفتہ صدمہ کی جگہ رنج اور رنج کی جگہ اداس تنہائی نے لے لی ۔ میں جب میامی سے کراچی پہنچا تو وہ اسی دور سے گزر رہے تھے ، بے حد اداس ، بے حد تہنا ، بہ ظاہر وہ اتنے تنہا نہیں تھے جتنے محسوس کرتے تھے۔ مگر آدمی اتنا ہی تنہا ہوتا ہے جتنا محسوس کرتا ہے۔
تنہائی آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے آئینے کو مقابل پاتا ہے۔ اسی لیے وہ تنہائی یعنی اپنے صحبت سے گریز کرتا اور ڈرتا ہے۔ تنہا آدمی کی سوچ اس کی انگلی پکڑ کے کشاں کشاں ہر چھوڑی ہوئی شاہراہ ، ایک ایک پگڈنڈی ، گلی کوچے اور چوراہے پر لے جاتی ہے۔ جہاں جہاں راستے بدلے تھے اب وہاں کھڑے ہو کر انسان پر منکشف ہوتا ہے کہ در حقیقت راستے نہیں بدلتے ، انسان خود بدل جاتا ہے۔ سڑک کہیں نہیں جاتی وہ تو وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ راہ کبھی گم نہیں ہوتی ۔ راہ چلنے والے گم ہو جاتے ہیں ۔“
"پیری میں پرانی ضرب المثل کے مطابق صد عیب ہوں یا نہ ہوں ایک عیب ضرور ہے جو سو عیبوں پر بھاری ہے اور وہ ہے ناسٹلجیا۔ بڑھاپے میں آدمی آگے یعنی اپنی منزل نا مقصود و ناگزیر کی جانب بڑھنے کے بجائے الٹے پیروں ادھر جاتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پیری میں ماضی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے ۔ بوڑھا اور تنہا آدمی ایک ایسے کھنڈر میں رہتا ہے جہاں بھری دو پہر میں چراغاں ہوتا ہے اور جب روشنیاں بجھا کر سونے کا وقت آتا ہے تو یادوں کے فانوس جگمگ جگمگ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ جیسے جیسے ان کی روشنی تیز ہوتی ہے کھنڈر کی دراڑیں ، جالے اور ڈھنڈار پن اتنے ہی زیادہ اجاگر ہوتے جاتے ہیں ۔ سوان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔“
(۲) "تو صاحب اڈوانی صاحب سے گفتگو رہی ۔ گفتگو کیا مونولوگ کہیے ۔ اس نے تصدیق چاہی کہ جیک آباداب بھی ویساہی حسین ہے یا نہیں جیسا وہ جوانی میں چھوڑ کر آیا تھا۔ یعنی کیا اب بھی چودھویں کو پورا چاند ہوتا ہے کیا اب بھی دریائے سندھ میں لش لش کرتی پلا مچھلیاں دور سے للچاتی ہیں۔ موسم ویسا ہی حسین ہے؟
یعنی ۱۵ ڈگری گرمی پڑتی ہے یا اس پر بھی زوال آ گیا اور کیا اب بھی خیر پور سے آنے والی ہوائیں لو سے پکتی ہوئی کھجوروں کی مہکار سے بوجھل ہوتی ہیں بستی میں سالانہ دربار اور میلہ مویشیاں لگتی ہے کہ نہیں۔ میں نے جب اسے بتایا کہ میلہ مویشیاں م میں اب مشاعرہ بھی ہوتا ہے اور دور سے شاعر بلائے جاتے ہیں تو وہ دیر تک میلے کی بے توقیری پر افسوس کرتا رہا اور پوچھنے لگا کیا اب سندھ میں اچھے مویشی اتنے کم ہو گئے ہیں۔
اسے گنگا جمنی میدان ذرا نہیں بھاتا۔ کہنے لگا سائیں ہم سیدھے کھردرے ریگ مال ریگستانی لوگ ہیں۔ اپنے رشتے پیار اور سمبندھ پر کائی نہیں لگنے دیتے ۔ آپ صفا سپاٹ آگرو اور دلدلی میدانوں کے رہنے والے آپ کیا جانیں کہ ریگستان میں گرم ہوا ریت پر کسی چلبلی لہریں کیسے کیسے چتر بنا بنا کے مٹاتی اور مٹا مٹا کے بناتی ہے۔ سائیں ہمارا سارا لینڈ سکیپ شہ زور آندھیاں تراشتی ہیں ۔ جھولو، جھکڑ اور جیٹھ کے مینار بگولے سارے ریگستان کو متھ کر رکھ دیتے ہیں ۔ آج جو ریگ وادی ہے وہاں سے کل لال آندھی کی دھوم سواری گزری تھی ۔ جلتی دوپہر میں بھوبل دھول برساتی ریت پہاڑیاں پچھلے پہر کی سرداتی مخمل بالو یہ دھیمی دھیمی پون پکھاوج ،
جوان بلوان بازؤں کی مچھلیوں سمان ریت کی ابھرتی پھڑکتی لہریں ایک لہر دوسری جیسی نہیں ۔ ایک ڈب ٹیلا دوسرے ٹیلے سے اور ایک رات دوسری رات سے نہیں ملتی ۔ برسات کی راتوں میں جب تھوتھے بادل سندھ کے ریگ ساگر کے اوپر سے آنکھ مچولی کھیلتے گزرتے ہیں تو اداس چاندنی ہر آن عجب طلسمات دکھاتی ہے۔ جس کو سارا ریگستان ایک سمان لگتا ہے اس کی آنکھ نے ابھی دیکھنا ہی نہیں سیکھا۔ سائیں ، ہم تمہارے پیروں کی خاک ہم ریت مہا ساگر کی مچھلی ٹھہرے ۔ آدھی رات کو بھی ریت کی تہوں میں انگلی گڑو کر ٹھیک ٹھیک بتادیں گے کہ آج پو چھانڈو کہاں تھا ( یعنی ٹیلے کا وہ حصہ جہاں صبح سویرے سورج کی پہلی کرن پڑی ) ۔
دو پہر کو ہوا کا رخ کیا تھا اور ٹھیک اس سمئے شہر کی گھڑیوں میں کیا بجا ہوگا ۔ دھرتی نے ہمیں پھول پھل ہریالی دینے سے ہاتھ کھینچ لیا تو ہم نے دھنک کے سارے چنچل رنگوں کی پچکاری اپنی اجرکوں ، رلیوں، اوڑھنیوں ، شلوکوں، چولیوں اور آرائشی ٹائلوں پر چھوڑ دی۔“
3۔”بشیر چپراسی سے ملنے گیا ۔ بالکل بوڑھا پھونس ہو گیا ہے ۔ مگر کمر بندوق کی نال کی طرح سیدھی۔ ذرا جوش میں آ جائے تو آواز میں وہی کڑکا۔ کہنے لگا میاں بے غیرت ہوں ۔ اب تو اس لیے زندہ ہوں کہ اپنے چھوٹوں کو اپنی گود کے کھلائے ہوؤں کو کندھا دوں ۔ ہمارا بھی ایک زمانہ تھا۔ اب تو پسینہ اور خواب آنے بھی بند ہو گئے ۔ چھٹے چھما ہے کبھی خواب میں خود کو گھنٹہ بجاتے دیکھ لیتا ہوں تو طبیعت دن بھر چونچال رہتی ہے ۔
اللہ کا شکر ہے ابھی ہاتھ پیر چلتے ہیں۔ ماسٹر سمیع الحق مجھ سے عمر میں پورے بارہ برس چھوٹے ہیں۔ تیس پر یہ حال کہ حافظہ بالکل خراب ، ہاضمہ اس سے زیادہ خراب ، لوٹا ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں اور یہ یاد نہیں آرہا کہ بیت الخلا جا رہے ہیں یا ہو کر آ رہے ہیں۔ اگر آ رہے ہیں تو پیٹ میں گڑ گڑاہٹ کیوں ہو رہی ہے اور جارہے ہیں تو لوٹا خالی کیوں ہے۔
پھر کہنے لگے یہ بھی مولیٰ کا کرم ہے کہ صحیح وقت پر ریٹائر ہو گیا نہیں تو کیسی خواری ہوتی ۔ اللہ کا شکر ہے چاق و چوبند ہوں بڑھاپے میں بیماری عذاب ہے۔ پر ضرورت سے زیادہ تندرستی اس سے بھی بڑا عذاب ہے۔ فالتو تندرستی کو آدمی کائے پہ خرچ کرے ۔ میاں ہٹا کٹا بڑھا گھر کا نہ گھاٹ کا اسے تو گھاٹ کی ہیرا پھیری میں ہی مزہ آ وے ہے ۔ چنانچہ پچھلے سال ٹہلتا ہوا اسکول جانکا ۔ دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا ۔
چپراسی صاحبان بغیر چپراس ، بغیر اچکن، بغیر پگڑی ٹوپی کے کدکڑے مارتے پھر رہے تھے ۔ میاں میں تو آج تک بغیر ٹوپی کے بیت الخلا بھی نہیں گیا اور نہ کبھی بغیر لنگوٹ کے نہایا۔ آج کل کے چپراسی تو شکل صورت سے چڑی مار لگتے ہیں ۔ ہمارے زمانے کے رکھ رکھاؤ ادب آداب کچھ اور تھے۔ شرفاؤں کی زبان پر تو اور تیری نہیں آتا تھا۔ گالی بھی دیتے تھے تو آپ اور آپ کی کہتے تھے۔
یہاں آپ کے دادا بڑے جلالی آدمی تھے پر بڑی شرافت سے گالی دیتے تھے۔ حسب مراتب بھوندو ، بھٹیارا ، بھڑ بھونجا، بھانڈ کوئی بہت ہی بے غیرت ہوا تو بھاڑو بھڑوا کہہ دیا۔ ایک دن اردو ٹیچر کہنے لگا کہ وہ بڑے بھاری عالم ہیں گالی بھی نہیں بکتے ”بھ” کی گردان کرتے ہیں۔ میاں میں جاہل آدمی ٹھہرا۔ گردان کا ۔مطلب اس دن سمجھ میں آیا۔ کمال استاد تھے۔ ان کی بات دل میں ایسے اترتی تھی جیسے باؤلی میں سیڑھیاں ۔” اس مجموعے کے بیشتر کردار ماضی پرست، ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں ۔
ان کا اصل مرض ناسٹل جیا ہے۔ جب انسان کو ماضی حال سے زیادہ پر کشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی تو میں بھی اپنے او پر ماضی کو مسلط کر لیتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ایشیائی ڈرامے کا اصل دلن ماضی ہے، ماضی تمنائی ۔ اس پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح انا کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں اپنا جنگل بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا رہ جاتا ہے۔ ناسٹل جی اس ہی لمحہ منجمد کی داستان ہے ۔“مندرجہ بالا آخری پراگراف تو ایسا ہے کہ اس کے لفظ لفظ سے افلاطون کی فراست و فہم ٹپک رہی ہے۔
جی چاہتا ہے کہ تھرڈ ورلڈ میں عموماً اور ایشیا میں خصوصاً ہر ادب، فلسفے اور تاریخ کی کتاب کے سرورق پر یہ پیرا گراف اس وقت تک لکھا جاتا رہے جب تک کہ ان کا رخ مغرب کی طرف نہ مڑ جائے۔ بات مزاح کی ہو تو بالآ خر معنی آفرینی لازمی درمیان آتی ہے کہ یہی تو اس کا روبار کا سارا سرمایہ اور یہی اس بیو پاری کی ساری راس ہے۔ میں دوسرے مزاح نگاروں سے قطع نظر کر کے اپنی بات صرف مشتاق یوسفی اور آب گم تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ سو اس کتاب میں مزاح خوبصورت وضع کردہ تراکیب، پھڑ کا دینے والی تحریفات ،
بے مثال جملوں اور ان سب پر عادی ایک فلسفیانہ و مفکرانہ انداز بیان سے بے ساختہ پھوٹتا نظر آتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ لفظ معنی آفرینی به ذات خود اس پر مغز و معنی تخلیق کے منافی معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ معانی اس تحریر میں کسی شعوری کوشش کے بغیر بے ساختہ پھوٹتے ہیں۔ مشتاق یوسفی کے اوزار مزاح میں مندرجہ بالا چیزوں کے علاوہ ان کی لفظیات کا بھی خاصا دخل ہے کہ وہ اُردو ہی کے نہیں علاقائی زبان کے الفاظ کے بھی رمز شناس و محرم خاص ہیں ۔
ان کا انگریزی زبان وادب کا مطالعہ، زندگی کا مشاہدہ، جزینہ طبیعت کے ساتھ ساتھ شاعرانہ تخیل یہ سارے وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے یہ نثر مرتب ہوئی ہے۔ بے جا ہو گا اگر یہاں ان کی کامل پسندی وقعت نظر کا ذکر نہ ہو کہ اس کی بغیر یہ مینا کاری ناممکن ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں یہاں ان کی چند بے ساختہ تحریفات و بے مثال اقوال کی مثالیں بھی دیتا چلوں ورنہ یہ تحریر تشنہ رہ جائے گی۔
تحریفات:
مرده از غیب برون آمد و کارے بکند. مرگ کمہوں جشن دارد بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط دوم ۔ ایک لقمہ ترکی صورت ۔ عالم تمام حلقہ دام عیال ہے۔ غر با کشتن به روز اول ۔ ۔
اقوال زریں
عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں صرف مرد کا نابینا ہونا کافی ہے۔ مرد کے رونے سے زیادہ ذلیل چیز دنیا میں نہیں۔
بھرے پیٹ عبادت اور خالی پیٹ عیاشی نہیں ہو سکتی ۔ لفظوں کی جنگ میں فتح کسی فریق کی بھی ہو شہید صرف سچائی ہوتی ہے۔ جب آدمی کو یہ نہ معلوم ہو کہ اس کی نال کہاں گڑی ہے اور پرکھوں کی ہڈیاں کہاں دفن ہیں تو وہ منی پلانٹ کی طرح ہو جاتا ہے جو مٹی کے بغیر صرف بوتلوں میں پھلتا پھولتا ہے۔ ان مثالوں کے ساتھ ساتھ جی چاہتا ہے کہ میں اس کتاب کی چند تشبیہات بھی آپ کو سناتا چلوں کہ
آپ کو اندازہ ہو سکے کہ یہ نثر اپنے بطون میں کیا کیا خزانے رکھتی ہے۔ اس کو جیسے کے عنوان کے تحت لکھ رہا ہوں کہ ہمیشہ مشابہت کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: اک ڈرا گھنڈی کو جھوٹوں ہاتھ لگا دو تو بیوہ آپی آپ مصاحبوں کی باجھوں کی طرح کھلتا چلا جاتا ہے۔ کراچی میں ادھار پر بزنس کرنا ایسا ہی ہے جیسے گنے کے کھیت میں کبڈی کھیلنا۔ ان کی بات دل میں ایسے اترتی تھی جیسے باؤلی میں سیڑھیاں ۔
آزاد شاعری کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر نٹ کے ٹینس کھیلنا۔ دوران تقریر کسی کو جوش آجاتا تو وہ مچھر دانی کا پردہ اس طرح ہٹاتا جیسے نکاح کے بعد دولہا سہر الٹتا ہے۔ اتنا کہہ چکنے کے بعد یک دم خیال آیا کہ فٹ نوٹس کی بات رہی جا رہی ہے۔ سو اس سلسلے میں بھی عرض ہے کہ وہ بھینوادرات میں سے ہیں۔
تو پھر اب غور کیجیے کیا مشتاق یوسفی صرف ایک مزاح نگار ہیں، مجھے تو وہ اس سے بلند تر کوئی چیز نظر آتے ہیں۔ ایک مفکر، ایک فلسفی ، لہذا اپنے سارے اندازوں ، ذہنی تجزیوں ، ادبی معیاروں اور نقد و نظر کے سارے معروضی و موضوعی اصولوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ آب گم جیسی اپنی نوع کی کوئی دوسری اردو کی کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گزری۔
اس ہی بنا پر میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مشتاق یوسفی کی یہ چار کتابیں اردو کے سارے مزاحیہ ادب پر بھاری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ عہد مشتاق یوسفی کا عہد ہے اور یہ صدی مشتاق یوسفی کی صدی ہے ۔ آخر میں ان ہی کے ایک جملے میں تصرف کرتے ہوئے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ مارواڑ نے پاکستان کو دو نہیں تین چیزیں دی ہیں اور ان تینوں با میں مشتاق یوسفی ہمارا سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہیں ۔
☆☆☆
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں