موضوعات کی فہرست
اونر کلچر کیا ہے؟ وہ ذہنی غلامی جس نے جنوبی ایشیا کو تباہ کر دیا
اگر آپ جنوبی ایشیا، یعنی ہندوستان یا پاکستان میں پلے بڑھے ہیں، تو آپ نے بچپن سے ایک جملہ ضرور سنا ہوگا: "خاندان کی عزت”، "خاندانی عزت” لیکن اس عزت کے پیچھے چھپی ذہنیت کیا ہے؟
اسے "اونر کلچر” (Honor Culture) کہتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جہاں ایک فرد کی آزادی، اس کے حقوق، اس کی خواہشات، اور اس کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں؛ سب سے پہلے آتی ہے خاندان، قبیلے یا ٹرائب کی جھوٹی عزت۔
آپ خود اپنے آپ کو ہی دیکھ لے، ہزاروں دفعہ بعض ایسے اچھے کام ہوتے ہیں جو ہم کرنا تو چاہتے ہیں لیکن اسی خاندانی معیار کی وجہ سے ہم نہیں کر پاتے۔
میں آپ کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، آپ کا ایک چادر ہے جو آپ کو بہت پسند ہے،لیکن اس کا رنگ پرانا ہو چکا ہے اب آپ اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ وہ استعمال نہیں کرسکتے،اگر کرے گے تو صرف گھر کے اندر۔
کیونکہ باہر پہنوں گے تو لوگ کہے گے بندہ غریب ہو چکا ہے۔اور آپ کے اس خاندانی معیار پر ضرب لگے گا۔
مطلب ہم آزاد نہیں ہم غلام ہیں، ہم جو کرنا چاہتے ہیں چاہے وہ دین و دنیا دونوں کی لحاظ ٹھیک کیو نہ ہو ۔ پھر بھی وہ کام ہم تب کر پائے گے جب یہ کام ہمارے خاندنی معیار کی مطابق ہوں پھر چاہے یہ معیار اور عزت جھوٹی ہی کیوں نہ ہو ۔
آپ کا وجود صرف اس لیے ہے کہ خاندان کا نام نہ ڈوبے۔ آپ کی ہر ذاتی پسند، چاہے وہ جیون ساتھی کا انتخاب ہو، کیریئر کا فیصلہ ہو، یا لباس کا انتخاب ہو، خاندان کی عزت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ لیکن اونر کلچر کیا ہے اور اس نے ہمارے معاشرے کو اندر سے کیسے کھوکھلا کر دیا ہے؟ آئیے اس کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہیں۔
اونر کلچر کیا ہے اور یہ انفرادی آزادی کا دشمن کیوں ہے؟
اونر کلچر ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ ہے جہاں فرد کی شناخت اس کے خاندان یا قبیلے سے جڑی ہوتی ہے۔ اس کلچر کے بنیادی اصول یہ ہیں:
- انفرادیت کی نفی: آپ کی ذاتی خواہشات اور حقوق کی کوئی حیثیت نہیں۔
- عزت کا ظاہری تصور: آپ اندر سے جتنے بھی کھوکھلے، جھوٹے یا کرپٹ ہوں، لیکن دنیا کی نظر میں آپ کا امیج "عزت دار” ہونا چاہیے۔اور آپ کی وہ عزت ہے جو خاندان کہ ہے۔
- تشدد کا استعمال: عزت پر "آنچ” آنے کی صورت میں تشدد، حتیٰ کہ قتل کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ جس کی زندہ مثال ابھی بلوچستان میں ہوئی شتیل کی قتل ہے۔
حال ہی میں پنجاب میں ایک ماڈل کو اس کے بھائی نے اس لیے قتل کر دیا کیونکہ اس کی "غیرت” یہ برداشت نہیں کر سکی کہ وہ ماڈلنگ کرے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ کمنٹ سیکشن میں ہزاروں مردوں نے اسے شاباش دی، جو اس کلچر کی خوفناک جڑوں کو ظاہر کرتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل: اونر کلچر کا خونی چہرہ
اونر کلچر کا سب سے گھناؤنا نتیجہ "غیرت کے نام پر قتل” ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں دنیا کی 20 فیصد اونر کلز ہوتی ہیں۔ یہاں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو، خصوصاً خواتین کو، خاندان کی جھوٹی عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
یہاں عزت کا معیار اتنا پست ہے کہ خاندان سے باہر یا نچلی ذات میں شادی کرنے پر بھی موت کی سزا سنا دی جاتی ہے۔
آپ نے کئی بار دیکھا اور سنا ہوگا جہاں پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کو کچہری میں جج کے سامنے ان کے گھر والوں نے قتل کر دیا اور فخر سے گرفتاری پیش کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کلچر میں انسانی زندگی کی قیمت اس غیرت کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
گھر کی آمریت اور جمہوریت کا کھوکھلا خواب
اونر کلچر کی ایک اور تعریف پدرسری (Patriarchal) ہے۔ یہاں عزت دار مرد وہ ہے جس کی عورت اس کے سامنے آواز نہ اٹھائے ، اور جس کے ایک حکم پر پورا خاندان سر جھکا دے۔
جب ہمارے ہر گھر میں ایک ڈکٹیٹر کی شکل میں مارشل لاء نافذ ہے، تو ہم قومی سطح پر جمہوریت کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟ جمہوریت کی بنیاد فرد کی تکریم اور اس کے حقوق پر ہوتی ہے۔ لیکن جس معاشرے میں فرد کو خاندان کی عزت کے لیے قربان کر دیا جاتا ہو، وہاں جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکتی۔
ان سماجی رویوں پر کوئی بات نہیں کرتا جو جمہوریت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
فلسفی نطشے نے کہا تھا: "ایک ہی ریوڑ ہے اور کوئی چرواہا نہیں۔ ہر کوئی ایک جیسا بننا چاہتا ہے، اور جو بھی مختلف محسوس کرتا ہے، وہ خود پاگل خانے چلا جاتا ہے۔” ہمارا اونر کلچر بالکل یہی ریوڑ ہے، جہاں ہر کوئی ایک جیسی غلامی کی زندگی گزار رہا ہے۔
حل کیا ہے؟ اونر کلچر سے وقار کے کلچر (Dignity Culture) تک کا سفر
تو اس ذہنی غلامی سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ حل ہے اونر کلچر کو "ڈیگنیٹی کلچر” (Dignity Culture) میں تبدیل کرنا۔
ڈیگنیٹی کلچر کیا ہوتا ہے؟
ڈیگنیٹی کلچر اونر کلچر کے بالکل برعکس ہے:
- فرد کی اہمیت: یہاں معاشرے سے زیادہ فرد کی تکریم اور اس کے حقوق اہم ہوتے ہیں۔
- اندرونی قدر: آپ کی عزت آپ کے کردار اور عمل سے ہوتی ہے، نہ کہ لوگوں کی رائے سے۔
- آزادی کا احترام: ہر فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے، اور خاندان اس پر اپنی جھوٹی عزت کی تلوار نہیں لٹکا سکتا۔
جن معاشروں نے ڈیگنیٹی کلچر کو اپنایا، جیسے مغربی معاشروں نے نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے بعد، وہیں جمہوریت، سائنس، آرٹ اور معیشت نے ترقی کی۔
جمہوریت کوئی ایسا پودا نہیں جو باہر سے لا کر لگا دیا جائے؛ اس کے لیے سماجی زمین کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ آئین بھی فرد کے حقوق کی بات کرتا ہے، لیکن ہمیں اس کی سمجھ اس لیے نہیں آتی کیونکہ ہمارے لیے فرد سے زیادہ خاندان اہم ہے۔
نتیجہ: غلامی کی زنجیریں توڑ دو
جب تک ہم اس گھٹیا اونر کلچر، جس نے صدیوں سے ہمیں غلام بنایا ہوا ہے اور ہمارے گھروں میں غلام پیدا کیے ہیں،اس سے جان نہیں چھڑاتے، ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ یہ کلچر آزاد سوچنے والے، دانشور، اور آرٹسٹ پیدا نہیں کرتا، بلکہ صرف معاشرتی غلام پیدا کرتا ہے جو دوسروں سے شاباشی لینے کے لیے جیتے ہیں۔
اگر ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے، تو سب سے پہلا فرض ان زنجیروں کو توڑنا ہے۔ کیونکہ ان زنجیروں کے خوف میں رہنے والا کوئی بھی شخص، کوئی بھی قوم، کبھی کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتی۔