مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

وہ معافی جس میں 400 سال لگے


وہ معافی جس میں 400 سال لگے: جب چرچ نے گیلیلیو کو سچ بولنے پر بالآخر معاف کر دیا

تصور کریں کہ آپ کائنات کے بارے میں ایک بنیادی سچائی دریافت کرتے ہیں، ایک ایسا ناقابل تردید ثبوت جو ہمیشہ کے لیے انسانیت کا مقام بدل دے۔ اب تصور کریں کہ اس سچائی کو بیان کرنے پر آپ کو سزا دی جائے، آپ کے دور کے سب سے طاقتور ادارے کی طرف سے آپ کو خاموش کرا دیا جائے، اور اپنی باقی زندگی اپنے ہی گھر میں ایک قیدی کی طرح گزارنے پر مجبور کر دیا جائے۔

یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے۔ یہ گیلیلیو گیلیلی کی سچی داستان ہے، وہ عظیم سائنسدان جسے انصاف ملنے میں تقریباً چار صدیاں لگ گئیں۔ یہ ہمت، تصادم، اور سچائی کی حتمی فتح کی ایک طاقتور کہانی ہے۔

جرم: سچ دریافت کرنا

17 ویں صدی کے اوائل میں، ایک اطالوی ماہر فلکیات اور طبیعیات، گیلیلیو گیلیلی نے ایک انقلابی کام کیا۔ اس نے اپنی نئی بہتر دوربین کو آسمانوں کی طرف موڑا اور وہ چیزیں دیکھیں جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھیں: مشتری کے چاند، زہرہ کے مراحل، اور ہمارے اپنے چاند پر موجود گڑھے۔

اس کے مشاہدات نے نکولس کوپرنیکس کے پیش کردہ ایک متنازعہ نظریے کے لیے پہلا ٹھوس ثبوت فراہم کیا: یعنی زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے۔ اس کے بجائے، ہمارا سیارہ اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔

"اوہ! مجھے ثبوت مل گیا!” اس نے یقیناً سوچا ہوگا۔ سائنس کے لیے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی، لیکن کیتھولک چرچ کے لیے یہ ایک سنگین گناہ اور بدعت تھی۔

فیصلہ: ایک ذہین دماغ کو خاموش کرنا

اس وقت، چرچ کا عقیدہ ارسطو کے زمین مرکزیت کے نظریے (Geocentric Model) سے جڑا ہوا تھا—یہ عقیدہ کہ زمین ساکن ہے اور کائنات کی ہر شے اس کے گرد گھومتی ہے۔ اس نظریے کو مقدس کتابوں کی تائید حاصل سمجھی جاتی تھی۔ لہٰذا، اسے چیلنج کرنا خود خدا کے کلام کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔

چرچ نے گیلیلیو کے نتائج سے اتفاق نہیں کیا۔ "تم نے مقدس متن کو چیلنج کرنے کی ہمت کیسے کی؟ تم غلط ہو!”

چنانچہ، 1633 میں، رومن انکوزیشن نے گیلیلیو پر مقدمہ چلایا اور اسے "بدعت کے شدید شبہ” میں مجرم قرار دیا۔ اسے اپنے نظریات سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا اور بقیہ زندگی کے لیے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔

لمبا انتظار: خاموشی کی چار صدیاں

صدیوں تک، چرچ اپنے فیصلے پر قائم رہا اور گیلیلیو کی سزا برقرار رہی۔ اگرچہ دنیا آگے بڑھتی رہی اور سائنس نے گیلیلیو کے سورج مرکزیت کے نظریے (Heliocentric Model) کو قبول کر لیا، لیکن چرچ کی طرف سے سرکاری طور پر خاموشی چھائی رہی۔ یہ ایک ایسی ناانصافی تھی جو تقریباً 400 سال تک جاری رہی۔

بالآخر سچ کی فتح: پوپ کی معافی

آخر کار، 1992 میں، تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ پوپ جان پال دوم نے عوامی طور پر تسلیم کیا کہ چرچ نے گیلیلیو کے معاملے میں غلطی کی تھی۔ انہوں نے 13 سال تک اس کیس کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد یہ تاریخی اعلان کیا۔

"ہمیں افسوس ہے۔ گیلیلیو صحیح تھا!”

پوپ نے اعتراف کیا کہ اس وقت کے ماہرینِ فلکیات سائنس اور عقیدے کے دائرہ کار کے درمیان فرق کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے، جس کی وجہ سے گیلیلیو کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ معافی سائنس اور مذہب کے درمیان مفاہمت کی طرف ایک تاریخی قدم تھا۔

نتیجہ: سچ کی طاقت جسے روکا نہیں جا سکتا

گیلیلیو کی کہانی ہمیں ایک لازوال سبق سکھاتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، خاص طور پر جب آپ انصاف یا سچائی کے منتظر ہوں۔

سچ ہمیشہ سامنے آتا ہے، چاہے اس میں 400 سال ہی کیوں نہ لگ جائیں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں