موضوعات کی فہرست
افسانہ زرد کتا۔۔۔ فکری و فنی تجزیہ
افسانہ زرد کتا کا خلاصہ
افسانہ زردکتا انتظار حسین کی ایک شاہکار کہانی ہے۔ اس میں عہدہ نامہ عتیق کی زبان سے استفادہ کیا گیا ہے اور بزرگان دین کے ملفوظات اور داستان کی زبان کا نیا تخلیقی استعمال ملتا ہے ۔
اس افسانے میں بنت الاخضر ایک رقاصہ ہے وہ کنیزوں کے جلو میں ابومسلم بغدادی کے دستر خوان پر حاضر ہوتی ہے۔ اس کے پاؤں میں گھنگھرو ہیں ۔ گھنگھروؤں کی جھنکار اور پیروں کی تھاپ سے گھبرا کر ابو مسلم بغدادی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے۔
اس کی آنکھیں مے کی پیالیاں، رانیں ٹھوس اور بھری ہوئیں ۔ پیٹ صندل کی تختی، ناف گول پیالہ ایسی اور لباس باریک کہ ناف پیٹ کولھے اور بازو سب عریاں نظر آئیں۔
ان پر نظر پڑتے ہی ابو مسلم بغدادی کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اس بے جان خیز منظر سے بچنے کی کوشش میں نگاہیں بے اختیار ان کا نظارہ کر رہی ہیں۔
اگر چہ افسانے کے آغاز میں اشارہ موجود ہے کہ لومڑی کے بچے جیسی چیز جو منہ سے نکل آئی اور جسے پاؤں کے نیچے ڈال گرفتار روندا گیا اتناہی بڑی ہوتی گئی۔
یہ لومڑی کا بچہ انسان کا نفس ہے تاہم یہاں نفس سے مراد محض نفس نہیں بلکہ جبلتوں کا وہ سارا کام ہے جو انسان کو مسلسل ایک کشمکش سے دو چار رکھتا ہے اور جب کسی فرد یا معاشرے کا عمل دخل حد اعتدال سے بڑھ جاتا ہے تو فرد یا معاشرہ شدید روحانی اور اخلاقی بحران سے دو چار ہو جاتا ہے۔
انتظار حسین کے اسلوب میں مکالمے کی تکنیک کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی بے حد موثر مثال "زرد کتا” میں ملتی ہے۔ اس افسانے کے اندر مکالموں اور حکایتوں کو بڑے سلیقے سے ایک دوسرے کے ساتھ سمویا گیا ہے۔
اس افسانے کی پوری فضا عہد وسطی کے ملفوظات کی ہے ۔ مرید شیخ سے سوال کرتا ہے اور حضرت شیخ کے ارشادات حکایتوں اور ملفوظات پر بنی ہیں اور یوں تمثیلی پیرائے میں کہانی ظاہر کرتی ہے کہ بدی ایک وبا کی طرح پھیلتی ہے اور فرد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس بدی کا شکار ہو جاتا ہے اگر چہ وہ اس بدی سے بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا ۔
شیخ عثمان کبوتر پرندوں کی طرح اڑا کرتے تھے اور املی کے پیڑ پر بسیرا کرتے تھے فرمایا کرتے تھے:
"ایک چھت کے نیچے دم گھٹ جاتا ہے دوسری چھت برداشت کرنے کے لیے کہاں سے تاب لائیں ۔”
وہ عالم سفلی سے بلند ہو گئے تھے ذکر کرتے کرتے اڑتے۔ کبھی اتنا اونچا اڑتے کہ فضا میں کھو جاتے ۔ سید رضی ابو مسلم بغدادی، شیخ حمزه ابو جعفر شیرازی، حبیب بن یحییٰ ترمذی اور ابو القاسم حضری یعنی راوی شیخ مریدان با صفا تھے اور فقر و قلندری ان سب کا مسلک تھا۔
یہ چھ افراد اپنے مرشد کی تعلیم سے اس حد تک متاثر تھے کہ چھت کے نیچے رہنا شرک سمجتے تھے اور صرف ایک چھت کے نیچے رہتے تھے کہ وہ وحدہ لا شریک نے بنائی ہے۔ سب دنیاوی علائق سے منتفر اور ذکروفکر میں مگن رہتے تھے۔ ایک روز شیخ سے دریافت کیا؟ یا شیخ! قوت پرواز آپ کو ۔۔۔ یہ سن کر عرض پرداز ہوا یا شیخ زرد کتا کیا ہے؟ فرمایا: زرد کتا ترا نفس ہے۔۔۔۔۔فرمایا: دانشمندوں کی بہتات”
اس کے بعد تمثیل کی صورت میں ایک بادشاہ اور وزیر کی حکایت ہے جو اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ گدھوں اور دانش مندوں کی ایک مثال اس طرح ہے کہ جب سب گدھے ہو جائیں وہاں کوئی گدھا نہیں ہوتا ، جہاں سب دانشمند بن جائیں وہاں کوئی دانش مند نہیں رہتا ۔
اس طرح عقل و بینش کی باتیں مکالموں اور حکاتیوں کی صورت میں پوری کہانی میں جاری رہتی ہیں ۔ بالآخر شیخ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ راوی اس کا شدید اثر لیتا ہے اور حجرے میں بند ہو جاتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد جب حجرے سے برآمد ہوتا ہے تو پوری دنیا ہی بدل چکی ہوتی ہے۔
اس طرح عقل و بینش کی باتیں مکالموں اور حکایتوں کی صورت میں پوری کہانی میں جاری رہتی ہیں ۔ بالآخر شیخ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ راوی اس کا شدید اثر لیتا ہے اور حجرے میں بند ہو جاتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد جب حجرے سے برآمد ہوتا ہے تو پوری دنیا ہی بدل چکی ہوتی ہے۔
وہ تمیز نہیں کرسکتا کہ یہ عالم بیداری ہے یا عالم خواب ہے۔ معا ایک محل کھڑا دیکھتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ابو سلم بغدادی کا گھر ہے۔
شیخ حمزہ ایک حویلی میں رہائش رکھتا ہے۔ ابو جعفر شیرازی جو ہری بن چکا ہے۔ گو یا شیخ کی وفات کے بعد تمام مریدان حرس و لالچ کا شکار ہو گئے ہیں اور طمع دنیا اور بدی کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔
البتہ حبیب بن یحییث ترمذی نے ایک عرصہ تک قلندری اپنے رکھی اور ابو ابو مسلم بغدادی کے دستر خواں سے صرف ٹھنڈک پانی کی پیالہ پر اکتفا کرتا رہا۔ پیتمٹ کا اسیر ہوگیا۔ اس مقام پر ایک رقاصہ اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔
بالآخر وہ بھی انگلیاں ٹھونسنے کے باوجود گھنگھروؤں کی جھنکار اس کے حجرے تک پہنچتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دفعتاً لجلجی شے تڑپ کر حلق سے نکلی اور غائب ہوگئی۔ حبیب بن یحییٰ ترمیز نے دیکھا کہ اس کے بوریے پر بھی ایک بڑاسا ” زرد کتا سوار ہے۔ یہی کتا سیدرضی کے قصر کے پاٹج پردکھائی دیاتھا۔
یہی شیخ حمزہ کی حویلی کے سامنے اور ابو حعفر شیرازی کی مسند پر محوخواب تھا۔
چنانچہ چھٹا مرید ابوقاسم حضری جو اس قصے کا راوی ہے بالآخر خود کو ابومسلم بغدادی کے دستر خوان پر پاتا ہے اور اپنے آنے کے تاویلیں یوں کرتا ہے کہ وہ مسلم بغدادی کو شیخ کے ملک کی دعوت دینے آیا ہے، مگر رفتہ رفتہ پر تکلف کھانے کے ایک نوالے اور گھنگھروؤں کی جھنکار کی شیریں کیفیت سے اس کے پوروں میں کن من ہونے لگتی ہے اور اس کے ہاتھ اس کے اختیار سے باہر ہونے لگتے ہیں چنانچہ پھراس کا بوریا بھی زرد کتے کی زد میں آجاتا ہے۔ جتنا اسے مارتا ہے وہ بھاگنے کی بجائے دامن میں آکر گم ہو جاتا ہے۔ بار بار بارگاہ رب العزت میں فریاد کرتا ہے۔
تب سے اب تک ابو قاسم کی اور زرد کتے کی لڑائی چلی آتی ہے اور مہکتے ہوئے مزعفر کا خیال ۔۔۔۔ اور صندل کی تختی اور مول پیالے والی کا تصور انسان کو ستانے لگتا ہے ۔ انسان روزہ دار ہے اور روزہ دن بدن لمبا ہوتا جاتا ہے ۔ انسان لاغر ہو گیا ہے مگر زرد کتا موٹا ہوتا جاتا ہے ۔
زرد کتا بڑا اور آدمی حقیر ہو گیا ۔ زرد کتے اور انسان کی یہ کشمکش زندگی کے سفر میں برابر جاری ہے۔ وہلاکھ پت جھڑ کا ہر ہنہ درخت بن جائے تڑکا ہوتے ہی اسے اپنے پوروں میں میٹھا میٹھارس گھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صندل کی تختی سے چھو گئے ہوں ۔
یہ دہشت بھرا منظر سامنے ہے کہ ” زرد کتا دم اٹھائے اس طور کھڑا ہے کہ اسکی پچھلی ٹانگیں شہر میں ہیں اور اگلے ٹانگیں فرد کے ذہن میں ہیں اور اس کے گیلے گرم نتھنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو چھورہے ہیں اور انسان بے بس و مجبور گڑ گڑ گڑ گڑا کر دعا کرتا ہے: بار الہا! آرام دے، آرام دے۔
افسانہ زردکتا : فنی و فکری تجزیہ
مرکزی کردار اپنے نفس کے ساتھ کشمکش جاری رکھتا ہے اور بالآخر خدا سے پناہ مانگتا ہے۔ زرد کتا انسان کی خارجی صورت ہے جو ذات سے باہر آتا ہے یہ پوری روحانی زندگی کے لیے چیلنج ہے ۔ اسے بھگانے اور نکالنے کی کوشش کیجیے تو دامن میں چھپ کر غائب ہو جاتا ہے۔
اس طرح زرد کتا انسان کے اس روحانی انحطاط کی سرگزشت ہے۔ جو ہوس پرستی اور طمع دنیا سے پیدا ہوتا ہے۔ اس افسانے میں انتظار حسین نے بتایا ہے کہ جب برائی وبا کی طرح ہر طرف پھیل جاتی ہے تب انسان چاہے بھی تو اس کی زد میں بچ نہیں سکتا۔
افسانہ زرد کتا میں افسانے کے فنی مدارج موجود ہیں۔ یعنی ابتداء وسط اور نقطہ عروج اور ان میں ایک ربط توازن و ہم آہنگی ہے مگراس کا کوئی انجام یا اختام نہیں دکھایا گیا۔ دراصل موضوع ہی ختم ہونے والا نہیں البتہ اس کے خلاف ایک کبھی نہ ختم ہونے والا احتجاج بغاوت اور جدو جہد ہے۔
یہ ہوس دیہاتی ، شہری، امیر غریب غرض ہر شخص کے وجود میں رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی مانند رچ بس گئی ہے جس کے لیے زرد کتے کا استعارہ بہت موزوں نظر آتا ہے۔
یہ ہوس اگر ختم نہ ہوئی تو اس کا انجام لا موجود کی صورت میں ظاہر ہوگا کیونکہ جب بھی آدمی اور زرد کتے کا آپس میں تصادم ہوتا ہے تو جیت زرد کتے ہی کی ہوتی ہے جو انسان کے روحانی انحطاط کا سب بنتا ہے۔
افسانہ زرد کتا 1962ء میں لکھا گیا اس کا سیاسی، تہذیبی اور ادبی پس منظر ہے ۔ سیاسی پس منظر یہ ہے کہ 1962ء میں ایوب خانی آمریت تھی اور اسی آمریت کے زیر سایہ رائٹرز گلڈ وجود میں آیا اور تیسری بات یہ کہ بیشتر ادیب نفس پرست ہو گئے ۔ گویا یہ افسانہ فرد کے اخلاقی اور روحانی زوال کی کہانی ہے۔
پروفیسر ارتضی کریم افسانہ زرد کتا کی کہانی کو روحانی انحطاط یا اخلاقی اخلاقی زوال کی کی بجائے جائے اسے فرد کی پستی کہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
بعض مفسرین اسے روحانی انحطاط کا نام دیتے ہیں۔ بعض اخلاقی زوال کہتے ہیں لیکن سچی اور سیدھی بات یہ ہے کہ انتظار حسین فرد کی پستی اور اس دنیا کی دگرگوں حالت پر نہایت خوبصورتی اور فنکاری کے ساتھ تبصرہ کرتے ہیں۔
اس افسانے میں صوفیاء کے ملفوظات کا اسلوب اپنایا گیا ہے۔ جگہ جگہ حکایات کے درمیان تعلیمات شیخ مختلف مسائل کی صورت میں نظر آتی ہیں اور پھر جابجا ان مسائل کی تفاسیر میں محض یہی نہیں افسانے کو غور سے پڑھیں تو اس کے تانے بانے میں کچھ سوت داستانوں کے بیانیہ اسلوب کے بھی نظر آئیں گے۔
گو یا انتظار حسین نے زبان اور اسلوب کا ایک نیا تخلیقی ذائقہ روشناس کرایا ہے۔ زرد کتا کا مرکزی کردار شیخ عثمان، کبوتر حرص اور خوف کی نفی کی علامت ہے۔ اس کی پرواز حرص اور خوف سے پاک باطن کی وجدانی و تخیلاتی بلندی کی علامت ہے۔
وہ زندگی اور موت دونوں پر قدرت رکھتا ہے جب تک چاہا زندہ رہا اور جب چاہا سر اینٹ پر رکھ کر چادر تان لی اور سو گیا۔ اس تمثیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حرص سے خوف مرگ پیدا ہوتا ہے اور اس خوف سے زندگی کی آلائشوں میں پھنس جاتا ہے۔
مصنف نے معاشرتی زوال کا سبب کس خوبصورتی سے بیان کر دیا۔
ابو قاسم حضری جب اپنے دیگر پیر بھائیوں کودنیا کے مال وجاہ میں کمر کمر دھنسے ہوئے دیکھتا ہے تو اسے معاشرتی انحطاط اور زوال کا حساس ہوتا ہے ۔
ایسی صورت میں جب بدی وبا کی طرح پھیل جائےتو اس سے دامن بچانا بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے –
چنانچہ ابوقاسم بصد کوشش اور احتیاط کے باوجود خود بھی حرص ولالچ کی دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔ پھر اسے اپنے حجرے میں بوریے پر زرد کتا سویا ہوا ملا ہے ۔
وہ شیخ کے ملفوظات کو قلب میں دبا بھاگتا ہے مگر زرد کتا اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ دونوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے کبھی ایک غالب اور کبھی مغلوب ہو جاتا ہے۔
انتظار حسین کے نزدیک بدی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسان گویائی ترک کر دیں تو پھر گدھوں کو قوت گویائی مل جائے گی اور انسان سماعت سے محروم ہو جائیں گے، تو درخت اور قبروں میں پڑے مردوں کو سماعت مل جاتی ہے ۔ انسان انسان کے اس مرتبے پر گویائی اور سماعت کی وجہ سے ہی اشرف المخلوقات ہے، اگر کلام کرنے والا اور سامع دونوں ہوس کے اسیر ہو جائیں تو ایک – کلام کی تاثیر سے اور دوسرا سماعت سے محروم ہو جائے گا۔
یہ بات انتظار حسین نے ایک حکایت سے ثابت کی ہے گو یا بزرگان دین کے ملفوظات کے حوالے سے اخلاقی اور روحانی انحطاط کی کہانی زرد کتا ہے۔
انتظار حسین کے افسانوں میں بزرگان دین کے ملفوظات اور داستانوی لب ولہجہ کے استعمال کے بارے میں پروفیسر ارتضی کریم لکھتے ہیں: انتظار حسین کے افسانوی ادب کی پہچان بزرگان دین کے ملفوظات، تلمیحات اور داستانوی لب ولہجہ کے بغیر ممکن ایک نہیں ۔
در اصل انتظار حسین ایک حقیقی فنکار ہے۔ وہ علامتوں کے پورے معیناتی نظام سے نہ صرف واقف ہے بلکہ وہ ان کو سلیقے سے استعمال کرنے کا شعور بھی رکھتا ہے اس لیے اردو افسانوی ادب میں ان کے اسلوب سے زبان کا ایک تخلیقی لہجہ پیدا ہوا ہے۔